یہ زائرانِ حریمِ مغرب ،ہزار رہبر بنیں ہمارے

احمد اسد

پہلے چند خبریں ملاحظہ کرلیں:
امریکہ نے ڈرون حملوں پر پاکستان سے باضابطہ معافی مانگ لی۔
آئندہ کسی اہم ہدف کے خلاف مل کر کاروائی کریں گے۔ پاک امریکہ مشترکہ اعلامیہ۔
امداد بند کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، امریکی وزیر خارجہ کا وزیراعظم گیلانی کو فون۔
قرض لینی والی قوم میں قومی غیرت باقی نہیں رہتی۔ وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک

یہ تضادات، بے معنی و مقصد بیانات، خوئے غلامی کی لعنت میں لپٹے اِعلامیے ہمارے اصحاب اقتدار کا روزمرہ کا معمول ہیں۔ کسی دن کوئی بھی اخبار اٹھا کر د یکھ لیں عجیب و غریب احمقانہ و فضول اور جھوٹ و دغا سے بھرے بیانات و خبریں صفحہ اوّل پر قاری کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ہی صفحہ پر ایک خبر بتاتی ہے کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے اعلان کر دیا ہے کہ اب ڈرون حملے نہیں ہوں گے ،وہیں ذرا نیچے نگاہ جھکائی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ تازہ ڈرون حملوں میں ایک درجن سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ ایک خبر بتاتی ہے کہ پاکستان میں موجود امریکی اہلکار،پاکستانی خفیہ ایجنسی اور حکومت کے دباؤ پر ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ،وہیں دوسری طرف وہ بیانات سر جھکا دیتے ہیں جس میں ہمارے حکمران امریکہ کے سامنے اپنی غلامی و وفاداری کا یقین دلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک خبر بتاتی ہے کہ کوئٹہ میں ایف سی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے خود کش بمبار تھے حتیٰ کہ ان سے خود کش جیکٹس بھی برآمد کرنے کی اطلاع فراہم کر دی جاتی ہے وہیں دوسری خبر اس کی تردید کے لئے موجود ہوتی ہے کہ وہ بے گناہ تو پہلے ہی ظلم و جبر کا شکار ہو کر لٹے پٹے قافلے کے فرد تھے۔

کوئی ہے جو ان فسادانگیز حالات اور جھوٹے حکمرانوں کے بدبودار رویے سے سبق و عبرت حاصل کرے؟ ہم ان کو اپنے ہاتھوں سے کرسی اقتدار تک پہنچاتے ہیں ، ان کو اپنا قائد و رہنما چنتے ہیں، ان کے حق میں ریلیاں نکالتے ہیں، جلسے جلوس کرتے ہیں اور ان کے مفادات اور دولت و کرسی کے بچاؤ کے لئے باہم دست و گریباں ہوتے ہیں اور آپس میں قومیت و عصیبت کی آگ بھڑکاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری ان بے ڈھنگی چالوں، غلط فیصلوں اور غافلانہ و بزدلانہ رویے نے ہمیں دیا کیا ہے؟ آج ملکی سلامتی کو کس نے داؤ پر لگا رکھا ہے، کون ہے جو پاکستان کو امریکی غلامی میں دھکیل کر اسے امریکی کالونی بنا رہا ہے۔ کیاڈرون حملوں پر چپ سادھنے والے حکمران اور ملکی سالمیت کے محافظ عسکری قائدین اس قانون فطرت سے ناواقف ہیں کہ جب ایک مظلوم کا ڈنکے کی چوٹ پر پوری دنیا کو بتاؤ دکھلا کر خون بہایا جاتا ہے توپھر قدرت اس کا انتقام کس سے لیتی ہے اور کس طرح لیتی ہے؟ ہمارے ملک کو نت نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تو کیا یہ مظلوم خون کا بدلہ نہیں؟ ہماری عوام کتنے مسائل و مشکلات تلے کراہ رہی ہے اور روز مرہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے تو کیا یہ ظالم و جابر حکمرانوں کی غلط پالیسیوں و اقدامات پر خاموش حمایت کا فطری انتقام نہیں؟ جی ہاں! قدرت خداوندی کا نظام اٹل ہے، جس میں کوئی ردو بدل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی اس میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ خون کا بدلہ خون ہے، جب ہم خود ناحق بہائیں گے، یا اس پر مہر بہ لب رہیں گے یا ناحق خون کو اپنی فتح عظیم قرار دیا جائے اور ہم پھر بھی ان عاقبت نااندیشوں کے گن گاتے پھریں،یا جو طبقہ اس خون ناحق کا بدلہ لینے اور اس کاراستہ روکنے کا ذمہ دار ہے وہ اپنی ذمہ داری سے غفلت و بزدلی کا شکار ہو کر محض تماشائی بن کر رہ جائے تو پھر قدرت ان سب سے انتقام لیتی ہے، یہ تمام طبقات اس کی لپیٹ میں آتے ہیں، خاموش تماشائی بننے والی عوام، بے حمیت حکمران اور بزدل سپاہ یہ سب انتقام کا مزہ چکھتے ہیں۔ اور آج پاکستانی قوم اسی درد ناک اور عذاب ناک صورتحال سے دوچار ہے لیکن صدافسوس کوئی ایک ایسا نہیں جو اس کے اصل تدارک پر غور کرے یا اسے اختیار کرنے کے لئے آمادہ ہو۔ ہم اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلار ہے ہیں، اپنی شاخ اپنے ہاتھوں کاٹ رہے ہیں، اپنا نشیمن خود برباد کر رہے ہیں، اپنا آشیانہ خود ویران کر رہے ہیں۔

ان حالات میں جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم پر آنےوالے یہ خون آشام حالات اور سیاہ تر دن رات ظلم اور ناانصافی ہے وہ بیوقوف ہے ۔ وہ اس حقیقت سے نابلد ہے جسے اﷲ تعالیٰ کی اٹل کتاب قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:
” وما کان اﷲ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون....اﷲ تعالیٰ ان پرظلم نہیں کرتے لیکن ان لوگوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔“

مطلب بالکل واضح ہے کہ پہلے بندہ خود ظلم کرتا ہے، حدود اﷲ سے تجاوز کرتا ہے، احکام قرآنی کو پس پشت ڈالتا ہے، پھراﷲ تعالیٰ کا عذاب اسے گھیر لیتا ہے، اسی طرح جو قوم ظلم پر خاموش تماشائی بنی رہے، ظلم کو مٹانے کے لئے اپنے کردار و گفتار سے سچا ردعمل ثابت نہ کرے تو وہ بھی ظالم کی حمایتی بن جاتی ہے( جبکہ ہم تو ظالموں کے علی الاعلان حمایتی بنے ہوئے ہیں) اور جو عذاب ظالم کو پہنچتا ہے تو یہ حمایتی بھی اس عذاب میں شریک ہوتے ہیں۔

پھر یہ قانون جس طرح فرد پر لاگو ہے اسی طرح اَفراد و قوم اور اجتماعیت پر بھی لاگو ہے اگر ظلم فرد واحد کرے گا تو اس کا بدلہ اسی کو ملے گا لیکن اگرکسی ظلم میں پوری قوم شریک ہو، کوئی طبقہ اور ادارہ ملوث ہو تو وہ عذاب اس پوری قوم اور اس ادارے و طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس آیت کی روشنی میں ہم اپنا انفرادی جائزہ لیں اور اجتماعی جائزہ بھی لیں تو خود دل پرہاتھ رکھ کر یہ فیصلہ کیجئے کہ کیا ہم سے انفرادی و اجتماعی سطح پر ظلم سرزد نہیں ہورہے؟ اگر معاملہ صرف انفرادی ظلم کا ہوتا تو معاملہ اتنا خطرناک نہ تھا لیکن اب یہ ظلم اجتماعیت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اور ہم علی الاعلان ظالموں کی حمایت کر رہے ہیں اور جہاں ہم اسے روکنے پر قادر ہیں وہاں بھی مہر بہ لب بلکہ اندرون خانہ خوش ہیں تو بتلائیے اب اگرعذاب بھی اجتماعیت اور پوری قوم پر آئے تو اس میں کیا تعجب ہے؟ ہاں اگرکوئی انفرادی طور پر اپنے کردار وگفتار میں صاف ہے تو اس کا فائدہ اسے قیامت کے دن ہوگا لیکن اجتماعی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کی بنا پر دنیا میں عمومی سزا کی لہر سے ہرشخص متاثر ہو گا۔

