خانوادہ خیر آباد کی ایک ذی علم خا توں بی بی رقیہ بنت
مولانا عبد الحق خیرآبادی کی غیر مطبوعہ تفسیر
امام المعقولات علامہ فضل حق خیرآبادی کا مبارک خانودہ علم و فضل کے حوالے
سے محتاج تعارف نہیں،جہاں اس خانوادے کے رجال نے علوم وفنون کی گراں قد
خدمات انجام دیں وہیں ان کی خواتیں نے بھی علم وادب میں کمال حاصل کر کے
اہل جہاں کو اپنی صلاحتیوں کا معترف کر لیا۔خانوادہ خیرآباد کا یہ وہ
امتیازی وصف ہے جو اسے غیروں سے ممتاز کرتا ہے۔خانوادہ خیر آبادکی اہل علم
خواتین میں بی بی سعید النسا حرماں خیرآبادی صاحب زادی حضرت علامہ فضل حق
خیر آبادی،حضرت ہاجرہ بی خیرآبادی زوجہ مولانا عبد الحق خیرآبادی اور بی
بی رقیہ بنت مولانا عبد الحق خیر آبادی کے نام خاص طور سے لیے جاسکتے
ہیں۔ان اہل علم خواتین کی علمی حیثیت کی وضاحت کے لیے علامہ وقت حکیم برکات
احمد ٹونکی [تلمیذ مولانا عبد الحق خیرآبا دی ] کے ساتھ پیش آنے والا ذیل
کا واقعہ بڑااہم ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ برکات احمدٹونکی مولانا
عبد الحق خیرآبا دی کی خدمت میں رہ کر کسب علم کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں۔
’’میں نے مروجہ درس نظامی کی تکمیل کر لی تھی، متقدمین حکما کی کتابیں پڑ ھ
رہا تھا، مگر ناغوں کی کثرت کی وجہ سے ایک بار یاس کا عالم طاری ہو گیا اور
میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب اصل نصاب کی تکمیل ہو چکی ہے، غیر نصابی
کتابیں بھی نکل جاتیں توخوب تھا، مگرناغوں کی کثرت کے ساتھ تو کئی برس
درکار ہیں، ادھر والد ماجدتقاضے فر مارہے تھے کہ جلدی آؤ، اس لیے اب رخت
سفر باندھنا چاہیے،مگر علامہ[عبد الحق خیر آبادی]سے یہ توقع نہیں تھی کہ
وہ اس منزل کو تکمیل تصور فرماکراجازت[مرحمت]فرمائیں،اس لیے بیوی
صاحبہ[زوجہ مولانا عبد الحق صاحب]رحمۃ اللہ علیھما سے رخصت کر نے کے لیے
ڈیوڑھی [زنان خانہ] حاضر ہوا اور کہلوایا کہ برکات احمد واپس جارہا ہے،
رخصت طلب کرنے اور سلام کر نے حاضر ہواہے۔بیوی صاحبہ نے جب یہ پیغام سناتو
علامہ کی شفقت کے واسطے سے وہ بھی شفقت فر ماتی تھیں، یہ اطلاع پاکر اتنی
مضطرب ہوئیں اور پردہ کرا کر خود ہی ڈیورھی پر چلی آئیں اور
فرمایا:’’بیٹاملا برکت!ہم نے سناہے کہ تم جاتے ہو، اور ماشاء اللہ تکمیل
درس کر لی ہے، اللہ تعالیٰ مبارک کرے ، مگر بیٹا مولانا نے ہم سے ذکر نہیں
کیا کہ تم فارغ ہو گئے، کیوں بیٹا کہاں تک پڑھ لیا؟
مولانا نے ادب سے عرض کیا کہ تمام نصاب درس کی تکمیل کر لی ہے اورمیر زاہد
امور عامہ تک پڑھ لیا ہے۔ امور عامہ کانام سن کر ہنستے ہوئے فرمایا:’’بھئی
امور عامہ تک پڑھ کر خود کو فاضل سمجھ رہے ہو، کیا میں امور عامہ کے متعلق
کوئی سوال پوچھ سکتی ہوں؟ بیٹے امور عامہ تک اس خاندان کی مستورات بھی شُد
بُد رکھتی ہیں۔
مولانا فرماتے تھے کہ
’’بیوی صاحبہ کی تقریر سن کر انفعال سے حالت غیر ہو گئی اور میں نے بمشکل
یہ الفاظ اداکیے کہ میں اپنے فیصلے پر نادم ہوں ، اپنا فیصلہ فسخ کرتا ہوں
آپ سے استقلا ل کی دعاکی درخواست ہے۔ ۱ ؎
خانوادہ خیر آباد کی اہل علم خواتین نہ صرف یہ کہ معقولات پر دسترس رکھتی
تھیں بلکہ علوم ادبیہ اور دینیہ میں بھی ان کی مہارت کے تاریخی شواہد موجود
ہیں۔
خانوادہ خیر آباد کی اہل علم خواتین میں ایک نمایاں نام بی بی رقیہ بنت
مولانا عبد الحق خیر آبادی کا ہے جو اپنے وقت کی با کمال عالمہ و فاضلہ
تھیں۔انہیں علوم دینیہ میں گہری بصیرت حاصل تھی۔ان کے علم و فضل کا منھ
بولتا ثبوت ان کی تحریر کردہ قرآن کریم کی تفسیر’’طیبات بینات‘‘ ہے۔ اس
وقت میرے پیش نظر اس تفسیر کا قلمی نسخہ ہے۔
بی بی رقیہ بنت مولانا عبد الحق خیرآبادی کی تفسیر کا یہ نا یاب قلمی نسخہ
آستانہ عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف یو پی کے ذخیرہ کتب میں ہے۔اور اسی نسخے
