( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی Mb.9450191754)
ہومیوپیتھی کی بنیاد اٹھارویں صدی میں ایک جرمن فزیشین ڈاکٹر سیمو ئیل
ہانیمن نے رکھی تھی ۔ ہانمین۱۰؍ اپریل ۱۷۵۵ء میں جرمنی کے قصبے سیکسونی
میں پیدا ہوئے انکا پورا نام سیموئیل کرسچن فراڈرک ہانیمن تھا۔ وہ زبانیں
سیکھنے کے شوقین تھے انہوں نے کم عمری میں ہی یونانی ، عربی لاتینی وغیرہ
معتدد زبانوں پر عبور حاصل کر لیا تھا اور زبانوں کے استادسمجھے جانے لگے
تھے۔ اسکے بعد انہوں نے آسٹریا میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی پھر
’وی آنا ‘ آگئے ۔۱۷۷۹ء میں وہ میڈکل ڈاکٹر بن گئے اور ڈیسڈن میں پریکٹس
شروع کر دی غریب پرور تھے ، آمدنی زیادہ نہ تھی لہٰذہ انہوں نے پریکٹس کے
ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کا کام بھی جاری رکھا۔
ایلوپیتھک ڈاکٹر بن جانے کے گیارہ سال باد انہوں نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج
دریافت کیا۔ سنکونا سے شروع کر کے مختلف ادویات کا اپنے اور اپنے عزیز و
اقارب پر مسلسل تجربات کرنے کے بعد اپنے مضامین کے ذریعے انھوں نے
ہومیوپیتھی فلسفہ سے دنیا کو آگاہ کیا ۔ ۱۸۱۰ء میں انکی شہرۂ آفاق کتاب
آرگینن آف میڈیسن شایع ہوئی۔ اگلے دس برس میں انہوں نے میٹریا میڈیکا تیار
کی ۔اس وقت کے تمام روایتی معالجین نے اسکی مخالفت شروع کر دی۔ مخالفین کے
دباؤ میں حکومت نے ان کے طریقہ علاج کو غیر قانونی قرار دے دیا اور ان کے
خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ اب ہینمن کو اس ملک سے فرار ہو کر
کوتھن میں پناہ لینی پڑی یہاں ڈیوک آف کوتھن نے انکی سر پرستی کی اور یہیں
سے انہوں نے اپنی تحقیق کے نتائیج پر مبنی کتاب دی کرانک ڈیزیزز شایع کی
۱۸۳۵ء میں وہ پیرس منتقل ہو گئے اور وہیں پریکٹس کرنے لگے۔ ۲ ؍ جولائی
۱۸۴۳ء کو پیرس میں ہی ان کا انتقال ہوا۔
ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول ہے ـ زہریلی چیزوں ، زہروں ، دھاتوں وغیرہ سے
ویسی ہی ملتی جلتی یا اسی طرح کی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا
جائے جس طرح کی بیماریاں یہ زہریلی اشیاء خود پیدا کر سکتی ہیں ،اسی لئے اس
طریقہ علاج کو ہومیوپیتھی یا علاج بالمثل کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج جلد
ہی پورے یوروپ اور شمالی امریکہ میں پھیل گیا۔
ہندوستان میں ہومیوپیتھی کی آمد انیسویں صدی میں ہوئی۔ سب سے پہلے یہ بنگال
میں رائیج ہوئی۔ مہندر لال سرکار پہلے ہندوستانی ڈاکٹر تھے جنھوں نے ہومیو
پیتھک دواؤں سے مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا ان کی دیکھا دیکھی اور کئی
ڈاکٹروں نے ہومیو پیتھک پریکٹس شروع کر دی۔ ۱۸۸۱ء میں کلکتہ ہومیو پیتھک
میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح سے بنگال میں ہو میو پیتھی کو
مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بنگالی زبان میں ہومیو پیتھی کے متعلق
کتابوں کی دستیابی عام ہونے لگی کچھ ہومیوپیتھک داکٹروں کی اپنی تصانیف اور
ذیادہ تر انگریزی زبان سے ترجمے،اسی نہج پر مدراس میں بھی ہومیوپیتھی نے
مقبولیت حاصل کی اور تامل زبان میں ہومیو کتب کی دستیابی عام ہو گئی۔لیکن
ابھی تک شمالی ہندوستان میں ہومیوپیتھی کا زیادہ رواج نہ ہو سکا تھا ۔حالا
