عضو کاٹنے کا قانون اور ہمارا نظام

عضو کاٹنے کا قانون تو آجائے گا مگر مجھے آج سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کی ایک بات یاد آرہی ہے۔ ا نھوں نے کہا تھا کہ مجھے مشورہ دیا جاتا ہے کہ جو چوری کرے اسکا ہاتھ کاٹ دیا جائے کیونکہ یہ اسلام کے عین مطابق قانون ہوگا، وہ کہتے ہیں کہ میں مشیروں کے مشورہ پہ قائل بھی ہو گیا مگر جب میں نے قانون لانے کے لئے سوچ بچار کی تو مجھے اس میں سب سے بڑی خامی جو نظر آئی وہ ہمارا نظام تھا۔ اسلام ہاتھ کاٹنے کا حکم ضرور دیتا ہے مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ ریاست عوام کو وہ ماحول مہیا کرے جس کی وجہ سے اسے چوری کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ جب ریاست وہ ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر ایسا قانون لاگو کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ مشرف صاحب کی یہ بات آج سمجھ آرہی ہے۔ کاش وہ نظام بدلنے کے لئے کوئی عملی اقدام کرتے کیونکہ جب ریاست اپنا کام کرنے میں فیل ہو جائے تو لوگوں کے ہاتھ کاٹ دو یا نفس کاٹ دو کچھ بھی نہیں بدلنےوالا۔

آج بھی مشیر اپنے مشورے دے رہے ہیں۔ میرا مشورہ ان مشیروں کو ہے کہ نظام بدلنے کا سوچو۔
اس موقع پر مجھے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ 2009 کی بات ہے میں سعودی عرب عسکری خدمات کے لئے منسٹری آف ڈیفنس ریاض تعینات تھا میں اپنی پہلی شاپنگ کے لئے مارکیٹ جانے لگا تو ایک پاکستانی جوان کو بطور گائیڈ ساتھ لیا۔ اس نے مجھے ایک بات کہی کہ سر مارکیٹ میں ایک بات کا خیال رکھیئے گا کہ رش کی وجہ سے کسی خاتون کے ساتھ کندھا نہ لگے کیونکہ یہاں کا قانون بہت سخت ہے اور یہ حرکت یہاں ناقابل برداشت ہے۔ بعد ازاں وہی پاکستانی جوان مجھے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ پاکستان میں ریپ کیس میں ملوث رہا ہے، تب میں چونکا اور اس سے سوال کیا کہ تم پاکستان ریپ کیس میں ملوث رہے ہو جبکہ تم نے مجھے پہلا مشورہ یہ دیا کہ کسی خاتون کے ساتھ کندھا نہیں لگنے دینا۔ تو مطلب اب آپ تائب ہو چکے ہو تو اسکا جواب دل دہلا دینے والا تھا کہ نہیں سر یہاں قانون نے باندھ رکھا ہے۔ یقینا اس کے دل میں ڈر کی وجہ وہ نظام تھا

بات یہ ہے کہ ہر معاشرے میں بھیڑیا نما انسان پائے جاتے ہیں اور سب ہی ممالک میں ایسے کیس رپورٹ بھی ہوتے ہیں مگر ہم نے ہر لائن کراس کر لی ہے۔ ہمارا نظام خود اسکی بنیادی وجہ ہے۔ اس لئے میں مشورہ دونگا وزیر اعظم کے مشیروں کو کہ قانون نہیں نظام بدلنے کا سوچو۔ جب نظام ٹھیک ہو جائے تب اسلامی قانون لاگو کر کے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
شکریہ کے ساتھ
از قلم محمد حفیظ جاوید
 

Muhammad Hafeez
About the Author: Muhammad Hafeez Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.