سید افتخار الحق ایک کرشماتی شخصیت ہیں۔ماہر تعلیم
ہیں۔پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے ممبر ہیں۔ پنجاب سیکرٹریٹ لاہور میں خدمات سرانجام
دے چکے ہیں۔گریڈ 19 کے آفیسر ہیں،بیوروکریسی کی پراسراریت سے واقف
ہیں۔صوبائی محتسب میں محکمانہ کیسسز کو ڈیل کرتے ہیں۔دیانتدار،مخلص،مصمم
ارادہ رکھنے والے ہیں۔تعلیم یافتہ،محنتی لوگوں کے قدردان ہیں۔ چند روز پہلے
ان سے ایک مجلس ہوئی۔مجکس کے احوال قارئین کی نذر ہیں۔
س:شاہ صاحب! پہلے تو اپنے پس منظر کے بارے بتائیے؟
ج:میں 1965ء میں مغل پورہ لاہور پیدا ہوا،اس وقت تاریخ پیدائش کا ریکارڈ
رکھنے کا رواج نہ تھا،اسی وجہ سے سن تو حتمی ہے،لیکن مہینہ اور تاریخ سکول
کے ماسٹر صاحب کی صوابدید پر ہے۔
س:لاہور میں بچپن کیسے گزرا؟
ج:تین سال کا تھا تو والد محترم انتقال فرما گئے۔تلخ زندگی کو بوجھ ماں کے
ناتواں کاندھوں پر آن پڑا۔ظالم معاشرے کی ریت کے مطابق اپنوں کے بھیس میں
بیگانوں نے والد کی زمین جعل سازی سے ہتھیا لی۔والدہ نے محنت مشقت سے
پڑھایا۔پتہ ہی نہ چلا بچن گلیوں میں کھیلتے کودتے گزر گیا ،اور ہم جوانی کی
دہلیز پر آکھڑے ہوئے۔
س: تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج:عینک درست کرتے ہوئے، میٹرک مغل پورہ ہائی سکول سے ہی کیا۔جی سی کالج سے
ایف ایس سی،بی ایس سی کیا۔چونکہ جغرافیہ سے لگاؤ تھا،پنجاب یونیورسٹی لاہور
سے ایم ایس سی جغرافیہ کیا۔بی ایڈ ،ایم ایڈ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی
اسلام آباد سے کیا ۔
س:ملازمت کیسے حاصل کی،اور کہاں کہاں ملک و ملت کی خدمات کیں؟
ج:ہنس کر،جاب تو الحمد للہ میرٹ پر ہی ہوئی۔البتہ جاب سے پہلے عمومی سوچ
یہی تھی کہ سرکاری ملازمت بغیر سفارش کے نہیں ملتی،لیکن اب یقین ہوچکا ہے
کہ اگر جذبہ،ہمت ،ٹیلنٹ ہوتو ساری زندگی کسی بھی معاملے میں سفارش کی ضرورت
نہیں پڑتی۔پنجاب سیکرٹریٹ میں بطور سیکشن آفیسر دس سال کام کیا ہے۔اس کے
بعد ہائر سکینڈری سکول ماڈل ٹاؤن لاہور میں بطور سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ
پڑھایا ہے۔پانچ سال ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ لاہور میں بطور ماسٹر
ٹرینر بھی کام کیا ہے۔پنجاب ٹیکسٹ بورڈ ممبر ہونے کی حیثیت سے پورے پنجاب
میں چھٹی جماعت میں جغرافیہ کی جو کتاب پڑھائی جارہی ہے،وہ میری ہی تحریر
کردہ ہے۔اب بطور پرنسپل ادارہ ھذا میں اساتذہ و طلباء کی خدمت کررہا ہوں۔
س:شاہ صاحب!دو ہزار طلباء،پچاس اساتذہ،پندرہ درجہ چہارم ملازمین،اتنا بڑا
نظام اکیلے کیسے چلا لیتے ہیں؟
ج: سنجیدگی سے،دراصل اللہ جتنا بڑا عہدہ دیتے ہیں ،اتنا ہی بڑا حوصلہ بھی
عطاء فرما دیتے ہیں۔میں نے سب اساتذہ،ملازمین کو اپنے اپنے دائرہ کار میں
