اس طرح تو کسان اپنی معمولی" فصل" کے ساتھ بھی تجربے
نہیں کرتا جس طرح کپتان ہماری بیش قیمت" نسل "کوتختہ مشق بنائے ہوئے
ہے۔قائدؒ نے پاکستان کواسلام کی تجربہ گاہ قراردیاتھا لیکن ہمارے مہربانوں
نے مادروطن کو عمران خان اورعثمان بزدار کیلئے تربیت گاہ بنادیا۔آپ نے کئی
انسانوں کوجانے انجانے میں اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارتے ہوئے دیکھا ہوگا لیکن
کپتان کو بار بار کلہاڑے پراپناپاؤں دے مارنے کی عادت ہے۔موصوف عجلت میں
کئے اپنے ہرناقص" فیصلے" کے نتیجہ میں عوام سے مزید "فاصلے "پر چلے جاتے
ہیں۔ تبدیلی سرکار کے دوبرس پورے ہونے پر ضروریات زندگی کے نرخ "ڈبل"
دیکھتاہوں تو مجھے وزیرآبادکا"ڈبل شاہ" بہت یادآتا ہے۔مفلس کے ناتواں
کندھوں پرمہنگائی کابوجھ جبکہ سرمایہ داراشرافیہ کی تجوریوں اوربوریوں میں
"کمائی"کاحجم ڈبل ہوگیاہے،یقیناکوئی سرمایہ دار کسی "مفلس "کے ساتھ" مخلص"
نہیں ہوسکتا۔ جوسیاستدان حکمران شخصیات یا فوجی قیادت کے ساتھ ڈنر کرنے
توتنہاجاتے ہیں لیکن جب کسی عدالت میں ان کی پیشی کامعاملہ ہوتو وہاں
کارکنان کو دھکے اور ڈنڈے کھانے کیلئے مدعوکرلیا جاتا ہے۔جس وقت تک لوگ
"نالی"کیلئے ووٹ دیتے رہیں گے اس وقت تک حکمران اورسیاستدان طبقہ انہیں"
گالی" دیتارہے گا ۔جہاں ووٹ والے نوٹ والے امیدوار سے اپنے ضمیر کی قیمت"
وصول" کرتے ہوں اس امیدوار سے ان کی کوئی امید پوری ہوگی اورناں وہاں" اصول
" پنپ سکتے ہیں ۔ پچھلے حکمرانوں کے دورمیں بھی بدعنوانی اوربدانتظامی کے
سبب ملک میں بدامنی ،بے چینی اوربے یقینی کادوردورہ تھا لیکن تبدیلی سرکار
نے توانتہا کردی ہے۔آج پاکستانیوں کوجس شدت سے بے چینی کاسامنا ہے اس میں
چینی مافیا کے کردارسے انکار نہیں کیا جاسکتا۔نوازشریف کی اقرباء پرور ی کے
قصے آج بھی زبان زدعام ہیں ،وہ اپنے عزیزواقارب اورخوشامدیوں کونوازتے تھے
جبکہ عمران خان نے اپنے کندھوں سے احسانات کابوجھ اتارنے کیلئے اپنی ایک
ایک '' تر ''کوتاردیا۔جس سے ان کے اہل خانہ مشورہ نہیں کرتے وہ بھی عمران
خان کے مشیر ہیں۔جس طرح پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے ادوارمیں شعبدہ بازی
سے کوئی شعبہ بہترنہیں ہواتھااس طرح تبدیلی سرکار کی شعبدہ بازی سے کسی
شعبہ میں بہتری نہیں آئے گی۔عمران خان نے ایک روزکالم نگاروں کے ساتھ
ملاقات میں یوٹرن کامفہوم بیان کرتے ہوئے اس کے فائدے گنوائے تھے ۔موصوف نے
ہربار وہاں یوٹرن لیا جہاں سٹینڈ کرنا ضروری تھا اورجس مقام سے واپس پلٹنا
تھاوہاں وہ ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹ گئے۔آوازخلق کونقارہ خداکہا جاتا ہے، اٹک سے
صادق آباد تک پنجاب کاہر طبقہ عثمان بزدار سے نجات چاہتاہے لیکن عمران خان
اس ناگزیر یوٹرن کیلئے تیار نہیں ۔سانحہ موٹروے کے بعد عمر شیخ کاجواشتعال
انگیز بیان منظرعام پرآیااس کے بعداہل سیاست اوراہل صحافت سمیت معاشرے کے
تمام طبقات نے سی سی پی اولاہورکو فوری تبدیل کرنے پرزوردیا مگر اس بار بھی
عمران خان ضد میں آگئے اورنتیجتاً عمر شیخ نے آئی جی پنجاب انعام غنی سے
لاہورمیں ڈی ایس پی حضرات کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیارمانگ لیا ،چونکہ وہ
سابقہ آئی جی شعیب دستگیر کی تبدیلی کاسبب بنے اسلئے اب ان کی زیادہ سے
