پاکستان نیوی کے مہران بیس پر
دہشت گردوں کا حملہ صرف پاک بحریہ پر نہیں بلکہ 17 کروڑ عوام اور ہماری
ملکی سلامتی پر براہ راست حملہ ہے۔ سانحہ کراچی اس حوالے سے ہماری سلامتی
کے لیے خطرناک ہے کہ یہ ملک کی بحری دفاعی لائن پر کاری ضرب تھی۔ اس حملے
میں جس منظم انداز اور تکنیک کے ساتھ دہشت گردوں نے کاروائی کی اور جس طرح
پاک فوج کے جوانوں کو 17 گھنٹے تک جدوجہد کرنا پڑی اس سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی ایسی منظم خارجی قوت ہے جس کو پی این
ایس مہران کی سیکورٹی کے حوالے سے کمزوریوں کا پوری طرح علم تھا اور جس نے
آپریشن کو طول دینے کی حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کی مسلح افواج کی فوجی
صلاحیت کو دنیا میں تماشا بنائے رکھنے کی مکمل منصوبہ بندی کی تھی۔ گزشتہ
کچھ عرصے میں پاک بحریہ کی تنصیبات اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا یہ
چوتھا واقعہ ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دشمن وطن عزیز کے ہر حصے کو
غیر مستحکم کرنے کے اپنے منصوبے پر منظم طریقے سے عمل کررہا ہے۔ مبصرین کے
مطابق نیوی پر ہونے والے حملوں میں یہ ا تنہائی خطرناک اور منظم حملہ تھا
جس میں دہشت گردوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نصف درجن سے زائد
دھماکے اور 6 آر پی جی راکٹ فائر کیے۔ ہمارا دشمن فوجی تنصیبات کو نشانہ
بناکر سیکورٹی اداروں پر عوام کا اعتماد ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ
ہی عالمی برادری کو بھی پیغام دینا مقصود ہے کہ ایسی صورت حال میں پاکستان
کی ایٹمی تنصیبات کیونکر محفوظ رہ سکتی ہیں؟
چنانچہ اب اس واقعے کو آڑ بناکر امریکا اور نیٹو افواج نے جوہری اثاثوں کے
خلاف شور و غوغاکرتے ہوئے زہر اگلنا شروع کردیا ہے، نیٹو کے سیکرٹری جنرل
نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے تشویش ہے اور
اس حوالے سے نیٹو نے پاکستان پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس بیان کے بعد
امریکا نے بھی جوہری اثاثوں پر اپنی تشویش ظاہر کردی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت
نے بھی ایٹمی اثاثوں کے خلاف پروپیگنڈا تیز کردیا ہے اور کہا ہے کہ پڑوس کی
ناکام ریاستیں اس کی (بھارت) سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل نے کہا ہے کہ انہیں سو فیصد
یقین ہے پی این ایس مہران پر حملہ امریکی آپریشن تھا، امریکا نے ہمیشہ دوست
بن کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ اسی طرح کا بیان کئی دیگر دفاعی
تجزیہ کاروں نے بھی دیا ہے۔ جبکہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی رائے ہے کہ
پاکستان پر حملوں کے لیے بھارت کالعدم تنظیموں کو استعمال کررہا ہے۔ مہران
بیس پر حملے کے امریکی سازش ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جارہا ہے کہ
حملے کے فوراً بعد امریکی میڈیا نے ہمارے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے
کی بات شروع کردی ہے۔ باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کا امکان
زیادہ ہے کہ یہ حملہ امریکی ایما پر بھارت نے کروایا ہو کیونکہ اور ین
طیارے جو تباہ کیے گئے اور جس سے ہمیں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، یہ
القاعدہ کے لیے نہیں بلکہ بھارت کے لیے خطرہ تھے۔
اگر آپ گرفتار دہشت گردوں کے ابتدائی بیانات دیکھ لیں اس سے بھی اندازہ
ہوتا ہے کہ دوستی کا لبادہ اوڑھ کر کون ہمارے خلاف کام کررہا ہے۔ پی این
ایس مہران پر حملے میں ملوث گرفتار مبینہ دہشت گردوں کی تعداد 10 بتائی
جارہی ہے جن میں 7 کو آپریشن کے دوران اور 3 کو بعد میں شاہ فیصل کے علاقے
سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ دہشت گردوں سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔
ابتدائی تفتیش کے دوران مبینہ دہشت گردوں نے تحقیقاتی اداروں کو گمراہ کرنے
کے لیے اپنا تعلق الجہاد ابو موسیٰ سے بیان کیا جو یمن سے تعلق رکھنے والی
تنظیم ہے لیکن آخر کار گرفتار دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ ان کا تعلق روس
کی دہشت گرد تنظیم حزف سے ہے۔ مبینہ دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران انکشاف
کیا ہے کہ حملے میں دیگر غیر ملکی ایجنسیاں بھی ان کی معاونت کررہی تھیں جن
میں بھارتی ایجنسی ”را“ بھی شامل ہے۔ تفتیشی ادارے دہشت گردوں کے اعترافی
بیانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی
فرائزک رپورٹ میں کہا ہے کہ پی این ایس مہران پر دہشت گردوں کے حملے میں
استعمال کیے جانے والے اسلحے کی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق حملے
میں استعمال ہونے والا اسلحہ روسی ساختہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق جائے وقوع سے
ملنے والی رائفلیں 2004ءمیں جبکہ کارتوس 2008ءمیں تیار کیے گئے۔دہشت گردوں
کی طرف سے فائر کیے گئے 2 راکٹ ضائع جبکہ 5 اپنے اہداف پر گرے۔ جائے وقوع
سے ملنے والا ایک واکی ٹاکی امریکی ساختہ نکلا۔ رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے
جوانوں پر دہشت گردوں نے 80 سے 100 میٹر کے فاصلے سے فائرنگ کی۔
بعض مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہوائی بیس پر کاروائی ایبٹ آباد آپریشن
کا تسلسل ہے۔ اب اس امر کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے کہ امریکی کرائے کے قاتلوں
کے ذریعے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کریں اور پھر دنیا میں
شور مچائیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں رہے۔ سیکورٹی ماہرین اس
امر پر بھی متفق ہیں کہ دہشت گردوں کا ہدف افراد نہیں تھے بلکہ وہ پاکستان
بحریہ کی آپریشنل قوت کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب رہے۔ اس
سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی عام دہشت گرد نہیں تھے بلکہ اس
طرح کی منظم کاروائی کا دشمن ملک کی خفیہ انٹیلی جنس کی مدد کے بغیر کامیاب
ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز
بے پناہ خطرات میں گھر چکا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بگڑتی ہوئی صورتحال حال
ٹھوس اور موثر اقدام کی متقاضی ہے۔
دریں اثناء وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ
دہشت گردوں کے خلاف پیشگی کارروائی کی جائے گی، فوج اور سیکورٹی اداروں کو
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے کا اختیار دے دیا گیا
ہے، تمام ادارے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے
جائیں گے۔ وزیراعظم کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس
آف اسٹاف کمیٹی ، آرمی چیف ، فضائیہ، بحریہ کے سربراہوں، وزیر داخلہ، وزیر
خزانہ اور وزیر مملکت امور خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں دہشت گردی کے حالیہ
واقعات کے بعد کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی، اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے
قومی اتفاق رائے سے حکمت عملی تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اداروں کے
درمیان روابط مضبوط بنانے اور انٹیلی جنس شیئرنگ صوبائی سطح پر کرنے کا
فیصلہ کیا گیا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر دفاع اس اہم ترین اجلاس
میں موجود نہیں تھے کہا جاتا ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے وزیر دفاع
چودھری احمد مختار ایک دوسرے گجراتی سیاست دان اور ق لیگ کے پارلیمانی
رہنما چودہری پرویزالٰہی کے سینیئر وفاقی وزیر بنائے جانے پر ناراض ہیں اس
لئے وہ اس اہم اجلاس میں شریک ہو نے کی بجائے ملک سے باہر چلے گئے ۔ایسے
وقت میں جب ملکی دفاع کو زبردست خطرا ت لاحق ہیں وزیر دفاع کارویہ حکمران
پارٹی کی صفوں میں پائے جانے والے انتشار کی غمازی کررہا ہے اور قوم یہ
سوچنے پر مجبور ہے کہ ہمارے سیاست دان اس مشکل گھڑی میں بھی اپنے ذاتی
اختلافات ختم کرنے کو تیار نہیں تو یہ قوم کو کیسے متحد کریں گے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ پے درپے رونما ہونے والے سانحات کے بعد نئے منظر نامے میں
اگر ہم اقوام عالم میں رہنا چاہتے ہیں تو اب کڑے اور ناگزیر فیصلوں کا وقت
آپہنچا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں امریکا کی شروع کردہ جنگ سے علیحدگی اختیار
کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، ملکی سلامتی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم
فوری طور پر امریکی اتحاد سے الگ ہوکر نئی خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب
دیں۔ اس کے لیے وزیراعظم آل پارٹیز کانفرنس بلاکر تمام سیاسی جماعتوں کو
اعتماد میں لے کر قومی پالیسی تشکیل دیں اور پھر اس پر عملدرآمد بھی
کروائیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ |