ڈاکٹر غلام شبیررانا
بہمنی عہدِ حکومت میں بیجا پور کا صوبے دار یوسف عادل شاہ بہمنی سلطنت کے
انتشار کے بعد خود مختار ہو گیا۔بیجا پور میں ترکی کے خاندان عثمانیہ کے
حاکم سلطان مراد دوم کے چشم و چراغ یوسف عادل شاہ (1490-1510)نے عادل شاہی
حکومت( 1490-1686)قائم کر لی ۔سترہویں صدی میں بیجاپور میں ایک طاقت ور اور
مضبوط حکومت قائم ہو گئی جس نے دہلی کی مغل حکومت کے استبداد کے خلاف بھر
پور مزاحمت کی ۔ بیجا پور کی حکومت نے دکن،گول کنڈہ ،احمد نگر اور بیدر کی
اسلامی حکومتوں کے تعاون کی تجویز احمد نگر کے حاکم نظام شاہ نے پیش کی ۔اس
متحدہ فوج نے احمد نگر کے حاکم نظام شاہ کی کمان میں پیش قدمی کرتے ہوئے
تالی کوٹہ کی جنگ میں پندرہویں صدی کی طاقت ور ترین وجے نگر کی ہندو حکومت
کے سر براہ نوے سالہ راجہ راما رایا کوچھبیس جنوری سال 1565ء کو دریائے
کرشنا کے کنارے شکست دی ۔ شمالی ہند میں جلال الدین اکبر کے بعد جنوبی ہند
میں راجہ راما رایا سب سے طاقت ور حاکم تھا۔ اس مطلق العنان راجہ کی حکومت
کے خاتمے کے بعد اس خطے کے حالات بدل گئے ۔ بیجاپور کے بادشاہوں نے ادب اور
فنون لطیفہ کی ترقی کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں
مذکور ہیں ۔اس عہد میں تیس کے قریب شعرا نے اپنے کلام سے دکنی زبان کی علمی
ثروت میں اضافہ کیا ۔اسی طرح نثر میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔
مغل بادشاہ اورنگ زیب نے سا ل 1686ء میں عادل شاہی حکومت کا جاہ و جلال
تاریخ کے طوماروں میں دفن کر دیا۔عادل شاہی دور میں آٹھ بادشاہوں نے حکومت
کی :
۱۔ یوسف عادل شاہ :1490-1510
۲۔اسماعیل عادل شاہ : 1510-1534
۳ ۔ ابراہیم عادل شاہ : 1534-1558
۴۔علی عادل شاہ : 1558-1579
۵۔ابراہیم عادل شاہ ثانی :1580-1627
۶۔محمد عادل شاہ :1627-1657
۷۔علی عادل شاہ ثانی :1657-1672
۸۔سکندر عادل شاہ : 1672-1686
۱۔ علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ (1558-1579 )
یہ بادشاہ اپنے عہد کا با کمال شاعر اور مصور بھی تھا جس کی علم دوستی اور
ادب پروری سے متاثر ہو کر نصرتی ؔ اس کاشاگرد بن گیا ۔ ادیبوں ،دانش وروں
،مورخین اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے و الوں کی بڑی تعداد اِس کے دربار
سے وابستہ تھی ۔شاہی ؔ نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی شاہی نے قصیدہ ،غزل
اور مثنوی میں وہ فن کی بلندیوں پر فائز ہے ۔اُس نے ہندی زبان میں دوہے اور
گیت بھی لکھے۔ اُس نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی ’’ کلیات ِ شاہی ‘‘ میں
حمد ،نعت ،مر ثیہ،غزل مثنوی اور رباعی کے عمدہ نمونے شامل ہیں ۔ علی عادل
شاہ ثانی شاہی کی شاعری میں مے کدہ ،مے ،سوز و ساز ،رقص و سرود ،وصال و ہجر
،حسن و جمال ،راز و نیاز ،پیمانِ وفا اور موسم کے بدلتے ہوئے انداز قاری کو
اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اس کی شاعری میں راحت و مسرت کا احساس اُس کے
ذاتی تجربات کا مظہر ہے ۔
عقل کا مکتب ہوا فہم کے پڑھنے بدل
عقل معلّم اپن قصّہ سکھایا کہن
