ہاں چراغ محبت تم جلاتے چلو
اورقدم سے قدم بھی ملاتے چلو
ایک ہوتم کہ تیراشروع ایک ہے
گیت توحیدکے تم گاتے چلو
یہ جس نظم کابندمیں نے آپ کے گوش گزارکیایہ آج سے 25سال قبل میں نے تحریرکی
تھی۔عرصہ پچیس سال ایک بڑاعرصہ ہوتاہے اتنے لمبے عرصہ میں کروڑوں لوگ خاک
بسرہوجاتے ہیں۔کروڑوں پیداہوکرجوان ہوجاتے ہیں۔جوان بوڑھے ہوجاتے ہیں جس
طرح آج سے پچیس سال قبل میں ایک کڑیل نہیں نہیں بلکہ مڑیل ساجوان تھااورآج
میں ادھیڑعمرسے گزرکربڑھاپے میں داخل ہوچکاہوں۔میرے سب ساتھی آج پوتے
پوتیوں اورنواسے نواسیوں والے بن چکے ہیں اورکئی ایک مجھ سے عمرمیں کم
ساتھی داعی اجل کولبیک کہہ چکے ہیں اسی طرح میری زندگی کاسفرجاری ہے ۔نہ
جانے کب میراوقت برابرہوتاہے اورمیں داعی اجل کولبیک کہتاہوں فرشتہ اجل
گھات میں ہے اورمیں دنیاکی بھول بھلیوں میں گم ہوں ایام ہوش کے ابتداسے آج
تک مجھے نہ عقل آسکی ۔سوچ ہے کہ دنیامیں کھوئی ہے سامان آخرت کے واسطے
ذرابھربھی فکرنہیں ایام جوانی میں توحالت آج سے بھی بہت ابترتھی ہروقت
دوسروں کونیچادکھانے اورخودکوطرم خان ظاہرکرنے کی کاوشوں میں لگارہااس طرح
میں نے اپنی زندگی کے سنہری ایام غروروفطورکے سائے تلے گزاردیئے ۔لیکن حالت
میر ی جوں کی توں رہی نہ کسی کومیں سرکرسکااورنہ ہی طرم خان بن سکا۔وقت کے
بے رحم تھپیڑوں نے آج مجھے لاغروناطواں کرکے رکھ دیاآج حالت میری یہ ہے کہ
کمرکبھی جوتیرتھی کمان ہوتی جارہی ہے ۔بنائی ختم ہوگئی ہے چہرے پہ موٹے
عدسوں والی عینک سجی رہتی ہے عقل غارت ہوچلی دانت نکل چکے زبان کے محل
کھنڈرات میں بدل چکے میرے دنیاہی بدل چکے بالوں میں چاندی اترآئی اوراس
چاندی کومیں منہ کالاکرکے چھپاناچاہتاہوں اورجوان بننے کی کوشش میں
لگارہتاہوں باوجوداس کے میں جس بھی حسینہ گھورتاہوں وہ میری منصوعی کالے
بالوں کے اردگردپڑی ہوئی جھریوں کودیکھ کرچچاکہہ دیتی ہیں۔لف چچامیرے دل
پربہت گراں گزرتاہے لیکن بھتیجیوں کوپتاہوتاکہ کدھرمیرادھان ہے
باوجودبڑھاپے دل میراجوانی کے لعب ولعاب میں اٹکاہواہے ۔حالانکہ گرتی ہوئی
صحت کے پیش نظرمجھے یہ بھی خبرہے کہ فرشتہ اجل کسی بھی وقت پنجہ مارکرمیری
روح کے پرندے کوقفس عنصری سے اڑالے جاسکتاہے اورمجھے کسی بھی وقت خاک
بسرکیاجاسکتاہے ۔مال توپاس میرے زندگی بھرنہ آسکالیکن مال کی بہتات کی حرس
نے لگتاہے میں ساتھ لے کرہی قبرمیں جاؤں گا۔اس طرح میری مثل لاکھوں کروڑوں
ہیں جن کی حالت مجھ سی ہے میں اپنی دانست میں دنیاکاسب سے بے عیب سیانہ
اوراچھامعترب انسان ہوں،اوردنیامیں جتنے بھی دیگرمیرے ہم عصراحباب ہیں وہ
سب عیب دارہیں اورمجھ سے پارسائی میں نیچے ہی ہیں۔جوبھی عمل میری طبع نازک
