بی بی سی ورلڈ نیوز کے لیے لکھی
گئی اپنی حالیہ تحریر میں پنٹاگون کے ایڈوائزر احمد راشد نے یہ حیران کن
تجویز دی ہے کہ پاکستان کو ایک بین الاقوامی ٹرسٹ کی نگرانی میں دے دیا
جائے۔ تاہم یہ تجویز دیتے وقت وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ پاکستان
امریکا یا ناٹو کے زیرِ قبضہ نہیں ہے۔ درحقیقت احمد راشد امریکا اور
برطانیہ کے حامی طبقوں کی قیادت کرتے ہیں اور اپنی اس تجویز کے ذریعے ان کا
مقصد غیر ملکی ناظرین کو خوش کرنا تھا۔ تاہم اس کام میں وہ تنہا نہیں ہیں۔
پاکستان کے اہم اقتصادی ماہرین ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر ندیم الحق بھی ان
کے ہمراہ ہیں۔ امریکا کو پاکستان پر لشکر کشی کر کے اُس پر قبضہ کرنے اور
حکومت تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ اُس نے عراق اور افغانستان میں
کیا۔ پاکستان میں واشنگٹن سیاست، میڈیا اور دانش وروں سے معذرت خواہانہ
انداز اختیار کررہا ہے، جو واشنگٹن سے ایک گولی چلائے بغیر اُس کا ساتھ
دینے کا خواہش مند ہیں۔
پاکستان امریکا تعلقات جتنا زیادہ مشاہدہ کیا جائے اتنا ہی زیادہ اس کی
مختلف جہتیں سامنے آتی ہیں۔ ان تعلقات کی نوعیت سمجھنے کے لیے اطالوی
مارکسسٹ انتونیو گرامسی کے غلبے کے فریم ورک (Gramscian Framework of
Hegemony) کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا، جس میں غلبے کا خواہش مند حکمران طبقہ
میں اپنے ویلیو سسٹم کو اس طرح داخل کردیتا ہے کہ اُسے اپنے مقاصد کے حصول
کے لیے فورس یا ظالمانہ قوت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ غلبے کے
خواہش مند ملک یا لیڈر اس نیاز مند قوم کے بعض اہم افراد کو اپنے تابع کر
کے انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دانش وروں کے شعبے میں احمد راشد جیسے لوگوں کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا
ہے جو اب بالخصوص وہی کچھ لکھ رہے ہیں جو کہ مغرب سننے کا خواہش مند ہے۔ بی
بی سی کی انگریزی سروس کے لیے خصوصی طور پر لکھے گئے کالم میں احمد راشد نے
یہ تجویز دی ہے کہ پاکستان اور اس کی گورننس کو ایسے غیر ملکی ٹیکنوکریٹس
کی نگرانی میں دے دیا جائے جس پر امریکا کا کنٹرول ہو۔ اس بات پر کوئی حیرت
نہیں ہونی چاہیے کہ امریکی حکومت اُسے اس خطے کے لیے ایک ایڈوائزر کی حیثیت
سے استعمال کررہی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کے زمینی
حقائق سے قطعی ناواقف ہے۔
تاہم ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ امریکا راشد جیسے لوگوں کے بے ڈھنگ مشورے کو
نہ صرف قبول کررہا ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان
کو مزید نقصان کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے
افراد پہلے ہی ملک کی اہم اقتصادی فیصلہ سازی میں کردار ادا کررہے ہیں۔ ان
میں ڈاکٹر حفیظ شیخ سے لے کر پلاننگ کمیشن میں ڈاکٹر ندیم الحق شامل ہیں جن
کے امریکا اور آئی ایم ایف سے گہرے تعلقات ہیں۔ تاہم راشد کے لیے یہ کافی
نہیں جس نے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اپنے کالم میں تجویز دی ہے کہ غیر ملکی
ٹیکنوکریٹس کو ہماری اکنامک اپنے ہاتھوں میں لے کر لینی چاہیے۔ اس کا واضح
طور پر سیاسی فیصلہ سازی سے تعلق ہے۔
