گجر پورہ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے بعد اگر ہماری
ایجنسیاں پولیس کی مدد نہ کرتی تو شائد ابھی تک کوئی ایک مجرم بھی نہ پکڑا
جاسکتا یہ تو بھلا ہو آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا جنکی
کاوشوں سے ملزمان پکڑے جارہے ہیں جو خود کسی بھی قسم کاکریڈٹ لینے کی بجائے
پولیس اور دوسرے اداروں کو دے رہے ہیں پولیس افسران میڈیا کے سامنے سینہ
پھیلائے جب اپنے کارنامے گنوا رہے ہوتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ کیسی
ڈھٹائی ہے ان کے اندر کسی اور کی محنت کو اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں یہ
لوگ اپنی ناک کے نیچے منشیات فروشوں ،جواریوں اور نوسربازوں کو تو گرفتار
نہیں کرسکتے اور لگے ہیں بڑے بڑے دعوے کرنے پورے ملک کو چھوڑیں آپ صرف
اسلام آباد ،لاہور ،کراچی،پشاور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں کو دیکھ لیں یہ
وہ شہر ہیں جنہیں شہر اقتدار کہا جاتا ہیں جہاں عوام کے منتخب وزیراعظم
،منتخب وزرائے اعلی،وزیروں کی فوج چیف سیکریٹری اور آئی جی سے لیکر ہر اعلی
عہدیدار موجود ہے ان شہروں کی کونسی گلی ،کونسا محلہ اور کونسا علاقہ
منشیات فروشوں سے محفوظ ہے چرس سے لیکر آئس تک ہر چیز سرے عام فروخت ہورہی
ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس اسٹیشن کی دیوار وں کے سائے میں منشیات
فروخت ہوتی ہے اور پی بھی جاتی ہے یہ شہر اقتدار ہیں اور ہمارے پسماندہ
علاقوں کی کیا صورتحال ہوگی اس کا اندازہ آپ لوگ خود ہی لگا لیں آجکل چونکہ
گجر پورہ بہت مشہور ہوچکا ہے کچھ اسی علاقے کی بات بھی ہوجائے کہ جرائم کی
دنیا میں اس علاقے کی اپنی ایک الگ ہی پہچان ہے جعل سازی یہاں عام ہے کسی
بھی برانڈ کی دو نمبر چیز یہاں سے باآسانی مل جاتی ہے جعلی موبل آئل ،جعلی
شراب ،جعلی چرس ،جعلی کاسمیٹکس،جعلی اشیاء خردونوش ،جعلی ادویات ،قبضہ گروپ
،ڈکیت گینگ ،بھتہ مافیا اور ناجانے کیا کیا اس علاقے میں ہورہا ہے اور یہ
سب کچھ پولیس تھانہ گجر پورہ کو معلوم نہیں کیوں؟ کیونکہ پولیس کو سوائے
رشوت خوری کے اور کوئی کام آتا ہی نہیں اپنی تعیناتیوں کے لیے سفارش اور
شوت سے کام لیتے ہیں سیاستدانوں کی خوش آمد میں مصروف رہتے ہیں اور شریف
شہریوں کو تنگ کرنے کے سوا کوئی اور کام انہیں آتاہی نہیں اگر کوئی کام
پولیس والوں کے لیے درد سر بن جائے تو پھر انکی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی
طریقہ سے فریقین کے درمیان راضی نامہ کروادیں یا پھر مثل میں ایسی باتیں
لکھ دیں جس سے کیس کمزور ہوجائے کیس کمزور کیوں نہ ہو تفتیشی افسران لکھ
نہیں سکتے اس کام کے لیے انہوں نے کرایہ پر بندے رکھے ہوئے ہیں انکی مرضی
ہے جو چاہیں لکھ دیں اور وہی پولیس کے لیے ٹاؤٹ کا کام بھی کرتے ہیں موٹروے
پر خاتون کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ میڈیا پر زندہ ہے اگر ہائی لائٹ نہ
ہوتا تو پولیس نے اس ایشو پر ہر روز لاکھوں کی دیہاڑیاں لگانا تھی درجنوں
افراد شک وشبہ میں پکڑے جانے تھے اور پھر مک مکا کے بعد چھوڑ دیے جاتے اس
نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے قانون بنانے والوں اور قانون نافذ کرنے
والوں کے ذہنوں کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہم باتوں سے نکل ہر عمل کی
طرف آئیں اور خاص کر جنسی زیادتی کے مجرموں کے لئے نہ راضی نامہ ہونا چاہیے
نہ جرگہ ہونا چاہئے،ایک ایسی مربوط قسم کی قانون سازی کی جائے کہ اس طرح کا
گھناؤنا فعل کرنے والا کوئی مجرم نہ بچ سکے، حکومت کومدعی بننا چاہیئے یہ
سیاسی ایشو نہیں یہ معاشرے کا ایشو ہے،موٹروے واقعہ نے پاکستان کو ہلا کر
رکھ دیا، وزیر اعظم چاروں چیف منسٹرز کو بلائیں، سی سی آئی کے فورم پر اس
معاملے کو لے کر جائیں کہ ان واقعات کو روکنے کے لیئے صوبے اور وفاق مل کر
کیا قانون سازی کر سکتے ہیں اور کیا قانون سازی فوری طور پر ہونی چاہیئے؟
اگر پھانسیاں دینے سے معاملہ حل ہوتا تویہ معاملہ آسان تھا ، حل صرف یہ ہے