کا عکس اب خانقاہ قادریہ بدایوں کتب خانے میں بھی ہے۔ جامعہ صمدیہ پھپھوند
شریف کے ناظم اعلیٰ مخدوم گرامی حضرت مولانا سید محمدانور میاں دام ظلہ کی
عنایت سے یہ نسخہ مجھے مطالعے کے لیے حاصل ہوا۔چوں کہ علامہ فضل حق
خیرآبادی اور خانوادہ خیر آبا پر لکھی جانے والی تحریروں میں کہیں اس کا
تذکرہ نہیں ملتا،ہاںمولانا اسید الحق قادری بدایونی اپنی تازہ تالیف
’’خیرآبادیات ‘‘میں پہلی باراس کا اجمالاتذکرہ کیا ہے،لہذااس تفسیر کا
تعارف وتجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔تاکہ اہل تحقیق کی نظروں
سے اوجھل یہ تفسیر منظر عام پر آسکے اور خانوادہ خیر آباد کی ایک اہم
علمی خدمت کی نقاب کشائی بھی ہو جائے۔
اس تفسیر کا نام’’تفسیرطیبات بینات ‘‘معروف بہ ’’صراط مستقیم‘‘ ہے۔مصنفہ نے
یہ تفسیر اپنی پھو پھی صاحبہ[دختر علامہ فضل حق خیر آبادی ]کی فرمائش پر
لکھی ہے۔سرورق پر لکھا ہواہے:
’’بعون صناع مکین و مکاں بفضل خلائق زمین و زمان-حسب فرمائش جناب پھو پھی
صاحبہ‘‘۔ ۲ ؎
سرورق کے وسط میں یہ عبارت لکھی ہے:
تفسیر طیبات بینات المعروف بہ صراط مستقیم،من تصنیف محترمہ دختر
شہسوارمیدان تحقیق والتصدیق شمس العلما ء مولانا عبد الحق خیرآبادی ہندی
ابن جناب مولانا فضل حق صاحب مرحوم خیرآبادی ابن مولانا فضل امام صاحب‘‘۔
۳ ؎
اس نسخے کی کتابت جناب نثار احمد صاحب ابن بشیر احمد خیرآبادی نے کی ہے۔اس
سے پہلے بھی ایک نسخے کی کتابت عمل میں آچکی ہے ۔ سرورق کے نیچے والے حصے
میں دوسطروں میں در ج ذیل عبارت مرقوم ہے:
’’ بقلم خادم العلما ء احقرالکونین نثار احمد ابن شبیر احمد خیرآبادی۔
زصحت مولانا برکات احمد صاحب بار دیگر تحریر شد‘‘ ۴ ؎
اس تفسیر کی پہلی کتابت بھی اسی نسخے کے ساتھ ہے، لیکن اس کے اوراق بوسیدہ
ہو چکے ہیں اور ابتدائی چند صفحات میں حروف مٹ گئے ہیں جس کی وجہ سے پڑھنے
میں دشواری ہو تی ہے ۔ لیکن دوسری کتابت صاف اور خوش خط ہے۔ یہ تفسیر بڑی
تقطیع کے۱۷۹؍صفحات پر مشتمل ہے۔ہر صفحے میں جلی قلم کی ۱۵؍ سطریں ہیں۔
اس تفسیر کو استاذ وقت علامہ برکات احمد ٹونکی [ تلمیذمولانا عبدالحق
خیرآبادی]نے حرف بہ حرف پڑھ کر اس کی تائیدو تصدیق کی ہے اور اس پر تقریظ
بھی تحریر فرمائی ہے۔ان کے علاوہ مولانابشیرخاں رام پوری تلمیذ مولانا فضل
حق رام پوری کی تقریظ بھی اس تفسیر کو اعتبار واعتماد کی سند فراہم کرتی
ہے۔
علامہ برکات احمد ٹونکی اپنی تقریظ میں فرماتے ہیں:
’’الحمد للہ الذی انزل الفرقان فیہ آیات محکمات واخر متشابہات والصلاۃ
علیٰ رسولہ الذی اُرسل الیٰ کافۃ الخلق بالحجج والبینات وعلیٰ اٰلہ وصحبہ
الذین ھم اقتدوہ بالمعجزت والکرامات۔
امابعد۔آج تک جتنی تفاسیر اور تراجم عربی ،فارسی اردو میں قرآن کریم کی
ہوئی ہیں گو وہ لاتعد ولا تحصی سہی لیکن یہ تراجم صرف رجال امت کے ساتھ
خصوصیت رکھتے ہیں، اب تک کوئی تفسیر یاترجمہ ایسا نہیں گزرا جو نساے امت سے
تعلق رکھتاہو، سب سے پہلے ملک ہندوستان میں جس نے اس میدان میں قدم رکھا وہ
ملک العلما،شمس الفضلا،وحید العصر، فرید الدہر، علامہ زمن، استاذ الکل، شہ
سوار میدان تحقیقات علمیہ ، محرر تدقیقات حکمیہ استاذنا ومولانا مولوی عبد
الحق العمری الخیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ مع اساتذتہ رحمۃ واسعۃ کی صاحب
زادی جنابہ رقیہ بی صاحبہ ہیں جنہوں نے عام اردو میں اکثر آیات احکامیہ کا
ترجمہ کیااور اس کے ذیل میں مفسرین کے اقوال سے اس کے فوائد بیان کیے، میں
نے اس تفسیر کو اول سے آخر تک دیکھا ہے، اس کے جملہ مضا مین صحیح اور قابل
عمل ہیں، ترجمہ سنجید گی اور متانت سے کیا گیا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ
خداوند تعالیٰ اس تفسیر سے ملک کے افراد کو مستفیض کرے اور ہر فرد بشر اس
سے بہرہ مند ہو، اور سب کو عمل کی توفیق نصیب ہو۔ ۵؎