کیا غضب ہے کہ ہم ان لوگوں کو رہبر بنائے ہوئے ہیں جو ہمیں”ملتِ اسلام“ سے کاٹ رہے ہیں۔ جو ہمیں قومیت و عصبیت اور جھوٹی سیاست کی تباہ کن اور تفرقہ خیز دلدل میں دھنسا کر بے دست و پا بنا رہے ہیں ، جو اپنے مفادات کی خاطر ہماری عزت، غیرت، قومیت، اسلامیت اور ملک و وطن کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔ جو لوٹ مار، کرپشن اور بددیانتی و خیانت سے ہماری دولت لوٹ لوٹ کر اپنی عیش و عشرت کا سامان جمع کر رہے ہیں۔ جنہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ امت مسلمہ تباہ ہو رہی ہے۔ دینی احکامات کو بگاڑا جارہا ہے، شریعت ان کی نظر میں ایک مذاق سے زائد کوئی چیز نہیں،بلکہ وہ اپنے کردار وگفتار سے شریعت اور احکام الہٰیہ کا مذاق و تمسخر اڑا رہے ہیں،اور ہم ان دین دشمن لوگوں سے ہم اپنی توقعات وابستہ رکھتے ہیں؟ انہیں نجات دہندہ تصور کرتے ہیں؟ اور جو لوگ اس قوم کو خیر اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں، قرآن وسنت کی طرف بلاتے ہیں، شرعی احکام کے ادب و احترام کی دعوت دیتے ہیں، جن کا اپنا کردار شرعی آداب کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے، جو لوٹ مار اور کرپشن جیسے ناسور سے کوسوں دور ہیں، جن کا جینا مرنا اسلام کے لئے ہے۔ جن کی جان و مال اسلام پر فدا ہے، ہم اُنہیں بیگانہ تصور کرتے ہیں، ان کے نقش قدم چلنے سے کتراتے ہیں۔ جو ہمیں مخلوق کی غلامی سے نجات دلا کر اﷲ کے در پر جھکاتے ہیں۔ ہم انہیں سے دور رہتے ہیں۔ اے کاش! آج ہم اپنے حقیقی محسنین کوپہچانیں، اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں فرق کریں ، حریمِ مغرب پر سجدہ ریز ہونے والوں اور حریم کعبہ میں سر جھکانے والوں میں تمییز کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں سیدھا راستہ اور منزل مقصود حاصل نہ ہو۔ ہمارے ملک کی کرسی اقتدار پر بیٹھنے والوں پر اقبال مرحوم کا یہ نوحہ اور تنقید کتنی صادق آتی ہے:
یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
غضب ہے یہ مرشدان خودبیں، خدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سنے گا اقبال کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنارہے ہیں

یہ نوحہ تو ان حکمرانوں کے لئے ہے۔اب ذرا ”دلوں کے حکمرانوں“ کی رفاقت کا حال بھی سن لیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ کن حکمرانوں کا ساتھ دینا ہے!
دست در دامن مرداں زن و اندیشہ مکن
ہر کہ با نوح نشیند چہ غم از طوفانش
”اﷲ کے شیروں“ کا دامن مضبوطی سے تھام لواور بے فکر ہو جاؤ! جو شخص نوح (علیہ السلام )کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گیا اسے طوفانِ بلاخیز سے کیا ڈر؟
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343764 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.