کہ نظام انصاف میں اصلاحات کی جائیں،ایسے واقعات پے درپے ہو رہے ہیں، ایک
مہینہ ہم ان واقعات کا ماتم کرتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں، ہر سال اوسطا
پاکستان میں 5 ہزار ریپ کے واقعات ہوتے ہیں، یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے
، بے شمار لوگ یہ کیسز رجسٹر ہی نہیں کراتے،اس واقعہ کو بھی حسب سابق سیاسی
جماعتوں نے سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کیا گذشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس
میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فو اد چوہدری نے کہا کہ جو
سانحہ ہوا ، بلاشبہ اس نے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، ایسے واقعات پے
در پے ہو رہے ہیں عابد ملزم کے بارے میں کہا رہا ہے کہ وہ پہلے بھی ریپ کیس
میں پکڑا گیا مگر صلح ہو گئی، اگر پھانسیاں دینے سے معاملہ حل ہوتا تویہ
معاملہ آسان تھا ، زینب کے کیس میں کیس دو ہفتے بھی نہیں چلا مجرم کو
پھانسی ہوئی حل صرف یہ ہے کہ نظام انصاف میں اصلاحات کی جائیں ، اصلاحات کی
ضرورت ہے، عورتوں کا دکھ عورت ہی سمجھ سکتی ہے،جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی
مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ قرآن و سنت کے مطابق قانون رجم بنایا
جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے ، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء راجہ
پرویز اشرف نے کہا کہ ایک ایسی مربوط قسم کی قانون سازی کریں کہ کہ اس ملک
میں اس طرح کا گھناؤنا فعل کرنے والا کوئی مجرم نہ بچ سکے، وزیر مملکت
برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ اتنا تکلیف دہ واقعہ ہوا ہے،اس
واقعہ کو بھی سیاسی جماعتوں نے سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کیا، کہا گیا
کہ یہ جس موٹروے پر یہ واقعہ ہوا ہے وہ ہمارے لیڈر نے بنایا تھا، زرتاج گل
نے کہا کہ خواتین کا برابرا کا حق ہے کہ ان کو یہاں بولنے دیاجائے، ہمیں
قومی آگاہی مہم چلانی چاہیئے، خواتین کی ملازمت کی سکیورٹی کا مسئلہ ہوتا
ہے ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ لوگ تنگ
آجاتے ہیں عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے غریب لوگ ہوتے ہیں دباؤ میں آجاتے
ہیں، مجبورا راضی نامہ کر لیتے ہیں ، ان حیوانوں کے لیئے نہ راضی نامہ ہونا
چاہیئے نہ جرگہ ہونا چاہیئے ، رکن اسمبلی غوث بخش خان مہر نے کہا کہ پولیس
پیٹرولنگ رات کو بھی سڑکوں پر ہونی چاہیے ، شرعی سزا دینی چاہیئے، رکن
اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ حکومت کومدعی بننا چاہیئے یہ سیاسی ایشو
نہیں یہ معاشرے کا ایشو ہے، سب کو سر جوڑ کر ون پوائنٹ ایجنڈا پربیٹھنا ہو
گاقانون میں ترمیم کرنی ہو گی ، ہم ہر جگہ آواز اٹھائیں گے ، ہزاروں ریپ
کیس ہوتے ہیں،ہمیں اپنے قانون کو مضبوط کرنا ہے، رکن اسمبلی صابر حسین قائم
خانی نے کہا کہ ان واقعات کو روکنے کے لیئے کب اقدامات کریں گے، ایسی
سزائیں تجویز کریں کہ مجرم عبرت کا نشان بن کر رہے، جو بھی قانون بنے اس پر
عملدرآمد ہوتا نظر آنا چاہیئے، اب وقت سیاست کا نہیں ہے،رکن اسمبلی حنا
ربانی کھر نے کہا کہ واقعہ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ،رکن اسمبلی محسن
داوڑ نے کہاکہ جو واقعہ ہوا موٹروے پر اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے،
قوانین موجود ہیں،کنوکشن ریٹ کوبڑھانا ہو گا۔ یہ تو تھیں عوامی نمائندوں کی
باتیں جو سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہیں کرتے اگر کچھ کرتے ہیں تو صرف
باتیں اور انہی باتوں کی بدولت وہ عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرتے
ہیں یہ نگہبان ہیں عوام کے مگرعوام کو بے یارو مددگار چھوڑا ہوا ہے ہماری
پولیس اور ہمارے ادارے لوٹ مار میں ملوث ہیں تھانوں کا نظام بدمعاش ،رسہ
گیر ،منشیات فروش اور جواری چلا رہے ہیں اور ان سب نوسربازوں کی سرپرستی
ہمارے سیاستدان کرتے ہیں اس لیے فواد چوہدری کی باتوں کو سنجیدہ لیں اور
سوچیں۔
|