حررہ ابو محمدبرکات احمد کفش بردار حضرت شمس العلما علامہ عبد الحق خیر
آبادی قدس سرہ
مولانا بشیر خاں رام پوری اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں:
’’تفسیر بی بی صاحبہ کو میں نے مختلف مقامات سے دیکھا جس کے مضامین کی خوبی
اورترجمہ کی عمدگی کیا بیان کی جائے ، جس کی تقریظ علامہ زمن مولانا ابو
محمد برکات صاحب نے لکھی اور تعریف میں چند کلمات تحریر فرمائے ہیں ، دوسرا
کیا قلم اٹھا سکتا ہے۔ آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ اس تفسیر سے
افراد ملک کو فائدہ بخشے اور اس پر کار بند ہو نے کی توفیق عطا فر مائے۔ ۶
؎
محمد بشیر غفرلہ صدر المدرسین مدرسہ نیازیہ خیرآباد
مصنفہ نے خطبہ کے بعد کی ابتدائی سطروں میں مسلم معاشرے کی بے راہ روی کا
ذکر کرتے ہو ئے اس تفسیر کی تصنیف کا سبب بھی ذکر کیا ہے۔ وہ فر ماتی ہیں:
’’حمد اس خداکوجو عالم کا پروردگار ہے اوردروداورسلام اس نبی پر جو سب
نبیوں کا سردار ہے۔ میں نے قرآن شریف کا ترجمہ دیکھا اور تفسیردیکھی تو
آنکھیں کھل گئیں، دنیا کو دیکھا تو قر آن شریف سے بالکل خلاف چل رہی ہے،
بہت لوگ ہمارے بھائی بندیہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ قرآن شریف کیا چیز ہے
اور کیوں اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ، بہت لوگ ایسے ہیں کہ قرآن شریف کے
خلاف ہر بات کرتے ہیں جو جی میں آتا ہے وہ کرتے ہیں اور اگر کوئی بات
قرآن شریف کی کسی سے بیان کی جاتی ہے یا منع کیا جا تا ہے کہ ایسا نہ کرو
تو یہ جواب دیتے ہیں ’’ تم ہی تو جانتی ہو‘‘ اور ایک اور جواب یہ ہے کہ ’’
سبھی کرتے ہیں‘‘مثالیں دی جا تی ہیں کہ فلاں نے ایسا کیا۔ میں نے قرآن
شریف کے کچھ حکم مع چند آیتوں کے اور ترجمہ وتفسیر لکھی ہے، اردو صاف زبان
میں جس کی صحت مولوی برکات احمد صاحب شاگرد رشید مولانا عبد الحق صاحب خیر
آبادی ومولوی بشیرخاں صاحب رام پوری شاگرد رشید مولانا عبد الحق صاحب خیر
آبادی کر چکے ہیں، اب اس میں کسی بات کی غلطی نہیں ہے، اسے ہر شخص اچھی
طرح سے سمجھ سکتا ہے۔ پھر جس کو اللہ ہدایت دے گا وہ راہ پر آوے گا۔ اور
اس کتاب کا نام رکھا گیا’’ تفسیر طیبات بینات المعروف بہ صراط مستقیم‘‘۔ ۷
؎
یہ تفسیر آج سے اٹھا سی سال قبل یعنی۱۳۴۵ھ میں تحریر کی گئی ہے جیسا کہ
کتاب کے ان اختتامی جملوں سے پتہ چلتا ہے۔
’’اللھم بارک فی کتابنا،میں اپنی اس ناچیز کو مندرجہ بالا دعاپر ختم کرتی
ہوں اور ناظرین سے درخواست ہے کہ خود بھی پڑھیں اوروں کو بھی سناویں، مولفہ
خاک پاے علما خادمہ اہل جہاںرقیہ خا تون بنت وحید العصر علامۃ الدہر حضرت
مولاناعبد الحق صاحب مرحوم و مغفور ابن جناب مولانافضل حق صاحب مرحوم
ومغفورخیر آبای مدفون در کالا پانی ابن مولانا فضل امام صاحب جعل
الجنۃمثواہ المرقوم ۲۶؍جمادی الاولیٰ ۱۳۴۵ہجری المقدس نبوی‘‘۔ ۸ ؎
یہ تفسیر چوں کہ عام لوگوں کی اصلاح کے لیے لکھی گئی ہے، اس لیے زبان و
بیان نہایت سادہ استعمال کیا گیا ہے، ترجمے میں سادگی کا خاص خیال رکھا گیا
ہے عموما علمی مباحث سے صرف نظر کرتے ہوئے اصلا حی گفتگو پر اکتفا کیاگیا
ہے۔مصنفہ نے مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر دل کھول کر آنسو بہا
یا ہے اورمسلمانوں کو قر آن وحدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے
ڈرایا ہے۔ داعیانہ و مصلحانہ طرز بیان تفسیر کے سطر سطر سے عیاں ہے۔
مصنفہ نے عمو ما ان ہی آیتوں کا انتخاب کیا ہے جو فرد یا معاشرہ کی اصلاح
سے تعلق رکھتی ہیں ۔خاص طور سے خواتین کے احکام پر مبنی آیات پر تفصیل کے
ساتھ لکھا گیا ہے۔ بعض مقامات پر بڑے والہانہ انداز میں نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم ،خلفاے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ
علیہم اجمعین کا ذکر چھیڑا ہے۔ ہم ذیل کے سطور میں اس تفسیر کے چند نمو نے
پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔
آج انگریزی تہذیب وتمدن ہماری زندگی میں اس طرح داخل ہو چکی ہے کہ ہم نے
اسی کو معیار زندگی سمجھ رکھا ہے۔ خصوصا ہمارے معا شرے کی خواتین اس سلسلے
میں اپنے حدود کو پھلانگ چکی ہیں، بے پر دگی کے ساتھ بر ہنگی بھی عام ہو تی
جارہی ہے۔
مصنفہ بی بی رقیہ صاحبہ نے انگریزی وضع قطع سے حد درجہ نفرت کا اظہار کرتے
ہوئے متعدد مقامات پر سخت بر ہمی کا اظہار کیا ہے۔ذیل کے اقتباس سے ان کے
جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
’’اس وقت کی لڑکیا ںمیموں کے اور رنڈیوں کے طریقے اختیا ر کیے ہیں، اور ماں
پاب روکتے نہیں بلکہ تر غیب دیتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتی ہیں اس سے خوش ہو
تے ہیں اور خود سب سامان منگا دیتے ہیں۔ بجاے جو تیوں کے بوٹ اور چنے دو
پٹہ، اور کنگھی اب لڑکیاں نہیں کرتی ہیں۔ بالشت بھر کے کنگھے سر میں کرتی
ہیں اور لڑیاں بناتی ہیں اور اسکیٹس پہنتی ہیں، اور قمیص نام رکھا ہے ایک
انگریزی پہنائے کا، اس میں پلیٹیں ڈالی جاتی ہیں جیسے میمیں ڈالتی ہیں ،
اور جوڑے باندھتی ہیں، اور کسی سے شر ماتی نہیں ہیں، مرد ہو یا عورت ۔ اور
کچی زبان جو بولتی تھیں وہ اب پکی زبان بولتی ہیں، نتیجہ اس کا کیا نکلتا
ہے اس آزادی کا کہ لڑکی بے بیاہی ،کسی کو سُنا نکل گئی، کسی کو سنا لڑکا
پیدا ہوا، کسی کا ظاہر نہیں ہوالڑکا،اتنا پردہ رکھا کہ ماں باپ نے نکاح کر
دیا، شوہر نا پسند ہوا،شوہر کو تہمت لگا کر نکل گئیں، جس کے جی چاہا محبت
کر لی۔ غرض کوئی حجاب اور کسی قسم کی عار نہیں رہی۔ مگر یہ سب باتوں کا
گناہ کر نے والوں پر بھی اور مدد دینے والے پر بھی۔‘‘ ۹ ؎
آیت مبارکہ’’وقد نزل علیکم فی الکتٰب ان اذا سمعتم آیٰت اللہ یکفر بھا
ویستھزأبھا اھ‘‘[سورہ نساء آیت ۱۲۰] کی تفسیر کے ذیل میں فر ماتی ہیں:
’’اور کا فروں کا طریقہ نہ اختیار کرے اور کافروں کے ساتھ محبت نہ کرے اور
کا فر کی رفاقت نہ کرے اور مسلمانوں کا طریقہ نہ چھو ڑے، اس زمانہ میں اکثر
عور توں اور مر دوں نے مسلمانوں کا طریقہ بہت برا اورذلیل سمجھ کر چھوڑ دیا
اور انگریزی طریقہ اپنا فخر اور عزم سمجھ کر اختیار کیاہے۔جیسے اللہ کی رسی
مضبوطی سے پکڑنا چاہیے تھی اس سے زیادہ انگریزوں کے طریقہ پر مسلمان عامل
ہیں۔ خدا بچائے اور اپنے بندوں پر رحم فرماوے اور یہ حرکات خبیثہ چھڑاوے‘‘۔
۱۰ ؎
انگریز اورانگریزی تہذیب و تمدن سے نفرت خانوادۂ خیر آبادکاخاندانی وطیرہ
رہا ہے۔ انگریزی مظالم کے خلاف صداے حق بلند کر نے کی پاداش میں اس خانوادے
کے بطل جلیل علامہ فضل حق خیر آبا دی کو کالا پا نی کی سزا ہو ئی اور وہیں
آپ نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔ اسی مر د مجاہد کی پو تی بی بی رقیہ کی
تحریر کر دہ یہ سطور بھی پڑھیں جن سے انگریز بیزاری صاف جھلکتی ہے اوران کی
اسلامی غیرت و حمیت کا بھی اندازہ ہو تا ہے۔
’’اب ہندوستان میں عام رواج ہو گیا ہے بد وضعی اور بے حیائی کا، طریقہ یہ
نکلا ہے کہ لڑ کی پیدا ہوئی ، اس کو انگریزی پہناوا پہنا دیاگیا، جو کرتا
ٹوپی پہنا یا جا تا تھا وہ اب نہیں ہے۔ بجاے کرتے کے ایک پہناوا ہے قمیص اس
کا نام رکھا ہے، اور واسکٹ۔ اور انگریز کے لڑکے جو فراک پہنتے ہیں اور
انگریزی ٹوپی اور ٹوپ۔شروع میں یہ عام عادت ڈالی جاتی ہے، پھر جوں جوں لڑ
کی بڑھتی ہے ،سب عادتیں انگریزی اور سب طریقے انگریزی سکھا ئے جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ کان نہیں چھیدے جاتے ہیں اور جن کے چھیدے ہیں وہ بالیاں نہیں
پہنتی ہیں، بہت برا جانتی ہیں، اور اکثر ساڑی باندھتی ہیں، اوربعض سایہ بھی
پہنتی ہیں اور دو پٹہ جو اوڑھتی ہیں تو سر اور پیٹھ اور ایک پکھوڑا بند
نہیں ہو تاہے اور ہر غیر مرد کے سامنے یعنی جس مرد کے سامنے آتی ہیں بے
تکلف سر اور پیٹھ اور ایک پکھوڑا کھلا ہوتاہے، یہاں تک کہ خط میں تاریخ بھی
انگریزی لکھی جاتی ہے، اور جو تقریب ہو تی ہے انگریزی سن اورتاریخ کے حساب
سے ہو تی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی تاریخیں اور بنائے مہینہ ، ان کو ذلیل
سمجھتے ہیں۔ غرض جہاں تک ہو سکتا ہے اور معلوم ہو تا ہے وہ انگریزی طریقہ
ضرور کرتے ہیں اور قدم پہ قدم رکھتے ہیں‘‘ ۱۱ ؎
اکثر علا قوں میں دیکھا گیا ہے کہ عورتیں توہمات کا شکار ہو تی ہیں اور
ایسی باتوں کا پختہ یقین کر بیٹھتی ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ
بعض باتیں تو اسلامی اعتقادات کے صریح خلاف ہو تی ہیں، مصنفہ نے اپنی اس
تفسیر میں عورتوں کی ان توہمات کی زبردست تردید کی ہے اور اسے ایمان کی
کمزوری قرار دیا ہے ایک موقع پر لکھتی ہیں:
’’اور بعض عورتیں ایسی ہیں جو ایک لڑکا مر جا تا ہے دوسرا پیدا ہو تا ہے تو
اس کی کان اور ناک میں سوراخ کر دیتی ہیں اور وے اس کا یقین کر تی ہیں کہ
اب یہ نہیں مرے گا۔ اگر اتفاق سے وہ جی جاتا ہے تو یہ جانتی ہیں کہ سوراخ
سے جیا۔ اور گوبر سے تولتی ہیں کہ گو بر اسے بچا لے گا، اور بہت سی حرکتیں
کر تی ہیں اور پھر بھی لڑکے مر جا تے ہیں، پھر جو پیدا ہو تے ہیں پھر وہی
کام کر تی ہیں۔ منگل اتوار کو اگر کوئی جاتا ہے جہاں موت ہو جاتی ہے تو بعض
عورتیں بہت برا مانتی ہیں اور یہ جانتی ہیں کہ کوئی اور مر جاوے گا اور
بچپن سے بڑھاپا آجاتا ہے یہ دیکھتے ہیں کہ بچہ اور جوان بوڑھے سب مر جا تے
ہیں۔ مگر شیطان ایسا سوار ہے سر پر کہ یہ حر کتیں نہیں چھوڑ تیں ہیں‘‘۔ ۱۲
؎
مروجہ تعزیہ داری علماے اہل سنت کے نزدیک نا جا ئز و حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اس سلسلے میں متعدد فتا وے تحریرفرمائے۔
مصنفہ نے تعزیہ داری اور ہندوانہ رسم و رواج جو بعض مسلم علاقوں میں رائج
ہیں انہیں غیر اسلامی اور ایمان کے منافی قرار دے کر مسلمانوں کی اسلامی
غیرت و حمیت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ فرماتی ہیں:
’’رافضی تعزیہ کو بہت مانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ کام دنیا اور
دین کا ہے سب تعزیہ کر تا ہے۔اور بہت سے سُنّی بھی تعزیہ کو مانتے ہیں،
تعزیہ کو سلام کرتے ہیں اور منتیں مانتے ہیں اور حلوہ مٹھائی چڑھاتے ہیں
اور رات بھر تعزیہ کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور یہ دل سے یقین کرتے ہیں کہ ہما
را سب کا م تعزیہ کرتا ہے، اور تعزیہ دیکھنے کو دینی نجات سمجھتے ہیں۔ اور
بہت مسلمان دیوالی کرتے ہیں یعنی لڑ کیوں کے گھروندے اور کلیہاں چپتے
ہیں۔اور چراغ جلا تے ہیں، اور بہت سے مسلمان چیچک کے بارے یہ جانتے ہیں کہ
اس میں بہت بڑی بزر گی ہے، اور بہت مسلمان ہو لی کھیلتے ہیں یعنی رنگ
کھیلتے ہیں اور بہت سے مسلمان گڑبان کرتے ہیں یعنی گڑیاں جس دن ہندؤوں کی
ہو تی ہیں اس دن مسلمان بھی وہی سب رسوم کرتے ہیں، پوڑیاں پکا تے ہیں،
گھونگنی بنا تے ہیں۔ بھائی بہنوں کے یہاں گھونگنی لے کر جاتے ہیں۔آپ
بتائیں کافروں میں اورا ن مسلمانوں میں کیا فرق رہا؟‘‘ ۱۳ ؎
روافض کی شناعتوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی
کرتے ہیں اور ان کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں۔ مصنفہ بی بی
رقیہ ان کی شناعتوں کو بیان کرنے کے بعد فرماتی ہیں:
’’اور بہت لوگ کہتے ہیں کہ رافضی کافر نہیں ہو تے ،اور رافضی کو بُرا نہیں
سمجھتے، اور رافضی صحابہ کو بُرا کہتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں ضرور کافر
ہیں۔ صحابہ کی شان میں آیتیں نازل ہو ئیں‘‘۔ ۱۴ ؎
روافض خلفاے راشدین میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہم کو غا صب کہتے ہیں اور خلیفہ اول بلا فصل حضرت علی رضی اللہ
