لاہورکے محاذ پر پٹائی کے بعد بھارتی فوج نے قصور شہر کی
مشرقی سرحد پر یلغار کردی ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ
قیام پاکستان سے پہلے قصور شہر اور کھیم کرن ضلع لاہور کے دائرہ کار میں ہی
آتے تھے ، 14اگست 1947کے بعد ریڈ کلف کی مہربانی سے کھیم کرن کو بھارت میں
شامل کردیا گیا۔ یوں بین الاقوامی سرحد کی لکیر قصور اور کھیم کرن شہر کے
درمیان صرف سات میل کے فاصلے پر کھینچ دی گئی ۔پینتیس ہزار آبادی کا یہ شہر
تاریخی اہمیت کا حامل تھا ۔ مغروربھارتی فوج طاقت کے نشے میں چور جب آگے
بڑھی تو پاک فوج نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم نہ صرف روک دیئے بلکہ بھارتی فوج
پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ اپنے فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئی
اور بھارتی فوج کے زیراستعمال شرمن ٹینک ذلت و رسوائی کی تصویر بنے جگہ جگہ
اپنی تباہی کی داستان سنا رہے تھے ۔8ستمبر 1965ء کو ہمارے توپ خانے نے چن
چن کر بھارتی مورچوں کو نشانہ بنایااور روہی نالے پر پل بنا کر اسے عبور
کرکے پاک فوج اسل اتر اور چیمہ کے درمیان پہنچ گئی ۔دن کے دس بج رہے تھے جب
رسالدار لال خاں نے چار ٹینکوں کی قیادت کرتے ہوئے پیش قدمی کی تو اردگرد
کپاس اور گنے کی اونچی فصلوں میں چھپے ہوئے بھارتی فوجیوں نے اندھادھند
فائرنگ کردی ۔جس سے رسالدار لال خاں اپنے ٹینک میں ہی شہید ہوگئے لیکن ان
کے ساتھیوں نے وضعدار حسن کی قیادت میں پیش قدمی کو جاری رکھا ۔ابھی کچھ ہی
فاصلہ طے ہوا تھا کہ وضعدار حسن بھی جام شہادت نوش کرگئے ۔رات کے اندھیرے
نے جب ماحول کو سیاہ چادر پہنا دی تو پاک فوج کے ٹینک بھورا کاہنا اور آسل
اتر کے درمیان سڑک کے ساتھ اکھٹے ہوگئے ،اتنے میں ایک ٹینک بہت تیزی سے اس
جانب بڑھتا دکھائی دیا، قریب آکر ٹینک میں سوار سکھ فوجی نے گردن نکال کر
پوچھا۔ کیا آج کی رات ہم یہاں ہی ٹھہریں گے۔تو پاک فوج کے جوانوں نے ان کے
سینے پر سٹین گن رکھ کر کہا ہاں سردار جی ۔ آپ ہمارے مہمان بن چکے ہیں ۔بھارتی
ٹینک ہاتھ لگ چکا تو سکھ فوجی کو جنگی قیدی بنا لیا گیا ۔جب یہ خبر بھارتی
فوج تک پہنچی تو بھارتی توپ خانے نے رات گیارہ بجے زبردست گولہ باری شروع
کردی ۔ہمارے مجاہدؤں کو خدا پر بھروسہ تھا وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔بھارتی توپ
خانے کے جتنے گولے فائر ہوئے وہ ہمارے ٹینکوں اور فوجیوں سے کچھ فاصلے پر
ہی گرتے رہے ۔جبکہ ہمارے ٹینک اور فوجی محفوظ رہے ۔اگلی صبح جب یہ توقع
کرکے بھارتی فوج نے پیش قدمی شروع کوشش کی تو پاک فوج کے جوانوں نے انہیں