شاہی عاشق اتا بول مناجات کچ
تاکہ کرم تج پہ ہوئے بہرِ حسین و حسن
شاہی عاشق اتا بول مناجات کچ
تا کہ کرم تج پہ ہوے بہر حسین و حسن
کار جہاں کے سگل فکر تے بہاری اچھے
سائیں کرے لو بہ جب دُور ہو جاوے محن
۲۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیم
اپنے بزرگوں کی طرح ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیم بھی علم و ادب کا قدر
دان تھا ۔ وہ دکنی شاعری کو بہت پسند کرتا تھا اور خود بھی شعر کہتا تھا۔
اس نے مثنوی ،قصیدہ اور غزل میں طبع آزمائی کی ۔اس کی تصنیف ’’ نو رس ‘‘ اس
کی تخلیقی فعالیت کی آئینہ دار ہے ۔کتاب ’’ نورس ‘‘ میں شامل گیت بہت پسند
کیے گئے ۔
نورس سور جگ جگ جوتی آنڑ سرو گنی
یو ست سر ستی ماتا ابراہیم پر ساد بھئی دونی
ابراہیم سب سندری دیکھا یو لچھن ہے کہاں
جات چاند سلطان نا نوبی ملکے جہاں
۳۔ شاہ میراں جی شمس العشاق(1407-1498)
پندرہویں صدی عیسوی میں اس عہد کے ہندی زبان کے ممتاز صوفی شاعر شاہ میراں
جی شمس العشاق(1407-1498) کی مذہبی ، علمی و ادبی خدمات کوقدر کی نگاہ سے
دیکھا جاتا تھا۔ سال 1450میں بر صغیرپہنچنے والے اس شاعر کی تخلیقات عشق
،مذہب ،تصوف اور زندگی کے تمام نشیب و فراز پر محیط اس تخلیق کار کی شاعری
ادبی اعتبار سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگرکرتی ہیں ۔ شاہ میراں جی شمس
العشاق نے ’ شہادۃ الحقیقت‘ ،’خوش نغز ‘ ،’خوش نامہ ‘ اور تصوف سے وابستہ
اہم موضوعات پرنثر کی کتاب ’ شرح مرغوب القلوب ‘ لکھ کرادب کی ثروت میں
اضافہ کیا۔شاہ میراں جی شمس العشاق نے دکنی زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ
بنایا ۔شاہ میراں جی شمس العشاق کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
تُو قادر کر سب جگ سب کو روزی دیوے
تُو سبھوں کا دانا بِینا،سب جگ تُج کو سیوے
ایکس ماٹی مولی دیوے ایکس ماٹی باج
کیتوں بِھیکھ منگواوے کِیتوں دیوے راج
کِیتوں پاٹ پتمبر دیتاکِیتو ں سر کی لایا
کِیتوں اوپردھوپ تلاوے کیتوں اوپر چھایا
کیتے گیان بھگت بیراگی کیتے مُورکھ گنوار
ایک جن ایک مانس کیتا اک پرس اک نار
۴۔ شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی :1599)
شاہ میراں جی شمس العشاق کے ذہین فرزند شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی
:1599)نے تصوف کے موضوع پر نظم اور نثر میں جو سرمایہ پیش کیا اس کے لیے
دکنی زبان کا انتخاب کیا ۔شاہ برہان الدین جانم ؔکی شعری تصانیف ’سکھ لیلا‘
،’وصیت الہادی ‘ ،اور ’ارشاد نامہ ‘ ہیں ان کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق
‘تصوف کے موضوع پر اہم کتاب ہے جس کے موضوعات کی ’ معراج العاشقین ‘ سے
گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ شاہ برہان الدین جانمؔ نے شاعری میں ہندی اوزان
پر بھی توجہ دی ۔ شاہ برہان الدین جانمؔ کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
یہ رُوپ پر گٹ اَپ چھایا کوئی نہ پایا انت
مایا موہ میں سب جگ باندھیاکیونکہ سُوجھے پنت
بعض آ کہیں اپنی بوجھ