عنہ کو قرار دیتے ہیں۔ جب کہ روافض کا یہ عقیدہ اسلامی معتقدات کے خلاف اور
سراسر باطل اور بے بنیاد ہے۔ مصنفہ نے اپنی تفسیر میں آیت پاک’’ وعد اللہ
الذین اٰمنوامنکم وعملوالصالحات لیستخلفنھم فی الارض اھ‘‘[سورہ نور
آیت:۵۵] کے تحت اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ فر ماتی ہیں:
’’ مفسرین فرماتے ہیں: اور اس آیت میںدلالت ظاہرہ ہے خلافتِ ابو بکر صدیق
وخلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر، سفینہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث
روایت فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرماتے
تھے کہ خلافت میرے بعد تیس برس رہے گی، پھربادشاہت ہو جاوے گی، پھر سفینہ
رضی اللہ عنہ نے کہا شمار کراؤ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت دو
برس رہی اور خلا فت عمر رضی اللہ عنہ کی دس برس اور عثمان رضی اللہ عنہ کی
بارہ برس اور علی رضی اللہ عنہ کی چھ برس اور جو کوئی کفر کرے بعد اس کے سو
وہی لوگ ہیں نافرمان اللہ کے‘‘۔ ۱۵ ؎
آیت مبارکہ’’ الاتنصروہ فقد نصرہ اللہ اذاخرجہ الذین کفرو ثانی اثنین
اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا فانز ل اللہ سکینتہ
اھ‘‘(سورہ توبہ ، آیت ۴۰) کے تحت لکھتی ہیں:’’مفسرین فرماتے ہیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم غارثور میں تھے، جب کہ کہا تھا ہمارا پیغمبر اپنے ساتھی
یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہ تو غم نہ کر بے شبہہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
شبلی کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب پر عتاب کیا سواے ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے ہمارے پیغمبر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا،
اور غم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ
سے تھا کہ آپ کو ایذا نہ پہونچے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : میرا ساتھی ہے ابو بکر کو ہ غار میں اور مصاحب ہے حوض کوثر پر اس
لیے جو کوئی صحبت صدیق کا انکار کرے کا فر ہے‘‘۔ ۱۶ ؎
بی بی رقیہ خیرا ٓباد کے اس خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں جو علوم عقلیہ و
نقلیہ میں معاصرین پرفائق ہو نے کے ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی عشق و محبت سے بھی سرشار تھا۔ زیر تذکرہ تفسیر میں بھی جا بجاعشق رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا جہاں بھی تذکرہ
آتا ہے، انداز بیان ایسا والہانہ ہو جاتا ہے گویاقلم سے پھول جھڑتے ہو ں۔
یہاں نہ کوئی تصنع ہے اور نہ ہی لفظوں کا کھیل۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی افضلیت کے بیان کا یہ اچھوتا اسلوب ملاحظہ کیجیے:
’’آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ سب پیغمبروں سے زیا دہ ہے، آپ کے
مرتبے کی انتہا کوئی نہیں لکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت جگہ پر قرآن شریف
میں فرماتا ہے۔ اور سورہ بقر ہ میں فرماتا ہے:’’ تلک الرسل فضلنا بعضھم
علیٰ بعض منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجات‘‘ ترجمہ: یہ سب رسول بڑائی دی
ہم نے ان میں ایک سے ایک ،کوئی ہے کہ کلام کیا اس نے اللہ سے اور بلند کیے
بعضوں کے درجے‘‘۔ مفسرین فرماتے ہیں : ان میں سے بعض کے درجے بڑھائے، یعنی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ میں بہت سی خصوصیات حق تعا لیٰ نے رکھیںجو
اور پیغمبروں میں نہ تھیں، معجزہ شق القمر آپ کو عطا ہوا اور معجزات عظیمہ
دیے گئے جو اور پیغمبروں میں نہ تھے۔ سب سے بڑا معجزہ قر آن شریف کا عطا
ہوا ہے کہ اس کا مثل کوئی نہ لاسکا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے
فرمایا: کہ ہر پیغمبر کو اس قدر آیات عطا ہوئیں کہ جس قدر آد می اس پر