نکہ اس علاقہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے اس طرح کے سستے علاج کی اشد
ضرورت تھی۔ اگرچہ تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثریت اردو داں حضرات کی تھی اور
طب یونانی سے متعلق زیادہ تر کتابیں فارسی اور اردو میں ہوا کرتی تھیں لیکن
یہ طبقہ ابھی تک ہومیوپیتھی سے نامانوس تھا۔ اردو زبان ان قیمتی اور زریں
معلومات سے محروم تھی اور اسکی اشد ضرورت تھی کی یہ معلومات مادری زبان کا
جامہ پہن لیں ۔ ان حالات میں مخیر حضرات نے ہومیوپیتھی سیکھنے کے بعد اس
علم کو اردو میں منتقل کرنا شروع کر دیا اور بیسویں صدی کا نصف اول مکمل
ہوتے ہوتے ہومیو پیتھی سے متعلق اردو کتب کا بہت بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا۔
یہی وہ دور تھا کہ جب بے شمار قصبات اور مضافات میں بہت سے لوگوں نے ہومیو
پیتھی سیکھی، ان میں تعلیم یافتہ زمیندار، مدرسین و دیگر سرکاری ملازمین
وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو مالی منفعت سے غرض نہ تھی بلکہ
بنیادی طور سے خدمتِ خلق کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔چنانچہ بہت سے اہل خیر
حضرات نے غریبوں کو مفت علاج فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس طرح وہ
لوگ جو کسی طرح کے علاج کے متحمل نہیں تھے ، ان کو سہارا ملا۔
اس دور میں ہومیوپیتھی کو سرکار کی سرپرستی حاصل نہ تھی ، نہ ہی تعلیم کا
کوئی با قاعدہ نظم تھا ، اور نہ ہی ہومیوپیتھک دواؤں کے ذریعہ علاج کرنے پر
کوئی پابندی ہی تھی،۔ ان حالات میں برصغیر کے طول و عرض میں اسکی ترویج میں
اردو نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان ہومیو پیتھک معالجین نے جو اردو پر بھی
دسترس رکھتے تھے اور اپنے خیالات کے اظہار پر قادر تھے تصنیف و تالیف کے
ذریہ اس علم کو آگے بڑھایا اسمیں بیک وقت ہومیوپیتھی اور اردو دونوں کی
خدمت کا جذبہ پنہاں تھا۔
اس قافلے میں بے شمار لوگ شامل تھے۔لیکن لکھنؤ کے ڈاکٹر کاشی رام کو بلا
شبہ اس قافلے کا سالار کہا جاسکتا ہے جن کی کتاب ’سائیکلو پیڈیا آف ہومیو
پیتھک ڈرگز یعنی مخزن المفردات ہومیوپیتھی ‘تین ضخیم جلدوں میں آج تقریباََ
ایک صدی گذرنے کے بعد بھی ہومیوپیتھی کی اردو کتابوں میں سرِ فہرست ہے
ڈاکٹر کاشی رام اپنے ہومیوپیتھی کی طرف راغب ہونے کے سلسلے میں رقمطراز ہیں۔
’’ ۱۹۰۸ء میں جب میں تحصیل علم کی آخری منزلیں طے کر رہا تھاخوش قسمتی سے(
خوش قسمتی اس لئے کہ قدرت مجھ سے دنیا میں کوئی کام لینے والی تھی) مجھے
خونی بواسیر کا عارضہ لاحق ہوا۔ سوتے ،جاگتے اٹھتے ،بیٹھتے خون از خود نکل
جایا کرتا تھا جس کا مجھے کبھی علم نہ ہوتا تھا۔ میں نے پنجاب کے نامور
ایلوپیتھک ڈاکٹر بیلی رام صاحب مرحوم کا معالجہ بہت عرصہ تک جاری رکھا مگر
کچھ فائیدہ نہ ہوا۔ مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب مرحوم کے زیرِ علاج رہا
مگر قسمت نے یہاں بھے یاوری نہ کی آخر قدرت نے مجھے ڈاکٹر پی سی موراندار
صاحب مرحوم کے پاس کلکتہ پہونچایا۔ ان کی عمر اس وقت قریباََ ۷۰، ۷۲ برس کی
تھی۔ انہوں نے میرے تمام حالات سنے، میرا معائنہ کیا اور رائی کے برابر دو
گولیاں میری زبان پر رکھ کر شفاء کا فتویٰ دے دیا۔ آج چوتھائی صدی کا زمانہ
گذرا مگر ایک قطرہ خون کا بواسیری شکایت کے تحت نہیں گرا۔دوسرے سال آنتوں