معلوم ہیں اوس کی سوجھ
ایک جمع سب پکڑیا بَار
جوں کے بیچ تھے نھکیا
کاٹا چھانٹاپھل اور پُھول
شاخ،برگ سب دیکھ
نہ اس خالق مخلوق کوئے
جیسا تیسا سمجھا ہوئے
۵۔ امین الدین اعلیٰ
شاہ برہان الدین جانم کے بیٹے اور جا نشین امین الدین اعلیٰ ( امین الدین
علی )نے بھی دکنی زبان میں نظم اور نثر کی تخلیقات پیش کیں ۔ اکثرمحققین کی
رائے کے مطابق امین الدین اعلیٰ نے اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے
زیادہ بہتر او ر موثر انداز میں تصوف کے مسائل پر اظہار خیال کیا ۔ ان کے
رسائل گفتارِ شاہ امین ، نور نامہ ، ’ محبت نامہ ‘ ، گنج ِ مخفی ،رموز
العارفین ، قربیہ ، ذکر نامہ ،وجود نامہ ،چکی نامہ ، ’رموز السالکین‘، ’گنج
خوبی‘ اور نظم ’ وجودیہ‘ کی بہت پزیرائی ہوئی ۔نمونہ کلام درج ذیل ہے :
قمرین میں تیرے ساحر ہوے ہموں کوں
مگر اہ کر بھلا دے قوس قزح بہوں کوں
پیچوں بھریاں زلف تج موجوں ڈبے بحرموں
ہر لہو پڑ کرشمہ ٔ عشاق کے ریجن کوں
وہاں امین علی ہے پیر
ہے روشن دیکھ ضمیر
اس عہد کے جن تخلیق کاروں نے فروغ ادب میں حصہ لیا ان میں میراں جی خدا نما
،شاہ محمد قادری ،سیّد میراں حسینی،شاہ معظم اور داول کے نام قابل ذکر ہیں
۔ابراہیم عادل شاہ ادب اور فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی لیتا تھا ۔اس نے
دکنی زبان میں شاعری کی اورگیتوں اور موسیقی کے موضوع پر کتاب ’’نو رس ‘‘
لکھی ۔ابراہیم کے بعد محمد عادل شاہ نے عنان اقتدار سنبھالی ۔محمد عادل شاہ
اور اس کی بیگم کو شعر و ادب سے قلبی لگاؤ تھا۔اس کے عہد حکومت میں جو شعرا
دربار سے وابستہ رہے ان میں رستمیؔ ،ملک خوشنود،دولت شاہ،عبدل اور
مقیمیؔشامل ہیں۔
۶۔کمال خان رستمیؔ
کمال خان رستمی ؔ ایک زود نویس، پُر گو اورقادر الکلام شاعر تھا ،اس کا
اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے محمدعادل شاہ کی بیگم (خدیجہ
سلطان شہر بانو )کی فرمائش پر چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ایک طویل رزمیہ
مثنوی ’’خاور نامہ ‘‘ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں سال 1649 مکمل کی۔ مثنوی
’’خاور نامہ ‘‘ اگرچہ ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے مگر رستمیؔ نے ترجمے کو اس
مہارت سے دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ترجمے میں بھی تخلیق کی چاشنی پیدا
ہو گئی ہے ۔ امیر خسرو کی فارسی تصنیف پرمبنی ملک خوشنود کی مثنوی ’’ ہشت
بہشت ‘‘اگرچہ مشکل زبان میں لکھی گئی ہے مگر اس کی لسانی اہمیت کو نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اوّل جب کیا یو کتاب اِبتدا
بندیاات میں نقش نامِ خدا
کیاترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر
خلق کہتی ہے مجھ کمال خان دبیر
تخلص سو ہے رستمی ؔ بے نظیر
۷۔عبدالغنی عبدل ؔ
ابراہیم عادل شاہ کے زمانے کا مقبول شاعر تھا۔بیجاپور میں اس کی شاعری کی
دُھوم تھی مگر اس کے حالات ِ زندگی ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو
چکے ہیں ۔اس کا پورا نام عبدالغنی تھا مگر عبدل کی عرفیت سے مشہور ہوا
۔اپنی مثنوی ’’ ابراہیم نامہ ‘‘ میں اُس نے اپنے مربی ابراہیم عادل شاہ کے
حالات زندگی اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں ۔اس کی نظمیں ’’ تعریف نورس محل
‘‘ ، ’’ نوروز کا جشن ‘‘،شہر بیجا پور کی تعریف اور محبوب کی سراپا نگاری
اُس کی فنی مہارت کی دلیل ہیں۔
الٰہی زبان گنج توں کھول منج
امولک بھاکر جکو چہ بول منج
بادشاہِ وقت کی مدح میں لکھی گئی عبدلؔ کی مثنوی ’’ ابراہیم نامہ ‘‘ کو بھی
دکنی زبان کے ارتقا میں اہم سمجھا جاتا ہے ۔
کہیا شاہ استاد عبدل ؔ سو یوں
توں ہر اِک زبان کر شعر بات کو ں
۸۔ نصرتی ؔ ( محمد نصرت)
علی عادل شاہ کے عہد حکومت میں رزمیہ اورعشقیہ شاعری کے مشہور شاعر نصرتی ؔ
ؔ (محمد نصرت )کے ہمہ گیر اور منفرد اسلوب کا ہر طرف شہرہ تھا ۔اس نے
واسوخت(عاشقِ نا مراد کی شکایتوں اور عرض ِ ِ غم کی حکایتوں کا بیان)
اورشہر آشوب(معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کا المیہ ) کے
بیان میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا ۔ تخلیق فن کے دوران میں وہ
’بادشاہ شاہی ‘کے قلمی نام سے لکھتاتھا۔اس کا مجموعہ کلام ’’کلیات شاہی ‘‘
کے نام سے شائع ہوا ۔ اپنی شاعری میں نصرتی ؔ نے بالعموم مثنوی کی ہئیت کو
منتخب کیا اور مثنوی ہی اس کی شہرت کا وسیلہ بن گئی ۔مثنوی کے علاوہ نصرتیؔ
نے غزلیں،رباعیات ،ہجویات۔مخمس اور قصیدے بھی لکھے ۔ اسے دکنی اردو میں
قصیدے کا پہلا شاعر سمجھا جاتا ہے ۔اس کی مثنوی ’’ گلشن عشق ‘‘ ( عرصہ
تخلیق :1657-1658)منوہر اور مدھو مالتی کی داستان محبت پر مشتمل ہے ۔اپنی
رزمیہ مثنوی ’’علی نامہ ‘‘ (سال اشاعت 1670)میں نصرتی ؔ نے علی عادل شاہ
ثانی کی حیات اور مہمات کو موضوع بنایا ہے ۔ اس طویل مثنوی کے ہر حصے کا
آغاز ایک قصیدے سے ہوتاہے۔ادبی اسلوب کے اعتبار سے مثنوی ’علی نامہ ‘ پر
شکوہ انداز ،شدت جذبات اور دل کش پیرایۂ اظہار کی بنا پر حسن شوقی کی تخلیق
’ میزبانی نامہ ‘کے مانند بزم کے موضوع پر قلب وروح کی گہرائیوں میں اتر
جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔ اس کی تیسری مثنوی ’’تاریخ سکندری‘‘ جو
نصرتی ؔ کی اچانک وفات کے باعث نا مکمل رہ گئی۔ملا نصرتی ؔ ( محمدنصرت )
بیجا پوری (1600-1674) نے معانی اور موضوعات میں پائی جانے والی حد فاصل کی
جانب متوجہ کر کے ادبی تھیوری کو نئے آ ہنگ سے متعارف کرانے کی سعی کی ۔اُس
کی تصانیف ’ گلشن عشق ‘ ، ’ علی نامہ ‘ اور تاریخ سکندری میں فکر و خیال کی
رفعت اور اظہار کی ندرت نے شاعری میں مضمون آفرینی اور معنی بندی کا ایک
جہاں تازہ جلو گر ہے جو قاری کے احساس و ادراک کو مہمیز کر کے اپنے من کی
غواصی پر مائل کرتاہے ۔ نصرتی ؔ کے اسلوب کا نمونہ گلشن عشق کے ان اشعار
میں دیکھیں :
اودھرسا تھ تھی ماں کے مدھو مالتی
اودھر ماں کے سنگات چمپاوتی
بہت دِن کوں جِس وقت بِچھڑے مِلے
اکر اک لگائے چنگل کر گَلے
انوکیاں سسکیاں چنکی سو سات تھیں
انوں کے کنبے بھی اوسی دھات تھیں
اِتے نرم و نازک رنگیلی پانوں (پانوں : پاؤں )