زیادہ اختیارات کے حصول کی خواہشات رکنے والی نہیں۔پچھلے دنوں ایک ڈی ایس
پی کے ریڈر سیّد ضیغم نے سی پی اومیں سی سی پی اولاہورکیخلاف تحریری
درخواست دی ہے،تعجب ہے سی سی پی او لاہورایک ریڈر کے ساتھ پرسنل ہوگیا۔ایک
نوجوان آفیسر کوقابلیت اورانگلش میں گفتگوکرنے میں مہارت پر عمر شیخ نے
جھاڑدیا جس پراس باضمیر آفیسر نے استعفیٰ دے دیا ۔عمر شیخ کی تقرری کے بعد
لاہورپولیس کی کارکردگی میں بہتری نہیں بلکہ ابتری جبکہ اہلکاروں میں
مایوسی اور بددلی دیکھنے میں آئی ہے ۔جس طرح لوگ اداکارہ میرا ،مولوی
ناصرمدنی اورمفتی قوی کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑاتے ہیں اس طرح شہرلاہور
کاسی سی پی اوبھی ان دنوں کافی زیربحث آتا ہے کیونکہ شہری اس سے خوش نہیں۔
ہم مذاق مذاق میں کچھ ناپسندیدہ اورغیرسنجیدہ عناصر کا"مزار" بنادیتے ہیں
جہاں سے ا نہیں" نذرانہ" ملنا شروع ہوجاتا ہے،منفی شہرت کے باوجود ناصرمدنی
اورمفتی قوی پرنوٹ برس رہے ہیں ۔ملک سے کرپشن کاصفایااوروفاق سے صوبوں تک
ہرسطح پرمیرٹ رائج کرنے کے د اعی عمران خان اب کیا جوازپیش کریں گے کیونکہ
ان کے معتمد سی سی پی او لاہورعمر شیخ نے 21ویں گریڈ میں اپنی پروموشن نہ
ہونے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جو رِٹ دائر کی تھی وہ عدالت نے ان
ریمارکس" پروموشن بورڈ کا عمر شیخ کو مالی و اخلاقی طور پر کرپٹ ہونے کی
بنیاد پروموٹ نہ کرنے کا فیصلہ درست ہے" کے ساتھ مسترد کر دی ہے ۔
اُدھر انعام غنی نے بھی پولیس آرڈر2002ء کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے19ویں کی
بجائے 18ویں گریڈ کے آفیسرز کوڈی پی اولگانا شروع کردیا ہے ،موصوف اب تک
متعدد اضلاع میں گریڈ18کے آفیسرز کو ڈی پی او تعینات کرچکے ہیں۔انعام غنی
کی بحیثیت آئی جی تقرری کے بعد ان سے SeniorاورSincere ایڈیشنل آئی جی طارق
مسعود یٰسین نے اخلاقی اوراصولی بنیادوں پراپنے ٹرانسفر کیلئے تحریری
طورپرآگاہ کردیا تھاجبکہ سی پی اومیں جودو تین پروفیشنل ایڈیشنل آئی جی رہ
گئے تھے ان میں سے بی اے ناصراورذوالفقارحمید کو اسٹیبلشمنٹ میں رپورٹ کرنے
کیلئے کہا گیاہے۔اِنعام غنی کو یہ منصب کام کی بنیادپرنہیں بلکہ بطورانعام
دیاگیا ہے،حقیقت میں انعام غنی پنجاب پولیس کے ترجمان یاایڈیشنل آئی جی
جنوبی پنجاب کیلئے موزوں تھے اورناں وہ اس اہم ترین منصب کے اہل ہیں
جوانہیں عجلت میں دے دیاگیا ۔میں انعام غنی کے تیوردیکھتا ہوں تومجھے باب
العلم سیّدناحضرت علی رضی اﷲ عنہ کایہ قول یادآجا تا ہے، "دولت ،طاقت
یامنصب ملنے سے لوگ تبدیل نہیں بلکہ بے نقاب ہو تے ہیں"۔انعام غنی باری
باری ہراس آفیسرزکوسی پی اوسے ٹرانسفر کررہے ہیں جس نے شعیب دستگیرکے ساتھ
کام کیا ہے ۔ وزیراعظم کی حالیہ تقریربھی قابل قدر تھی لیکن یہ عوام کے
ہردرد کی دوا نہیں،کیونکہ پاکستانیوں کی تقدیر کپتان کی تقریر نہیں بلکہ
موثر تدبیر سے بدلے گی۔اگر بحیثیت حکمران اہم سیاسی وسرکاری عہدوں
پرتقررکرتے وقت تدبر سے کام نہ لیا گیا تواداروں میں بگاڑاوربحران پیداہو
تارہے گا۔ ریاستی نظام سیاسی انتقام کامتحمل نہیں ہوسکتا،بدانتظامی
اورانتقامی روش کانتیجہ حکومت کی ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔حکومت کو
اپنے وعدے وفاکرنے کیلئے مقبول نہیں معقول فیصلے کرناہوں گے جودرست
