ترکی جس طرح غیر محسوس طریقے سے
اپنی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کررہا ہے اُس پر بیشتر یورپی ممالک نے
ڈھکے چھپے الفاظ میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ عشرے تک ترک معیشت کا
انحصار یورپی یونین پر تھا، مگر نئی ترک قیادت نے ملکی معیشت کی بنیاد کر
وسیع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ترک عوام کی
اکثریت یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند ہے تاہم کئی یورپی ممالک کے
امتیازی رویوں نے ترک قیادت کو ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے بھی
تجارتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔
ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردوگان کا رواں برس یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے جو اس
دورہ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ قبل ازیں انہوں نے شام کا دورہ کیا اور
دمشق میں صدر بشرالاسد سے ملاقات کی۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے ایک جانب
تو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ امن مذاکرات پر غور کیا تو دوسری
جانب انہوں نے برادری ملک شام کے عوام کو ترکی کی غیر مشروط حمایت کا یقین
دلایا۔ اردوگان نے شامی صدر سے کئی اقتصادی و ترقیاتی منصوبوں کے لیے
معاہدے پر دستخط کیے۔ ترک صدر کے حالیہ دورہ شام سے دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد پر
بھی بات چیت کی۔
ترک قیادت مسلم دنیا کی پہلی لیڈر شپ ہے جس نے اسرائیل کے لیے امریکا کی بے
جا حمایت پر سب سے پہلے احتجاج کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی فورمز پر بھی
اسرائیلی جارحیتوں پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ توقع ہے کہ وہ دورہ
پاکستان کے دوران ایک جانب تو سیلاب متاثرین کے لیے مزید اعلانات کریں گے
تو دوسری جانب عالمی سطح پر مشکلات کی شکار پاکستانی قیادت کو اپنی بھرپور
اقتصادی امداد کا یقین دلائیں گے۔
شام اور پاکستان کے دوروں سے قبل انہوں نے ترکی کے دورے پر آئے ہوئے چینی
وزیِرِاعظم وین جیاباؤ سے بھی علاقائی صورتِ حال پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ ان
مذاکرات میں چین کی جانب سے پاکستان کو فراہم کیے جانے والے ایٹمی ری ایکٹر
پر مغرب بالخصوص امریکی مخالفت بھی زیر بحث آئی۔ انہوں نے چین سے فلسطین
کاز میں مدد کی درخواست بھی کی۔ رپورٹ کے مطابق چینی رہنما کے دورہ ترکی
میں آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط بھی کیے گئے۔ طیب اردوگان نے وین جیا باو
کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے ترکی اور عوامی جمہوریہ چین کے
درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دونوں رہنماؤن نے جن تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے
ہیں اس کے نتیجے میں اگلے صرف 5 برس کے عرصہ میں ترکی کی بیرونی تجارت کا
حجم 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، جب کہ تمام تر دو طرفہ تجارت امریکی ڈالر
یا یورپی یورو کے بجائے ترک لیرے اور چینی یوآن میں ہوگی۔ چین اور ترکی
تعلقات میں فروغ کے علاوہ حکمتِ عملی پر مبنی تعاون کے حوالے سے بھی تجارت
کے حجم میں مقررہ اہداف تک رسائی کے لیے کافی پُرعزم ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان 17 ارب ڈالر کے موجودہ تجارتی حجم کو 2015ءتک 50 ارب
ڈالر جب کہ 2020ءتک 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ حالیہ
تاریخ میں کسی بھی دو ممالک کے درمیان مقرر کیے گئے تجارتی اہداف کے مقابلے
میں یہ سب سے بڑا ہدف ہے۔ اس ہدف تک رسائی کے لیے جدید شاہراہِ ریشم کے
خواب کو حقیقت کا روپ دیا جائے گا۔ فی الوقت شاہراہِ ریشم پاکستان اور چین
کے درمیان زمینی راستے سے تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ترکی نے چین کے تعاون سے بڑے مواصلاتی منصوبے بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا
ہے۔ ترکی کے اہم شہروں الیکی، استنبول اور انقرہ کو ایک تیز رفتار ٹرین کے
ذریعے ملانے، جب کہ 5000 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا جال بچھانے کا کام بھی
چین کے توسط سے کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون صرف ان شعبوں تک
ہی محدود نہیں بلکہ جوہری توانائی، تھرمل اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشنز
کی تنصیب سے لے کر سیاحت اور فضائی نقل و حمل تک کے وسیع شعبہ جات میں
تعاون بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تیزی سے ترقی کی
منزل طے کرنے والی ان دو اقتصادی طاقتوں کے درمیان تعاون کے لیے حالیہ
معاہدوں کا عالمی رائے عامہ بہ شمول یورپی یونین اور امریکا باریک بینی سے
جائزہ لے رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے چین سے ترکی تک ایک تیز رفتار ریلوے
ٹریک ڈالنے کے منصوبے پر بھی غور کیا۔ یہ ریلوے ٹریک پاکستان اور ایران کے
راستے ترکی تک جائے گا۔ واضح رہے کہ چین پہلے ہی پاکستان تک تیز رفتار ٹرین
چلانے کے لیے اپنی فزیبلٹی مکمل کرچکا ہے۔
ترک قیادت ملک کو ترقی کی جس تیز رفتار شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے
اقدامات کررہی ہے اس کے مؤثر ہونے کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ
ترکی ایک جانب تو یورپی یونین سے اپنے تعلقات میں کوئی کمی نہیں آنے دے
رہا۔ دوسری جانب وہ اسلامی دنیا سے اپنے تعلقات کو بھرپور طریقے سے فروغ دے
رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کی مستقل اقتصادی
کمیٹی کا اعلیٰ ماہرین پر مشتمل اجلاس استنبول میں منعقد ہوا۔ صدر عبداللہ
گُل نے مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر براعظم میں مسلم ممالک موجود ہیں، ان میں سے
کچھ ترقی یافتہ اور کچھ پسماندہ ہیں۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ
پسماندہ مسلم ممالک کی اقتصادی ترقی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے
جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ترقی یافتہ ممالک اپنے پسماندہ برادر ممالک
میں سرمایہ کاری کریں اور انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد دیں۔
انہوں نے پسماندہ مسلم ممالک کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کرنے کی ضرورت پر زور
دیا۔
جس دن استنبول میں او آئی سی کی مستقل اقتصادی کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا
اسی روز وزیرِاعظم طیب اردوگان برلن میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے دوطرفہ
اقتصادی تعلقات میں تیزی کے لیے مذاکرات کررہے تھے۔ انہوں نے دہشت گردی کے
خلاف جدوجہد پر گفتگو بھی کی۔ اردوگان نے ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے
موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مرکل سے کہا کہ وہ مذاکرات عمل کی رفتار تیز کرنے
میں مدد فراہم کریں۔ توقع ہے کہ موجودہ لیڈر شپ کے تحت ترکی جلد ہی نہ صرف
ایک مضبوط اقتصادی قوت بن جائے گا، بلکہ اثر و رسوخ کی حامل فوجی قوت کا
اعزاز بھی حاصل کرلے گا۔ |