اُٹھے جِیب پر نقش لینے میں پانوں ( جِیب : زبان )
چندر بدن کہیا تو کہی موں سنبھال بول
سورج مُکھی کہیا تو کہی یوں نہ گھال بول
۹۔ دولتؔ
عادل شاہی دور کے اس شاعر کے مکمل حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے ۔عادل
شاہی دور کے مشہور شاعر امینؔ کی نامکمل مثنوی ’’ بہرام وحُسن بانو ‘‘ کو
پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں دولت ؔ نے بہت محنت کی ۔
دولت ؔ نے لکھاہے :
کیافرش زرّیں سو ہر ٹہار پر
بنائے محل سارے گُل زار پر
۱۰۔سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری / ہاشمی(سید میرن /میاں خان )
نا بینا شاعر سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری (متوفی : 1697)نے بار ہ ہزار
اشعار پر مشتمل مثنوی ’یوسف زلیخا ‘ تخلیق کی جو مولاناگرامی کی تصنیف کا
آزاد ترجمہ ہے ۔ہاشمیؔ نے عرب روایات کے برعکس اظہار محبت اور تکلم کے
سلسلے کاآغاز عورت کی جانب سے کیا ۔ سید میراں ہاشمی ؔ بیجا پوری کے ان
خیالات کی بنا پر اس کاشمار ریختی کے بنیاد گزار شعرا میں ہوتا ہے اوراسے
ارد وکے پہلے صاحبِ دیوان ریختی گو شاعر کی حیثیت سے شناخت مِلی ۔ ہاشمی سے
پہلے بھی ریختی کا وجود تھا اسی زمانے میں عارفی ؔ نے ریختی میں اپنے اشہبِ
قلم کی جولانیاں دکھائیں ۔ اس کا خطاب ’ میاں خان ‘ تھا ۔ دکن میں ہاشمی ؔ
کی مرثیہ نگاری کی بھی بہت دُھوم تھی۔ سید میراں ہاشمی بیجا پوری کانمونہ
کلام درج ذیل ہے :
ثنا حمد اِس کوں سزا وار ہے
گل عشق کا جس کو بستا ر ہے
سکت کِس میں ہے جو کرے سر بہ سر
اب تُو ہاشمی مناجات کر
مرے شعر کرے بادشاہاں پسند
پسند کر کردار اکیں جو سب ہوش مند
اپنی شاعری میں ہاشمی نے ریختی پر زیادہ توجہ دی اس لیے اُس کی شاعری میں
حسن و رومان اور جنس و جنوں کے جذبات کا عجب انداز ہے ۔ہاشمی کانمونۂ کلام
درج ذیل ہے :
علی عادل شاہ ثانی کے دور میں ہاشمی کی شاعری کے بیجا پور میں خوب چرچے
تھے۔بیجاپور پر اورنگ زیب کی یلغار کے بعدہاشمی بیجا پور کے حالا ت بیزار
ہو گیا اور اُس نے ریاست تامل ناڈو کے ضلع رانی پور کے قصبہ ارکاٹ میں ڈیرے
ڈال دئیے ۔
سچ مان اے سنگاتی تجھ سے بچھڑ رہی ہوں
مجھ تن نگر کو قابض برہے نے آ کیا ہے
سجن آویں توپردے کے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانا کر کے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
اونو یہاں آؤ کئیں گے تو کہوں گی کام کرتی ہوں
ا ٹھلتی ہور مٹھلتی چُپ گھڑی دو چار بیٹھوں گی
۱۱۔محمد امین ایاغیؔ
محمد امین ایاغی ؔدکن کا شاعر تھا اور نصرتی کا معاصر تھا۔ مذہبی شاعری پر
مشتمل اس کی مثنوی ’’نجات نامہ ‘‘ دو سو چالیس (240) اشعار پر مشتمل تھی۔
اس مثنوی میں شاعر نے ناصحانہ انداز اپنایا ہے اور احکام ِ شریعت کی پابندی
پر زور دیا ہے۔ اپنی شاعری سے محمد امین ایاغی ؔ نے اپنے معاصرین کو بہت
متاثر کیا ۔اس کی شاعر ی کی مسحور کن اثر آفرینی میں ناصحانہ اندا زقابل
توجہ ہے ۔ اس کے ہم عصر شعرا میں سیواؔ،شغلیؔ،مومنؔ،قادرؔ،شاہ من عرف اور