رہ کر کام کرنے کا پابند کیا ہوا ہے۔کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہیں
کرتا۔ہر شعبے کے کمیٹیاں تشکیل دی ہوئی ہیں۔ان کمیٹیوں کی رپورٹ خودیتا
ہوں،نگرانی خود کرتا ہوں،الحمد للہ بہترین نظام چل رہا ہے۔
س:زندگی کا کوئی واقعہ جس میں سیاسی مداخلت ہوئی ہو؟
ج: مسکرا کر،ویسے تو الحمد للہ اللہ تعالی نے اتنا حوصلہ دیا ہوا کہ کسی
دباؤ میں نہیں آتا،لیکن سیاستدانوں سے معاملات حکمت عملی سے حل کر لیتا
ہوں۔ ایک بار درجہ چہارم کے ملازمین کی بھرتی کے لئے بنائی گئی کمیٹی کا
مجھے سربراہ بنا دیا گیا۔درجہ چہارم کے لیے کوئی خاص میرٹ نہیں ہوتا۔پہلے
بھرتیاں بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی تھی۔ایک امیدوار آیا،اس کے کاغذات کمیٹی
نے چیک کئے،بوگس پاکر میرے پاس بھیج دیا ،میں نے کہا کہ آپ کا سکول چھوڑنے
کا آٹھویں کا سرٹیفکیٹ آپ کی پیدائش کے سن سے دو سال بعد کا ہے۔ آپ کیسے دو
سال ہی میں پوری آٹھ کلاسیں پاس کر گئے،جبکہ بچہ دو سال میں بڑی مشکل سے
بولنا شروع کرتا ہے۔لہذا ہم آپ کو جاب نہیں دے سکتے۔اگلے دن صوبائی وزیر کا
فون آگیا،کہنے لگے سب میں سنبھال لوں گا آپ بس آرڈر کریں،ایک گھنٹہ میں
انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اڑے رہے۔میں ان سے عرض کی جناب آپ
اسمبلی سے قانون پاس کروادیں کہ دوسال کے بچے کو جاب پر رکھا جاسکتا ہے تو
مجھے آرڈر کرنے میں کو ئی حرج نہ ہوگا۔کال کٹ گئی۔دوبارہ پھر کال نہیں آئی۔
س:ہمارا نظام تعلیم روز بروز زوال پزیر ہورہا ہے ،اس کو بہتر کیسے کیا
جاسکتا ہے؟
ج: دراصل ہم انگریز سے جسمانی طور پر تو آزاد ہوگئے ،لیکن ذہنی طور پر آج
بھی ہم غلام ہیں۔کوئی بھی قوم غیر ملکی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی نہیں
کرسکتی۔پرائمری تک اردو میڈیم،میڈل،ہائی کلاسسز انگلش میڈیم،اور ایف ایس سی
انگریزی میڈیم"ادھا تیتر آدھا بٹیر" والا نظام ہے.پالیسی ساز حقیقت پر مبنی
پالیسیاں بناتے نہیں۔جب بھی کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے،فارن تعلیم یافتہ
لوگ بناتے ہیں ان کو ہمارے ماحول کی ابجد تک معلوم نہیں ہوتا،نتیجہ وہ
فائلوں میں رہ جاتی ہیں۔مارکیٹ میں درجنوں قسم کے نصاب ہیں جس کی وجہ سے
معاشرے میں طبقاتی نظام پروان چڑھ رہا ہے۔نصاب پورے ملک میں یکساں
ہو۔امتحانی نظام ایک جیسا ہو۔پالیسی سازوں میں مقامی ماہر تعلیم شامل
ہوں۔نصاب تعلم پاکستانی ماہرین سے تیار کروایا جائے۔ پرائیویٹ سکول سیکٹر
کی حوصلہ شکنی کی جائے۔غربت میں کمی جائے۔کیونکہ زیادہ تر سکول چھوڑنے کی
وجہ غربت ہوتی ہے۔فنی تعلیم کے ادارے بنائے جائیں۔گرلز سکولز کو اپ گریڈ
کیا جائے،اساتذہ کو ٹرینڈ کیا جائے۔
شاہ صاحب آپ نے اپنے قیمتی سے ہمارے لیے وقت نکالا، آپ کا بہت شکریہ۔
انٹرویو کنندہ۔ اقبال نور
الہ آباد، قصور
|