ایمان لائیں اور مجھ کو قرآن عطا ہوا، اس لیے مجھ کو امید ہے کہ میرے اوپر
ایمان لانے والے سب سے زیادہ ہوں گے، اور آپ نے فرمایا کہ مجھ کو پانچ
چیزیں عطا ہو ئیں جو کسی پیغمبر کو عطا نہیں ہو ئیں، اور ایک روایت میں چھ
آئی ہیں۔ ایک یہ کہ میرا خوف دشمنوں کے دل میں ایک ماہ کے راستہ سے پیدا
ہو تا ہے، دوسرے میرے لیے تمام زمین مسجد بنائی گئی، تیسرے میرے لیے مال
غنیمت حلال ہو ئی، چو تھے شفاعت کبریٰ، پانچویں یہ کہ تمام مخلوق کی طرف
بھیجا گیا اور نبوت مجھ پر ختم ہوئی، چھٹے یہ کہ مجھ کو جامع کلمات عطا ہو
ئے‘‘۔ ۱۷ ؎
مصنفہ کا رواں دواں قلم یہیں پر خاموش نہیں ہو جاتا ہے بلکہ وہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر قر آنی و حدیثی دلائل کے انبار لگاتا
ہوااس مضمون کوکئی صفحات میں تکمیل تک پہونچاتا ہے۔
صحابہ کرام کی عظمت وا ہمیت کا اعتراف اور ان کا ادب واحترام ہر مسلمان پر
لازم ہے ۔ ان کی شان میں ادنیٰ سی گستا خی زوال ایمان کا سبب ہو سکتا
ہے،یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔مصنفہ بی بی رقیہ نے اپنی اس تفسیر میں بڑے
محبت آ میز لہجے میں صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت کا تذکرہ کیا ہے اور ان
پر طعن تشنیع کر نے والوں کو قرآن و حدیث کے حوالے سے وعیدیں سنائی ہیں۔
ایک موقع پر فرماتی ہیں:
’’مفسرین فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے
ڈرومیرے اصحاب کے بارے میں، نشانہ طعن اور ملامت کا ان کو نہ بناؤ، جس کو
ان سے محبت ہے میری محبت کی وجہ سے اور جس کو ان سے بغض ہے اس کو مجھ سے
بغض ہے، میری بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ہے، اور جو ان کو ایذا پہنچاوے
اس نے مجھ کو ایذا پہنچائی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی
اور جس نے اللہ کو ایذا دی آخر اس کو پکڑے گا۔اورنیز آپ نے فرمایا کہ
میرے اصحاب کو برا نہ کہو کہ تم اگر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردو تب
بھی اس کی ایک مد اورنصف مد صد قہ کے برابر نہیں ہو سکتا‘‘۔ ۱۸ ؎
ایک دوسرے مقام پر فر ماتی ہیں:
’’پس جس شخص کے دل میں کسی کی طرف سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے
بغض و کینہ ہو یا وہ تمام صحابہ کو مقتدا اور بزرگ نہ جانے وہ اس جماعت سے
خارج ہے اور اہل ایمان سے جدا ہے‘‘۔ ۱۹ ؎
گزشتہ صفحات میں تفسیر’’ طیبات بینات‘‘ کے چند نمونے قارئین کی خد مت میں
پیش کیے گئے، اب مناسب ہے کہ تر جمے کے چند نمو نے بھی نقل کر دیے جائیں،
تاکہ قارئین تفسیر اور ترجمہ دونوں کی خوبیوں سے آگاہ ہو جا ئیں۔
٭وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی
وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی
وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراً(سورہ نساء آیت۱۱۵ )
ترجمہ: اور جوکوئی مخالفت کرے رسول سے جب کھل چکی اس پر راہ کی بات اور چلے
سب مسلمانوں کی راہ سے سوا، ہم اس کو حوالے کریں اس طرف جو اس نے پکڑی اور
ڈالیں اس کو دوزخ میں اور بہت بری جگہ پہنچا۔ ۲۰ ؎
٭یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکَافِرِیْن
َأَوْلِیَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ أَتُرِیْدُونَ أَن تَجْعَلُواْ
لِلّہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَاناً مُّبِیْنا(سورہ نساء آیت۱۴۴)
ترجمہ: اے ایمان والو نہ پکڑو کا فروں کو رفیق مسلمان چھوڑ کر، کیا لینا
چاہتے ہو اپنے اوپر اللہ کا الزام صریح۔ ۲۱ ؎
٭وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُون وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ
إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ
حَمِیْدٌ ۔(سورہ بقرہ آیت۲۶۷)
ترجمہ: اورنیت نہ رکھو گندی چیز پر کہ خرچ کرو تم آپ، نہ لوگ مگر جو