معظم شامل ہیں ۔محمد امین ایاغی ؔ کا نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
ایاغی ؔ کِدہر تو چلیا باٹ چھوڑ
سر رشتے کو پندان کے تو یوں نہ توڑ
محمد امین و ایاغی ؔ اوپر
الٰہی کرم کی نظر کر نظر
۱۲۔حسن شوقیؔ
حسن شوقیؔ (1511-1633) کا شمار گولکنڈہ کے اُن ممتاز شعرا میں ہوتاہے جنھوں
نے اپنے عہد میں دکنی زبان میں کُھل کرلکھا۔ اس کا تعلق دکن کے تین درباروں
یعنی قطب شاہی ،عادل شاہی اور نظام شاہی سے رہا مگر اس کا زیادہ وقت
بیجاپور ہی میں گزرا۔ ابن نشاطی بھی اس شاعرکا معتقد تھا اور اس نے اپنی
مثنوی پھول بن میں حسن شوقی کی شاعری کو سراہا ہے ۔ حسن شوقی کی وفات پر
ابن نشاطی نے اپنے جذبات حزیں کااظہارکیاہے ۔ولی ؔ دکنی نے سال 1630میں
لکھی گئی حسن شوقی کی پر لطف بزمیہ تخلیق’’ میزبانی نامہ ‘‘ کو بہ نظر
تحسین دیکھا اور اس شاعر کے اسلوب سے اثرات قبول کیے۔ بیجا پور کے والی
سلطان محمدعادل شاہ نے جب اپنے وزیر مصطفی خان کی دختر سے بیاہ کیاتوحسن
شوقی نے اپنی مثنوی ’’ میزبانی نامہ ‘‘ میں نیک تمناؤں کااظہار کیاہے ۔
میزبانی نامہ
سدا دار پر تجھ منگل گز گزیں
منگل گز گرین جیوں بدل گز گزیں
ہستی مست پر پیلیاں مست ہے
زبر دست پو کیا زبردست ہے
سد ا دار پر تجہ طَبل باجتے
طبل باجتے ہور مندل کا جتے
بہت دیس تے شہ کی گھر کاج ہے
شہر گشت کی رات سو آج ہے
شہر گشت کا ساز و سامان ہوا
نفیریاں ترائے دماماں ہوا
حسن شوقی ؔ نے غزل گوئی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔سراپا نگاری
میں اسے کمال حاصل تھا:
دلبر سلونی نین پر کھینچی ہے سوکاخوبتر
خطاط جیوں ماریا رقم چھندوں ثلث کے صاد پر
۱۳۔ امین
ؔ درویش منش صوفی شاعرامینؔ کا تعلق ابراہیم عادل شاہ کے زمانے سے تھا ۔اس
کی مثنوی ’بہرام و حسن بانو ‘ بہت مشہور ہوئی ۔امین کی شاعری میں اخلاق کی
تعلیم،کردار کے نکھار اور جہد و عمل پر پر زور دیتی ہے ۔وہ اپنی ذات سے ایک
انجمن تھا اور ریاکاری سے سخت نفرت کرتاتھا۔امینؔ کا نمونہ کلام :
کیا حمد اور نعت کون مختصر
نہیں ہیں کیا طول یو سر بہ سر
یکایک میرے دِل میں آیا خیال
قصا یک کہوں میں مقیمی مثال
زبان پر بچن خوب آتا چلا
یو مضمون خوش تر بناتا چلا
زبان پرہے جس کے موتی آب دار
اسی کے بچن کا ہے اکثر وقار
۱۴۔ مرزا محمد مقیم مقیمی ؔ
سر زمین ایران سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے بیجا پور میں مستقل سکونت
اختیار کر لی ۔ مرزا محمد مقیم مقیمی ؔ نے دکنی ،فارسی اور اردو میں شاعری
کی ۔اس کی مثنوی ’ چندر بدن و مہیار ‘ اس کی یادگارہے ۔اس نے دو سو پچاس
(250) صفحات پر مشتمل ایک اور مثنوی ’سو مہار ‘ بھی لکھی۔ہندی کی مقبول لوک
کتھا ’’چندر بدن اور مہیار ‘‘ ( تصنیف : 1050ہجری )کو مقیمی ؔ نے دکنی میں
نیاآ ہنگ عطا کیا مگر یہ مثنوی قارئین کی توجہ حاصل نہ کر سکی ۔ دو سو پچاس
اشعار پر مشتمل مقیمیؔ کی ایک اور مثنوی ’’ سو مہار ‘‘ بھی ہے ۔مقیمی ؔ کا
نمونہ ٔ کلام درج ذیل ہے :
خدا کون سزاوار کبر و منی
او قادر ہے قدر کا صاحب دھنی
جویوں کیا آدم یک ارواج کوں
بسالیا ہے طوفاں نے تونوح کوں
