ارشاد ربانی ہے :’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ
بنایا‘‘۔ اسلام میں مساوات کا اہم پہلو یہ ہے سارے انسانوں کو اللہ تبارک و
تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا ۔ روز ازلیہی بات فرشتوں سے کہی گئی تھی کہ میں
:’’ پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں
زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں"۔خلافت ارضی کا اطلاق سارے انسانوں کے
لیے ہے ۔ اس میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے بلکہ سب برابر ہیں ۔ اس آیت کے
بعد والے حصے میں ارشاد ہے :’’ اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں
زیادہ بلند درجے دیئے‘‘۔ اس بین حقیقت کا مشاہدہ بھی عام ہے کہ کوئی خوشحال
ہے توکوئی بدحالی میں مبتلا ہے۔ کوئی اقتدارپر فائز ہے تو کوئی پیروکار ی
پر مجبورہے۔ اس فرق کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ : ’’، تاکہ جو کچھ تم کو دیا
ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے‘‘۔ یہی آزمائش انسان کا مقصدوجود ہے ،اس لیے
عرصۂ حیات کے بارے میں فرمایا :’’اس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا
فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور
وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے،‘‘۔ اس آزمائش میں کچھ لوگ کامیاب و کامران
ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے حصے میں ناکامی و نامرادی آتی ہے۔ اس لیے
آیت کے آخر میں دونوں کے انجام کا ذکر اس طرح سے بتایا گیا کہ : ’’ بے شک
تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے
والا بھی ہے‘‘۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے انسان برابر ہیں تو سبھی کامیاب کیوں
نہیں ہوتے؟ یا کچھ لوگوں کے حصے میں ناکامی کیوں آتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے
لوگ اپنے درجات کی بلندی کو عطائی نہیں بلکہ کسبی سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اس
خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ جوکچھ اس دنیا میں انہیں حاصل ہوا ہے وہ
صرف اور صرف ان کی صلاحیت اور محنت و مشقت کے سبب ہے۔ یہ خیال و نظرایک بہت
بڑے فتنے کی جڑ ہے۔ اس کے بعد سرزد ہونے والے اعمال کی حیثیت دراصل شاخوں
اور پتوں کی ہے وہ بظاہر خوشنما بھی ہوں تو ان کا ثمر کڑوا کسیلا ہی ہوتا
ہے۔ اس پھل کا تھوڑا بہت مزہ دنیا میں بھی چکھا دیا جاتا ہے لیکن پورا مزہ
آخرت میں ملے گا۔ تعلیمی سال کر دوران ہونے والے ٹسٹ کی بنیاد پر یہ طے
نہیں ہوتا کہ طالبعلم کامیاب ہوکر اگلے درجہ میں جائے گا یا نہیں بلکہ وہ
نتائج تو بس خبردار کرنے کے کام آتے ہیں ۔ سالانہ امتحان کا نتیجہ ہی حتمی
اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس باطل عقیدے کی بیخ کنی چونکہ ایمان سے ہوتی ہے اس
لیےعقیدہ کو عمل پر فوقیت حاصل ہوجاتی اور ترتیب میں عمل سے پہلے ایمان
آتا ہے ۔
درجات کے فرق کو کسبی سمجھ لینے کے مختلف النوع اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اول
توجس کو بلند درجہ عطا کیا جاتا ہے وہ بلاوجہ خود پسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہی خود پسندی آگے چل کر نرگسیت میں بدل جاتی ہے ۔ اس کو اپنے سوا کوئی
اچھا ہی نہیں لگتا ۔ اپنے سوا کسی کی کوئی شئےاچھی نہیں لگتی۔ وہ اپنے آپ
کو محتاجِ تائید بناکر اختلاف برداشت کرنے کی اپنی قوت کو سلب کردیتا ہے
یعنی اختلاف سن بھی نہیں پاتا۔ اس کے نتیجے میں فرد کا علمی و فکری ارتقاء
محدود یا رک بھی جاتا ہےلیکن خود پسندی کا نشہ اس کا احساس نہیں ہونے دیتا
۔ دوسرے وہ اپنی بات منوانے کے لیے ہرجائز و ناجائز طریقۂ کار استعمال
کرنے کو مستحب قرار دے دیتا ہے۔ اس طرز فکر کا اایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب
اس فرد کو برتری سے محروم کرکے نئی آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تو وہ اس
کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ اس کے اندر نئی صورتحال کے مقابلے کی صلاحیت نہیں
ہوتی ۔ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ ایسے لو گ
مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے کئی لوگوں کے اعصاب شل ( نروس بریک
ڈاون ) ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں پر دل کا دورہ پڑتا ہے اور کسی کی
صدمے سے حرکت قلب بند ہوجاتی ہے ۔ایسے آرزو مند لوگ خودکشی بھی کربیٹھتے
ہیں۔ان کی بابت فرمان ربانی ہے:’’اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے
کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے
لگتا ہے‘‘ ۔
|