تحریر:ظفر منصور
حضرت بابا بُلّھے شاہ ؒ کی دھرتی قصور ایک قدیم اور مردم خیز خطہ ہے ٗجہاں
تاریخ کے مختلف ادوار میں کم و بیش ہر شعبہ ہائے زندگی میں ملکی اور بین
الاقوامی سطح کی نامور شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں ٗ جنہوں نے نہ صرف اپنے
شہر ٗاپنی جنم بھومی قصور کا نام روشن کیا ٗ بلکہ خود بھی اپنے بے پناہ اور
قابلِ قدر کارہائے نمایاں کی بدولت تاریخ کے تابندہ اور اَنمٹ صفحات پر
ہمیشہ کے لیے زندہ و پائندہ ہو گئے۔ انہیں میں ایک نا مِ نامی قصور شہر کے
ایک مایہ ناز اورقابلِ فخر سپوت ممتاز ادیب ٗ نقاد ٗمحقق ٗمؤلف ٗ مدرس اور
تاریخ دان ڈاکٹر محمد ریاض انجم المعروف بابائے قصور کا ہے ٗ جن کا شمار سر
ز مینِ قصور کے ان روشن ستاروں میں ہوتا ہے ٗ جن کے باعث مطلع قصور علمی ٗ
ادبی رنگ و نور سے مزین ہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم عہدِموجود میں قصور کی اس
عظیم علمی ٗ ادبی روایت کا تسلسل ہیں ٗجس کا آغاز عظیم صوفی شاعر حضرت بابا
بُلّھے شاہ ؒ سے ہوتا ہے اور جس کے باعث اس دھرتی پر علم وادب کے لازوال
دِیئے ہمیشہ روشن رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم 1976 میں بستی چراغ شاہ قصور میں پیدا ہوئے۔ ان کے
آباواجداد تقیسم ہند کے وقت فیروز پور انڈیا سے ہجرت کر کے قصور پاکستان
آئے اور پھر یہیں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ ان کے والد گرامی کا نام حاجی
محمد [1999....1923ء]تھا۔ محمد ریاض انجم کا رجحان بچپن سے ہی تعلیم کی طرف
تھا ٗاگرچہ ان کے بچپن میں اُن کے خاندان میں زیادہ پڑھے لکھے لوگ موجود
نہیں تھے ٗجو ان کی اس سلسلے میں مدد اور راہنمائی کرتے ٗ لیکن تعلیم کی
طرف اپنے طبعی رجحان کی وجہ سے انہوں نے شروع سے ہی انتہائی دلچسپی ٗ محنت
اور دلجمعی سے تعلیم حاصل کرنے کی طرف اپنی پوری توجہ مبذول رکھی اور یوں
بالآخر وہ تعلیم کے اعلیٰ مدارج کے حصول میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ابتدائی
تعلیم بستی چراغ شاہ قصور کی ملحقہ بستی کوٹ مرادخان [جائے پیدائش و مسکن
ملکہ ترنم نورجہاں] کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی ۔ اس کے بعد
گورنمنٹ ہائی سکول قصور سے میٹرک اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور سے ایف اے
اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے ٗایم اے اسلامیات ٗپنجابی اور ایم
اوایل پنجابی ٗسرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ اوراُردو ٗعلامہ اقبال
اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ ٗ ایم ایڈ اوراُردو میں ایم فِل کیا۔لاہور بورڈ
سے فاضل پنجابی اور اُردوکیا۔ علاوہ ازیں ہومیو پیتھک کونسل آف پاکستان سے
ہو میوپیتھک ڈاکٹر [چار سالہ کورس] کی ڈگری حاصل کی ٗ اسی دوران وہ شعبہ
تدریس سے منسلک ہو گئے۔ اِن دنوں وہ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول قصور میں
بطور ایس ایس ٹی[بی پی ایس :17]تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور پی ایچ
ڈی ریسرچ اسکالر ہیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی مطبوعہ کتب کا جائزہ لیا جائے ٗ تو محسوس ہوتا ہے
کہ وہ بہت سے عصری علوم و فنون پر حاوی ٗ مختلف النوع موضوعات پر لکھنے
والے ایک بلند پایہ قلمکار ہیں۔ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا ہے ٗ
اس کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی اب تک منصہ شہود پر
آنے والی مختلف موضوعات پر ڈیڑھ درجن سے زائدانتہائی معیاری کتب ہیں ٗجن کی
تعداد میں دِن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور جو تحقیق و تنقید اور تدوین و تالیف
اور تخلیقِ ادب میں اُن کی گہری دلچسپی ٗ لگن اور مسلسل محنت اور جدوجہد کا
بین ثبوت ہیں۔
ان کی پہلی تحقیقی تخلیق ’’ادبی تاریخ ضلع قصور‘‘ 2002ء میں چھپ کر منظر
عام پر آئی ٗ جسے قصور اور ملک کے سنجیدہ علمی ٗ ادبی حلقوں میں بے حد
سراہا گیا۔ بھارتی پنجاب اور دُنیا کے دیگر ممالک میں بھی مذکورہ کتاب کو
تحسین وآفریں سے نوازا گیا۔ پنجاب کی سطح پر حکومتِ پنجاب کے زیراہتمام
منعقدہ مقابلہ کتب میں کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد ریاض انجم کو 10,000روپے کے
حوصلہ افزائی انعام سے نوازا گیا اور یوں اپنی پہلی کتاب کی تصنیف کے ساتھ
ہی ڈاکٹر محمد ریاض انجم قلم کاروں کے معتبر قبیلہ میں شامل ہونے میں
کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ ان کی تحقیق و تدوین پر مبنی
اور تالیف کردہ مختلف موضوعات پر مطبوعہ کتب منظر عام پر آتی رہیں اور
قارئین اور علمی ادبی حلقوں سے دادِتحسین حاصل کرتی رہیں ٗ جن کی تفصیل کچھ
یوں ہے:
* ادبی ڈائرکٹری ضلع قصور [2003ء]
* قصر نام قصور ہے [2007ء]
* سیاسی تاریخ ضلع قصور [2009ء]
* ضلع قصور دے کتاب لیکھک [2010ء]
* قصور ماضی و حال [2015ء]
* برصغیر دیاں تحریکاں وچ قصور دا حصہ [2020ء]
* گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول قصور[تاریخ کے آئینے ] 2020ء
نوجوان ادیب محمد ساجد اپنے ایک مضمون بعنوان ’’قصور کا اِنسائیکلو پیڈ
یا.... ڈاکٹر محمد ریاض انجم‘‘ میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر محمد ریاض انجم مثبت طرز ِفکر اور مدبرانہ نقطہ نظر کے حامل انسان
ہیں۔ ضلع قصور پر تحقیق و تدوین کے حوالے سے وہ ایک اِنسائیکلو پیڈ یا کی
حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کے کام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جتنی تحقیق
انہوں نے تنِ تنہا کی ہے ٗاتنے تحقیقی کام کے لیے ایک پورے اِدارے کی ضرورت
ہوتی ہے اور ایک بڑے بجٹ کی بھی۔ بابا بُلّھے شاہ ؒ کی نگری کا شاید ہی
کوئی مضمون ٗموضوع یا حوالہ ایسا ہو ٗ جو اُن کی دسترس سے باہر رہ گیا ہو۔
قصور کی تاریخ ٗ تہذیب وتمدن ٗثقافت ٗ جغرافیہ ٗ سماجیات ٗعمرانیات نیز شہر
کے علما ء ٗ اساتذہ ٗ شعرا ٗ اُدبا ٗ تواریخ دان ٗسیاست دان ٗآزادی کے ہیرو
ٗغرض ہر شعبہ ہائے زندگی کو بڑی عرق ریزی سے صفحہ قرطاس پر رقم کردیا
ہے۔اُن کی ایک ایک کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے قصور کے
ماضی کو حال میں لا کر مستبقل کے لیے کھڑا کر دیا ہے ٗتاکہ کل کو ٗاگر کوئی
محقق قصور پر کام کرنا چاہے ٗتو اس کو مطبوعہ مواد آسانی سے میسر آ سکے۔
اُن کی تمام کتب ضلع قصور کے حوالے سے مستند اور معتبر شمار کی جاسکتی
ہیں‘‘۔
اسی دوران اُن کی ملاقات دو نابغہ روزگار ٗممتاز ادبی شخصیات پروفیسر مقصود
حسنی اورپروفیسرمحمد اکرام ہوشیار پوری صاحب سے ہوئی۔ 1994 ء میں اُن کی
ملاقات پروفیسر مقصود حسنی سے ہوئی اور یہ ملاقات وقت کے ساتھ ساتھ گہرے
علمی ٗ ادبی مراسم میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ پروفیسر مقصود حسنی غیر معمولی
صلاحیتوں کے مالک ٗ ایک ممتاز قلمکار تھے۔ معروف نقاد پروفیسر غلام شبیر
رانا اُن کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’بابا بُلّھے شاہ ؒ کی دھرتی قصور میں مقیم ادیان عالم ٗ فلسفہ ٗادب ٗفنون
لطیفہ ٗ تاریخ ٗ نفسیات ٗ علم بشریات اور لسانیات کا یگانہ روزگار فاضل
پروفیسر ڈاکٹر مقصود حسنی کسی تعارف کا محتاج نہیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم لکھتے ہیں کہ 1986 ء سے 1998ء کے دوران پروفیسر مقصود
حسنی کی اُنیس [19]کتب شائع ہوچکی تھیں۔ اس کے بعد وہ اِنٹرنیٹ کی دُنیا سے
وابستہ ہو گئے اور کئی ویب سائٹس پر اُن کے مضامین شائع ہوتے رہے۔راقم نے
اُن کی خواہش کے احترام میں ان کے منقطع کتابی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا‘‘۔
پروفیسر مقصود حسنی کی تخلیقات کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی تدوین
اور تالیف شدہ مندرجہ ذیل کتب منظرِ عام پر آئیں:
* زبا نِ غالب کا لسانی اور ساختیاتی مطالعہ
* خوشبو کے امین [مقصود حسنی کے نام شاعروں ٗ ادیبوں اور مشاہیر کے خطوط]
* مسٹر اُردو.... فانی مقصود حسنی [اسرارِ زیست ٗخدمات اور اعترافِ خدمات]
* مقصود حسنی کا افسانوی ادب
* مقصود حسنی کے مزاحیے
* جاپان کا لسانیاتی نظام اور بول چال
مندرجہ بالا تمام کتب کو پاکستان کے علمی ٗ ادبی حلقوں میں بے حد سراہا
گیا۔ اس سلسلے میں ملک کے شہرہ آفاق قلمکاروں نے ڈاکٹر محمد ریاض انجم کے
کام کو انتہائی معتبر قرار دیا۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری فرما تے ہیں :
’’ڈاکٹر محمد ریاض انجم شاباش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مقصود حسنی کے کام
کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ حسنی صاحب درویشی کی زندگی بسر کرتے ہوئے
مدتوں تک اُردو ادب پر کام کرتے رہے ہیں ٗمگر یہ وقیع کام اہل نظر تک شائع
ہو کر نہ پہنچ سکتا تھا۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اسے سلسلہ وار شائع کرنے
کا پروگرام بنایا ٗ چنانچہ سب سے پہلے ’’زبانِ غالب کا لسانی اور ساختیاتی
مطالعہ ‘‘شائع ہوئی۔ موقر اہلِ قلم نے اس کتاب کو تحسین کی نظر سے دیکھا
ہے‘‘۔
ڈاکٹر اختر شمار رقمطراز ہیں :
’’مقصود حسنی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ریاض انجم جیسا محنتی اور
ذہین دوست بھی میسر ہے ٗجو اُن کی تحریروں کی تدوین و اشاعت میں اُن کا ممد
و معاون ہے‘‘۔
ڈاکٹرمظفر عباس کا کہنا ہے :
’’مقصود حسنی خوش قسمت ہیں کہ انہیں سر سید کی طرح ایک حالی مل گئے ٗ ریاض
انجم کی صورت میں‘‘۔
پروفیسر مقصود حسنی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی یہ قابلِ قدر
تخلیقی سعی تحقیق وتنقید اور تدوین و تالیف میں اُن کی گہری دلچسپی اور
اعلیٰ علمی و فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس حوالے سے ان کی یہ قابلِ قدر
تخلیقی مساعی یقینا قابلِ ستائش ہے ٗ جس کے باعث حسنی صاحب کا نام تاریخِ
ادب اُردو میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹرمحمد ریاض انجم کے پروفیسر محمد اکرام ہوشیار پوری سے گہرے مراسم
تھے۔پروفیسرمحمد اکرام ہوشیارپوری ایک نفیس طبع ٗخوش خلق اور انتہائی باعلم
