عاشقانِ رسول یاکہ محبانِ رسول

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

صَلُّو اعَلَی الحَبیِب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اسلام و علیکم۔

کچھ روز پہلے ایک صاحب کا ایک آرٹیکل پڑھا اور پڑھ کر کچھ عجیب ہی سا محسوس ہوا ۔ان موصوف کے آرٹیکل کا عنوان تھا۔" عاشقانِ رسول یا کہ محبانِ رسول"

ان صاحب کے بقول لفظ عشق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کرنا بلکل غلط ھے ۔کیونکہ لفظ عشق کا استعمال قرآن پاک میں کہیں بھی استعمال نہیں ھوا بلکہ لفظ "حب" استعمال کیا گیا ھے

بقول ان کے کہ انھوں نے اس سلسلے میں بھت سے مولوی حضرات سے بھی پوچھا مگر کوئی خاطر خواہ جواب لینے سے قاصر رھے۔ اب اگر ان موصوف کو کوئی اچھا مولوی یا عالم نہیں مل پایا تو اس میں ھمارا تو کوئی قصور نہیں۔خیر اس پر پھر کبھی بحث بھی ھو سکتی ھے۔ آتے ھیں اب لفظ عشق اور محبت کی ڈیفینشن کی طرف۔

آج سے تقریبا" 32 سال پہلے کسی صاحب نے آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی سے ایسا ہی سوال کیا کہ عشق مصطفیٰ کہنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں اول الذکر شخص نے پانچ مرتبہ سوال کیا۔

سوال۔ عشق کے معنی و مفہوم کیا ھیں؟
جواب۔ عربی زبان میں عشق کی معنی یہ ھیں۔
(1)۔ تعلق خاطر، چاہت،لگاؤ،اور چسپدگی۔
(2)۔دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دینا۔

موخر الذکر معنی کی رعایت سے کمال الفت و محبت کو عشق کہا جاتا ھے۔۔۔۔۔ یعنی چاہت کا وہ نقطہ عروج جو جذبات کے نشیب و فرآز سے پاک ھو۔

سوال ۔(2) محبت کے معنی و مفہوم کیا ھیں؟
جواب۔ عربی زبان میں محبت کے معنی ھیں " تعلق، خاطر،چاہت ،لگاؤ،پسندیدگی۔۔۔۔۔۔۔

محبت کا کوئی پیمانہ نہیں اس میں ہزار نشیب و فرآز ہیں اس لیے قرآن میں جب "محبت کا زکر کیا گیا تو اس کی تفصیل بھی بتلا دی گئی۔ ارشاد ھوا۔۔

" آپ کہہ دیجے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ھونے کو تم کو اندیشہ ھو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ھو۔۔۔ تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ھوں تو منتظر رہوں۔یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اپنا حکم بھیج دے اور اللہ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو انکے مقصد تک نہیں پہنچاتا۔ ( سورہ توبہ۔ آیت24)

اس آیت شریفہ میں جو شرح محبت بیان کی گئی ھے، وہ صرف " محبت" کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دینا ۔

لفظ محبت میں نیکی تعلق کا اندیشہ کار فرما ھے، جب کہ عشق۔ دلی تعلق کی غمازی کررہا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن ایسی محبت کا طلب گار نہیں جو ہر سعادت مند ماتحت کو اپنے افسر سے ھوتی ھے، یا رعیت کو بادشاہ سے ، بلکہ ایسی محبت کا طالب ہے ، جو ہر عاشق کو اپنے معشوق سے ہوتی ھے بلکہ اسے بھی بڑھ کر۔ملازم یا رعیت اپنے نفس کے لیے اپنے افسر سے محبت کرتے ھیں۔ قرآن کا مطالبہ یہ ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چاھو اور اس کمال سے اخلاص کے ساتھ چاھو کہ سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہیت کے دل سے ساری چاہتیں معدوم ہوجائیں۔۔۔

دو عالم سے کرتی ھیں بیگانہ دل کو
عجب چیز ھے لذت آشنائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین عشق کے معنی بھی چاہت کے اور محبت کے معنی بھی چاہت کے تو دونوں کو استعمال کرنے میں اتنا کچھاؤ کیوں اس کی بھی ایک بنیادی وجہ لغہ فارسی ھے۔ بھت سے دوستوں کو لغہ فارسی سے بھت چڑ ھے کیوں کہ یہ اولیا اکرام کی زبان ھے ۔۔ اس وقت اس پر بحث کرنا قارئین کو مین نقطہ سے دور کرنا ھو گا اس لیے اس پر کبھی زندگی نے ساتھ دیا اور وقت ملا تو پھر کچھ لکھیں گے۔

اب آتے ھیں اس معقصد کی جانب۔ کہ لفظ "عشق" کا استعمال قرآن کی روشنی میں صحیح ھے کہ نہیں۔؟

اگر کوئی لفظ اس معنی و مفہوم کی صحیح ترجمانی کرتا ھے۔جو مقصود قرآن ھے، تو پھر اس لفظ کو معنی کے اعتبار سے مقصود قرآن سمجھا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس پر اصرار کیا جائے کہ وہی لفظ استعمال کیا جائے، جو قرآن نے استعمال کیا ھے، تو سوال کیا جاسکتا ھے۔کہ لفظ " خدا" لفظ " نماز،" روزہ اور لفظ سود قرآن میں کہاں ھیں۔۔۔؟ پس چاھیے کہ عقائد و فقہ کہ اردو اور فارسی کی کتابوں سے ان الفاط کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جو قرآن نے استعمال کیے ھیں، لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ احتیاط کا تقاضا تو یہ تھا جو قرآن نے استعمال کیے ھیں انہیں کو استعمال کیا جاتا کیونکہ علم و فن کی ہر اصطلاح اپنے الگ معنی و مفہوم رکھی ھے اور یہ معنی و مفہوم عام لغت میں نہیں بلکہ ھر اصطلاح اپنے الگ معنی و مفہوم رکھتی ھے اور یہ معنی و مفہوم عام لغت میں نہیں بلکہ اس فن کی لغت میں ھی مل سکتے ھیں مگر ایسے الفاظ کے لیے بھی مترادفات کو تسلیم کیا گیا ھے اور بے دھڑک استعمال کیا گیا ھے اور لفظ"عشق" کے لیے یہ احتیاط کہ اسکو قرآن میں تلاش کیا جارھا ھے۔۔۔۔ اگر اسکو تلاش کیا جاسکتا ۔تو پھر ان الفاط کو بدرجہ اولی تلاش کیا جانا چاھے جو اوپر مذکور ھوئے۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد وہی وارفتگی و شیفتگی اور جزبہ جان نثاری ھے، جو مطلوب و مقصود قرآن ھے اور جس کا سورہ توبہ میں بیان بھی کیا گیا ھے۔

اس لیے " حب رسول" کہ جگہ"عشق رسول" کہنا زیادہ قریب ھو گا۔۔۔ جب ھم عشق رسول کہتے ھیں تو آیت مذکورہ کا مفہوم بجلی بن کر ہماری نظروں میں کوند جاتا ھے اور ساری توانائیاں ایک نقطہ " عشق " پر مرکوز ہوجاتی ھیں۔۔۔

اس پورے کالم میں جن مفتی صاحبان نے اور جن دوستوں نے میری مدد فرمائی ۔۔ اللہ عزوجل انکے درجات بلند فرمائے۔ اور ھم سب کو ایک سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بناے۔۔۔ آمین یا رب العالمین

جزاک اللہ خیر
Kashif Akram Warsi
About the Author: Kashif Akram Warsi Read More Articles by Kashif Akram Warsi: 12 Articles with 48511 views Simple and friendly... View More