رام راجیہ اور راون راجیہ کی چکی میں پستا اتر پردیش

یوگی ادیتیہ ناتھ کا دماغی توازن ویسے ہی مشکوک ہے اور جب بھی اس میں سدھارکے آثار دکھائی دیتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی نئی حماقت کرکےساری غلط فہمی دورفرمادیتے ہیں۔ ابھی حال میں یوگی حکومت نے اتر پردیش اسپیشل سیکورٹی فورس کی تشکیل سے متعلق ایک عجیب و غریب حکمنامہ جاری کر دیا ۔ اس نوٹیفکیشن کےمطابق یو پی ایس ایس ایف کو بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور تلاشی کا اختیار مل گیا ہے۔ اس طرح اتر پردیش کے اندھیر نگری چوپٹ راج میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کرکے انہیں عدالتی تحفظ سے محروم کردیا گیا ہے۔ یو پی ایس ایس ایف کے پاس الٰہ آباد ہائی کورٹ، لکھنؤ ڈویژن، ضلع عدالتوں، ریاستی حکومت کے اہم انتظامی دفاتر، عباتگاہوں ، میٹرو ریل، ہوائی اڈوں، بینکوں ، مالیاتی اداروں اور صنعتی اداروں کے تحفظ کی ذمہ داری ہوگی۔ حد تو یہ ہے کہ نجی ادارے بھی ادائیگی کر کے یو پی ایس ایس ایف کی خدمات لے سکیں گی۔ آنند نرائن ملا تو پہلے ہی بے اختیار پولس کو ملک کا سب سے منظم مافیا کہہ چکے ہیں اب ان اختیارات کے بعد وہ کیا کہرام مچائے گی کہنا مشکل ہے۔ یوگی جی یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار مستقل نہیں رہتا آگے چل کر یہی یو پی ایس ایس ایف خود ان کو کتنا رلائے گی اس کا بھی اندازہ کرلیں تو اس میں ان کی بھلائی ہے۔
سیاست میں انسانی حکمت کے علاوہ حالات بھی بڑا کردار عطا کرتے ہیں ۔فی الحال بی جے پی کے تئیں عوامی بیزاری اور خاص طور پر برہمن سماج کے اندر پائی جانے والی بے چینی کانگریس کے لیے نعمتِ غیر مرتقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کے بعد اتر پردیش کے برہمن سماج میں حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بیچ اتر پردیش کے ضلع بلیا کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ ویریندر سنگھ مست نے اپنی ہی پارٹی کے رکن اسمبلی وجے مشرا کو یہ دھمکی دے دی کہ اگر ان کے عزت نفس پر بات آئے گی تو وہ خود ہی ٹھوک دیں گے۔کچھ دن پہلے وجے مشرا نے ویریندر سنگھ پر الزام لگایا تھاکہ وہ اور دوسرے ٹھاکر رہنما ان کا قتل کرانا چاہتے ہیں۔لکھیم پور کھیری سے تین مرتبہ کے آزاد رکن اسمبلی73 سالہ نیویندر مشرا کو زمینی تنازعہ کے بعدپولس کے سامنے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیاگیا۔ پٹائی کرنے والے مجرمین کو دیہاتیوں نے پکڑ لیا مگریو پی پولیس کے سی او کلدیپ ککریتی نےمجرموں کو آزاد کرنے کے لئے گھر کی عورتوں کو زدو کوب کیا اور قاتلوں کولےکر چلے گئے۔

عام آدمی پارٹی کے سوربھ بھاردواج کے مطابق اترپردیش میں برہمن ہونا کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ ہر دوسرے دن مرنے والا مشرا ، دوبے ، پانڈے، شرما یا واجپائی ہوتا ہے۔بھاردواج نے الزام لگایا کہ اتر پردیش میں انتظامیہ پر ٹھاکروں کا غلبہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے یوگی جی کے دور حکومت میں، برہمنوں اور دلتوں کو مسلسل مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔سوربھ بھاردواج نے 14 جولائی 2020 کو ایک نیوز پورٹل کے حوالے سے کہا کہ پچھلے 11 دنوں میں 23 برہمنوں کو قتل کیا گیا ۔ پچھلے 2 سالوں میں کم از کم 500 برہمنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی انفرادی انکاونٹر اور اجتماعی قتل کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اترپردیش میں ہر دوسرا قتل یا تو دلت بھائی کا ہوا ہوتا ہے یا برہمن بھائی کا۔ ایسا لگتا ہے کہ یوگی راج کے اندر ٹھاکروں کے علاوہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں کے نام سے ڈر لگتا ہے ورنہ وہی سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔

اترپردیش کوسن 2000ء میں تقسیم کردیا گیا اس کے باوجود وہ آج بھی آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سےکثیر آبادی والا صوبہ ہے ۔ اس صوبے میں ہندوستان کے سب سے زیادہ برہمن بستے ہیں اور انہوں نے ہی پہلے چالیس سالوں میں سب زیادہ مدت حکومت کی ۔ اس کے بعد جب اٹل جی نے محسوس کیا کہ اب ان کے اقتدار میں آنے کا موقع ختم ہوگیا ہے تو انہوں نےاتراکھنڈ کو الگ کردیا ۔ فی الحال اترپردیش میں برہمنوں کی تعداد 12فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے لیکن کئی حلقۂ انتخاب میں وہ ۲۰ فیصد سے زیادہ ہیں۔ ان کے علاوہ بی جے پی کےمنظور نظر راجپوت ۷ تا ۸ فیصد ہیں ۔ پسماندہ ۴۰ فیصد دلت ۲۱ فیصد اور مسلمان ۱۹ فیصد ہیں ۔ اتر اکھنڈ کو الگ کیا گیا تو وہاں برہمنوں کی آبادی کا تناسب ۲۰ فیصد ہوگیا ۔ اتر پردیش کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر 2014میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑودہ کے علاوہ مرلی منوہر جوشی کا پتہ کاٹ کر وارانسی سے انتخاب لڑا ۔ دونوں مقامات سے کامیابی درج کرانے کے بعد وارانسی کے بجائے اپنے آبائی صوبے کے بڑودہ کو چھوڑ دیا۔

اترپردیش میں آزادی سے قبل (جبکہ وہ یونائیٹید پروونس ہوا کرتا تھا) 1937 میں جب پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی بنی تو ایک آزاد امیدوار محمد احمد خان چھتاری وزیر اعلیٰ بنے لیکن چار ماہ بعد ان کی جگہ کا نگریس کے قدآور برہمن رہنما گووند ولبھ پنت نے لے لی اور سن 1954 تک وقفہ وقفہ سے وہ چار مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے ۔ ان کے بعد 1989تک کئی برہمن کانگریسیوں کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا مثلاً سمپورنانند، سچیتا کرپلانی، کملاپتی ترپاٹھی ،سری پت مشرا، ہیموتی نندن بہوگنااور این ڈی تیواری ۔ کانگریس نے درمیان میں تین راجپوت رہنما تربھون نرائن سنگھ ، وی پی سنگھ اور ویر بہادر سنگھ کو بھی موقع دیا اور چندرا بھانو گپتا نامی بنیا کو بھی دو بارآزمایا۔ اس وقت کانگریس کے ساتھ برہمن ، مسلمان اور دلت ہوا کرتے تھے ۔ کانگریس کے اقتدار کو رام منوہر لوہیا کی قیادت میں پسماندہ طبقات کے رہنماوں نے چیلنج کیا اور وہ جب اقتدار میں آئے کسی برہمن کو اقتدار کے قریب پھٹکنے نہیں دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے بھی کبھی کسی برہمن کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا۔ اس نے پسماندہ طبقات میں سے کلیان سنگھ اور پھر راجپوت راجناتھ سنگھ اورآنند کمار بشٹ عرف یوگی ادیتیہ کو زیر اعلیٰ بنایا ۔ اب تو یہ حال ہے کہ اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی نے ایک راجپوت کو وزیر اعلیٰ بنارکھا ہے۔

