عدالت عظمیٰ : یہ سرزمیں بھی عدل کا عنواں دکھائی دے

مودی سرکارکا شعار ’’گھوم جاؤ‘‘ ہے۔ ان لوگوں نے شاید ہی کوئی اہم فیصلہ نہیں کیا ہوا جس میں انہیں تھوک کر چاٹنے کی ضرورت پیش نہ آئے لیکن سدرشن کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے ایسا کرکے اپنی عزت بچالی ۔ یہ معاملہ 28؍اگست کو پہلی بار سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آیا لیکن اس نے متنازعہ مسلم مخالف شو پر قبل از نشریات روک لگانے سے انکار کر دیا۔ اس پروگرام میں مبینہ طور پر یو پی ایس سی (یونین پبلک سروس کمیشن) میں مسلمانوں کے انتخاب پر اعتراض کرکے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سعی کی گئی تھی ۔ ان ہندو فرقہ پرستوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ’کریں تو کریں کیا؟ اور بولیں تو بولیں کیا؟‘۔ مسلمان سرکاری ملازمتوں سے دور رہتے ہیں کیونکہ اس میں دنیا بھر کی بدعنوانی ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ قوم نام نہاد قومی دھارے میں شامل نہیں ہوتی۔ جب وہ ملازمت کے لیے آتےہیں تو ان کے ساتھ تعصب کیا جاتا ہے ۔ وہ امتحانات کی تیاری کرتےہیں تو ان کے پیٹ میں مروڈ پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ احساسِ کمتری کا شکار یہ لوگ جانتے ہیں جس میدان میں مسلمان آگئے تو ان کی دال نہیں گلتی ۔
ہندوستان کے اندر ہزاروں ایسے ادارے ہیں جو طلباء کو مقابلوں کے امتحان میں تیاری کرانے میں مدد کرتے ہیں ۔ سدرشن چینل کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اگر یہ کام ہو تو ان کے لیے یہ جہاد ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہوا میں تلوار گھمانے والے اور ہوائی فائر کرنے والے سریش چوہانکے کوجہاد سے اتنا ڈر کیوں لگتاہے؟ مسلمانوں کے جہاد کا مقابلہ کرنا اس کو اپنے بس کا روگ کیوں نہیں لگتا؟ بھئی آپ کا مقابل جہاد کرتا ہے تو آپ بھی کریں فیصلہ میدان میں ہوگا اس کے لیے ٹیلی ویژن چینل کے دفتر میں بیٹھ کر نفرت پھیلانے کی کیا ضرورت ؟ یہ دراصل نامردی اور بزدلی ہے کہ جب آپ سامنے سے مقابلہ نہیں کرسکتے تو پیچھے سے چھپ کر وار کرتے ہیں اور اکثر خود ہی زخمی ہوکر گر جاتے ہیں جیسا کہ اس بار ہوا ۔ اب جہاں تک جامعہ کے یو پی ایس سی جہاد کا سوال ہے اس میں 30 طلباء تھے ان میں 16مسلمان اور 14 ہندو ۔ اس طرح سدرشن چینل نے اپنی حماقت سے 14 ہندووں کو بھی مجاہدِ اسلام بنا دیا لیکن ان بھکتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو ہندو سمجھتے کب ہیں؟ جس تہذیب کے علمبردار اپنے ہی مذہب کے عالمِ دین سوامی اگنویش کی موت پر’خس کم جہاں پاک‘ جیسا تبصرہ کرنے سے گریز نہیں کرتے ہوں ان کے اخلاقی معیار کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے ۔یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ سی بی آئی کے منہ زور سابق سربراہ کو شدید تنقید کے بعد اپنا اہانت آمیز ٹویٹ ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا۔