آنکھیں موندلو، اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ ہے خوبیوں والا۔ ۲۲ ؎
٭’’وَوَصَّینَا الانْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنَاوان جاھداک لتشرک بی ما
لیس لک بہ علم فلا تطعھما الی مر جعکم فأنبئکم بما کنتم تعملون‘‘(سورہ
عنکبوت، آیت:۸)
ترجمہ:اورہم نے تاکیدکر دیا انسان کو اپنے ماں باپ سے بھلے رہیں اور اگر وہ
اسے زور کریں کہ تو شریک پکڑ میرا جس کی تجھ کو خبر نہیں تو ان کا کہا نہ
مان، مجھی تک پھر آنا ہے تم کو سو میںجتا دوں گا تم کو جو تم کرتے تھے۔ ۲۳
؎
٭ لہ مقالید السمٰوات والارض یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ بکل شئی علیم
اھ۔(سورہ شعراء آیت: ۱۲)
ترجمہ:اس کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی ، پھیلا دیتا ہے روزی
جس کو چاہے اور ناپ دیتا ہے، ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ ۲۴؎
٭و لللہ ما فی السمٰوات ومافی الارض لیجزی الذین اساء و بما عملو او یجزی
الذین احسنوا با لحسنی اھٰ‘‘ سورہ النجم آیت ۲۱‘‘۔
ترجمہ:اور اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں تا کہ بد لہ
دیوے برائی والوں کو ان کے کیے کا اور بد لہ دیوے بھلائی والوں کو بھلائی
سے۔ ۲۵ ؎
گزشتہ سطور میں’’ طیبات بینات‘‘کی تفسیر اور تر جمے کے چندنمونے پیش کر نے
کی سعادت حاصل کی گئی جن سے مصنفہ کے منہج تفسیر اور ترجمے کی سادگی کا
اندازہ ہو تا ہے۔جیسا کہ مقالے کی ابتدا میں عرض کیا گیا کہ اس تفسیر کا
بنیا دی مقصداصلاح عوام خصوصا اصلاح خواتین ہے، اس لیے عموما ان ہی آیات
کا انتخاب کیا گیا ہے جن کا تعلق فرد یا معاشرے کی اصلاح سے ہے لیکن بعض
بعض مقامات میں دقیق اور علمی گفتگو بھی کی گئی ہے اورادیان باطلہ اورفرق
ضا لہ مثلا یہود ونصاریٰ ، روافض، وہابیہ، دیانیہ و غیرہ جماعتوں کا بڑے
لطیف پیراے میں رد بھی کیا گیا ہے۔کتاب کے آخری صفحات میں خاص طور سے ان
آیتوں کو شامل کیا گیا ہے جو جہنم کی ہولنا کیوں کے بیان میں ہیں، پھر اس
کے تحت ترغیب و تر ہیب کی احادیث نبویہ اور اقوال مفسرین پیش کر کے قارئین
کے ضمیر کو جھنجھورا گیا ہے اور عمل صالح کی رغبت دلائی گئی ہے۔
٭٭٭
حوالے
۱ ؎مولانا حکیم سید برکات احمد سیرت اور علوم ،ص:۱۵۴،۱۵۵ بحوالہ :
خیرآبات، از مولانا اسید الحق بدایونی ص: ۲۸، ۲۹
۲ ؎سرورق’’ تفسیرطیبات بینات، از: بی بی رقیہ بنت مولانا عبد الحق خیر
ابادی ، قلمی نسخہ مملوکہ آستانہ عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف یو پی
۳؎سرورق’’ تفسیرطیبات بینات، از: بی بی رقیہ بنت مولانا عبد الحق خیر ابادی
، قلمی نسخہ مملوکہ آستانہ عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف یو پی
۴؎سرورق’’ تفسیرطیبات بینات، از: بی بی رقیہ بنت مولانا عبد الحق خیر ابادی
، قلمی نسخہ مملوکہ آستانہ عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف یو پی
۵؎ نفس مصدرص :۱؍۲۔
۶؎ نفس مصد ر( صٖفحہ نمبر ندارد )
۷؎ نفس مصدرص :۱؍۲
۸؎ نفس مصدرص :۱۳۷
۹؎ نفس مصدرص :۹۲
۱۰؎ نفس مصدرص :۵؍۶
۱۱؎ نفس مصدرص :۴۶
۱۲؎ نفس مصدرص :۱۳۷
۱۳؎ نفس مصدرص :۵۵؍۵۶
۱۴؎ نفس مصدرص :۵۱
۱۵؎ نفس مصدرص :۵۳؍۵۴(حدیث نبوی کے مطابق خلافت راشدہ کی مدت تیس سال ہے،
جو خلفاے اربعہ(حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمرع فاروق، حضرت عثمان غنی ، حضرت
علی رضی اللہ عنہم )کے بعد حضرت امام حسن بن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی
چھ ماہ اور چندا یام کی خلافت پر پوری ہو تی ہے ۔ کذا فی النبراس)
۱۶؎ نفس مصدرص :۵۴؍۵۵
۱۷؎ نفس مصدرص :۱۳۳؍۱۳۴
۱۸؎ نفس مصدرص :۵۲
۱۹؎ نفس مصدرص :۵۲؍۵۳
۱۲۰؎ نفس مصدرص :۶
۲۱؎ نفس مصدرص :۶
۲۲؎ نفس مصدرص :۲۹
۲۳نفس مصدرص :۲۳
۲۴؎ نفس مصدرص :۱۲۰ ۲۵؎ نفس مصدرص :۱۵۰
|