پاکستان کی بقا اور قومی فریضہ

GHQسے لیکرسوات کے سکولوں کالجوں راولپنڈی کینٹ میں مسجد کے سانحے تکISI کے ہیڈ کوارٹرز سے لیکر چارسدہ تک ہونے والے درجنوں خود کش حملوں کی وحشت ابھی تک ازہان سے محو نہیں ہوئی تھی کہ اتوار کے دن پاک نیول فورس کے جی ایچ کیو pns مہران میں 10 سے 15 تربیت یافتہ دہشت گردوں کی16 گھنٹوں پر مشتعمل خونخوار دراندازی نے اہل پاکستان کو لرزا کر رکھ دیا۔ پاکستانی دفاعی اداروں میں ہونے والی تخریب کاری اور دہشت گردی ہماری قومی سلامتی اور ملی وحدت پر شب خون مارنے کے مصداق ہے۔ ٹیررسٹ پی این ایس مہران بیس پر قیامت ڈھانے والے ٹیررسٹ اس معرکے میں کامیاب دکھائی دئیے کیونکہ انہوں نے سمندری راہدریوں کی نگرانی کرنے والے دوجہازوں پی سی اور ین کو تباہ کردیا۔نیوی کے پاس اس طرز کے ٹوٹل 4جہاز تھے جن میں سے ایک بھارت نے تباہ کیا تھا دو اب راکھ ہوئے۔ یوں نیوی کے پاس سمندری حدود و سرحدوں کی نگرانی کرنے کے لئے صرف ایک جہاز بچ گیا۔ امریکہ سے خریدے گئے اربوں مالیت کے پی سی اور ین دور حاظر کے جدید ترین جہاز ہیں جو نہ صرف پانیوں میں پراسرار سفر کرنے والی آبدوزوں کی نقل و حرکت کوtrace کرلیتے ہیں۔بلکہ فضا سے ہی پانیوں میں ہدف کو نشانہ بنا کر بھسم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اسی لئے ین کو آبی نگہبان کہا جاتا ہے۔پی این ایس پر ایک ماہ میں یہ چوتھا حملہ ہے۔قبل ازیں اسی بیس کے مین گیٹ پر نیوی کی تین بسوں کو آتش و آہن کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ شائد حملہ آوروں نے پاکستان نیوی کے حفاظتی انتظامات کو جانچنے کے لئے بسوں پر حملہ کروایا ہواور بعد میں انہی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر وہ نیول بیس کے محافظوں کو تگنی کا ناچ نچانے میں کامیاب رہے۔ اس سانحہ جانفزا میں فورسز کے 10 جوان شہید ہوئے۔ عوامی حلقوں میں چند خدشات تحفظات اور سوالات کی صدائے بازگشت زور زور سے سنائی دے رہی ہے کہ نیول ماہرین نے بس حملوں کے صدمات سہنے کے بعد سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیوں نہ کئے؟ اربوں کے بجٹ پر پلنے والی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ کیا ہم اتنے بے بس ہوچکے کہ دہشت گردوں کا مکو ٹھپنے کے قابل نہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ دفاعی اداروں میں میر جعفر اور میر صادق داخل ہوچکے ہیں؟ کیا دفاعی اداروں کو روندنے کے بعد حالات کا دھارا خانہ جنگی کی طرف تو رواں دواں نہیں؟دفاعی اداروں سے منسلک ارباب اختیار قوم کو ان تحفظات اور سوالات کے جوابات سے آگاہی دیں ورنہ عوامی خدشات میں کمی کا تصور بھی ناممکن ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں یہود و ہنود ہمارے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنے کی بھونڈی کوشش کرسکتے ہیں۔بی بی سی نے خبر دی ہے کہ اگر کسی روز دس پندرہ دہشت گردوں نے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرلی تو عالمی برادری کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے ناقابل فراموش نقصانات کو گلے لگایا۔35 ہزار سے زائد ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند اس کشت و قتال کے خونیں سمندر میں موت کا لبادہ اوڑھ کر ڈوب چکے ہیں۔ چرچل سے دانشوروں کے وفد نے دوسری جنگ عظیم کے دوران شکست کی خبروں پر تبادلہ خیال کیا۔چرچل نے پوچھا کیا عدالتیں اور تعلیمی ادارے اپنا فرض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں؟ چرچل کو بتایا گیا کہ عدلیہ عوام کو انصاف فراہم کررہی ہے اور جنگی ایام کے باوجود تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا کام جاری ہے۔ یہ سنتے ہی چرچل کی انکھوں میں چمک عود کر آئی اور وہ دھاڑا جہاں عدلیہ اور تعلیمی ادارے معمول کے مطابق فرائض کی بجاآوری میں غلطاں ہوں وہاں شکست کا تصور کرنا ہی گناہ ہے۔دنیا کی جنگی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں کو جنگی ٹارگٹس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ دکھ تو یہ ہے کہ سوات میں تعلیمی اداروں کو بارود سے اڑانے اور مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کے مرتکب ملزمان کی مذمت نہیں کی جاتی۔ پاکستان ایک اندھی کھائی کے کنارے کھڑا ہے اور چھوٹی سی جنبش ہمیں ٹائی ٹینک کی طرح کھائیوں میں غرقاب کرسکتی ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ ابھی تک ہر کوئی اپنی ہاہاکار مچائے ہوئے ہے۔کیا کراچی کے نیول بیس پر ہونے والہ حملہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟کیا ہم نہیں جانتے کہ مہران بیس پر ہلہ بولنے والوں کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا۔انہوں نے دو طیارے تباہ کئے۔وہ نیوی کی عمارت پر قابض رہے اور ہماری فورسز پر راکٹ لانچر ہینڈ گرنیڈز مشین گن اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔پاک فوج کے خصوصی دستے پولیس اور انتہائی مہارت یافتہ کمانڈوز کی سپیشل فورس نیول بیس پہنچ گئے مگر دہشت گردوں کا زور اٹھارہ گھنٹوں کے بعد ٹوٹا۔ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔یہ ہماری ملکی تاریخ کا المناک اور الارمنگ واقعہ ہے۔اس سے قبل10 اکتوبر2009 کو دہشت گردوں نے اٹھارہ گھنٹے تک جی ایچ کیو کو یر غمال بنالیا۔اس واقعہ میں 9 فوجی شہید ہوئے ان میں ایک کرنل اور بریگیڈیر بھی شامل تھا۔نیوی پولیس اور رینجرز کی چیک پوسٹوں پر حملے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ دہشت گرد 43 مساجد کوجلا چکے 2001 سے آج تک425 خود کش بم دھماکے کرچکے ہیں جن میں10ہزار364 سوویلین اور3 ہزار638 سیکیورٹی فورسز کے آفیسرز اور جوان شہید ہوئے۔ اگر ڈرون حملوں کی غذا بن جانے والے مرحومین کی تعداد کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد 35 ہزار سے زائد ہوگی۔ہر طرف خوف کا عالم ہے۔ تھانے کا ایس ایچ او 6 تا 12کمانڈوز کی معیت میں باہر نکلتا ہے۔ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لیکر بے نیل و مرام پلٹ گئے۔بے روزگاری نے جرائم کی شرح کو ریڈ لائن تک پہنچا دیا ۔کرپشن نے ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا۔ امن و امان کی صورتحال نا گفتہ بے ہے۔ انصاف معدوم ہوچکا۔ تھانے جرائم کی آماجگاہ بن گئے۔ محافظ حیلہ ساز اور رہبر رہزن کا روپ دھار گئے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں زندگی گزارنا پل صراط پر چلنے کا نام ہے۔ یقین جانئیے ملکی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگ چکا۔ ریاست کے معتبر اداروں آرمڈ فورسز حکومت صدر مملکت پارلیمنٹ بیوروکریسی عدلیہ دانشور سیاست دان دینی رہنما اور اپوزیشن کو نیک نیتی سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور چند ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے۔ بڑے کڑوے کسیلے فیصلے لینے کی گھڑی آن پہنچی۔ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے جسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ٹھوس مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ہمیں بھارت کے ساتھ بیس سالہ امن معاہدہ کرلینا چاہیے۔امریکہ پر واضح کردینا چاہیے کہ انکے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کررہے ہیں۔ آرمڈ فورسز کا اعتماد مجروح ہوا ہے ۔ فورسز کو اپنی خامیوں پر کنٹرول پانا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ نئی سیکیورٹی پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیاسی رہنمامالیاتی معاشرتی اور سیاسی مسائل اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی بجائے سب سے پہلے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن ایجنڈے پر متفق کریں۔ ۔ اگر دہشت گردی کے عفریت کو نہ روکا گیا تو پھر جلد یا بادیر خانہ جنگی نوشتہ دیوار ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.