انسان تھے۔ وہ ایک بلند پایہ افسانہ نگار ٗڈراما نویس ٗ نقاد نیز اُردو اور
پنجابی زبان کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک شعبہ اُردو
اسلامیہ کالج قصور میں بحیثیت مدرس فرائض منصبی بطریق احسن انجام دِیے۔ اس
دوران وہ کالج کے میگزین الادب [حصہ اُردو] کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ ان کے
دور میں کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی بھی بے حد متحرک تھی اور ہر سال طلبہ اُن
کے تحریر کردہ اُردو اور پنجابی ڈرامے سٹیج کرتے تھے ٗجو بہت مقبول ہوئے۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی اُن سے پہلی ملاقات 1996 میں ہوئی ٗجو کہ ایک گہرے
علمی ٗ ادبی تعلق میں تبدیل ہوگئی اور اکرام ہوشیار پوری صاحب کی وفات تک
ادبی حوالے سے باہمی تعلق کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اکرام ہوشیار پوری
صاحب کی لائبریری میں ہی تاریخ لاہور کے مطالعہ کے دوران انہوں نے یہ فیصلہ
کیا کہ وہ بھی اسی طرز پر تاریخ قصور لکھیں گے۔ اُن کے اس فیصلے کو اکرام
ہوشیار پوری صاحب نے بے حد سراہا۔
اکرام ہوشیار پوری صاحب بہت زود گو لکھاری تھے۔ انہوں نے ادب کی کم وبیش ہر
صنف میں طبع آزمائی کی ٗ لیکن اُن کی زندگی میں ان کی صرف دو کتب بعنوان
’’پاکستان اور پاکستانیت‘‘ [1995ء] اور ’’کھیل ٗکھلاڑی اور پاکستانیت‘‘
[1997ء] شائع ہو سکیں ٗ جبکہ اس سے پہلے اُن کی تالیف کردہ اُردو گرامر اور
زبان و ادب کی نصابی کتاب ’’انوارِ ُاردو‘‘ حصہ اوّل [1981ء] اور حصہ دوم
[1983ء] میں شائع ہو چکی تھی۔ اُن کی بہت سی تخلیقات اُن کی زندگی میں شائع
نہیں ہو سکیں ٗ جن کی تالیف وتدوین اور اشاعت کا بیڑا اب ڈاکٹر محمد ریاض
انجم نے اُٹھایا ہے ٗ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
*سوکھے درخت اور زرد پتے [افسانوی مجموعہ]
* ادب ٗادیب اور پاکستانیت
* وہ شخص جو مجھ سا ہی تھا [اُردو غزلیں ٗنظمیں]
* مینوں یاد رہیاں ٗتینوں بھل گئیاں [پنجابی نظمیں ٗ غزلیں]
* دیکھی تیری دُنیا [اُردو ڈرامے]
* سانجھ دُکھا ں دی [پنجابی ڈراما]
* تماشااور کیا ہوگا [آپ بیتی]
اُمیدِ واثق ہے کہ حسب ِسابق وہ اپنے اس عزم صمیم کو بھی منزلِ مراد تک
پہنچا کر دَم لیں گے ٗجو اُن کا ایک اور تاریخی اور قابلِ قدر کارنامہ ہو
گا۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’سوکھے درخت اور زرد پتے ٗ‘ شائع ہو چکی ہے ٗ
جس میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے نہ صرف ان کے افسانوں کو جمع کیا ہے ٗبلکہ
اُن کے بارے میں تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔اُنہوں نے پہلی بار ہر افسانے
کے آخر میں مرکزی خیال پیش کر کے اُردو ادب میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا
ہے ٗجو بلاشبہ لائقِ تحسین ہے۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب ’’ادب ٗ ادیب اور
پاکستانیت‘‘ ہے ٗ جو زیرِ طبع ہے اور بعد ازاں باقی تمام کتب یکے بعد دیگرے
شائع کرنے کا پروگرام ہے۔
علامہ مہر محمد خان ہمدم ؒ چھانگامانگا ضلع قصور کے ایک نابغہ روزگار شاعر
تھے ٗلیکن اُن کا نام اور کام ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر
محمد ریاض انجم کا یہ ایک اور وقیع ادبی کارنامہ ہے کہ انہوں نے تحقیق و
تدوین کے بعد اُن کے حوالے سے تین کتب بعنوان:
