کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی !

(حریم ادب تربیتی نشست کی روداد)
خواتین لکھاریوں کی ادبی و اصلاحی انجمن "حریم ادب" کے زیر اہتمام ایک تربیتی نشست کا انعقاد جامعہ محصنات کے ہال میں کیا گیا _تلاوت کلام پاک قاریہ خدیجہ خالد اور ترجمہ حفصہ عبد الرشید نے پیش کیا _نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم" میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے "اروی' عبد القادر نے پیش کرکے سامعین کے دلوں کو گرمایا- مدرسہ مبرہ پروین نے موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں"خبر کی تصدیق اور تحقیق"کی اہمیت پر درس قرآن دیا-اس کے بعد سیکرٹری حریم ادب "عصمت اسامہ" نے حریم ادب کا تعارف پیش کرتے ہوۓ کہا کہ ہمارا مقصد پاکیزہ ادب کی تخلیق اور نظریاتی قلم کار تیار کرنا ہے -انھوں نے "ادب بحیثیت محرکاتی قوت" کے موضوع پر ملٹی میڈیا پریزینٹیشن پیش کی اور تاریخ کے حوالوں سے ثابت کیا کہ ادب نے دنیا کے حالات بدلنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے -ادب اخلاقی اقدار کو پروان چڑھاتا ہے ،ادیب معاشرے کا کان ،آنکھ ،زبان اور دماغ بھی ہے -ہر دور میں انسانیت کی بہتری ،خوشحالی ،فلاح اور کامیابی کے خواب سب سے پہلے مفکرین اور دانشوروں نے ہی دیکھے ہیں لیکن ادیب اور لکھاری میں اتنی اخلاقی جرات ضرور ہونی چاہیئے کہ جو مشاہدہ اس کی آنکھ کرتی ہے اور جو کچھ اس کا دل محسوس کرتا ہے اور جو کشمکش اس کے شعور میں برپا ہوتی ہے ،اسے پوری دیانت داری کے ساتھ قارئین تک پہنچا سکے -پاکستان کی بنیاد میں مسلمان شاعروں،مفکرین ،ادباء و سکالرز کا بہت اہم کردار رہا ہے -انھوں نے وہ جذباتی ایندھن اور فکری بنیاد فراہم کی جس کی وجہ سے مسلمانان برصغیر ایک عظیم الشان،منظم جدوجہد کے قابل ہوۓ-ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ولولہ انگیز اور ایمان افروز شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ،اقبال کے نزدیک لالے کا پھول دراصل "بندہء مومن"کا استعارہ ہے ،وہ کہتے ہیں کہ
~ میری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو ؟
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی !

لالے کے پھول کی سرخی دراصل عشق الھی کی علامت ہے اور اس کے خون جگر کی محنت کی نشان دہی کرتی ہے-بندہء مومن جب اپنی محبت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر لیتا ہے تو پھر اس کو رنگ دینے میں خود قدرت اس کی مددگار ہو جاتی ہے -ایک اور مقام پر وہ فرماتے ہیں :
~ضمیر لالہ میں روشن چراغ_ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید _جستجو کردے !

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل کے پروپیگنڈے کا جواب دینے اور ناموس_رسالت کا تحفظ بذریعہ قلم کرنے کے لئے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا تھا _

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کا شمار برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے -ان کی تفسیر"تفہیم القرآن" اور اسلامی کتب نے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے-آج کے پر خطر دور میں جب کہ اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں ،مسلمان لکھاریوں کی زمہ داری ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے قلم کا استعمال کریں تاکہ وطن عزیز پاکستان میں رحمت_حق کی ہوائیں چلیں -

اس کے بعد حریم ادب کے تحت منعقدہ آل پاکستان مقابلہ مضمون نویسی و شاعری بعنوان "میں جس مکان میں رہتا ہوں ،اس کو گھر کردے" میں کیش پرائز اور سرٹیفکیٹ لینے والی قلم کاروں کو محترمہ ربیعہ طارق نے انعامات اور اسناد سے نوازا-انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ قلم کاروں کو اپنے فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے,یہ تہذیبوں کے تصادم کا دور ہے اور ہمیں اپنی اسلامی تہذیب کو فروغ دینا ہے-تقریب کی مہمان خصوصی معروف ادیبہ فرزانہ چیمہ نے اپنے اختتامی کلمات میں لکھاریوں کو تاکید کی کہ وہ لکھنے سے قبل قرآن کریم کا مطالعہ ضرور کر لیا کریں ،مصنفہ بنت الاسلام کا یہی طریقہ تھا اور اپنی تحریریں کسی استاذہ کو ضرور دکھا لیا کریں تاکہ ان میں نکھار پیدا ہوسکے -تقریب کا اختتام دعا اور ریفریشمنٹ سے ہوا -تقریب میں راحیلہ چوہدری، مستبشرہ امیر العظیم ،نبیلہ شھزاد، رخسانہ اقبال،حبیبہ عمیر سعدیہ مغل ،شاہدہ اقبال اور عظمیٰ پروین نے بھی شرکت کی -
عصمت اسامہ ۔
#فکرونظر