کیا تار گلزار رب الجلیل
کہ نمرودکے ہات بانچیاخلیل
سنا ہوں کہ یک شہر سندرپٹن
اتھا راج وہاں ایک ہندو برن
کہا جا اوسے اے دیوانے بشر
کہاں سوں تو آیا چلیا ہے کدھر
۱۵۔ ابراہیم صنعتی ؔ
اِس کا پورا نام محمد ابراہیم خان تھا ۔اس نے محمدعادل شاہ اور علی عادل
شاہ کا زمانہ دیکھا تھا۔ابراہیم صنعتی ؔ نے عادل شاہی دور میں دربار تک
رسائی حاصل کی اور درباری شعرا میں اسے بلند مقام حاصل تھا ۔اس کی دو
مثنویاں مشہور ہیں جن میں ایک تو ’’ قصہ تمیم انصاری ‘‘ اوردوسری مثنوی ’
گلدستہ ‘ ہے ۔ابراہیم صنعتی ؔ کے اسلوب میں سادگی ،لطافت اور جذبات کی
روانی کا کرشمہ قارئین کو مسرت کے منفرد احساس سے سرشار کرتا ہے ۔
ثنا بول اول توں سبحان کا
جو خلاق ہے جن و انسان کا
بشر کوں اپس قدرت پاک سوں
بنایا اگن جل پوں خاک سوں
دسیں جل پو بارے تے اس دھات موج
کہ چنچل کی جون چک میں غمزیاں کی فوج
ہر یک پات پر بوندبرسانت کے
ہر یک شاخ پر مرغ کئی بہانت کے
جتے مرغ وان کے خوش آواز تھے
فرشتیاں سوں تسبیح میں ہم راز تھے
۱۶۔ملک خوشنود
دکنی زبان کا یہ شاعر قطب شاہی سلطنت کا غلام تھا۔ ملک خوشنود اگرچہ شاہانِ
گولکنڈہ کاغلام تھا مگر اس کی شاعری اور دیانت داری کی وجہ سے کی وجہ سے
اُسے دربار میں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا ۔اپنی خدادا صلا حیتوں کی بنا
پر ترقی کے مدارج طے کر کے دربار میں بلند منصب حاصل کیا۔اس کی مثنویاں ’’
ہشت بہشت ‘‘ اور ’’ بازار حسن ‘‘اس کی یادگار ہیں۔ملک خوشنود کی شاعری کا
نمونہ درج ذیل ہے :
عجب بے مہر دنیابے وفا ہے
محبت عین اس کاسب جفا ہے
جتے ہیں دوستاں فرزند ساقی
سگل ہے گور تک او سب سنگاتی
ملک خشنود موتی صاف رولیا اے
اپس کے نانو کا تاریخ بولیا اے
دکنی ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکنی اردو کو ابتدا
میں گجری بھی کہتے تھے۔دکن میں مقیم متعدد تخلیق کاروں نے اپنی زبان کو
گجری کہنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔دکنی زبان کے شعرا اور مصنفین نے بھی دکنی
اردو کا نام گجری پسند کیا ۔مثال کے طور پر اس عہد کے شاعرشاہ برہان الدین
جانم فرزند شاہ میران جی شمس العشاق نے اپنے اس شعر میں لکھا ہے :
جے ہوویں گیاں بچاری
نہ ویکھیں بھاکا گوجری (شاہ برہان الدین جانم فرزند شاہ میران جی شمس
العشاق)
۱۷۔ محمد امین
دکنی ادب میں امین نامکے متعدد شعرا ملتے ہیں ۔ایک کا تعلق مطلق العنان مغل
بادشاہ محی الدین محمد اورنگ زیب کے عہد (1658-1707) کے عہد سے تھا ۔اُس
محمد امین کی مثنوی ’ یوسف زلیخا ‘ جو دکنی زبان کی مقبول مثنوی تھی۔ اسے
خود اس مثنوی کے تخلیق کارمحمد امین نے گجری زبان کی تخلیق کہا ہے :
سنو مطلب اَہے اب یو امیںؔ کا
لکھی گجری منے یوسف زلیخا
ہر اِک جاگا ہے قصہ فارسی میں
امین اس کو اُتاری گوجری میں
کہ بوجھے ہر کدام اس کی حقیقت
بڑی ہے گوجری جگ بیچ نعمت
امین نام کے ایک اور شاعر کی مثنوی ’’ بہرام و حسن بانو‘‘ موجود ہے ۔
الٰہی جگت کا کرن ہار توں
غریباں بناں کا ادھار توں
۱۸۔شاہ ملک
