15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھل گئے مگر کچھ بدقسمت بچے جن کا اب دوبارہ اسکول جانا ذرا مشکل ہے

مارچ کے مہینے میں جب کہ تمام اسکول سالانہ امتحانات لینے کی تیاری کر رہے تھے مگر اچانک کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے سبب تمام تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کے سبب بند کر دیے گئے جس کے باعث بچوں کو بغیر امتحانات کے کامیاب کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا- اور اس کے بعد چھ ماہ تک تعلیمی ادارے بند رکھے گئے اور حال ہی میں محکمہ تعلیم کے احکامات کے مطابق 15 ستمبر سے مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس اعلان کے بعد عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر یہ امر بھی قابل تشویش ہے کہ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک جہاں پہلے ہی خواندگی کی شرح بہت کم ہے وہاں تعلیمی اداروں کے چھ ماہ تک بند رہنے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہو گی جو کہ چھ ماہ اسکول بند رہنے کے بعد اب دوبارہ کبھی کچھ خاص وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا سکیں گے ان وجوہات کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائیں گے-
 
1: لاک ڈاؤن کے سبب بے روزگاری کی شرح میں اضافہ
لاک ڈاؤن میں تمام کاروباری حلقوں کو شدید نقصان پہنچا اور پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے- جس کے سبب بہت سارے والدین کی ترجیحات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور انہوں نے بچوں کو اسکول سے اٹھا کر کسی نہ کسی جگہ پر کام سیکھنے پر لگا دیا ہے اور اب چھ ماہ کی فیسیں ادا کرنے کے بجائے ان کا یہ خیال ہے کہ اس سال وہ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے بلکہ بچے ان کے بے روزگار ہونے کے سبب ان کا سہارہ بنیں گے-
image
 
2: رجحان میں تبدیلی
تعلیم کے حصول کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ گزشتہ چھ ماہ سے تعلیمی اداروں کے بند ہونے کے سبب کافی حد تک ختم ہو گیا ہے- اس وجہ سے دوبارہ سے وہ ماحول بنانا والدین اور بچوں دونوں کے لیے ہی کافی دشوار ثابت ہو سکتا ہے- اس وجہ سے بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو کہ ایک آدھ مہینہ تو اسی سوچ میں گزار دیں گے کہ نیا کورس خریدنا ہے نیا یونیفارم لینا ہے اور اسی میں ایک ماہ گزارنے کے بعد یہ سوچ کر آرام سے بیٹھ جائيں گے کہ اب چند ماہ ہی تو رہ گئے ہیں اگلے سال ہی دیکھ لیں گے-
image
 
3: پیچھے رہ جانے کا خوف
مختلف اسکولوں میں اس لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا مگر چونکہ پاکستان میں آج کل کے دور میں بھی عوام کی بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ انٹرنیٹ کی سہولیات سے آراستہ نہیں ہیں- اس وجہ سے ان کے بچے آن لائن کلاسز حاصل نہیں کر سکے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کلاس کے باقی بچوں سے پیچھے رہ گئے ہیں- اس وجہ سے اب جب کہ اسکول کھل چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ پیچھے رہ جانے کے خوف کے سبب اسکول جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس سبب آئندہ کبھی اسکول نہ جا سکیں-
image
 
4: لڑکیوں کے لیے غیر موافق حالات
جیسے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے پے در پے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں پر معصوم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ہوئے ہیں اس چیز نے والدین کو اپنی لڑکیوں کے حوالے سے بہت حساس کر دیا ہے- یہی وجہ ہے کہ حالات کے سبب خوف کا شکار لوگ اپنی بچیوں کو دوبارہ اسکول بھیجنے میں تذبذب کا شکار ہیں اور ان کے یہ اندیشے ان بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو روکنے کا باعث بن سکتے ہیں-
image
 
5: کرونا کم ہوا ہے ختم نہیں ہوا ہے
حکومت کی جانب سے بار بار اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کرونا کم ہوا ہے مگر ختم نہیں ہوا ہے تو اس حوالے سے کچھ حساس والدین ایسے بھی ہیں جو کہ بچوں کو ان کی صحت کے خوف کے سبب اسکول بھیجنے سے خوف زدہ ہیں اور نہیں چاہتے کہ بچوں کو اسکول بھیجیں اس لیے ایسے والدین اسکول کھلنے کے باوجود اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھنے میں تحفظ محسوس کر رہے ہیں-
image
YOU MAY ALSO LIKE: