موجودہ دور میں ترقی یافتہ کہا جانے والا ہمارا سماج جہاں
متعدد بیماریوں میں مبتلا ہےوہیں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں
پر وان چڑھنے والے بچے جس لاڈ وپیار کے مستحق ہیں انہیں وہ لاڈ وپیار نہیں
مل پاتا ، بلکہ بچوں کے حقوق کو پامال کر نے کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم وستم
بھی روا رکھاجاتا ہے ،انہیں ایسے کام پر مجبور کیا جاتا ہے جن کی اجازت ان
کی جسمانی ساخت نہیں دیتی ، آج بچہ مزدوری کا رواج تقریبا پوری دنیا میں
ہے ، کروڑوں بچے اپنے والدین کے دباؤمیں سخت محنت ومشقت کر نے پر مجبور ہیں
، بعض ہوس پرست بچوں کو جرائم کے پیشوں سے جوڑ کر انہیں غیر قانونی کاموں
پر مجبور کرتے ہیں ، نتیجے کے طور پر بچے بگڑتے ہیں ، اور جوان ہو نے کے
بعد بھی انہیں جرائم کے ارتکاب میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہو تی ۔
حالاں کہ بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں
بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں کو اپنا محسن سمجھتے
ہیں جو ان کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کریں، تربیت جس طرح قربت وانسیت سے ممکن
ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور زجرو توبیخ سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیےنبی
کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ بے پناہ شفقت ومحبت کا بر تاؤ کیا ،اپنے ماننے
والوں کو بھی بچوں سے لاڈ وپیاراور ان سے شفقت ومحبت کے بر تاؤ کاحکم دیا۔
رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّامَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيْرَنَا
ويَأمُر بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ سنن التر مذی ، باب
البر والصلۃ]
جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اپنے قریب رکھا حتی کہ بچوں
کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں پر سوار ہوگئے تو آپ
نے ان کی دل بستگی کا بھر پور خیال فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن شدادرضی اللہ عنہ اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں:
خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی
إِحْدَی صَلَاتَی الْعِشَاءِ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا
فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَہُ
ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ فَصَلَّی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِہِ
سَجْدَۃً أَطَالَہَا قَالَ أَبِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی وَإِذَا الصَّبِیُّ
عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ
سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَی سُجُودِی فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی
اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ قَالَ النَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ
إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَہَا
حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّہُ یُوحَی إِلَیْکَ
قَالَ کُلُّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْتُ
أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہ۔[ مسند احمد : ۱۶۰۳۳ حدیث شداد
بن الہاد،و النسائی : رقم الحدیث ۱۱۴۱]
رسول کریم عشا کی نمازکے لیےہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت
حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنھما کواٹھائے ہوئے تھے ،پھرحضور اکرم آگے
تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا،پھرآپ نے نمازکے لیے تکبیرفرمائی اور
نمازادافرمانے لگے ،اثناےنماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں
:میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ
عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب رسول اللہ
نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ نےنمازمیں
سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں
آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم نے ارشاد فرمایا :اس
طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی ،سوائے یہ کہ میرا بیٹامجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور
جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترا مجھے عجلت کرناناپسند ہوا۔
نبی کریم ﷺنے نہ صرف یہ کہ بچوں سے خود شفقت فر ما ئی بلکہ امت کو بھی اس
کی تعلیم دی، اور بچوں سے مشفقانہ سلوک نہ کر نے والے کے سلسلے میں
فرمایاکہ ایساشخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں۔
بخاری شریف کی حدیث پاک ہے :
ان أبا هريرة رضي الله عنه قال قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن بن
علي وعنده الأقرع بن حابس التميمي جالسا فقال الأقرع: إن لي عشرة من الولد
ما قبلت منهم أحدا فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال من لا
يرحم لا يرحم [البخاری: کتاب الادب ، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ]
حضرت ابو ہریرہ فر ماتے ہیں کہ اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ حضرت حسن کو
چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور ! میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی
کسی کو نہیں چوما، آپ نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا
جاتا ۔
مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺبچوں پر اس قدر شفیق ومہر بان تھے کہ ان کا رونا آپ کو
بے چین کر دیتا تھا، آپ بے قرار ہو جاتے، ان کی تکلیف آپ کے لیے ناقابل
بر داشت ہوتی۔ حضرت ابو قتادہ کی روایت ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو حامل أمامة بنت زينب
بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأبي العاص بن ربيعة بن عبد شمس،
فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها.[ البخاری :کتاب ابواب
السترۃ المصلی، باب اذا حمل جاریۃ علیٰ عنقہ فی الصلاۃ]
رسول اللہ امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ کو نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے
تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار
دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔
نماز ایک اہم ترین عبادت ہے ،مصطفیٰ جان رحمت ﷺ حالت نماز میں ہیں ، اس
حالت میں بھی بچوں پر شفقت کاخیال رکھا جا رہا ہے، انہیں حالت قیام میں
اٹھا کر ان کے لیے سکون وطمانیت کا سامان فراہم کر رہے ہیں ، یہیں تک محدود
نہیں سیرت نبوی میں ایسےشواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ
نےبچوں کی خاطرکبھی اپنی نماز مختصر فر مادی تو کبھی ان کے لیے اپنا سجدہ
طویل فر مادیا ،بچوں پر رحم وکرم اور شفقت ومہر بانی کے یہ جلوے صرف سیرت
نبوی ہی کا حصہ ہیں ۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :
إِنِّي لأَدْخُلُ فِي الصَّلاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا ، فَأَسْمَعُ
بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ
شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ . [البخاری :کتاب الجماعۃ
والامامۃ ، باب من اٖخف الصلاۃ عند بکاءالصبی]
ترجمہ:حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشادفرمایا: میں نماز میں ہو
تا ہوں اور نماز کو طویل کر نا چاہتا ہوں لیکن میں بچوں کا رونا سنتا ہوں
تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کا شدت سے
رونا اپنی ماں کو نہ پانے کی وجہ سے ہے۔( یعنی میں ان کی رعایت کرتے ہوئے
اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں)
مصطفیٰ جان ِ رحمت اپنی تمام ترمشغولیات ومصروفیات کے باوجود صحابہٴ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور
الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں
اور کھلونوں کے بارے میں استفسار کرتے، ان سے مزاح فر ماتے ۔
حضرت انس کی روایت ہے :
كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يدخل علينا ولي أخ صغير يُكنى أبا
عُمير، وكان له نغر يلعب به، فمات فدخل عليه النبي ( صلى الله عليه وسلم)
ذات يوم فرآه حزينًا، فقال: ما شأنه؟ قالوا: مات نغره، فقال: يا أبا عمير
ما فعل النغير [البخاری :کتاب الادب، باب الکنیۃ للصبی وقبل ان یولد للرجل]
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس
کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف
لائے اور ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ
الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ ۔
ہم صرف اپنے ہی بچوں سے محبت کرتے ہیں؛ آج کی مصروف دنیا میں دوسروں کے
بچوں سے محبت یکسر نا پید ہو گئی ہے، آپ نے اپنے اخلاق کریمانہ کے ذریعہ
ہمیں یہ درس دیا کہ بچے اپنے ہوں یا دوسروں کے بہر حال وہ شفقت ومحبت کے
مستحق ہیں ، ان کے ساتھ ہر حال میں لاڈ وپیار کا بر تاؤ ہو نا چاہیے ، یہی
وجہ ہے کہ جہاں آپ نے اپنے بچوں سے محبت وشفقت کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر
صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔
حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عادتِ طیبہ تھی کہ
کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آقاے کریم کے پاس لے آتے، آپ بچے کو
لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا فر ماتے۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد
ہواتومیں سر کار دوعالم کے کاشانہ اقدس پرحاضر ہوا، آپ نے اس کا نام
ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے
برکت کی دعافرمائی۔[البخاری: باب تسمیۃ المولود]
بچوں پر شفقت ورحمت کے یہ واقعات بھی ملاحظہ فرمائیں:
ایک دفعہ نبی کریم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص
پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے۔ [البخاری: با ب
الخمیصۃ السوداء]
ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا،
آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا۔ [البخاری:با ب وضع الصبی فی الحجر]
مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِ پاک کا یہ گوشہ بھی ملاحظہ
فرمائیں اور شفقت ومحبت ، عدل وانصاف کایہ اعلیٰ نمونہ دیکھیں :
عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح
فشرب وعن يمينه غلام، هو أحدث القوم، والأشياخ عن يساره
قال " يا غلام أتأذن لي أن أعطي الأشياخ ". فقال ما كنت لأوثر بنصيبي
منك أحدا يا رسول الله. فأعطاه إياه. [البخاری:با ب من رأی أن صاحب
الحوض الخ]
سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکار دوعالم کی
مجلس میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اسے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ
نے دیکھا کہ آپ کی دائیں جانب ایک بچہ ہے، اور بائیں جانب صحابہ کرام ہیں،
آپ نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ مشروب ان بڑے
حضرات کو عنایت کروں، اس بچے نے کہا، ہر گز نہیں، قسم بخدا میں (آپ کے تبرک
میں) اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، یہ سنتے ہی آپ نے پیالہ اسے
تھمادیا ۔
سرکار دوعالم جہاں مسلمانوں کے بچوں پر شفقت فر ماتے تھے ،وہیں آپ کی شفقت
سے کفار کے بچے بھی محروم نہ تھے ، آپ کی بے پایاں شفقت سے کفار کے بچے
بھی بہرہ مندہوئے، سرکارِ دو عالم نے اپنے اُسوہ سے کفار کے بچوں کے ساتھ
بھی نرمی کی تلقین کی:
حضرت انس کی روایت ہے:
كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض، فأتاه النبي
صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند رأسه فقال له " أسلم ".
فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له أطع أبا القاسم صلى الله عليه وسلم.
فأسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول " الحمد لله
الذي أنقذه من النار ". [البخاری : باب إذا أسلم الصبي فمات]
انس بن مالک نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم کی خدمت کیا کرتا تھا،
ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ اس کی عیادت فرمانے کے لیے تشریف لائے اور اس
کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف
دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم جو کچھ
کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم باہر نکلے تو آپ
نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
بچوں کے ساتھ سر کار دوعالم کی شفقت ورحمت کا ایک اظہار یہ بھی تھا کہ
انہیں ایسے کاموں میں شامل نہیں فر ماتے جو ان کی طاقت سے باہر ہوں ،جنگِ
اُحد کے موقع پر چند بچوں نےآپ کی خدمت میں حاضر ہو کر جنگ میں شرکت کا
ارادہ ظاہر کیا،لیکن رحمت ِعالم نے ان بچوں کو ان کی صغر سنی کی وجہ سے منع
فر مادیا، ان بچوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب، اسامہ بن زید، اسید
بن ظہیر، زید بن ثابت، زیدابن ارقم ،عرابۃ بن اوس، عمروبن حزم ، ابوسعید
خدری اور سعد بن حبہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم بھی شامل تھے ۔
موجودہ زمانے میں متعدد حکومتوں میں بڑوں کے ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی جنگی
سرگر میوں میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ،ایک اندازے کے مطابق متعدد
حکومتوں میں تین لاکھ سے بھی زائدنو خیز بچوں کو جنگی مشقوں کے ساتھ محاذ
میں بھی حصہ لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ [تقریر الحالۃ الاجتماعیۃ
الصادرۃ عن الامم المتحدۃ۲۰۰۵م، ص:۱۲۱]
بچوں کے ساتھ سر کار دوعالم کے مشفقانہ برتاؤ اور حد درجہ رحم وکرم کی وجہ
سے بچےآپ پر جان نچھاور کرتے،آپ کے ارد گرد منڈلاتے ، آپ جب کبھی سفر پر
تشریف لے جاتے تو واپسی پر بچے آپ کے استقبال کے لیے آبادی سے باہر
آجاتے ، آپ بھی ان بچوں کو محبت سے اپنی سواری میں سوار فر مالیتے ، حضرت
جعفر بن ابی طالب کی روایت ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلَّم إذا قَدِم من سفرٍ تلقي بالصبيان من
أهل بيته ، وإنه قدم مرَّةً من سفره فسبق بي إليه ، فحملني بين يديه ، ثم
جيْءَ بأحد ابني فاطمة رضي الله عنها إما الحسن وإما الحسين فأردفه خلفه ،
فدخلنا المدينة ثلاثةً على دابَّة۔ [مسلم : کتاب الفضائل ، باب فضائل عبد
اللہ بن جعفر]
ترجمہ: رسول اللہ جب کسی سفر سے واپس ہو تے تو آپ کے گھر کے بچے آپ سے
ملاقات کرتے ، ایک بار آپ ایک سفر سے آئے ، میں آپ سے ملنے کے لیے
پہنچا، آپ نےمجھے اپنے سامنے بٹھایا ، پھر حضرت فاطمہ کے ایک صاحب زادے
آئے ، آپ نے انہیں پیچھے بٹھالیا ،پھر ہم تینوں ایک سواری پر بیٹھے ہوئے
مدینہ میں داخل ہو ئے ۔
فتح مکہ کے موقع پر جب آپ پورے لاؤ ولشکر کے ساتھ مکہ شریف میں داخل ہو ئے
تو بچوں نے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا ، لشکر کی بھیڑ بھاڑ اورمجمع کی کثرت
کے باوجود آپ نے بچوں پر شفقت کا جیسا مظاہرہ فر مایا اس کی مثال نہیں مل
سکتی، حضرت عبد اللہ ابن عباس کی روایت ہے :
لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة استقبلته أغيلمة بني عبد المطلب،
فحمل واحدا بين يديه وآخر خلفه. [البخاری: کتاب العمرۃ،باب استقبال
الحاج القادمین والثلاثۃ علی الدابۃ]
جب نبی کریم مکہ تشریف لائے تو بنو عبدالمطلب کے چند بچوں نے آپ کا
استقبال کیا، آپ نے ایک بچے کو (اپنی سواری کے) آگے بٹھا لیا اور دوسرے کو
پیچھے۔
مصطفیٰ جانِ رحمت کی سیرت پاک میں بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت کے چند نمونے
آپ نے ملاحظہ فر مائے ، اب آئیے بچیوں پر رحمت عالم کے رحم وکرم کے جلوؤں
کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں ۔
زمانہٴ جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے عارسمجھتے تھے، بچیوں کی
پیدائش سے پورا گھر ماتم کدہ بن جاتا تھا ، باپ کا سر شرم سےجھک جاتا ،
خاندان کے لوگ بچیوں کی پیدائش پر غم مناتے تھے ، سماج میں نہ ان کی کوئی
حیثیت تھی اور نہ کوئی حق ،مصطفیٰ جان رحمت نے لڑکیوں کے حقوق متعین کیے ،
ان کے اکرام کی تعلیم دی، ان کی تربیت پر توجہ کی تلقین فرمائی ، فرمان
رسول کے مطا بق بیٹیاں باعث خیر و برکت ہوا کرتی ہیں ، سر کار نے ان سے خاص
طور سے محبت کر نے اور ان پر اپنی شفقتیں نچھاور کر نے کا حکم دیا ، ان کی
پرورش پر جنت کی بشارت سنائی :
آپ نے ارشاد فرمایا:
من عال جاریتین حتیٰ تبلغا، جاء یوم القیامۃ انا وھو، وضم اصابعہ [مسلم
:۲۶۳۱ کتاب البر والصلۃ با ب فضل الإحسان إلی البنات]
یعنی جس نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ
ایک ساتھ ہونگے ،پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ۔
مصطفیٰ جان رحمت کےرحم وکرم کی یہ بارش عام بچوں کے ساتھ تھیتویتیم بچوں کے
ساتھ آپ کی شفقت ومحبت کس قدر رہی ہو گی اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا
ہے ، یہاں یتیم بچوں کے تعلق سے آپ کے چند ارشادات نقل کیے جاتے ہیں جن سے
آپ کی شفقت ومحبت کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا ۔
قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و کافل اليتيم في الجنة هکذا .