20 دن قبل جب جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ اور کے ایم جوزف پر مشتمل بنچ کے سامنےسدرشن چینل پر فیروز اقبال خان کی جانب سے دائر کردہ عرضی سماعت کے لیے آئی تو عدالت نے ایک عارضی حکم دیا جس کو سرکار نے حتمی سمجھ لیا یا یہ سوچ لیا کہ آخری فیصلہ بھی انہیں خطوط پر ہوگا لیکن وہ اس کی غلط فہمی تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ 49 سیکنڈ کے کلپ کی غیر مصدقہ شدہ ثبوتوں کی بنیاد پر قبل از نشریات حکم امتناع جاری کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ عدالتوں کو اشاعت یا نظریات کی نشریات پر پابندی عائد کرتے وقت محتاط رہنا چاہئے۔سپریم کورٹ نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ قانون التزامات کے تحت مجاز حکام کے پاس اس طرح کے اختیارات ہیں کہ وہ سماجی ہم آہنگی اور طبقات میں امن و سکون کی فضا کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ 20دن کے بعد عدلیہ کو احساس ہوگیا کہ حکام یعنی مقننہ اور انتظامیہ ان اختیارات کا استعمال کرنے سے قاصر ہیں اس لیےاس کوبذاتِ خود حرکت میں آنا پڑا۔
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ پابندی لگانے پر احتراز کو لے کر بغلیں بجانے والے اس بات کو بھول گئے کہ اس نے حکومت ہند، پریس کاؤنسل آف انڈیا، نیوز برڈکاسٹرس ایسوسی ایشن کے علاوہ سدرشن نیوز کو نوٹس جاری کرکے 15 ستمبر تک جواب طلب کیا ہے یعنی یہ سماعت کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے اور اس کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ان فرقہ پرستوں کی خوشیوں پر اسی دن ایک دیگر معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے اوس ڈالتے ہوئے سدرشن ٹی وی کے شو کی نشریات پر روک لگا دی۔ سپریم کورٹ نے اپنا حکمنامہ شام 7 بجے کے بعد ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا لیکن اس سے قبل ہائی کورٹ کے جسٹس نوین چاولیہ نے بھی مرکزی حکومت، یو پی ایس سی، سدرشن ٹی وی اور اس کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگ لیا اور اس معاملہ کی اگلی سماعت 7 ستمبر کو طے کردی ۔ اس پروگرام کے خلاف پولیس میں شکایت کی گئی اور انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) تنظیم نے بھی سریش چوہانکے کے ذریعہ خاص مذہب کے خلاف شروع کئے جارہے پروگرام کی مذمت کی ہے۔ مذکورہ تنظیم نےفرقہ ورانہ اور غیرذمہ دارانہ صحافت کی مذمت کی ۔

ہائی کورٹ کے جرأتمندانہ فیصلے عوام کا اعتمادتو بحال ہوا لیکن شاید عدالت عالیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا یا اس پر سرکاری دباو آگیا واللہ اعلم ۔ اس لیے اس نے اپنی دوسری سماعت میں سدرشن ٹی وی کے متنازع پروگرام کو نشر کرنے پر پابندی کے فیصلے میں ایک شاطرانہ لچک پیدا کی۔ اپنا فیصلہ بدلنے کے بجائے اس نے یہ اختیار مرکزی حکومت کو دے دیا۔ یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ اگر کوئی استغاثہ عدالت سے رجوع کرتا ہے تو اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرنے کے بجائے اس سے دامن جھٹک لیا جائے خیر یہ ایک درمیانی راستہ تھا جس سے عدالت ایک طرف نکل گئی اور مرکز ی حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر اسے نشر کرنے کی اجازت فراہم کر دی۔ حکومت کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ سے درخواست کی گئی کہ وہ حکومت کے 9 ستمبر 2020والے حکم کو مسترد کرے لیکن 11 ستمبر کودہلی ہائی کورٹ نے نشریات پر پابندی لگانے سے تو انکار کردیا لیکن ساتھ ہی وزارت اطلاعات و نشریات کی منظوری کو چیلنج دینے والی درخواست پر مرکز اور سدرشن ٹی وی کو نوٹس جاری کرکے ان کا جواب طلب کرلیا ۔

اس اٹھا پٹخ کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے پھر سے آگیا ۔ اس بار حکومت اور سدرشن چینل ایک طرف تھے لیکن عدالت عظمیٰ نے خلاف توقع دونوں کو ’دھو ڈالا‘۔ اپنے فیصلے میں کھری کھری سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سدرشن کے وکیل سے کہا کہ آپ کے موکل ملک کا نقصان کر رہے ہیں، نیز ایک ایسا نظام قائم کیا جانا چاہیے جس سے نفرت پھیلانے والے مباحثوں و پروگراموں پر روک لگائی جاسکے۔ دیر آید درست آید کی مصداق جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ، جسٹس اندو ملہوترا اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے کہا، ’’اس معاملے میں بادی النظر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس پروگرام کا مقصد اور ارادہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلم برادری کی طرف سے یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ایک سازش کا حصہ ہے۔‘‘عدالت عظمیٰ نےآگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ کچھ میڈیا ہاؤسوں کے پروگراموں میں ہونے والے مباحثے تشویش کا باعث ہیں کیوں کہ اس میں ہر طرح کی منافرت بھری باتیں کی جاتی ہیں۔ ارنب گوسوامی جیسے لوگوں سے ہمدردی رکھنے والی عدالت کے یہ الفاظ عندلیب شادانی کا شعر یاد دلاتے ہیں ؎
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ کے مشاہدات ملک میں بے لگام گودی میڈیا کے لیے عدالت کا پہلا تازیانہ ہے۔ عدالت نے نہایت واضح انداز میں کہا کہ در حقیقت اس پروگرام کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ عدالت نے حکومت اور سدرشن چینل کے حوالے سے پوری قوم کو یاد دلایا کہ آئینی حقوق اور اقدار کی حکومت کے تحت ایک مستحکم جمہوری معاشرے کی عمارت کا قیام برادریوں کے باہمی وجود پرمنحصر ہے۔ ہندوستان تہذیبوں، ثقافتوں اور اقدار کا مجموعہ ہے۔ کسی برادری کی بے حرمتی کرنے کی کسی بھی کوشش کوآئینی حقوق کی پاسدار عدالت کے ذریعے ایک بدنظمی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ عدالت کا یہ موقف یقیناً قابلِ مبارکباد ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان بنیادی باتوں کی جانب توجہ دلانے کے لیے کیا عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑے گی ؟ کیا عدالتی ڈنڈے کے بغیر معاشرہ ازخود اس پر عمل نہیں کرسکتا ؟ کیا ملک ضمیر مر گیا ہے؟ اور اگر ہاں تو اس قتل کا ذمہ دار کون ہے ؟ ان سوالات کا جواب حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی پیروی میں پوشیدہ ہے۔