شاہ ملک کا رجحان مذب کی طرف تھا یہی وجہ ہے کہ مثنوی ’’ شریعت نامہ ‘‘کی
وجہ سے شاہ ملک کو بیجا پور میں مقبولیت حاصل ہوئی ۔
الٰہی دے توفیق انسان کوں
جو بنگی کریں تیری دِل جان سوں
۱۹۔ظہور
عادل شاہی دور میں ظہور فارسی اور دکنی دونوں زبانوں میں شعر کہتا تھا۔اِس
نے محمد عادل شاہ کی فرمائش پر ’’ محمد نامہ ‘‘ کے نام سے ایک تاریخ لکھی
مگر اب یہ نایاب ہے ۔نمونہ کلام:
نین سلامی عین سلامی جان جیو تمام
مجھ میں میں ہو ظہور ؔ کیتا دہر کر میرا نام
۲۰۔قدرتی
اپنے عہد کا یہ قادر الکلام شاعر گوشہ ٔ گم نامی میں چلاگیا۔تیرہ سو اکانوے
(۱۳۹۱)عنوانات کے تحت لکھی گئی دس ہزار اشعار پر مشتمل اُس کی مثنوی ’’ قصص
الانبیا‘‘اس حقیقت کی مظہر ہے کہ وہ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھتا
تھا۔
کہ الحمد ﷲ پروردگار
کیاجگ ایس نُور تے آشکار
۲۱۔ میاں عبدالمومن مومن ؔ
اس کا تعلق مدراس ( چنائے )سے تھا۔مثنوی ’’ اسرار ِ عشق ‘‘اِس کی یادگار ہے
۔
ولایت کی جلالت کا سمج راز
ہوا ہر سور تھا صبح آتش انداز
دکن میں علم و ادب کی روشنی پھیلانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ گو کنڈہ (
1590-1687)اور بیجا پور ( 1590-1686)میں متوازی صورت میں جاری رہا۔ اس کے
بعد جب یہ علاقہ مغلوں کے زیرِ نگیں ( 1687-1730)ہوا تو یہاں کے حالات بدل
گئے ۔ عادل شاہی دور میں دکنی زبان کی سر پرستی کی گئی اور اِس زبان کو
پھلنے پُھولنے کے فراواں موقع میسر آئے۔عادل شاہی دور میں بادشاہوں نے ہر
قسم کی عصبیت سے بالا تر رہتے ہوئے رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے ۔
ہمہ گیر آفاقی ثقافت کا تصور پروان چڑھانے میں بیجا پور کے بادشاہوں نے اہم
کردار ادا کیا۔ اسی عہد میں بیجا پور میں سولہویں صدی عیسوی (1591ء) میں
حسن منجھا خلجی ہنس ؔ نے’’ پیم نیم‘‘ ( محبت کے اصول ) جیسی اہم مثنوی لکھی
۔ شاہ جی ( عاشق ) اور ماہ جی ( محبوبہ ) کی داستان ِ محبت پر مبنی یہ
مثنوی جذبات و احسات کی متلاطم کیفیا ت کی آ ئینہ دار ہے ۔ عادل شاہی دور
کو خوش حالی اور تخلیق ِادب کے عہدِزریں سے بھی تعبیر کیاجاتاہے ۔دکنی زبان
کی ذہین تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی فعالیت کے جوہر دکھائے اور اپنے تجربات
،مشاہدات کو اپنے فکر و خیال کی دنیامیں گُل ہائے رنگ رنگ کی صورت میں پیش
کیا۔دکنی زبان کے قدیم ادیبوں کی تخلیقی بصیرت اور عصری آ گہی کی قوت نے
ادب میں ایک نئی روح پھونک دی ۔بیجا پور میں دکنی زبان کے ادیبوں کو جو
سازگار ماحول میسر آیا اس کے معجز نما اثر سے وہ پرورش ِ لوح و قلم میں
انہماک کا مظاہرہ کرتے رہے ۔تاریخ اور لسانیات میں دلچسپی رکھنے والے
ادیبوں کی رائے میں دکنی زبان کو جداگانہ زبان سمجھنے کے بجائے اِسے
چودہویں اور سترہویں صدی کے عرصے میں دکن میں اُردو کے ابتدائی نقوش سے
تعبیر کرنا مناسب ہو گا۔عادل شاہی دور میں بیجاپور کی حدود بحیرہ عرب سے
خلیج بنگال تک پہنچ گئی تھیں ۔اس وسیع علاقے میں مقتدر حلقوں نے فروغ ِعلم
و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔
|