اس مرتبہ یومِ تکبیر ان حالات
میں آرہا ہے کہ جب امریکہ بھارت‘ اسرائیل‘ وکی لیکس اور پاکستان میں موجود
پاکستان دشمن عناصر اپنے ایٹمی اثاثوں کے غیرمحفوظ ہونے کے حوالے سے اُنگلی
اُٹھارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے
اور اُسے یہ تفریق کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ کون سا ملک اس کا دوست ہے
اور کون سا ملک دشمن ہے۔ دوست کے روپ میں دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ قوم
کو بہر حال مضبوط اور پُرامید رہنا ہے کہ 2 مئی کو ایبٹ آباد آپریشن اور 22
مئی کے مہران نیول بیس پر حملے کے بعد والے سانحات جو یقیناً ہماری تاریخ
میں ایک سیاہ نقطے کے مانند موجود رہیں گے کے بعد مئی ہی کے مہینے میں ایک
تاریخ 28 مئی بھی آتی ہے جو پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے حوالے سے ایک
طمانیت بخشتی ہے۔ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور جنگ میں جہاں کامیابیاں
حاصل کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے وہاں اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ
دشمن بھی وار کرنے کے لئے پر تول رہا ہوتا ہے۔
اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس امر کو
رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرحد پار سے دشمن پیش قدمی کی کوشش یا کوئی ایک
گولی بھی فائر نہیں کرے گا۔ پاکستان ہمیشہ مشرقی سرحدوں کے حوالے سے باخبر
اور ہوشیار رہا ہے گزشتہ دس برس سے وہ مغربی سرحدوں پر ملک دشمنوں سے ملک
لڑ رہا ہے لیکن جن کے ساتھ مل کر جنگ لڑی جارہی ہو اگر وہی ”شب خون“ مار دے
تو اس میں ناکامی سے زیادہ بداعتمادی اور دھوکہ دہی کا عمل دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ خیر اتنا بھی قابلِ اعتماد کبھی نہیں رہا کہ اُس سے اس قسم کی سازش
اور دوعملی کی توقع نہ کی جاتی لیکن ان حالات میں کہ جب پاکستان کی فوج کے
تین ہزار سے زیادہ جوان شہید ہو چکے ہوں اور35 ہزار سے زائد پاکستان کے
معصوم شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہوں اور پھر جب پاک فوج سوات اور مالا
کنڈ میں کامیاب آپریشنز کرچکی ہو امریکہ جیسے حلیف کو یہ زیب نہیں دیتا تھا
کہ وہ اپنی ”ہائی فائی“ ٹیکنالوجی کو اپنے حلیف ملک کی فوج کو زِچ کرنے کے
لئے استعمال میں لائے گا۔ بچھو سے نہ کاٹنے کی امید عبث ہے لیکن پھر بھی
توقع کرنے میں کیا حرج ہے۔ 2 مئی اور22 مئی کے واقعات ہی کو بنیاد بنا کر
ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو غیر محفوظ قرار
دیا جارہا ہے۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔ بعض امریکی تو ان خبروں سے اتنے
ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ اس بینڈ ویگن میں شامل ہوئے جارہے ہیں جو یہ چاہتے ہیں
کہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ ان کا کنٹرول سنبھال لے۔ حالانکہ تاریخ سے اخذ
ہوتا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دار قوم خود امریکہ
ہی ہے جس نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک کر
ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا ڈالا اور اس سے بھی زیادہ تعداد میں معذور
کردیئے گئے۔ بدقسمتی سے کوئی قوم بشمول جاپان اس قابل نہیں ہوئی کہ امریکہ
کو منہ توڑ جواب دے پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج لگ بھگ ستر برس بعد بھی امریکہ
دنیا بھر میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ امریکی عزائم سے یہ
بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اُسے نائن الیون کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ امریکہ نائن
الیون اور پرل ہار بر ڈیزائن کرنے کا ماہرہے۔ نائن الیون کو بنیاد بنا کر
وہ افغانستان میں آیا اور اُس کا ٹارگٹ اُسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ
قابو کرنا تھا۔ دو مئی کو بقول امریکہ کے یہ کام بھی ہوگیا اس کے بعد
امریکہ کو اس خطے میں جنگ بندی کا اعلان کردینا چاہئے تھا اور فوری فوجوں
کا انخلاء شروع ہو جانا چاہئے۔ باقی رہ گئے طالبان تو وہ امریکہ اس خطے سے
نکل جانے کے بعد خود بخود پُرامن ہو جائیں گے۔
لیکن طالبان کا پُرامن ہو جانا ہی تو امریکہ کو قابلِ قبول نہیں ہے وہ خود
تو ان کے ساتھ مذاکرات کرتا پھرتا ہے جبکہ پاکستان کو ڈومور کی ”تھپکیاں“
دیتا ہے۔ امریکہ عزائم سے یوں لگتا ہے جیسے ایک سولائزیشن دوسری سولائزیشن
پر حملہ آور ہے۔ امریکہ افغانستان میں جب تک بیٹھا رہے گا۔ تب تک وہ
پاکستان اور اُس کی افواج جو ملکی سالمیت کی محافظ میں کے خلاف سازشوں میں
مگن رہے گا۔ اب پاکستان کی ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے پروپیگنڈہ
کیا جارہا ہے۔
یومِ تکبیر اس امر کا پیغام دیتا ہے کہ اگر اس غریب قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر
ایٹمی قوت حاصل کرلی ہے۔ تو وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس کی حفاظت
کرنا بھی جانتی ہیں۔ امریکہ کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بلی کو بھی محبوس
کر کے زچ کیا جائے تو وہ بھی اپنے پنجوں سے دشمن کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔ یہ
حقیقت ہے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور امریکہ‘ بھارت سمیت کسی بھی ملک کے
لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایٹم ایٹم کھیلے۔ پاکستان کی
سالمیت مقدم اور ایٹمی اثاثے ایک قوت ہیں جو اس کی سالمیت کو یقینی بنانے
کے لئے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔ قائدِاعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان
اُسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے سرزمینِ ہند پہ قدم رکھا
تھا۔ آج تو صرف پاکستانی مسلمان ہی اٹھارہ کروڑ ہیں۔ ہم ایک عوامی قوت ہیں۔
ہم ایک عسکری قوت ہیں اور ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور سبز ہلالی پرچم کوانہی
قوتوں کو یکجا رکھ کر سربلند وسرخرو رکھا جاسکتا ہے۔ یومِ تکبیر اس امر کا
پیغام دینا ہے کہ پاکستان انشاءاﷲ ہمیشہ رہے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں
مشکلات اور بحرانوں سے نکل کر ہی ترقی اور استحکام حاصل کرتی ہیں۔ |