اوردوررس ہوں۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایا تھامگر وہ تخت اسلام
آباد پر بیٹھ کر کسی شہنشاہ کی طرح احکامات صادر فرماتے ہیں اورکسی کی نہیں
سنتے۔
سر اپارحمت حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی
صحبت میں سیّدناحضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی جوتربیت ہوئی وہ ان کے
عہدخلافت میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے بہت کام آئی اور عہدحاضر کے انسان
بھی ان کی اصلاحات سے مستفید ہور ہے ہیں۔قادروکارساز اﷲ رب العزت نے
سیّدناحضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی تقریباًبیس تجاویزیا خواہشات کواسلامی
تعلیمات کاحصہ بنادیا۔عہدفاروقی اورعدل فاروقی انسانیت کیلئے سرمایہ افتخار
ہے۔عہدنبوت میں ایک صحابیہ حولہ رضی اﷲ عنہا روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں
حاضر ہوئیں سرورکونین حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ
واصحبہٰ وسلم کی خدمت میں اپنے شوہر کی طرف سے اپنے ساتھ" ظہار" کامعاملہ
عرض کیا اوراس پربحث شروع کردی۔سمیع وبصیر اﷲ تعالیٰ نے ان صحابیہ کی
فریادسن لی،اس دوران حضرت جبرائیل ؑوہاں تشریف لے آئے اور عرض کیا
معبودبرحق نے" ظہار" کو منسوخ فرما دیا ہے ۔اگر اﷲ تعالیٰ حضرت عمرفاروق
رضی اﷲ عنہ کی تجاویزکواسلامی احکامات کاحصہ بنا اور ایک صحابیہ کااضطراب
واصرار دیکھتے ہوئے اس دورمیں رائج ظہار کو ختم کرسکتا ہے توپھرعمران خان
آوازخلق کونقارہ خدامانتے ہوئے اپنے ناقص فیصلے کیوں تبدیل نہیں کر سکتے۔
پاکستان کاایساکوئی طبقہ نہیں جس نے عثمان بزدار اور عمر شیخ کی تبدیلی
پرزورنہ دیا ہولیکن کپتان کولگتا ہے اگر عوام کی مان لی تو حکومت زیرہوجائے
گی ۔ اگرعمران خان نے عثمان بزداراورعمرشیخ کے معاملے میں یوٹرن نہ لیا
توآگے گہراکنواں ان کا منتظر ہے۔
پنجاب کے وزیراطلاعات کی سیاست میں تضادات اورموصوف پچھلے دوبرس سے اہل
سیاست اوراہل صحافت سمیت مختلف اداکاراؤں کے ساتھ بھی تنازعات میں ملوث رہے
ہیں۔انہوں نے پاکستان کی ایک اقلیت کے بارے میں وہ کہا جوکوئی ہوشمند نہیں
کہتا،اس پاداش میں ا نہیں کابینہ سے باہرہوناپڑا تاہم کچھ ماہ بعد دوبارہ
انہیں وزارت اطلاعات کاقلمدان دے دیاگیا ۔وزیراطلاعات کے بے سروپابیانات سے
تبدیلی سرکار کوفائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان پہنچتا ہے۔فیاض الحسن چوہان کو
حکومت کے منصوبوں کی تشہیر سے زیادہ اپوزیشن رہنماؤں کی تضحیک میں دلچسپی
ہے اوروہ ذاتیات پراتر آتے ہیں۔ان کااپنے حالیہ بیان میں نوازشریف
کو"ارتغرل "کہنا شرمناک جبکہ وزیراعظم کا ان کی بازپرس نہ کرنا اس سے زیادہ
شرمناک ہے۔کپتان کاٹیم ممبر بننے کیلئے معیار ایک معمہ ہے ،عمران خان نے
طاہراشرفی کی صورت میں ایک اورگوہرنایاب تلاش کرلیا اور انہیں اپنانمائندہ
خصوصی مذہبی ہم آہنگی مقررکردیا ہے ۔ مجھے وزیراعظم کے حسن انتخاب پر ترس
آتا ہے ،انہیں ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے چاروں صوبوں سے کوئی
مستند اورمعتدل عالم دین نہیں ملے ۔عمران خان چوبیس سال سے سیاست میں ہیں
مگر ان کاطرزحکومت دیکھتے ہوئے لگتا ہے اگرانہوں نے اب بھی سیاست نہ سیکھی
توتبدیلی کاخواب چکناچورہوجائے گا ۔
|