بھارت تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر
رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیرکے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس بھارتی باشندوں کے نام اجراء
کرنے کے لئے نئے قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں یا ان میں ترامیمکی جا رہی ہیں۔
مختلف بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 17لاکھ کے قریب بھارتی شہریوں کو
کشمیر کی ڈومیسال اسناد جاری کی گئی ہیں۔ آبادی کے تناسب میں تبدیلی چوتھے
جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی، سلامتی کونسل کی قراردودوں کی نفی اور عالمی
قوانین کی مخالفت ہے۔ مگر بھارت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ عالمی قوانین
اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اعلانیہ خلاف ورزی اور نفی کے باوجود
بھارت یکم جنوری 2021سے ایک بار پھر دو سال کے لئے سلامتی کونسل کی غیر
مستقل ممبرشپ پر براجمان ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل کا ڈیفالٹر ہونے کے
باوجود وہ سلامتی کونسل کی مستقل ممبر شپ کے لئے بھی لابنگ کر رہا ہے۔
بھارتی شہریوں کو مقبوضہ ریاست کے ڈومیسال اجراء کرنے کے لئے بھارت نے
کشمیر میں نیشنل جینرک ڈاکیومنٹ رجسٹریشن سسٹم (این جی ڈی آر ایس) شروع کر
دیا ہے۔این جی ڈی آر ایس کے تحت موجودہ دستی رجسٹریشن نظام آن لائن
رجسٹریشن نظام میں تبدیل ہو گا۔مقبوضہ ریاست میں متعارف اس نئے نظام کے تحت
زمین کی خرید و فروخت یا انتقال کی تمام کارروائی آن لائن رجسٹر ہو گی۔
اسٹمپ پیپر کو ای سٹیمپ میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ کاروائی سٹاک ہولڈنگ
کارپوریشن آف انڈیا کے اشتراک سے عمل میں لائی گئی۔مقبوضہ جموں و کشمیر این
جی ڈی آر ایس کا حصہ بننے والی بھارت کی دس ریاستوں اور یوٹیز میں ایک
ہے۔اس سسٹم کے تحت بھارتی شہریوں کو کشمیر کی زمین و جائیداد آن لائن منتقل
کرنے میں آسانی ہو گی۔جس سے بھارتی حکومت کو ان ریاستی مال افسران کے خلاف
فوری کارروائی کا جوا زملے گا جو بھارتی شہریوں کے نام رجسٹریشن کرنے میں
اپنے تحفظات رکھتے ہوں یا ٹال مٹول سے کام لیں۔اسے ہی جوابدہ اور شفاف
انتظامی نظام کے قیام کی جانب ایک اور قدم کہا گیاہے جس کا مقصد عام شہری
کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ بھارتیوں کا مفاد یقینی بنانا ہے۔ اس بھارتی
نظام کا مقصد کشمیر کی اراضی پر قبضہ کرنے والے بھارتیوں کے لئے فوری اور
بلا رکاوٹ خدمات کی فراہمی شفاف طریقہ پر یقینی بنانا ہے اور نظام کے تحت
کشمیر کی دستاویزات کی آن لائن اپ لوڈنگ، رجسٹرار دفتر کے ساتھ ملاقات کا
تعین، ای سٹیمپ اور رجسٹریشن کے دفتر کا صرف ایک مرتبہ دورہ یقینی بن گیا
ہے۔ اس طرح یہ سارا عمل صرف 15 منٹ تک محدود ہو گیا ہے جس میں کئی مرحلوں
کے پیش نظر کئی دن لگتے تھے۔ اب یہ تمام پانچ مرحلے ایک ڈیجٹل عمل کے تحت
لائے گئے ہیں۔تا کہ مقبوضہ کشمیر کی اراضی بھارتی شہریوں کو فوری منتقل ہو
سکے۔ لینڈ ریکارڈ کی ڈیجٹائیزیشن کے عمل میں یہ پیش رفت کشمیریوں کے لئے
نہیں بھارتی شہریوں کے لئے ہے۔ جمع بندیوں کی صد فیصد اپ ڈیشن اور
ڈیجٹائیزیشن کی تکمیل کے علاوہ 558 اسٹیٹس این جی ڈی آر ایس پورٹل پر
ڈیجٹائیزڈ اور اپ ڈیٹ کئے گئے ہیں ۔ یہ نظام محکمہ مال یا زمین مالکان کے
بجائے بھارتی خریداروں کیلئے تجارت میں آسانی فراہم کرنے کے لئے لانچ کیا
گیا ہے۔ اگر چہ کشمیری اپنے زمین غیر کشمیریوں کو فروخت کرنے کے مخالف ہیں۔
تا ہم سرکاری رقبہ جات بھارتی فوجیوں اور نام نہاد سرمایہ کاروں کے نام
منتقل کئے جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سرینگر ،جموں، سانبہ،
کٹھوعہ اور اودھمپور کے 5 اضلاع کو این جی ڈی آر ایس کے دائرے میں لایا گیا
ہے۔ یہ نظام 31 اکتوبر 2020 سے قبل پوری مقبوضہ ریاست میں شروع کیا جا رہا
ہے۔
قومی یکجہتی اور ایک ملک ایک سافٹ وئیر کے اس بھارتی نعرے سے کشمیریوں کا
کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ بھارتی قوانین کشمیریوں پر جبری طور پر مسلط کئے جا
رہے ہیں۔ بھارتی سیکرٹری محکمہ لینڈ ریسورسز اور لیفٹننٹ گورنر اس نظام کی
براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں
وکشمیر کے پشتینی باشندہ ہونے کی سند یافتہ لوگوں اور ان کے اہل خانہ کیلئے
نائب تحصیلداروں کو اقامتی اسناد اجراء کرنے کا اختیار دیدیا ہے۔بھارتی
حکومت اپنے شہریوں کو زیر التواء ڈومیسائل اسناد فوری اجراء کرنے کے
احکامات دے رہی ہے اورکوتاہی کرنے پر افسران کو سزائیں اور جرمانے کی
دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ڈومیسائل کے اجراء میں تیزی لانے کے لئے تحصیلداروں
کے علاوہ اب نائب تحصیلدار اقامتی اسناد اجراء کریں گے۔توجہ ہٹانے کے لئے
بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کی آبادی پر گولہ
باری اور فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس میں معصوم بچے ، خواتین بھی بے دردی سے
شہید کئے جا رہے ہیں۔بھارت ایک طرف اپنے شہریوں کو کشمیر میں لا کر بسا رہا
ہے اور دوسری طرف کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اب جب کہ اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی کا 75سیشن 21ستمبر کو نیو یارک میں شروع ہو رہا ہے، توقع ہے کہ
وزیراعظم عمران خان اور سفارتکار بھارتی جنگی جرائم اور عالمی قوانین کی
پامالی کے حقائق دنیا کے سامنے رکھیں گے۔
|