سے متصادم ہے بھلے وہ انسانیت کی فلاح کے واسطے جتنابھی اچھاہومیری نظرمیں
وہ باطل ہے ۔ہوائے نفس مجھے نہ ادھرکاچھوڑانہ اُدھرکاحقیقت میں میری حالت
کافرسی ہے ۔میرے پیٹ کے تندورکوکوئی فکرنہیں کہ اس میں حلال کالقمہ جاتاہے
یاحرام کامیں تواپنے فائدہ کی ہرشہ کوحلال تصورکرتاہوں۔بھلے وہ ظلمت سے ہی
حاصل کیوں نہ کی گئی ہودوسروں کوپگڑی اچھالنااورتحقیری نظرسے دیکھنامیری
اولین زندگی سے آج تک کاوطیرہ رہاہے۔اس معاملے میں میں اکیلانہیں میرے بہت
سارے اورساتھی بھی ہیں بلکہ ہم منفی سوچ کے حاملین کی تعدادمعاشرے میں بہت
ہی زیادہ ہے ۔یہ جوسرورق پہ میں نے نظم کابندتحریرکیاہے پہلے اس کے بارے
میں میں آپ کوگوش گزارکردوں کہ چنددن قبل مجھے برمنگ کلاں کے مقام پربنی
ہوئی چندخاندانوں پرمشتمل ایک ویلفیئرکی پوسٹ بوساطت فیس بک نظرسے گزری جس
کانام ’’ہم ایک ہیں‘‘ہے۔ مجھے اس نام کی فلاحی تنظیم دل کوبہت بہائی اور
اپنی پچیس سال قبل لکھی ہوئی نظم کاعملی نمونہ اس تنظیم میں پایا۔میں کھوج
لگاتے لگاتے راولاکوٹ پہنچاتومعلوم کرنے پرپتاچلاکہ اس تنظیم کے سرپرست
اعلیٰ شکیل ضیاء ہیں جوسات سمندرپارانگلینڈمیں مقیم ہیں اس کے چیئرمین نسیم
ضیاء اورصدرانزارالحق ہیں ۔تنظیم کی غرض وغائیت معلوم کرنے پرپتاچلاکہ ان
لوگوں نے اس غرض سے تنظیم کی تشکیل دی ہے کہ معاشرہ سے لوگ کٹ کرالگ الگ
ہوتے جارہے ہیں اوروحدت کاسبق بولتے جارہے ہیں ۔معاشرے میں بہت دوریاں آچکی
ہیں انسان درجہ انسانیت سے گرکردرندگی اورموذیت کی طرف بڑھ رہاہے ۔اس لئے
اس تنظیم کی تشکیل دی گئی کہ حیثیت کے مطابق حصہ ڈالاجائے اوراردگردکی
خبرملتی رہے ۔طاقت کے مطابق فلاحی کام ہوتے رہیں ۔اس تنظیم کووجودمیں آئے
قلیل عرصہ ہواہے لیکن اس نے کافی کارگزاری دکھائی ہے ۔تھوڑاعرصہ ہواایک
پوسٹ نظروں سے گزری ایک کالعدم تنظیم کے نام نہادمجاہدکی پوسٹ تھی جوسوشل
میڈیاکامجاہدہے اس کی تحریرکچھ یوں تھی کہ’’ اس قبرستان میں میرے بیٹے کی
قبرتھی میرے ظالم ماموں نے جنہوں نے ہماری زمین ناجائزقبضہ کیاہواہے
قبرمٹادی اورمیرے بچے کی قبرکے نشان تک باقی نہیں میری حکومت سے گزارش ہے
جولوگ زمین کی لالچ میں قبرکومعاف نہیں کرتے وہ کل کوئی بڑاحادثہ کرسکتے
ہیں کیونکہ مجھے بے شماردفعہ قتل کی دھمکیاں ملی کل میرے ساتھ بھی واقعہ
پیش آتاہے تواس کے ذمہ دارمیرے ماموں اوران کے بیٹے یاان کے رشتہ دارہوں گے
یادرہے قبرقبرہوتی ہے چاہے چھوٹی ہویابڑی ‘‘۔ساتھ ہی قبرستان کی تصویربھی
تھی۔مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں ایسے درندہ صفت لوگ بھی ہیں
جوقبروں کوبھی نہیں بخشتے۔ میں نے کھوج لگائی اوراس مقام تک پہنچا۔میں نے
مشاہدہ کیااورتحقیق کی تومعلوم ہواکہ مقامی ویلفیئرجس کامیں نے
اوپرذکرکیاہے قبرستان کی تعمیراورصفائی ستھرائی کاکام شروع کیاہے ۔قبرستان
کادورہ مقامی انتظامیہ نے بھی کیاجس میں قبراکھاڑے جانے کے کوئی شوائدنہ
پائے گے موصوف نے پولیس کوبھی جھوٹ کے ذریعے گمراہ کیا۔وہاں کوئی قبراکھڑی
ہوئی نہیں پائی گئی بلکہ ویلفیئرکے ذریعے ایسی صفائی کی گئی کہ دل باغ باغ
ہوگیا۔تحقیق پرپتاچلاکہ موصوف گزشتہ چارسالوں سے اپنی ہی قریبی رشتہ داروں
کومختلف حربوں سے پریشان کررہے ہیں کیونکہ موصوف ایک کالعدم جہادی تنظیم کے
کاغذاتی ذمہ دارہیں جس بنیادپراثرورسوخ رکھتے ہیں اپنی جان پہچان کی
بنیادپرضلعی انتظامیہ اورڈیفنس کے اداروں کوگمراہ کرکے اپنے آپ کوطرم خان
ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔جیسامیں طرم خان رہاہوں ویساہی بنناچاہتے
ہیں۔تحقیق کرنے پرپتاچلاکہ موصوف اپنے قریبی رشتہ داروں کودباکران سے زمین
ہتھیانے کے چکرمیں ہیں حالانکہ اگرموصوف سچ پرہیں تومیں انہیں مشورہ دوں
گاکہ آزادکشمیرکے اندرعدلیہ کابہترین نظام موجودہے اس سے رجوع کرکے قانونی
طریقہ اپنائیں تب ہی اصل طرم خان بن سکتے ہیں۔مجھے یہ بھی معلوم ہواکہ
گزشتہ چارسالوں سے موصوف ضلعی انتظامیہ کوجھوٹ پرمبنی درخواستیں دے کراپنے
تعلق واسطے کے پولیس اہلکاران کے ذریعے اپنے ہی قریبی رشتہ داروں کوفون
پرتنگ کرواتاآرہاہے۔افسوس صدافسوس ہے ایسے دین کالیبل لگاکراپنی عزتوں
کوسوشل میڈیاپراچھالنے والوں پر جواپنی انااورلالچ کی بنیادپراپنی ماؤں
بہنوں بیٹیوں اوربھائیوں کی عزتوں کوسرعام سوشل میڈیاپر نیلام کرکے
خودکوعزت داراوردیندارکہلاتے ہیں۔اگرموصوف ایک دیندارشخصیت کے حامل ہیں
توانہیں یقینامعلوم ہوگاکہ رشتہ داروں کے کیاحقوق ہیں انہیں یہ بھی معلوم
ہوگاکہ اسلام قبروں زمین برابررکھنے اورکچی رکھنے کابھی حکم دیتاہے ۔ایسے
میں زمین برابرقبرکوکیسے ڈھونڈاجاتاہے یہ فرض اولین تووالدکاہوتاہے کہ وہ
اپنے مردہ پیداہوئے بچے کی قبرکواحسن اندازمیں رکھتے۔یہ بھی بات واضح ہوئی
کہ اسی قبرستان میں موصوف کے والدکی بھی قبرہے ۔اس پرمیں تبصرہ نہیں
کرتاقارئین خودہی فیصلہ کریں۔موصوف اگرغورکریں توسگے ماموں کی عزت کوسوشل
میڈیاپراچھال کرخودکس طرح عزت دارہوسکتے ہیں۔کسی بھی معاملہ کے حل کے لئے
قانون موجودہے اگرباعزت رہناچاہتے ہیں توقانونی راستہ اختیارکریں ۔ورنہ اﷲ
کی لاٹھی بڑی بے آوازہے اگر کسی بزرگ لاچاراورغریب خاندان کی بددعاکی زد
میں آگئے تویقین جانیں میرے جیساحال ہوجائے گا۔بدبخت ہے وہ شخص جس کے شرسے
بچنے کیلئے لوگ اس سے ملناچھوڑدیں۔
|