. . و أشار بالسبابة و الوسطي، و فرج بينهما شيئا. [بخاري:کتاب الطلاق، باب
اللعان]
’’رسول اﷲ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں
گے ۔ ۔ ۔ پھر آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور
دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا :
والذي بعثني بالحق! لا يعذب ﷲ يوم القيامة من رحم اليتيم، ولان له في
الکلام، و رحم يُتْمه و ضَعْفَه، ولم يتطاول علي جاره بفضل ما آتاه اﷲ، و
قال : يا أمة محمد! والذي بعثني بالحق! لا يقبل اﷲ يوم القيامة صدقة من رجل
وله قرابة محتاجون إلي صدقته و يصرفها إلي غيرهم، والذي نفسي بيده! لا ينظر
اﷲ إليه يوم القيامة. [طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 346، رقم : 8828]
ترجمہ: قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ
روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ
نرمی سے گفتگو کی، اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی عطا کی وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔
پھر فرمایا : اے اُمتِ محمدیہ! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ
مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے
گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اُس کے اپنے رشتہ دار اُس کے صدقہ کے
محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اﷲ تبارک و
تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا :
خير بيت في المسلمين بيت فيه يتيم يحسن إليه، و شرّ بيت في المسلمين بيت
فيه يتيم يساء إليه. [ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب حق اليتيم، 2 :
1213، رقم : 3679]
’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ
نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک
ہو۔‘‘
ایک شخص رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی بارگاہ میں اپنی سخت دلی اور
قساوت قلبی کی شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوا ، رحمت عالم نے اس سے فر مایا:
أَتُحِبُّ أَنْ يَلِينَ قَلْبُكَ وَتُدْرِكَ حَاجَتَكَ . قَالَ : نَعَمْ .
قَالَ : ارْحَمِ الْيَتِيمَ وَامْسَحْ بِرَأْسِهِ وَأَطْعِمْهُ مِنْ
طَعَامِكَ يَلِنْ قَلْبُكَ وَتُدْرِكْ حَاجَتَكَ. [رواہ الطبرانی ، الترغیب
والترھیب ۲؍۶۷۶]
کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے ، اور تم اپنی مراد پاجاؤ،یتیموں
پر رحم کرو ، ان پر دست شفقت پھیرو،انہیں اپنے کھانے میں سے کھلا ؤ، تمہارا
دل نرم ہو جائےگا،اور تم بامراد ہو جاؤگے ۔
رسول کریم نے جہاں مسلمانوں کو یتیموں کے ساتھ شفقت ومحبت کا حکم دیا ہے
وہیں ان پر ظلم وستم کی سخت ممانعت فر مائی ہے اور اسے ہلاکت کا باعث قرار
دیا ہے ۔
حضرت ابو ہريرة کی روایت ہے:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " اجتنبوا السبع الموبقات " قالوا يا
رسول الله، وما هن قال " الشرك بالله، والسحر،
وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا،
وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات
المؤمنات الغافلات . [البخاری: کتاب الوصایا ، باب قول اللہ عزوجل :ان
الذین یاکلون اموال الیتٰمی ظلما]
رسول اللہ نے فرمایا: سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں ‘ بچتے رہو۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ
نےارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا،جادو کرنا ، کسی کی
ناحق جان لینا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ،سود کھانا،یتیم کا مال
کھانا ، لڑائی سے بھاگ جانا ، پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی پر تہمت
لگانا۔
نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے یتیم بچوں کو اپنی شفقتوں سے نواز نے کے
ساتھ ان کے معاشی استحکام کے لیے بھی واضح احکام صادر فر مائے، وہ لوگ جن
کی کفالت میں یتیم بچے ہوں ، انہیں حکم دیا کہ یتیموں کے مال میں اضافے کے
لیے اسے تجارت میں لگاؤ تاکہ یتیموں کا گزارا ممکن ہو ،انہیں صدقات وخیرات
کا محتاج نہ ہو نا پڑے ، ارشاد فرمایا:
الا من ولی یتیما لہ مال ، فلیتجر فیہ ولا یترکہ حتی تاکلہ الصدقہ
الترمذی(۶۴۱) [ومالک فی الموطا بروایۃ یحی اللیثی، والبیھقی فی سننہ
الکبریٰ]
ترجمہ:یعنی تم میں سے جس کی کفالت میں کوئی یتیم اور اس کا کچھ مال ہو ، تو
اس میں تجارت کرو ۔ اسے بےکار نہ چھوڑو کہ صدقہ اس کو کھا لے۔
نبی اکرم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ
معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل
بھی، اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت مصطفیٰ جان ِ رحمت پر عمل کرنے کی تو فیق عطا
فرمائے۔
|