* علامہ مہر محمد خان ہمدم ؒ[احوال و آثار]
* شہیدکربلا از ہمدمؒ
*شاہنامہ اسلام ہمدم ؒ
شائع کرکے اُن کا نا م نامی اَزسرِنو دُنیائے شعر و ادب میں زِندہ کردیا
ہے۔ منہاج یونیورسٹی ٗلاہور میں ایم فل کے طالب علم محمد سلیم ’’شاہنامہ
اِسلام حفیظ اور ہمدم کا تقابلی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے صدر شعبہ اُردو
منہاج یونیورسٹی لاہور ٗپروفیسرڈاکٹر مختار احمد عزمی کی زیر نگرانی ٗ ایم
فل کا تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت بابا بُلّھے شاہ ؒ کے بارے میں اُ ن کی تحریر کردہ کتاب
’’ بُلّھا! کیہ جاناں میں کون‘‘ چار زبانوں [اُردو ٗپنجابی ٗانگریزی اور
گرمکھی] میں ایک خصوصی اہمیت کی حامل قابلِ مطالعہ کتاب ہے ٗجو کہ اُن کا
ایک اور قابل فخر ادبی کارنامہ ہے۔ویسے تو اُن کی مذکورہ بالا تمام مطبوعہ
کتب ہی اعلیٰ معیار کی حامل ہیں ٗ جن میں مختلف اور متنوع موضوعات کو
انتہائی عمدگی سے زیربحث لایا گیا ہے ٗ لیکن تاریخ قصور کے حوالے سے تحریر
کردہ اُن کی کتب بِلا شبہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
2015ء میں جب قصور کی تاریخ بعنوان ’’قصور ماضی و حال ‘‘ مرتب کرنے کا
فیصلہ ہوا ٗ تو اس کے لیے قصور کی ضلعی انتظامیہ نے ڈاکٹر محمد ریاض انجم
کو یہ اہم فریضہ سونپنے کا فیصلہ کیا ٗجو کہ بلاشبہ اُن کی بے پایاں علمی ٗ
ادبی اور تحقیقی صلاحیتوں کی قبولیت کا واضع اعتراف تھا ٗچنانچہ انہوں نے
اپنی جنم بھومی قصور کے حوالے سے جذباتی وابستگی اور دِلی محبت کے ساتھ
مستند ٗ معتبر اور مصدقہ تاریخی واقعات ٗروایات اور حقائق پر مبنی ایک ایسی
بے مثال کتاب تحریر کردی ہے ٗ جو مستقبل کے محققین کے لیے ایک بلند پایہ
اور قابلِ اعتماد حوالے کی کتاب ثابت ہو گی۔ اس کتاب نے بحیثیت ایک مستند
محقق اور تاریخ دان اُن کی شہرت میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔
قصور کی تاریخ مرتب کرنے کے سلسلے میں اُن کی مہینوں ٗ سالوں پر پھیلی ہوئی
جدوجہد کا ذکر نہ کرنا سراسر زیادتی ہوگی۔ تحقیق بنیادی طور پر ایک دِقت
طلب اور صبر آزما کام ہے۔ مستند تاریخی ماخذ کی تلاش ایک طویل اور مشکل
جدوجہد کی متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں قصور ٗ لاہور اور ملک کے دیگر شہروں کی
لائیبریروں میں ایسی کتب کی تلاش اور مطالعہ ٗ جن میں قصور کا تذکرہ موجود
ہو۔ مختلف شعبوں سے منسلک ایسے عمر رسیدہ افراد سے ملاقات ٗ جو قصور کی
تاریخی نوعیت کی ادبی ٗ سماجی ٗ معاشرتی اور سیاسی روایات ٗ واقعات اور
حقائق کے چشم دید گواہ ہوں یا مستند حوالوں اور مصدقہ ثبوت کے ساتھ اس ضمن
میں معلومات فراہم کرسکتے ہوں ٗ نیز ان سرکاری دفاتر اور اداروں سے روابط ٗ
جہاں قصور شہر کے بارے میں مصدقہ پرانا ریکارڑ میسر آ سکے ٗیہ سب کچھ ایک
طویل جدوجہد اور شدید کوشش اور محنت کے بعدہی میسر آ سکتا ہے۔
قصور کی تاریخ تحریر کرنے کے لیے ٗ انہوں نے اپنی مختلف کتب کے لیے ٗجن
موضوعات اور عنوانات کو چنا ہے ٗ وہ بلاشبہ کثیر الجہات اور اُن کی گہری
دلچسپی کا مرکز ہیں اور انہوں نے اپنی ہر کتاب میں قصور کے حوالے سے اپنے
ان تمام منتخب موضوعات سے پوری طرح انصاف کیا ہے ٗ جس کے باعث اُن کی ہر
کتاب ایک الگ خوشبو اور ذائقہ لیے ہوئے ہے۔
ان موضوعات کے بارے میں مستند معلومات کے حصول کے لیے اور تحقیق ٗ تدوین