راشد نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ایک پاکستانی تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ قائم کیا
جائے جیسا کہ افغانستان میں کام کررہا ہے تاکہ حکومت، فوج اور پولیس کو اس
سے فنڈ فراہم کیا جائے۔ ایسا ٹرسٹ نہ صرف ”کیش“ کو مانیٹر کرے گا بلکہ غیر
سیاسی غیر جانب دار تعمیرِ نو کے اقدامات میں مدد بھی فراہم کرے گا۔ دراصل
اس طرح انہون نے امریکی ڈکٹیشن کی راہ ہموار کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔
درحقیقت ان کا حقیقی ایجنڈا واضح ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو اپنی
من مانی کرنے کا موقع دیا جائے۔ راشد کے مطابق یہ ٹرسٹ طویل المدتی اقتصادی
اصلاحات بہ شمول مستقبل کا ٹیکس اسٹرکچر بھی تیار کرے گا۔
گورننس کی افسوس ناک صورتِ حال اور پاکستانی ریاست میں بدترین کرپشن سے
انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ، تاہم قوم اپنے وسائل سے تبدیلیاں لانے کی
صلاحیت اور استعداد رکھتی ہے اور جمہوری انداز میں ان مسائل کو حل ہونے کی
توقع بھی کرتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آج صورتِ حال تباہ کن نہیں
ہے، کیوں کہ ہم سیلاب سے تباہی کے بعد کا قومی منظر نامہ اور سرکاری سطح پر
کرپشن کو اطراف میں پھیلا دیکھ رہے ہیں۔ تاہم پاکستانیوں کی جانب سے دی گئی
امدادی رقوم اور نجی بیرونی ڈونرز کی جانب سے غیر سرکاری ذرائع کو عطیات کی
فراہمی بہ شمول تینوں مسلح افواج کی جانب سے بے مثال امدادی کاموں سے امید
کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی دوبارہ تعمیر ہوگی۔ اس ضمن میں راشد جیسے لوگوں کو کسی قسم کا
کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ سیلاب کو ”خوابِ
غفلت سے بیداری ہونے“ کے لیے ایک گھنٹی تصور کرتے ہیں، تاکہ حکومت اور
ریاستی اداروں کی تنظیمِ نو اور اصلاحات کی جائیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ
سیلاب سے تباہی ایک نئی سیاسی بیداری کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ہمیں اپنے اس
مقصد کے حصول کے لیے جو چیلنج درپیش ہے وہ یہ کہ تبدیلی جمہوریت کو مستحکم
اور نوآبادیاتی نظام کو قبول نہ کرتے ہوئے لانی ہے۔
ہمیں ایسی تبدیلی کی ضرورت نہیں جو امریکا چاہتا ہے۔ پاکستانی قوم کبھی بھی
نوآبادیاتی ریاست بننے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر
رکھنا ہوگا کہ امریکا پاکستانی میڈیا میں ڈالروں کے بھاری انجکشنز لگا کر
اور ملک بھر میں اپنے نجی اور سرکاری ایجنٹوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول
کے لیے نصف راستہ طے کرچکا ہے۔ ہمارے بعض حساس ہوائی اڈوں اور دیگر فوجی
تنصیبات پر امریکا کی حساس ایجنسیوں کے ایجنٹس سرائیت کرچکے ہیں۔ درحقیقت
پاکستان میں امریکی موجودگی کی حقیقی صورتِ حال کا علم نہیں تاہم یہ ہر جگہ
محسوس اور دیکھی جاسکتی ہے۔
احمد راشد جو کچھ چاہتا ہے وہ امریکی و مغربی منصوبہ پر قانونی طور پر عمل
درآمد ہے۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک پر غلبے کے
خواہش مند ملک کے نامیاتی دانش ور کی حیثیت سے احمد راشد کو تو اپنا کردار
ادا ہی کرنا ہے۔ تاہم پاکستانی ملک کے خلاف ان سازشوں کو دیکھتے ہوئے خوابِ
غفلت سے کب جاگیں گے۔ |