از قلم: قاری محمد صدیق ازہری
مملکت سعودی عرب کے قیام کا اعلان ۲۳ ستمبر ۱۹۳۲کو شاہ عبدالعزیز بن
عبدالرحمن آل سعود نے کیا تھا۔ سعودی عرب کو اللہ تعالی نے بہت سی نعمتوں
سے نوازا ہوا ہے۔اسلام کا پیغام اسی سرزمین سے پوری دنیا میں پھیلااور آج
سعودی عرب کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے نفاذ شریعت کو اپنا اولین مقصد قرار
دے رکھا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا دستور قرآن و حدیث پر مبنی
ہےاور اسٹیٹ کا نظم وضبط شریعت کے تابع ہے۔اسلامی قوانین میں سختی کی وجہ
سے جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔انسانی خدمت کے لیے رابطہ اسلامی
تنظیم قائم کر رکھی ہے جو مسلمانوں کی عالمی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کا
مطلب مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا ہے، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی
تعلیمات کو فروغ دینا، اسلام کے بارے میں شکوک وشہبات کو دور کرنا اور
گمراہ کن عقائد اور نظریات کی نفی کرنا ہے۔سعود بن محمد سے لیکر شاہ سلمان
بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی
مملکت بنانے میں نا صرف عظیم قربانیاں دی ہیں بلکہ ایک طویل جدوجہد کے
ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کردیا ہے۔اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام،
جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی
جاسکتی ہے۔۲۶ اپریل ۲۰۱۶ کو خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز
اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ۲۰۳۰ کے ویژن کا اعلان کیا تھا اور اس
پر کافی حد تک عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔سعودی مملکت اپنی معیشت کو متنوع
بنانے کے لیے حتی الامکان کوشش کررہی ہے۔توانائی، پانی ، بائیوٹیکنالوجی،
خوراک وغیرہ کی ترقی کے لیے کارخانے قائم کردیے گئے ہیں۔ ترقیاتی پروجیکٹوں
کے آغاز سے روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے اور سعودی عرب کی معیشت کو فروغ
ملے گا۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر
استوار کررہے ہیں ورنہ اس سے قبل سعودی عرب کا انحصار صرف تیل کی برآمد پر
تھا جس میں تبدیلی کے اثرات سعودی معیشت پر بھی مرتب ہوتے تھے۔سعودی معیشت
کو جدید خطوط پر آگے بڑھانے کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی نظریں
مستقبل پر لگی ہوئی ہیں۔انکا نیا شمسی توانائی منصوبہ ۲۰۳۰ اپنی نوعیت کا
دنیا کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے۔اس منصوبے کے تحت نہ صرف توانائی کی ضروریات
پوری ہونگی بلکہ ایک لاکھ لوگوں کو بلاواسطہ اور بلواسطہ روزگار ملے گا اور
سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار ۱۲ بلین ڈالر بڑھ جائے گی اور ۴۰ بلین
ڈالر سالانہ بچت ہوگی۔اس کے علاوہ سعودی عرب اپنی تیل کی صنعت کو بھی مستقل
طور پر مضبوط بنا رہا ہے اور سرکاری اداروں کی تعمیر نو کا بھی ایک پروگرام
شروع کیا ہواہے۔تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اہم
اقدامات کیے گئے ہیں۔چھوٹی اور متوسط صنعتوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔گزشتہ
چند برسوں کے دوران سعودی عرب کی حکومت نے ملک میں معاشی اور سماجی اصلاحات
کے لیے بےمثال پروگرام کے تحت کئی اقدامات کیےجنہوں نے تمام طبقات کی
زندگیوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب کیے۔
پاکستان اور سعودی عرب میں بہت مضبوط برادرانہ تعلقات دہائیوں سے قائم
ہے۔ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کا ساتھ کھڑا ہونا پاکستانی عوام کبھی بھلا
نہیں سکتی اسی طرح پاکستان نے بھی ہر کڑے وقت میں سعودی عرب کی مدد کی
ہے۔سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہی نہیں بلکہ حجاز مقدس کے باعث دنیا
بھر کے مسلمانوں کے لیے جذباتی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کی
حمایت جاری رکھے گا اور کسی کو بھی سعودی عرب پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں
دے گا۔
|