ایسی کاری ضرب لگائی کہ پسپائی اختیارکرتے ہوئے کھیم کرن کے قدیمی شہر سے
بھی پیچھے ہٹ گئی ۔برگد کے درخت کے نیچے ایک کنواں تھا جس کے قریب ہماری
ٹینک شکن توپ لگی ہوئی تھی اور مسلسل گولہ باری سے دشمن کے ٹینکوں کوراکھ
کا ڈھیر بنا رہی تھی ۔اچانک بھارتی فوج کا ایک گولہ اس توپ پر آگرا جس سے
توپ پر آگ کے شعلے بلند ہونے لگے ۔ڈر یہ تھا کہ اسی توپ کے پانچ چھ گولے
قریب ہی پڑے ہوئے تھے اگر آگ ان تک پہنچ گئی تو اردگرد پھیلی ہو ئی پاک فوج
کی تنصیبات اور جوانوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا چنانچہ میجر
صابر نے اپنی جان پر کھیل کر توپ کے ان بھاری گولوں کو اکیلے اٹھا کر لگی
ہوئی آگ سے دور رکھ دیا پھر توپ میں لگی آگ بجھانے لگے ۔پیادہ فوج کے
کمانڈر میجر ظہور دشمن کی شدید مزاحمت کے باوجود پیش قدمی کا حکم دیا ۔ صبح
دس بجے کا وقت ہوگا جب پاک فوج کے جوان اپنے اپنے مورچوں سے نکل کر آگے بڑھ
رہے تھے ، سامنے دشمن کی رائفلیں، گولیاں،ٹینک ،گولے ،توپیں اور آگ ہی آگ
تھی ،لیکن پاک فوج کے جوان آگے بڑھتے جارہے تھے ۔اسی اثناء میں میجر ظہور
نے وائرلیس پر پیغام دیا جوانوں آگے بڑھو منزل صرف چھ سو گز دور ہے ۔ اٹھو
اور پوری طاقت سے حملہ آور ہوجاؤ۔یہ پیغام دیتے ہی میجر ظہور مورچے سے نکلے
تو ایک سنساتی ہوئی گولی میجر ظہور کے دل کو چیرتی ہوئی نکل گئی ۔ وہ اﷲ
اکبر کا نعرہ لگاکروطن پر قربان ہوگئے ۔اسی اثنا ء میں بریگیڈئر اے آر شامی
اپنی جیپ پر سوار اس بلند مقام پر آپہنچے جہاں چاروں اطراف سے گولیوں کی
بوچھاڑ ہورہی تھی ۔وہ پسپا ہوتی ہوئی بھارتی فوج کی پوزیشنوں کا جائزہ
لیناچاہتے تھے ،وہ جس ٹیلے پر کھڑے دوربین سے میدان جنگ کا جائزہ لے رہے
تھے ،اچانک ایک دھماکہ ہوا ۔ہر طرف دھواں ہی دھواں پھیل گیا۔کوئی چیز صاف
دکھا ئی نہیں دے رہی تھی ۔آنکھیں وہاں مرکوز تھیں جہاں بریگیڈئر شامی کی
جیپ کھڑی تھی ۔ذرا سا دھواں چھٹا تو ان کی جیپ الٹی ہوئی دکھائی دی،شدید
گولہ باری میں وہاں پہنچنا ناممکن تھا جب گولہ باری کچھ رکی تو ایک ٹینک
اور دو جیپیں بریگیڈئراے آر شامی کی تلاش میں اس مقام پرجا پہنچیں جہاں
بریگیڈئر شامی کے ساتھی بریگیڈئر بشیر اور کیپٹن زخمی حالت میں موجود تھے
لیکن بریگیڈئر شامی شہید ہوچکے تھے جن کی لاش شاید بھارتی اٹھا کر لے گئے ۔ایسے
ہی شہیدوں کا لہو رنگ لایا تو بھارتی سرحدی شہر کھیم کرن پر پاک فوج کا
قبضہ ہوچکا تھا اور پہلے بھارتی ترنگا لہرارہا تھا وہاں اب سبز ہلالی پرچم
دکھائی دے رہا تھا ۔ لاہور کینٹ میں ایک اہم شاہراہ کا نام بریگیڈئر اے آر
شامی کے نام سے منسوب ہے ۔ |