پچھلے ہی دنوں مرکزی حکومت کی جانب سے کسان بل پاس
کیاگیاہے اور اس بل کووزیر اعظم نریندرمودی نے تاریخی بل قراردیاہے اور اس
بل کی تائید میں جہاں مرکزی حکومت کھڑی ہوئی ہے وہیں مخالفت میںسارا ملک
کھڑا ہواہے۔لیکن مرکزی حکومت کے کچھ بھگت اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے
ہیںکہ یہ بل کسانوں کابھلا کرنے والی ہے۔اسی کام کو انجام دینے کیلئے
بھگتوںنےسوشیل میڈیا پر لوگوںکو گمراہ کرنا شروع کردیاہے۔جبکہ اس بل کے
مقاصد اور امکانات کاجائزہ لیاجائے تو یہ بل ایسٹ انڈیا کمپنی یعنی
انگریزوں کے قانون کے مترادف ہے،ایسٹ انڈیاکمپنی کی جانب سے کسانوں پر یہ
پابندی عائدکی گئی تھی کہ کوئی بھی کسان اپنی مرضی سے فصلوںکی قیمت طئے
نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ بازاروںمیں بیچ سکتا تھااور طئے شدہ قیمت ہی کسان
کو ایسٹ انڈیا کمپنی دیتی تھی اور اس کے عوض میںکسانوں کولگان بھی دینا
پڑتا تھا،بالکل اسی طرح سے مرکزنے جو بل پاس کیا ہے اس میں کسانوں پر
پابندی رہے گی کہ وہ اپنی فصلوں کوبیچتے وقت حکومت کو بیچ میںنہیں لے گی
بلکہ کمپنیاں ہی ان فصلوںکی قیمت طئے کرینگی،اب تک پیاز ،ٹماٹر،آلو جیسی
اشیاء کی جمع خوری اور کالابازاری کوجرم قرار دیاگیاتھا مگر نئے قانون کے
مطابق کوئی بھی کسی بھی مقدارمیں ان اشیاء کی خریداری کرسکے گا اور وہ اپنے
طور پر ان اشیاء کی قیمتیں طئے کریگا۔اگر ایسا ہوتا ہے تو بڑی بڑی کمپنیاں
کسانوںکے پاس سے اشیاء کی خریداری کرتے ہوئے انہیں ذخیرہ اندوز کردینگی اور
جب چاہے قیمتوں میں اضافہ کرینگی۔کالابازاری کو روکنے کے مقصد سے ہی آزادی
کے بعد سے اب تک ہندوستان میں اے پی ایم سی (اگریکلچر پرواڈکٹ مارکیٹنگ
سینٹرس) بنائے گئےتھے اور اس نظام میں حکومت کسانوں اور خریداروں
دونوںکیلئے یکساں منافع ہو ایسی قیمتیں طئے کرتی تھی،ہر دن اے پی ایم سی
میں اشیاء کی خریدوفروخت پیداوار،ذخیرہ اور استعمال کی بنیادپر
کیاجاتاتھا،لیکن اب جلدہی بازارمیں ریلائنس اگری، امبانی اگری،ادانی اگری
جیسی کمپنیاں سر اٹھا کر کھڑی ہوجائینگی اورجس قیمت پر یہ اشیاء کو فروخت
کرینگے اُسی قیمت پر عام لوگوں کو خریداناہوگا،یہ مسئلہ صرف کسانوں کا
نہیںہے بلکہ پورے ملک کا ہے۔اسی وجہ سے کسانوں کے ساتھ ساتھ کئی تنظیمیں ،ادارے
اور پارٹیاںحکومت کے اس قانون کی مخالفت کررہے ہیں۔لیکن افسوسناک پہلویہ ہے
کہ ان احتجاجات میں مسلمانوںکی نمائندگی وقیادت نہ کہ برابرہے،جبکہ یہی
مسلمان محض چھ سات مہینے پہلے آزادی کے متوالوںکی طرح این آرسی اور سی اے
اے کی مخالفت میںسڑکوں پر اتر آئے تھے،اپنے آپ کو ملک کی بقاء کیلئے
قربان کرنے کا عزم ظاہرکررہے تھے،مگر آن کی آن میں مسلمان اپنا دامن
بچانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔کسانوںکے احتجاج سے انہیں کوئی لینا دینانہیں
ہے،حالانکہ ملک کے بڑے حصے میں مسلم کسان بھی اپنی محنت کا پسینہ بہا رہے
ہیںمگر وہ بھی سڑکوں پر نہیں اتررہے ہیں،اگر ایسا ہی نظام چلتا رہا تو ملک
کی عوام آنے والے دنوںمیں مسلمانوں کا ساتھ دینےسے پہلے سو بار سوچیں
گی۔مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ کسانوں کے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہوںاور ملک
کے کسانوںکی بقاء کیلئے بھرپورآواز اٹھائیں۔آج ہم ان کیلئے آگےنہیںآتے
ہیں تو وہ کل ہمارے لئے آگے نہیں آئینگے،یہاں ہمارے تمہارے سے بڑھ کرملک
اور ملک کی عوام کا پیٹ بھرنے والے کسانوںکےحقوق کی بات اہم ہے۔آنجہانی
وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کہا تھاکہ جئے جوان ،جئے کسان۔لیکن ہمارے
وزیراعظم نے کسان مخالفت بل کومنظور کرتے ہوئے ۔۔مرجوان ۔۔مرکسان کا نعرہ
بلندکیاہے۔
|