کے پھوڑے میں مبتلا ہوا ڈاکٹر ( ایلوپیتھک) صاحبان آپریشن کی رائے دیتے تھے
مگر میں نے پھر اپنے پرانے محسن ڈاکٹر مورندار صاحب کے دروازے کو کھٹکھٹایا۔
اور انکے چند یوم کے اندرونی علاج سے صحتیاب ہو گیا۔ یہ دو کرشمے ایسے تھے
جنہوں نے مجھے قدرتی طور پر ہومیوپیتھک سائینس کو حاصل کرنے کی طرف رجوع
کیا۔
‘‘
ڈاکٹر کاشی رام کی دیگر تصانیف میں امراضِ نسواں، کلیدِ میٹریا میڈیکا، اور
ڈاکٹرسشلر کے بارہ نمکیات سے علاج کے اصول پر مشتمل بائیو کیمک سائینس کا
اہم مقام ہے۔ ڈاکٹر دولت سنگھ دہلی کی کتابیں میٹریا میڈیکا مع رپریٹری،
پریکٹس آف میڈیسن اور رفیقِ ہومیو پیتھی اور ڈاکٹر بشمبھر داس کی کتاب دوا
کا انتخاب بھی قابلِ ذکر ہیں ۔
ان کے علاوہ برِ صغیر ہند و پاک میں ہومیوپیتھی کی ترویج و اشاعت میں اہم
کردار ادا کرنے والے کچھ مصنفین اور انکی تصانیف کا ذکر ضرور ی ہے۔مثلاََ
ڈاکٹر عبدا لقیوم ملیح آبادی کی افاداتِ ہومیوپیتھی اور مجرباتِ
ھومیوپیتھی،ڈاکٹر رفیق احمد کی ابجد ہومیوپیتھی،ڈاکٹر ہری چند ملتانی کی
تاج ہومیوپیتھی ڈاکٹر فتح شیر کی جوہر ہومیوپیتھی اور روح ہومیوپیتھی،
ڈاکٹر شوکت شوکانی کی میرا کلینک، ڈاکٹر گلزار احمد کی سحر ہومیوپیتھی،
ڈاکٹر عابد حسین کی ہومیوپیتھی کی پہلی کتاب، ہومیوپیتھی کے راز،میٹریا
میڈیکا، ڈاکٹر قاضی احمد سعید کی ھوا لشافی،ڈاکٹر محبوب عالم قریشی کی
تفہیم الادویہ اور ڈاکٹر عبدالحمید کی چشمہ شفاء اور پچھلی صدی کے اواخر
میں آئی مرزا طاہر ا حمد صاحب کی ضخیم کتاب ہومیوپییھی یعنی علاج با لمثل
اور مشہور مصنف اور روحانی شخصیت ممتاز مفتی کی کتاب مداح ہومیوپیتھی وغیرہ
وغیرہ۔
ان تصانیف کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی گئی کتب
بھی اہمیت کی حامل ہیں جیسے آرگینن آف میڈیسن مترجم جے کے خان، ڈاکٹر ولیم
بورک کی بورک میٹریا میڈیکا مترجم ڈاختر احمد حسن عسکری و ڈاکٹر عبدل قیوم
طاہر، جولین میٹریا میڈیکا( جرمن) مترجم ڈاکٹر محمد عاطف کمبوہ، لپے میٹریا
میڈیکا کا ترجمہ روشن راہیں کے نام سے مترجم ڈاکٹر جاوید مغل،جارج وتھا لکس
کی ایسنس آف میٹریا میڈیکا مترجم ڈاکٹر ساجد شاہین، نیش لیڈرس مترجم ڈاکٹر
محمد عرفان کینٹ میٹریا میڈیکا مترجم ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ وغیرہ
ہومیوپیتھی سے متعلق ماہانہ اردو رسالوں کا سلسلہ بھی کافی عرصہ تک جاری
رہا جس میں لاہور سے جاری ہومیوپیتھک میگزین اور ہومیوپیتھک لیڈر اور لکھنو
سے جاری ہومیوپیتھک دنیا نے کافی عرصے تک اشاعت جاری رکھی دہلی سے نکلنے
والا ماہانامہ روزگار جس میں نصف حصہ ہومیوپیتھی کے لئے وقف رہتا تھا۔
بذریعہ اردو ہومیو پیتھی کی اشاعت میں ڈاکٹر رام لعل۔ ڈاکٹر امر پرکاش
اروڑا۔ ڈاکٹر پیارے لعل سریواستو اور ایس پی مہتہ کی خدمات ناقابلِ فراموش
ہیں۔
اگرچہ اس خاکسار کے پاس متذکرہ کتب میں سے ذیادہ تر موجود ہیں جو کہ والد
مرحوم کے ترکے میں سے بطور وراثت حاصل ہوئی ہیں، موجودہ منظر نامے میں اردو
کہیں دور دور تک نظر نہیں آ تی، یہ ماضی کی بات ہے ۔ اس مختصر تحریر کا
مقصد صرف اس حقیقت سے روبرو ہونا ہے کہ برصغیر میں ہومیوپیتھی طریقہ علاج
کی ترویج و اشاعت میں اردو زبان نے کتنا اہم کردار کیا ہے۔
اختر جمال عثمانی دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی
یو پی۔ انڈیا۔۲۲۵۰۰۱
موبائیل۔۹۴۵۰۱۹۱۷۵۴ |