ملک کے معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی
سے شروع ہونے والا معاشی ترقی کاسفر اگرجاری رہتا توشاید اب تک پاکستان
ترقی یافتہ ممالک میں اپنا نمایاں مقام حاصل کرچکاہوتا، اس دور میں بہت
تیزی کے ساتھ معاشی اثاثوں کی شروعات ہوئی ، ریاست جن صنعتوں کو تیارکرتی
جن کارخانوں کی بنیاد رکھتی اسے چلاکر بعد میں پرائیویٹ طریقوں سے بزنس
مینوں کے حوالے کردیا جاتاتھا جس سے بزنس مینوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ
لوگوں کو پرائیویٹ اداروں میں نوکریاں بھی مل رہی تھی جب کہ اس کے برعکس
بھٹوصاحب کے دور میں اس صنعتی ماڈل کا جس انداز میں شیرازہ بکھیرا گیا وہ
اب تاریخ کا حصہ بن چکاہے۔بھٹو نے اس پرائیویٹ صنعتی انقلاب کو نیشنلائز
کرکے ان انڈسٹریز کو اپنے نالائق اور ناتجربہ کار لوگوں اوربیورکریٹس کے
حوالے کردیاجس سے چلتے ہوئے کارخانوں اور انڈسٹریز کی کارکردگی بتدریج زیرو
ہوگئی، یہ ہی وجہ تھی کی 1977 کا مزدور اور کسان جو کبھی بھٹو کا مداح تھا
وہ اس سے سخت ناراض ہوگیا کیونکہ بھٹو نے ان کے گھروں کے چولہے بجھادیے تھے
، بھٹو نے جو کچھ بھی معیشت کے ساتھ کھلواڑکیا اس کی سزا آج تک پاکستان کی
معیشت بھگت رہی ہے ،1972میں بھٹو نے جب اپنے منشور کو عملی جامہ پہناتے
ہوئے صنعتی اور تعلیمی اداروں سمیت بینکوں کو بھی اپنی تحویل میں لیا اس کے
ساتھ ہی دیگرفائدہ مند کاروبار کو سرکاری تحویل میں لیکر اس میں سیاسی
بھرتیوں کا عمل بھی شروع کردیا ،اور ان سونا اگلنے والی فیکٹریوں اور
صنعتوں پر صرف ان لوگوں کا قبضہ رہنے لگا جو وزارتوں میں رہے ،یعنی سرمایہ
دارانہ نظام کے خلاف نعرہ بلند کرکے بھٹوکے اس عمل نے آج تک صرف چند
خاندانوں کو مظبوط کیا اور ملک میں باقی عوام میں بے چینی بڑھی دولت کاسفر
اقتدار میں موجود لوگوں ان کے رشتے داروں اورمنظور نظر مداح سراہوں کے گرد
گھومتا رہا جو آج تک گھو م ہی رہاہے۔ بھٹو کے بعد ملکی معیشت کا ایک اور
بڑا دشمن سابق وزیراعظم میاں نوازشریف ہے جس نے دل کھول کر اپنے مداح
سراہوں پر ملکی خزانے کو لٹایا خود بھی لوٹا اور دوستوں کو بھی خوش کرتا
رہا،بھٹو کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی اتفاق فاونڈری کو جنرل ضیاالحق نے
اپنے فوجی دور میں واپس کردیاتھا اور یہ نہیں اتفاق فاؤنڈری کا زرتلاقی بھی
نوازشریف کے والد میاں شریف کو واپس کیا،یعنی پچاس کروڑ روپے کمپنی چلانے
کے لیے بھی دیئے ،1990 جنرل ضیا الحق کے زمانے میں جن پیراشوٹر سیاستدانوں
کی بنیادیں رکھی گئی ان میں شریف خاندان سرفہرست تھا، نوے کی دہائی میں ڈی
نیشنلائز کا عمل شروع ہوچکا تھامگر ملکی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ
سکی اس کے پاؤں اکھڑ چکے تھے کیونکہ ملک میں بھٹو مختلف روپ بدل کر آتا
رہایعنی بھٹو کے دور میں اقتصادی تباہی کے بعد اس کی زمہ داری اور مشن کو
نوازشریف نے اپنے انداز میں سنبھال لیا، یعنی نوازشریف نے ملکی اقتصادیات
میں اپنی کارکردگی کچھ اس طرح سے دکھائی کے ملک میں کرپشن کا بازار گرم
رہنے لگا،لائسنس ،سیکرٹریوں کی اجازت ،ٹھیکیداری سسٹم اور رشوت کا رواج چل
نکلا سیاستدانوں کو رشوت دینے کا سلسلہ شروع ہوا بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے
غیر ملکی اکاؤنٹس بھرنے کا سلسلہ اسی دور میں شروع ہوا، کیونکہ میاں
نوازشریف نے اپنے ہر دور میں نہ صرف خود ملک کو لوٹا بلکہ اپنے ساتھیوں کو
بھی پیسہ بنانے کی کھلی چھٹی دی یہ ہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ انڈسٹریز آنے کے
باوجود پاکستان اس انداز میں ترقی نہیں کرسکا جس قدر ساٹھ کی دہائی میں
کررہاتھا، کیونکہ ملک میں پرائیوٹ اداروں کا معاملہ یہ نہیں کہ ملک میں لوگ
اپنا سرمایہ لگا کر اپنی اور ملکی ترقی میں اپنا کرداراداکرتے ہیں بلکہ
نوکریوں کا ایک وسیع زریعہ پرائیویٹ سیکٹر ہوتا ہے پرائیویٹ سیکٹر لوگوں کو
نوکریاں فراہم کرنے کا ایک بڑا زریعہ ہوتاہے ،مگر پرائیویٹ کمپنیوں سے
متعلق بھٹو دور کی پالیسیوں کی چند تبدیلیوں کے باوجود بھی ملک میں صنعتی
انقلاب برپا نہ ہوسکا جس کی بڑی وجہ بھٹو کے دور کے بعد نواز،زرداری دور
میں کرپشن کا بے پناہ بڑھنا ہے جس میں میرٹ کا قتل عام بھی شامل ہے، ملکی
معیشت پر عدم توجہ اور لوٹو تو پھو ٹو والا معاملہ چل نکلا تھا ملک میں
بجلی گیس اور امن وامان کی صورتحال نے پرائیویٹ کمپنیوں کے مالکان کے قدم
اکھیڑ دیے تھے ،اسی طرح زرداری صاحب نے بھی بے نظیر کے دور میں خوب پیسہ
بنایا اور اسی فارمولے کو اختیار کیاجس کے باعث انہیں جلد ہی مسٹر ٹین
پرسنٹ کے نام سے جانا جانے لگااور بے نظیر کی حکومت کو کرپشن کے الزام کے
تحت برطرف ہونا پڑا اور کرپشن پر ان پر بیس سے زائد مقدمات بنے ،آج ان جیسے
حکمرانوں کی لوٹ مار اور اپنے حواریوں کو کھلی چھٹی دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ
ہماری معیشت میں 70فیصد کالا دھن رچ بس گیا،بغیر رشوت اورسفارش کے کوئی بھی
کام ممکن نہ رہا ان ادوار میں بھی بڑے بڑے حکومتی لوگوں کی جانب سے پیسہ
اکٹھا کرکے ملک سے باہررکھنے کی ریت نے زورپکڑاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
اقتدار میں رہنے والے چند خاندانوں کے درمیان پیسہ گھومنے لگا اور غریب
غریب سے غریب تر ہونے لگا، ملکی اداروں میں رشوت اور چور بازاری کا سکہ کیا
چلا کہ ملک کبھی بجلی کبھی گیس تو کبھی سیکورٹی کے مسئلوں میں گھرا رہنے
لگا یہ سب ان ہی سورما امپورٹڈ سیاستدانوں کی چور بازاری کی وجہ سے ممکن
ہوا، ملک میں حالات ایسے نہیں تھے کہ کوئی اپنا سرمایہ لگا کر اپنا کاروبار
کرتا کچھ نے ہمت پکڑی تو کچھ بزنس میں ملک سے بھاگ گئے ، ہمارے وزیر اعظم
عمران خان جہاں معاشی اعتبا ر سے ایوب کے دور کی بات کرتے ہیں تو وہاں وہ
چین کی معاشی ترقی کا بھی خوب تزکرہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے
پوری دنیا کو مرکز سے کنٹرول اکانومی کا تصور پیش کیا نہ صرف اپنی زمین پر
اپنے ہی لوگوں کو بزنس کے مواقع فراہم کیئے بلکہ مختلف غیر ملکی کمپنیوں کو
بھی کام کرنے کی اجازت دی،کیونکہ چین کے اقتدار میں نہ توکسی بھٹو کی حکومت
تھی اور نہ ہی وہ وہاں کسی کونے میں زندہ تھاجس کی وجہ سے چین کی اکانومی
مزید بہتر ہوگئی ،چینی حکومت کی جانب سے لوگوں کو سطح غربت سے نکالنے کاکام
انسانی تاریخ کا ایک اہم واقع ہے ،جس طرح میں نے پاکستان کی گزشتہ حکومتوں
کی جانب سے معاشی تباہی کی ایک داستان کو بیان کیا ہے وہاں ہمارے ملک کو ان
ادوار میں لسانی ،مذہبی فرقہ وارانہ تعصبات سے بھی دوچار کیا جاتارہاہے
،چین میں جہاں معاشی انقلاب سے عام آدمی کی زندگیوں میں بہتری آئی وہاں
پاکستان میں سرمایہ دار کاروباری اور حکومتی حلقوں کے لوگوں کی دولت میں بے
پناہ اضافہ ہوتا رہا مگر اس ملک کا ایک عام آدمی غربت کے باعث خودکشیوں پر
مجبورہا،ہمارے پاکستان میں معیشت کا زیادہ ترانحصار غیر ملکی قرضوں کے ساتھ
بندھا رہاجو ریاست کو اغیار کے احسانوں تلے دباتا رہا صحت، تعلیم اور سیاحت
جیسے شعبے توبنے مگر اس سے کسی ایک انسان کو ٹکے کا فائدہ نہ ہوسکا توانائی
اور پانی جیسے معاملات میں عوام اور کاروباری لوگوں کی چیخیں صاف سنائی
دیتی رہی بائیس کروڑ کی عوام چند مٹھی بھر خاندانوں کا پیٹ پالتی رہی اپنے
ٹیکس سے ان کے محلات کو وسیع کرتی رہی وہاں چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے
سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود اپنی عوام کو غربت سے نکال لے گیا ،آج ہمارا
ملک جن مشکلات سے دوچار ہے اس کی وجہ کرپٹ حکمرانوں کی منفی طرز حکومت
،بدانتظامی اور کرپشن کی ہزار داستانیں ہیں، جس کی سزا اس ملک کا ایک عام
آدمی بھگت رہاہے جس کی وجہ سے کلمے کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک گرے لسٹ
میں جاچکا ہے مگر قوم کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے
دورشروع ہونے ولا معاشی تباہی کا یہ سفر 2018میں آکر اب دم توڑ چکاہے اور
امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان مورثی سیاستدانوں کے بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے سیاست کے تابوت میں دفن کردینگے ۔ختم شد
|