کانگریس نے اترپردیش میں پسماندہ طبقات کو نظر انداز کرنے کی قیمت چکائی مگر اس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب کانشی رام نے دلتوں کو بی ایس پی کے جھنڈے تلے الگ کرلیا۔ اسی زمانے میں بابری مسجد کے مسئلہ پر راجیو گاندھی نے تالے کھلوانے کے بعد شیلانیاس کروایا اور نرسمھا راو نے مسجد شہید کروائی تو مسلمان پوری طرح سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہوگئے کیونکہ ملائم سنگھ نے کارسیوکوں پر گولی چلوائی تھی۔ اس طرح مسلمانوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اورکا نگریس یتیم ہوگئی ۔ پچھلے ۳۱ سالوں میں اسے ایک بھی مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا اور نہ کسی برہمن کو وزیر اعلیٰ بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دوران مسلمانوں کا سیاسی لائحۂ عمل تو طے تھا ۔ وہ ہر مقام پر بی جے پی کو ہرانے کی سکت رکھنے والے امیدوار کو کامیاب کرنے کی کوشش میں بیشتر مقامات پر ایس پی یا بی ایس پی کی حمایت کرتے تھے ۔ مسلمان جس طرح بی جے پی سے دور رہے اسی طرح برہمنوں نے سماجوادی پارٹی سے فاصلہ بنائے رکھا۔ برہمن اقتدار کی امید میں و قوتاً فوقتاً کانگریس ، بی جے پی یا بی ایس پی کا رخ کرتے رہے۔

حال میں اتر پردیش کے اندر برہمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا کھیل کی ابتدا کانگریس کے سابق مرکزی وزیر جتن پرشاد نے جولائی کے پہلے ہفتہ میں برہمن چیتنا سنواد(بیداری مہم) سے کی ۔ ان کے مطابق چونکہ ہر روز یوگی حکومت برہمنوں کاناحق خون بہا رہی ہے اس لیے برہمن سماج کو اپنے آپسی اختلافات کو مٹا کرریاستی حکومت کے خلاف متحد ہوجانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس مقصد کے لیے پرساد نے ہر ضلع میں اپنی ذات کے رہنماوں سے رابطہ قائم کیا۔یوں تووہ برہمنوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کو مجسمے نصب کرنے سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں لیکن ان کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے پرشورام جینتی کی چھٹی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ۔ برہما سینا کے کانگریسی رہنما سویم پرکاش گوسوامی نے بھی وکاس دوبے کے ساتھ ۵ برہمن نوجوانوں کے انکاونٹر پر تنقید کی ۔ راجیش مشرا بھی برہمن خاندانوں کا دکھ درد سننے لگے ۔ کل ہند برہمن مہاسبھا(ر) کے صدر راجندر ناتھ ترپاٹھی نے گزشتہ ۲ سالوں میں یوگی انتظامیہ کے ہاتھوں مارے جانے والے ۵۰۰ لوگوں کے نام شائع کرکے معاملہ گرما دیا اور اب توبی جے پی کے برہمن رہنما بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ انکاونٹر سے قبل وکاس کا کوئی حامی نہیں تھا لیکن اب لوگوں میں غم و غصہ ہے اور آئندہ ریاستی انتخاب سے پہلے اس کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔

اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے پہلی مرتبہ ایس پی کے ابھیشیک مشرا کھل کر میدان میں آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ سماجوادی پارٹی کے ذریعہ پرشورام جینتی کی چھٹی دیئے جانے کو ختم کرنے پر بی جے پی پر تنقید کی ۔ وہ مایا وتی سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے پرشوررام کا مجسمہ کیوں نصبنہیں کیا؟ ویسے ابھیشیک کو بھی یہ بتانا پڑے گا اب 108فٹ کا مجسمہ بنانے والے اکھلیش کو اپنے زمانے میں اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟ سماجوادی پارٹی کے پون پانڈے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’تلک ترازو اور تلوار کا نعرہ لگانے والوں کو برہمنوں کی یاد کیوں آرہی ہے؟اب برہمنوں نے پرشورام کے وارث کرشنا(یادو) کے ساتھ جانے کا من بنالیا ہے۔ کسی سماجوادی لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع لوہیا تو دور ملائم نے بھی نہیں کی ہوگی ۔اس پر بی جے پی کے ہندوتوانواز رہنما بھی شرمندہ ہوں گے۔

