تفہیم القرآن سے میراتعلق اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا
تعلق ایک شاگرد اور اُستاد کا ہے۔ میں نے اس کی ایک ایک ستر کا بغور مطالعہ
کیا ہے۔ اس نے میری زندگی بدل دی ہے۔ میں اس کا ایک رکوع روزانہ کی بنیاد
پر باقاعدگی سے، تقریبا چار عشروں سے مطالعہ کر رہا ہوں۔ میں نے اس کے ساتھ
تقابلی مطالعہ کے لیے عصری تفاسیرکو بھی سامنے رکھا۔ مجھے تفہیم القرآن ایک
کتابِ انقلاب نظر آئی۔ میں ایک عام سا مسلمان ہوں ۔ قرآن میرے لیے میرے رب
کی طرف سے ایک خط ہے۔ میں اسے بار بار پڑھ کر دل کی تسلی حاصل کرتا رہتا
ہوں۔
صاحبِ تفہیم القرآن حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن
لکھتے وقت ، اس کے مقدمہ میں فرمایا تھا کہ تفہیم القران تفسیر میں نے عام
مسلمانوں کے ضرورت کے لیے لکھی ہے۔ علماء حضرات کے لیے تو مشہورو معروف
تفاسیر پہلے سے موجود ہیں۔تفہیم القرآن ۱۹۴۲ء میں لکھنی شروع ہوئی اور اس
کی تکمیل۱۹۷۲ء میں ہوئی۔ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے عرب ممالک اور جن جن
مقامات کا قرآن میں ذکر کیا گیا صاحب ِتفہیم قرآن نے ان مقامات کے تفصیلی
دورے کیے۔ اس کا ذکر کتاب’’ سفر نامہ عرض القرآن‘‘ میں موجود ہے۔ تفہیم
القرآن علماء، قانون داں،دانشوروں، سیاست دانوں، صحافیوں، فوجیوں، اسلامی
اسکالروں اور عام مسلمانوں میں یکساں طور پر پسندیدہ ہے۔ تفہیم القرآن
افکارِ مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرزِ فکر کی ضرورت ہے کے تحت لکھی
گئی ہے۔دہریت کا فلسفہ اس بنیاد پر چلایا جارہا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے
قائم ہے اور قائم رہے گی۔ اس فلسفہ کی توڑ کے لیے صاحب ِتفہیم نے اس سائنس
کی گواہی سامنے لا کر رد کیا ہے۔ عصری فتنے،تہذیب مغرب،فتنہ مرعوبیت،انکار
حدیث، انکار ختم نبوت، ہیگل اور مارکسی کی تعبیر تاریخِ انسانی، سود اور
سرمایا دارانہ نظام اور سامراجیت اور فتنہ قومیت کو اﷲ کے احکامات اورسنت
رسولؐ اﷲ کی روشنی میں حل پیش کیا۔ تقابل، ادیان، یہودیت، عیسائیت، بت
پرستی اور آتش پرستی پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ تفہیم القرآن میں اسلاف کا
طریقہ یعنی قرآن کی تفسیر قرآنی آیات سے،سنت سے ،آثار صحابہؓ سے اور پھر
قیاس کی بنیا پر کی گئی ہے۔ قرآن شریف عربی مبین میں نازل ہوا۔ تفہیم
القرآن اُردو مبین میں لکھی گئی اور اس میں ادبی اہمیت کو سامنے
رکھاگیا۔تفہیم القرآن میں علمی مسائل پر مکمل اور تفصیلی بحث کی گئی۔جملہ
معاشرتی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی امور کے بارے میں قرآن ی تعلیمات کو جس
اندازِ بیان اور جس طرز استدلال کے ساتھ مختلف مقامات پرمختلف آیات کی
تشریع و توضیح میں سامنے لایا گیا ہے، اسی انداز میں صاحب تفہیم نے بھی
بیان کیا ہے۔تفہیم القرآن کے عربی،انگریزی،ہندی، بنگالی،سندھی،پشتو اور
دیگر زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔
صاحب تفہیم ِالقرآن لکھتے ہیں کہ میں بھی مسلمان اور دیندار گھرانے میں
پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہ میں مسلمان اس لیے ہوں کہ مسلمان کے گھر پیدا ہوا
ہوں۔ اس طرح تو دوسرے مذاہب والے بھی، جن مذہب میں پیدا ہوئے وہ بھی اسی
لیے اپنے مذہب کے پیرو ہیں۔پھر میں نے خود اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ میں
نے تعصب سے بلاتر ہو کر تحقیق کے لیے ہندو مہذب کی ویدوں، گیتا اورہندو
شاستروں کامطالعہ کیا۔ عیسایوں کی بائبل، یہودیوں کی تورات، تلمود کا
مطالعہ کیا۔ عیسائیت اور یہودیت کے متعلق وسیع معلوما ت فراہم کی۔ پھر میں
نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے۔ سائنس کے نام پر
الحاد اور دہریت پھیلانے والوں کو پڑھا۔ ان سب کو پڑھنے کے بعد قرآن کا
بغور مطالعہ کیا، تو معلوم ہوا کہ میرے لیے قرآن’’ شاہ کلید‘‘ ہے۔ مسائل
حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے۔ اس دور میں بھی اسلام نظام
حکومت قائم کیا جا سکتاہے۔بچپن سے ہی میری تعلیم و تربیت عربی میں ہوئی، اس
لیے مجھے قرآن ترجمہ کی بجائے عربی زبان میں ہی سمجھا ۔ سیرت رسولؐ اﷲ کا
مطالعہ کیا۔ حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قرآن اور
رسولؐ اﷲ کی زندگی کے علاوہ کہیں سے بھی صحیح رہنمائی نہیں مل سکتی۔ پس میں
دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا بلکہ اپنی تحقیق جانچ
پڑتال کر کے دین پر ایمان لایا۔ لہٰذا میں ایک نومسلم ہوں محض نسلی مسلمان
نہیں۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ شعوری طور پر سمجھ کر ایمان لائیں کہ اﷲ ہے
اور یقیناًہے۔ ساری کائنات اس کی ہے۔ آخرت ہے۔ مر کر جی اُٹھنا ہے اور اپنے
اعمال کااپنے اﷲ کو جواب دینا ہے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلام اﷲ کے
رسولؐ اور آخری کے نبی ؐ ہیں۔ آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔ دین اسلام ہماری
رہنمائی کرتا ہے۔ہماری فلاح اسی میں ہے۔ ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی طرح یک سو
ہونا ہے۔
صاحب تفہیم القرآن کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر ترجمانی
کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے قرآن آسانی سے سمجھ آتا ہے۔ ہر سورت کے آغاز
میں سورت کے نزول کا پس منظر کہ کس زمانے میں نازل ہوئی۔ اس وقت کیا حالات
تھے۔ اسلام کی تحریک اس وقت کن مراحل میں تھی۔ اس کی ضروریات اور مسائل کیا
تھے۔ میں نے تحقیق کر کے بیان کیے ہیں تاکہ قاری کو معلوم ہو اس وقت کیا
کیا مشکلات تھیں۔ مشکلات پر قابو پانے کے لیے اﷲ نے اپنے رسولؐ کو کیا کیا
ہدایات دیں۔
قرآن کی تعلیمات کودنیا میں عام کرنے کے لیے پہلے اپنی جان اور پھر دوسرے
انسانوں تک پہنچانے کے لیے صاحب ِتفہیم القرآن نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی
کی بنیاد رکھی۔جماعت اسلامی کے کارکنوں کو ہدایات دیں کہ قرآن اور سنت کی
تعلیمات سے لیس ہوکر پوری دنیا پر چھا جاؤ۔ عام مسلمانوں
کے سامنے جماعت اسلامی کا نصب العین رکھتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کانصب
العین اور اس کی سعی وجہد کا مقصد عملاً اقامت دین، یعنی حکومت الہیٰا کا
قیام یا اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضائے الہی اور فلاح اُخروی
کا حصول ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اپنی پوری زندگی میں اﷲ کی بندگی اور انبیاؑ
کی پیروی اختیار کرو۔ دورنگی اور منافقت چھوڑ دو۔ اﷲ کی بندگی کے ساتھ
دوسری بندگیاں جمع نہ کرو۔
خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی رہنمائی اور فانروائی کے منصب سے ہٹا
دواور زمام کار مومنین ، صالحین کے ہاتھ میں دو۔ تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک
ٹھیک اﷲ کی بندگی کے رستے پر چل سکے۔ جواس دعوت کو حق سمجھے وہ اس میں
ہمارا ساتھ دے اور جو روڑے اٹکائے وہ خدا کے ہاں اپنا جواب سوچ لے۔ جماعت
اسلامی نے اس دعوت کو سامنے رکھتے ہوئی ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ اس میں
تطہیر افکا اور تعمیر افکار، اصلاح معاشرہ، صالح افراد کی تلاش ،ان کی
تربیت ،نظم میں شمولیت اورنظام حکومت کی تبدیلی پر کام کر رہی ہے۔ جماعت
اسلامی نے ملک میں تبدیلی کے لیے عصری تقاضوں کے مطابق الیکشن میں حصہ لے
کر انقلاب کا راستہ اختیار کیا۔ مشکلوں کے با وجود اسی راستے سے انقلاب
لانا ہے۔
کوئی بھی غیر قانونی ، غیر آئینی یا انڈر گراؤنڈ طریقہ اختیار نہیں کرنا۔
اﷲ کے بندوں کو انبیاؑ کے طریقہ پر ہی دعوت دے کر اﷲ کا پیغام پہنچانا اور
ساتھ ملانا ہے۔الحمد اﷲ اس دعوت کو جماعت اسلامی کے کارکن پاکستان اور جہاں
جہاں بھی وہ دنیا میں ہیں، اﷲ کے بندوں تک پہنچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اﷲ کو جب منظور ہو گا پاکستان میں حکومت الہیٰا، اسلام نظام حکومت، نظام
مصطفےٰ رائج ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ صاحبِ تفہیم القرآن کی دعوت کومقبول عام
فرمائے آمین۔
|