اس معاملے میں حکومت اپنے گودی میڈیا کی گود میں بیٹھی ہوئی نظر آئی ۔ وہ اپنے شریر بچے کے کان اینٹھنے کے بجائے اس کی پیٹھ تھپکتی ہوئی دکھائی دی اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ سدرشن نیوز کے حق میں بولتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نےعدالت سے کہا کہ صحافی کی آزادی سب سے اوپر ہے ۔ پریس کو قابو کرنا کسی بھی جمہوریت کیلئے تباہ کن ہوگا ۔ موجودہ حکومت کے وکیل جو اپنے مخالفین کو ملازمت سے نکلوادیتی ۔ ان کے سگنل کمزور کردیتی ہے۔ ان کے مشتہرین پر دباو ڈالتی ہے۔ اپنے غنڈوں کے ذریعہ صحافیوں پر حملے کرواتی ہے۔ انہیں مقدمات میں الجھاتی ہے۔ پولس سے ان پر لاٹھیاں برساتی ہے اور قتل و غارتگری تک سے گریز نہیں کرتی ’صحافی کی آزادی‘ اور ’جمہوریت ‘ جیسے الفاظ سن کر ایسا لگا جیسے مہارشی راون رامائن کا پاٹھ پڑھا رہے ہیں ۔ عدالت نے اس موقع پر بجا طورپر تشار مہتا کو یاد دلایا کہ آپ ٹی وی مباحثہ کا طریقہ دیکھئے ، اینکر ان گیسٹ کو میوٹ کردیتے ہیں ، جن کی رائے ان سے الگ ہوتی ہے ۔ زیادہ تر وقت اسکرین پر صرف اینکر ہی بولتا ہے ۔یہ در اصل تشار مہتا کے توسط سے حکومت کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ تھا اور عدالت عظمیٰ اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے۔

سدرشن کے سینئر ایڈوکیٹ شیام دیوان نے یہ کہہ کر اپنی شامت کو دعوت دے دی کہ یہ شو ’’تحقیقاتی صحافت‘‘ اور ’’آزادی اظہار رائے کے مسئلے‘‘ کا حصہ ہے۔اس کے جواب میں جسٹس چندرچوڑ نے ان کی سمع خراشی کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ آزادی اظہار کی بات نہیں ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ جامعہ کے طلبا سول سروسز میں دراندازی کی سازش کا حصہ ہیں، تو یہ جائز نہیں ہے۔ آپ کسی ایک برادری کو نشانہ نہیں بنا سکتے اور انھیں کسی خاص طریقے سے نشان زد نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘انھوں نے مزید کہا ’’قوم کی اعلیٰ عدالت کی حیثیت سے ہم آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں کہ مسلمان سول سروسز میں دراندازی کر رہے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحافی کو ایسا کرنے کی پوری آزادی ہے۔یہ پروگرام انتہائی بےبنیاد ہے۔ تمام برادری کے شہری یکساں امتحانات سے گزرتے ہیں اور یکساں پینل کو انٹرویو دیتے ہیں۔ کیا اس سے بھی یو پی ایس سی امتحان میں دخل اندازی ہوتی ہے؟ ہم ان مسائل سے کیسے نپٹتے ہیں؟ کیا اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے؟عدالت نے سدرشن ٹی وی کے پروگرام کو سماج کو بانٹنے والا قرار دیا ۔ جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ میڈیا کی آزادی بے لگام نہیں ہوسکتی ۔ میڈیا کو بھی اتنی ہی آزاد حاصل ہے جتنی ملک کے کسی دوسرے شہری کو ہے ۔ عدالت کے ان مشاہدات کا اثر صرف الفاظ سے نہیں ہوگا ۔ ان خونخوار صحافی نما درندوں کو جیل کی سلاخ کے پیچھے بھیجے بغیر ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔ بقول شاعر؎
میرے خدا سزا و جزا اب یہاں بھی ہو
یہ سرزمیں بھی عدل کا عنواں دکھائی دے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449267 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.