صحرا کی بلبل ریشماں جب گلے کے کینسر میں مبتلا ہوئيں تو ڈاکٹروں نے انہیں گانے سے روک دیا مگر اس کے جواب میں انہوں نے کیا کیا؟ جانیں

image
 
سندھ کی مٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مٹی کے اندر روحانیت کا ایک سمندر مؤجزن ہے اس مٹی میں لعل شہباز قلندر اور شاہ عبدالطیف بھٹائی نے جو معرفت کا سفر طے کیا اس کے اثرات رہتی دنیا تک اس صوبے پر رحمتوں کی صورت میں سایہ فگن رہیں گے ۔ ان مزاروں پر صدیوں سے لوگ روحانیت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مثال عابدہ پروین کی ہو یا پھر بلبل صحرا ریشماں کی یہ وہ آوازیں ہیں جنہوں نے انہی مزاروں سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور کامیابی کے آسمانوں پر چاند بن کر چمکے-
 
ریشماں جن کو بلبل صحرا کے خطاب سے بھی نوازہ جاتا ہے ایک خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھتی تھیں- ان کی پیدائش 1947 میں راجھستان کے ایک گاؤں لوہا میں ہوئی قیام پاکستان کے سبب ان کا گھرانہ ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آگیا اس وقت ریشماں کی عمر صرف ایک ماہ تھی ان کے گھرانے کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اسلام کو قبول کر کے اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا تھا-
 
ابتدائی عمر ہی سے خانہ بدوش ہونے کے سبب ان کا گھرانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا رہتا تھا ریشماں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ لال شہباز قلندر کے مزار پر اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ صوفی کلام پڑھتے ہوئے گزارا۔ روحانیت ان کی نس نس میں اتر چکی تھی روائتی تعلیم سے محروم ریشماں خوبصورت ترین آواز کی مالک تھیں جس کو ان کی روح کی خوبصورتی نے اور بھی متاثر کن کر دیا تھا-
 
image
 
بارہ سال کی عمر میں ایک بار لعل شہباز قلندر کے مزار پر جب وہ لعل میری رکھیو گاتے ہوئے دھمال ڈال رہی تھیں تو ان کی آواز کی خوبصورتی اور گہرائی نے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے اس حد تک متاثر کیا کہ وہ ریشماں کو ریڈیو پاکستان میں گانے کی آفر دے بیٹھے جس کو ریشماں نے قبول کیا- کلاسیکل موسیقی کی تعلیم سے نا آشنا جب سر بکھیرتیں تو سننے والا سر دھننے پر مجبور ہو جاتا اور اس وقت میں گلوکارہ ایک مقبول ترین فوک گلوکارہ کے طور پر ابھریں- 1960 میں پاکستان ٹیلی وژن کے قیام کے بعد ریشماں کے گانوں نے وہاں بھی سب کو ششدر رکھ دیا-
 
جس طرح پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے اسی طرح ریشماں کی آواز بھی ایک ایسا ہی آزاد پرندہ تھی جس نے سرحد پار کے لوگوں کے دلوں کو بھی مسحور کر دیا اور انڈیا کے معروف ڈائيریکٹر اور پروڈیوسر سبھاش گئی نے انہیں اپنی فلم ہیرو کے لیے ایک گانا گانے کی آفر دے ڈالی- اس فلم کا گانا لمبی جدائی اپنے وقت کا سپر ہٹ نغمہ ثابت ہوا اور ریشماں راتوں رات پاکستانی گلوکارہ سے بین الاقوامی گلوکارہ بن بیٹھیں جن کی شہرت پوری دنیا میں پھیلنے لگی-
 
ریشماں کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ وہ دنیا کے کن کن ملکوں میں جا چکی ہیں تو ان کو ان ممالک کے نام بھی صحیح طرح لینے نہیں آتے تھے جہاں جہاں وہ نغمہ سرا ہو چکی ہیں لمبی جدائی کے بارے میں ریشماں کا یہ کہنا تھا کہ ان کو اسٹوڈیو جاتے ہوئے خوف آتا تھا تو انہوں نے سبھاش گئي سے کہا کہ وہ اسٹوڈیو جا کر گانا ریکارڈ نہیں کروائيں گی تو اس وجہ سے یہ گانا دلیپ کمار کے گھر پر ریکارڈ کروایا گیا-
 
image
 
ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کو ہندوستان کے گجرال سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو ، ضیا الحق ، بے نظیر بھٹو غرض ہر ہر دور کے سربراہان مملکت نے نہ صرف پسند کیا بلکہ قیمتی تحائف سے بھی نوازہ یہاں تک کہ ہندوستانی حکام نے انہیں ہندوستان کی شہریت کی بھی آفر کی مگر جس کو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا-
 
وقت کے ساتھ ریشماں گلے کے کینسر میں مبتلا ہو گئیں جس پر جنرل پرویز مشرف نے ان کے علاج و معالجے کی ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے مگر بد قسمتی سے آصف علی زرداری نے حکومت میں آنے کے بعد ان تمام سہولیات کو منقطع کر دیا جس کا ریشماں کو بہت دکھ تھا-
 
گلے کے کینسر میں مبتلا ہونےکے باعث جب ڈاکٹروں نے انہیں گانا گانے سے منع کیا تو ریشماں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا- ان کا یہ ماننا تھا کہ گانا ان کی زندگی ہے اور زندگی کی آخری سانس تک جب تک ان کی سانس چل رہی ہے وہ اپنی آواز کو گانے کے لیے استعمال کرتی رہیں گی- 3 نومبر 2013 کو لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں کینسر کے عارضے کے سبب وہ ہم سے جدا ہو گئيں مگر ان کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے اور ان کی یاد دلاتی ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: