پاکستان کا تقریبا 70 فیصد طبقہ پرائیوٹ سیکٹر کی وجہ سے
برسرروزگار ہے لیکن عمران خان صاحب نے عوام کی پریشانیوں کو خاطر میں نہ
لاتے ہوئے پرائیوٹ سیکٹر پر بھاری ٹیکس عائد کیا جس کا نتیجہ اب یہ ہے کہ
ٹیکس کی بھاری وصولی نے منافع کی مقدار کو خطرناک حد تک قلیل بنادیا ہے۔ جس
کی وجہ سے پرایئوٹ سیکٹر اب شدید ڈائون سائزنگ کا شکار ہے اور پرائیوٹ
سیکٹر سے جڑے ہزاروں لوگ بیروزگارہوگئے ہیں۔ پاکستان میں 60 فیصد درآمداد
کاحصہ پرائیوٹ سیکٹر پورا کرتا ہے جبکہ معیشت کی موجودہ خستہ صورتحال کی
وجہ پرائیوٹ سیکٹر پر ٹیکس کا بھاری بوجھ ہے، حال یہ ہے کہ ملکی معیشت کے
مستحکم ہونے کی سب سے بڑی وجہ پرائیوٹ سیکٹر کو ریلیف دینا ہے لیکن عمران
خان نے پرائیوٹ سیکٹر کی مصائب کو بلائے تاک رکھتے ہوئے نہ صرف بھاری ٹیکس
عائد کیا بلکہ اس سے ملکی جی ڈی پی کو بھی بھاری نقصان پہنچا کیونکہ جی ڈی
پی کا 60 فیصد حصہ پرائیوٹ سیکٹر سے پورا کیا جاتا ہے۔
2013 سے ہی پاکستانی معیشت کے حالات مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اور جیسے جیسے
یہ وقت گزرتا رہا حالات بد سے بدتر ہوگئے۔ ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافے
کے باعث ملکی معیشت بیٹھ گئی۔ وہ سبز باغ جو قوم کو کنٹینر پر چڑھ کر
دکھائے گئے تھے آخر کار عوام کا وہ وہم بھی ٹوٹ گیا۔ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ
کو دور اقدار میں دو سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور ماہر معیشت کے بقول پاکتسان
میں 18 ملین لوگ سطح غربت سے نیچے گر گئے ہیں جس کی وجہ مہنگائی میں شدید
اضافہ ہونا ہے۔
پاکستان دنیا میں غربت کی صفوں میں آگے بڑھ رہا ہے نہ صرف غربت بلکہ اس
بھوک نے کئی لوگوں کی جانیں لے لی اور کتنے ہی لوگوں نے خودکشی کا راستہ
اختیار کیا۔ ایک نیشنل سروے کے مطابق 2018 میں غربت 31.3 فیصد تھی جبکہ
2020 میں شرح غربت میں 40 فیصد مزید اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال اپریل میں ایک
باپ نے غربت سے تنگ آکر چار بچوں سمیت خودکشی کرلی لیکن سوال یہ ہے کہ ان
معصوم جانوں کا ذمہ دار کون ہے؟ روزگار نہ ملنے کی صورت میں جو طلبہ خودکشی
کررہے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اس دہر کی ظلمت میں بے بس لوگوں کی آبیتی سننے
والا کوئی نہیں۔ اپنی تقریروں میں حضرت عمر کا ذکر کرنے والے لوگ آج عوام
کی تکالیف سے بے بہرہ ہیں حضرت عمر کا دور عدل کا دورتھا لوگوں کو انصاف کے
لیے در در بھٹکنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ معاشرہ تو عدل، انصاف اور مساوات
کا مہور تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافے نے غریب عوام کی کمر
توڑ رکھی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوا
ہےکبھی چینی تو کبھی آٹا کا اسٹاک مارکیٹ سے غائب ہوجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے
اس دور اقتدار میں پرائیوٹ سیکٹر میں بتدریج ڈائون سائزنگ کی وجہ سے جہاں
ملکی معیشت کا جھٹکا لگا وہی لاکھوں لوگ بھی بے روزگار ہوگئے۔ 2014 میں گو
نواز گو کے نعرے لگانے والے عمران خان آج خود اس بدحالی اور غربت کے دور
میں قوم کو بتارہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ کراچی کی عوام سے وعدے کر کے
انہیں تنہا چھوڑنے والے عمران خان آج کراچی کے مسائل سے ناآشنا ہیں۔کراچی
میں ظلم کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں کے پاس صاف پینے کا پانی تو دور کی بات ہے
لوگوں روزمرہ استعمال کے پانی سے بھی محروم ہیں۔ اس ملک کا کیا مستقبل ہو
جس ملک میں نوجوان طبقہ بیروزگار ہو جہاں پڑھے لکھے لوگ روزگار سے محروم
ہوں۔
ملکی معیشت کو اس خسارے سے نکالنے کے لیے عمران خان نہ صرف پرائیوٹ سیکٹر
کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ کرنسی کو ڈالر پر فوقیت دینا ہوگی تاکہ
پرائیوٹ سیکٹر کی بحالی سے بیروزگار لوگوں کی شرح میں کمی ہو کیونکہ
پاکستان میں زیادہ تر لوگ پرائیوٹ سیکٹر کی وجہ سے برسرروزگار ہیں۔ آئندہ
آنے والے سالوں میں اگر عمران خان نے ملک میں یہ تبدیلیاں رونما نہیں کی تو
ملکی معیشت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
|