اس ملک میں ذات پات کی تفریق ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ناممکن ہے۔ بی جے پی تمام تر قوم پرستی کے باوجود ٹکٹ دیتے وقت ذات پات کا خاص رکھتی ہے۔ اس جوڑ توڑ کو اس نے سوشیل انجنیرنگ کا خوبصورت نام دے رکھا ہے ۔کانگریس برہمن ، مسلمان اور دلتوں کو ساتھ لینا چاہتی ہے جبکہ سماجوادی پارٹی اس بار یادو کے علاوہ کرمی ، مسلمان اور برہمن رائے دہندگان پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں ۔ اس چھینا جھپٹی کا نہ صرف2022کے صوبائی بلکہ 2024 کے قومی انتخاب پر بھی اثر پڑے گا۔ حزب اختلاف کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے منوج مشرا کہتے ہیں کہ یوگی سرکار میں چیف سکریٹری، ہوم سکریٹری ، ڈی جی پی اور ایک نائب وزیر اعلیٰ برہمن ہے اس لیے یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی بدولت اترپردیش میں نظم و نسق کا نظام پوری طرح چرمرا گیا ہے۔

اس کی دو مثالیں ابھی حال میں سامنے آئیں جس نے ثابت کردیا کہ وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کی فرضی مڈبھیڑ میں قتل کے باوجود جرائم پیشہ افراد میں خوف ندارد ہے ورنہ کانپور کی مانند کوشامبی کے کچھوا گاؤں میں چور کو پکڑنے کی خاطر چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم پرحملہ نہ ہوتا ۔اس حملے میں ایک سپاہی سمیت داروغہ زخمی ہو گیا۔ واردات کی تفصیل نہایت دلچسپ ہے۔ پولیس ٹیم نے جب سنتو نامی نوجوان کو حراست میں لیا، تو نوجوان کی ماں اور کئی دیگر خواتین نےان پر اینٹ پتھروں اور لاٹھی ڈنڈوں سے دھاوا بول دیا۔ اس ہنگامہ کا فائدہ اٹھانے والے حملہ آور داروغہ کا سروس ریوالور چھین کر فرار ہو گئے ۔ پولیس اہلکاروں نے جان بچا بھاگنے میں عافیت سمجھی ۔ آگے چل کر پستول برآمد کرنے کے بعد حملہ آوروں پر این ایس اے لگا دیا گیا لیکن جو لوگ انکاونٹر سے نہیں ڈرے ان پر این ایس اے کا بھلاکیا اثر ہوگا؟

اس سے بھی زیادہ بھیانک واقعہ علی گڑھ کی اگلاس سیٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی راج کمار سہیوگی (یعنی معاون) کے ساتھ پیش آیا۔ وہ پولس تھانے اس لیے گئے کیونکہ ایس او نےکسی معاملہ میں پیسہ لے کر کارروائی کردی تھی ۔ بات چیت کے دوران تین داروغہان پر پل پڑے اور کپڑے پھاڑ دئیے۔ اس کےبعد نامہ نگاروں کے سامنے گہار لگاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم انصاف چاہتے ہیں۔ عوام اور کارکنان کے ساتھ انصاف ہوگا تبھی ہم مانیں گے ۔‘‘برسر اقتدار جماعت کا رکن اسمبلی اگر پولیس افسر پر پیسہ لے کر کارروائی کرنے کا الزام عائد کرے توریاستی حکومت اپنے آپ کٹہرے میں کھڑی ہوجاتی ہے۔راجکمار سے قبل ہردوئی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان جے پرکاش راوت نے کہا تھا کہ عوامی نمائندوں نےپچھلے تیس سال میں کبھی ایسی بے بسی محسوس نہیں کی جیسی اب کررہے ہیں ۔ جس ریاست میں برسرِ اقتدار جماعت کے منتخب شدہ عوامی رہنماوں کی یہ درگت ہے وہاں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ رام راجیہ تو راون راجیہ کسے کہتے ہیں؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.