جاپانی کبھی ”ترقی“ نہیں کرسکتے

ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ دُنیا بھر میں جاپان کو ترقی کی روشن مثال کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جاپانیوں میں آخر ایسا کیا ہے کہ اُن کے بارے میں طے کرلیا گیا ہے کہ اگر ترقی کی جائے تو اُن کی طرح کی جائے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض معاملات میں جاپانی آج تک ”دقیانوسی“ ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اب تک مشترکہ خاندان کا نظام اپنا رکھا ہے، مغرب کی طرح الگ الگ زندگی بسر کرنے پر زیادہ یقین رکھتے۔ حیرت ہے کہ اِس پر بھی ”ترقی یافتہ“ کہلاتے ہیں!

دُنیا اِکیسویں صدی میں قدم رکھ چکی ہے بلکہ رواں دواں ہے اور جاپانی ہیں کہ اب تک ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے کی دُنیا میں جی رہے ہیں۔ تیزی سے اُبھرتی ہوئی معیشتوں نے ثابت کیا ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو بہت کچھ چھوڑنا، بلکہ بے دردی سے روندنا پڑے گا۔ امریکہ اِس کی واضح ترین مثال ہے۔ اُس نے جی بھر کے، بدمست ہاتھی کی طرح، کمزور اقوام پر چڑھائی کی ہے۔ یورپ بھی کئی صدیوں تک اِسی روش پر گامزن رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے آگے بڑھنے کے لئے دوسروں کو پیچھے رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا اور پس ماندہ اقوام کے دِلوں پر اپنی ”عظمت“ کا سِکّہ جمایا۔ جاپان جیسے ممالک پر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کسی کمزور اور ناتواں ملک پر چڑھائی نہیں کرتے اور اِس ”خامی“ کے باوجود خود کو ”ترقی یافتہ“ گردانتے ہیں! روایات، اقدار اور اُصولوں کی باتیں کرنے والوں سے دُنیا نے بہت پہلے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ جاپانی اب تک روایات کو رو رہے ہیں، اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ترقی کے معاملے میں وہ بہت آگے نکلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر اُصول پسندی کی بات آ جائے تو اُن کی سُوئی اٹکی ہوئی محسوس ہوتی ہے! گزشتہ دنوں ایک جاپانی کمرشل بینک کے سربراہ نے ایک عجیب حرکت کی جس نے ہمیں قلم اُٹھانے پر مجبور کردیا۔ ادارے کے اے ٹی ایم سسٹم میں خرابی آنے پر اور صرف تین دن کام شدید متاثر ہونے پر موصوف نے خِفّت کے مارے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا!

ہم نے سُنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے برسوں بعد جنگلوں میں کئی جاپانی فوجی خاصی بُری حالت میں ملے۔ خراب حالات کے باوجود وہ ”ڈیوٹی“ پر تھے اور دُشمن سے مقابلے کے لئے مستعد! جب باہر کی دُنیا کے لوگ اُن تک پہنچے تو وہ بدک گئے۔ بہت مشکل سے اُنہیں سمجھایا جاسکا کہ جاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور جنگ کب کی ختم ہوچکی ہے! اُن کی کمٹمنٹ دیکھ کر دُنیا حیران رہ گئی۔ کہاں تو جاپانیوں کا یہ حال تھا کہ جنگ ختم ہونے پر بھی پسپائی پر آمادہ نہ تھے اور اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ یہی لوگ بات بے بات استعفٰی دیکر ذمہ داری کا بوجھ سر سے اُتار پھینکنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں؟

ذرا سی بات پر اُصولوں کے غار میں اُتر جانے والے بھلا کس طور ”ترقی“ کرسکتے ہیں؟ ہم تو خدا لگتی کہیں گے کہ جاپانیوں نے جیسے تیسے ترقی تو خیر کرلی، مگر کسی بھی معاملے کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے سے بھاگتے، کتراتے ہیں! کہیں کوئی ٹرین بس ذرا سی ٹریک سے اُتر جائے تو ریلوے کا وزیر استعفے کے اسٹیشن پر اُتر جاتا ہے! قتل کی دو چار وارداتیں ہو جائیں تو وزیر داخلہ اپنی وزارت کو قتل کرکے حقیقی معنوں میں ”وزیر داخلہ“ بن جاتا ہے یعنی گھر بیٹھ جاتا ہے۔ کہیں بجلی کا نظام درہم برہم ہو جائے تو توانائی کے وزیر کی توانائی ختم ہو جاتی ہے اور وہ ری چارج کے لئے مُستعفی ہو جاتا ہے! معمولی سی بے قاعدگی یا بدنظمی پر مستعفی ہونے والے کس طرح ”ترقی“ کرگئے، یہ بات ہم آج تک سمجھ نہیں پائے!

جاپانیوں کو اگر کچھ سیکھنا ہے تو اپنے سیاست دانوں اور ماہرین کو پاکستان بھیجیں۔ اے ٹی ایم سسٹم کی خرابی پر مستعفی ہونے والے بینک سربراہ کو ہم کیا بتائیں کہ اگر کبھی، خدا ناخواستہ، ہمارے ہاں کسی بینک کا سربراہ مستعفی ہوا بھی تو اِس بات پر ہوگا کہ اُس کے ہوتے ہوئے بینک کا کوئی بھی سسٹم ڈھنگ سے کام کیسے کرنے لگا! اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہر معاشرے کے اپنے اُصول اور آدرش ہوتے ہیں! اِسی کو انگریزی میں ”کسٹمائزڈ تھنکنگ“ کہتے ہیں! دفتر سے ہماری تنخواہ جس بینک میں جاتی ہے اُس کے آن لائن یا اے ٹی ایم سسٹم کا یہ حال ہے کہ کبھی کام کر رہا ہو تو ہم حیرت کے مارے اے ٹی ایم کارڈ یا چیک تھامے رہ جاتے ہیں اور کیشیئر خیریت دریافت کرتا رہ جاتا ہے! اب اگر ہماری اِتنی سی حیرت پر کوئی مستعفی ہو تو ہو، اے ٹی ایم سسٹم کی خرابی پر منصب سے دستبردار ہونا ہرگز ”بڑپّن“ کی دلیل نہیں! کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ بینک کے اعلیٰ افسران شاید اِس غم میں گھلتے رہتے ہیں کہ نظام درست ہوگیا اور اکاؤنٹ ہولڈرز کو تمام خدمات کسی دُشواری کے بغیر ملنے لگیں تو وہ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کیا منہ دِکھائیں گے!

کرپشن کے الزام پر مستعفی ہو جانے کی بدعت بھی ترقی یافتہ معیشتوں سے نکلی ہے۔ ترقی یافتہ دُنیا کے مقتدر لوگوں نے ساری دُنیا کی دولت بٹور لی ہے اور اب معمولی کرپشن پر مستعفی ہوکر پس ماندہ ممالک کے اُن حکام کے لیے مثال قائم کرنے کی دُھن میں رہتے ہیں جو ”ذرا سی“ کرپشن کرکے یہی کوئی سات آٹھ نسلوں کے لیے پُرآسائش زندگی کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں! سیانے کہتے ہیں کہ کل کا کوئی بھروسہ نہیں کہ آئے نہ آئے، مگر پاکستان سمیت تمام پس ماندہ معاشروں کے اُن ”سپوتوں“ پر آفرین ہے جو، دُنیا بھر کے اہل دانش کے فکری اثاثے کو لات مار کر، اپنی کئی نسلوں کے آنے ہی کا یقین نہیں رکھتے بلکہ اُن کے لئے ”کچھ نہ کچھ“ چھوڑ جانے پر بھی بھرپور اعتقاد رکھتے ہیں! رات دن محنت کر کے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے والے جاپانی ذرا ہمارے درمیان زندگی گزاریں تو ہم بتائیں کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر، فرسودہ اُصولوں کو نظر انداز کرکے کس طرح بہت کچھ خاصی تیزی سے پس انداز کیا جاسکتا ہے! صبح سے شام تک کام کرنا پاکستانی معاشرے کی روش کو دیکھتے ہوئے خاصا دقیانوسی طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے تو ایسے ”پہنچے ہوئے“ لوگ بھی دیکھے ہیں جو دفتر میں ڈیڑھ دو گھنٹے گزار کر گھر واپس آتے ہیں اور ٹی وی دیکھ کر دل بہلاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے اُن کی تنخواہ کٹ جاتی ہوگی۔ بس، یہ خیال ہی آپ کی سوچ کے پس ماندہ ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ اللہ نظر بد سے بچائے، ایسے لوگ صرف تنخواہ نہیں بلکہ اوور ٹائم بھی پاتے ہیں اور پُرآسائش زندگی بسر کرتے ہیں۔ قوم کے ایسے فرزندوں ہی کو دیکھ کر ہمیں ترقی یافتہ دُنیا کے لوگوں پر ترس آتا ہے کہ وہ یہی آسائشیں دن رات ایک کرکے حاصل کر پاتے ہیں! کم محنت میں زیادہ پُرسُکون زندگی بسر کرنے کا ”ہُنر“ سیکھنے اگر وہ پاکستان آئیں تو ہم اُنہیں خوش آمدید کہیں گے!