وتالیف کے کٹھن مراحل کے دوران اُن کی گہری دلچسپی اور شدید محنت کا دخل
بنیادی اہمیت کا حامل ہے ٗجس نے ان کتب کو اعلیٰ معیار کی کتب کا درجہ حاصل
کر نے میں بنیادی کردار ادا کیا ٗجو کہ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کے لیے بحیثیت
محقق ٗ مدون ٗ مؤلف اور تاریخ دان ایک مقامِ افتحار ہے۔ یہ بلاشبہ بحیثیت
محقق اور تاریخ نویس اُن کی تحقیق و تدوین اور تالیف میں فطری دلچسپی اور
اعلیٰ علمی و فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ تاریخ قصور کے موضوع پر اُن کی قابل
قدر تخلیقی سعی یقینا قابل ِستائش ہے اور اس ضمن میں انہوں نے ٗ جو کارہائے
نمایاں انجام دیے ہیں ٗ وہ بے مثل اور لائقِ صد تحسین ہیں۔
تاریخ قصور ایک سرکاری دستاویز کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ بُلّھے شاہ ادبی
سنگت قصور نے اُن کی قصور کے حوالے سے بے مثال ادبی خدمات کے اعتراف کے طور
انہیں ’’بابائے قصور‘‘ کے حرفی ایوارڈ سے نوازا ٗ جسں کی ضلعی انتظامیہ
قصور نے سرکاری طور پر توثیق کرتے ہوئے ٗ انہیں اس خطاب کو اپنے نام کے
ساتھ لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس کے علاوہ انہیں بجا طور پر قصور کے
اِنسائیکلو پیڈیا ٗفخر قصور ٗ فرزند ِقصور ٗبابائے تاریخ قصور ٗبابائے
اُردو قصوراور کولمبس آف قصور ایسے القابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں ملک
کے مختلف اِداروں اور تنظیموں کی طرف سے انہیں متعدد انعامات اور اعزازات
سے نواز جاچکا ہے۔
منہاج یونیورسٹی ٗلاہور میں ایم فل کے طالب علم محمد اسماعیل ’’ریاض انجم
کی علمی وادبی جہات‘‘ کے عنوان سے اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو منہاج
یونیورسٹی لاہور ٗ ڈاکٹر ندیم جعفر کی زیر نگرانی ٗ ڈاکٹر محمد ریاض انجم
پر ایم فل کا تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے ہیں ٗ جو جلد ہی منظور ہو کر کتابی
شکل میں منصہ شہود پر آجائے گا۔ یہ مقالہ ڈاکٹر ریاض انجم کی مختلف ادبی
جہات کو سمجھنے میں بہت ممدومعاون ثابت ہوگا۔
ڈاکٹرمحمد ریاض انجم نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بلند پایہ تخلیقی وفور
ٗمنفرد اسلوب ٗ متنوع اور رواں زبان اور لب و لہجہ نیز بے مثال تحقیقی
مساعی سے ایک مستند ادیب ٗمحقق ٗ مدون ٗ مؤلف اور تاریخ دان کا مقام حاصل
کر لیا ہے۔ قصور کی ادبی ٗ سماجی ٗ معاشرتی اور سیاسی تاریخ کی تحقیق و
تدوین اور تالیف میں اُنہوں نے ٗ جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ٗ وہ نہ
صرف لائقِ ستائش ہیں ٗبلکہ وہ علم کے متلاشی مستقبل کے محققین کے لیے قصور
کی تاریخ کے بارے میں مستند روایات اور حقائق پر مبنی علم کے ایک مایہ ناز
ذخیرہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ٗ جس کی بدولت اُن کا نام اور کام تاریخ
علم وادب اور تاریخ قصور میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آخر میں ٗ میں حرفِ تحسین
کے طور پر اپنی طرف سے اور اپنے ’’سوہنے شہر‘‘قصور کے باسیوںٗفنکاروں
ٗادیبوں ٗ شاعروں اور دانشوروں کی طرف سے اُن کے تخلیقی ادبی کمالات اور
بالخصوص قصور کے حوالے سے طبع شدہ اُن کی لازوال تخلیقات پر انہیں دل کی
اتھاہ گہرائیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرتاہوں۔
* * * * * * * * * * *
|