کسی بھی معاملے میں معمولی سی خرابی کے نمودار ہوتے ہی مستعفی ہو جانا جاپان جیسے ممالک میں تو اب فیشن بن چکا ہے۔ یعنی مستعفی ہونے کی تو اب کچھ وقعت ہی نہیں رہی! چند گھنٹے بجلی نہ آئے تو استعفیٰ، دو ایک دن بجلی چلی جائے تو استعفیٰ! ارے بھئی، بجلی نے کبھی نہ جانے کا ٹھیکہ تو لے نہیں رکھا۔ جگ کی یہی ریت ہے، جو آیا ہے اُسے جانا ہے! گھر میں اگر آپ سوئچ آف کردیں تو کیا لائٹس اور پنکھے وغیرہ بند نہیں ہوجاتے؟ بالکل اِسی طرح اگر پاور ہاؤس میں کوئی شخص بٹن بند کردے تو علاقے کی بجلی چلی جاتی ہے۔ اب اِتنی سی بات پر کوئی کیوں اپنے آپ کو استعفے کا جھٹکا دے؟

ہم نے سُنا ہے کہ میڈیا والوں کی کھال موٹی ہوتی ہے، یعنی حالات اِن پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو ہمارے ہاں حکام اور سیاست دانوں کو قدرت نے شاید گینڈے کی کھال سے نوازا ہے! اُن پر حالات برائے نام بھی اثر انداز نہیں ہوتے۔ سوچنا اُن کے مزاج کا حصہ کبھی رہا ہی نہیں، اور مستعفی ہونے کے بارے میں سوچنا تو شاید حرام کا درجہ رکھتا ہے! دو چار بسیں گہری کھائی میں گرنے سے ڈیڑھ دو سو افراد کا موت کے گھاٹ اُترنا کیا کافی نہیں کہ کوئی وزیر یا اعلیٰ سرکاری افسر اپنے منصب کو بھی موت کے گھاٹ اُتارے؟ اگر ایسی باتوں پر استعفیٰ دینے کا سلسلہ چل نکلا تو ہمارے ہاں اعلیٰ سطح پر ساری کرسیاں خالی ہو جائیں گی! اور اگر ایسا ہوا تو ریاست کا نظام کیسے چلے گا؟ اللہ نہ کرے کہ ہم جاپانیوں کے نقش قدم پر چلیں اور اپنے ناکام نظام کو مزید ناکامی سے دوچار کریں! ایسے میں غنیمت ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ حکام
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں، یعنی چھوٹی موٹی باتوں پر دل برداشتہ ہوکر مستعفی نہیں ہو جاتے۔ اِن کا وجود غنیمت ہے کہ اِنہیں دیکھ کر لوگ ہمت پکڑتے ہیں اور ضمیر کی خلِش کا گلا دبوچ کر اپنے اپنے منصب سے چمٹے رہتے ہیں! اگر جاپانیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستعفی ہونے کا رواج اپنالیا گیا تو ہم بہت سے سیاسی نوادرات سے محروم ہو جائیں گے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 485902 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More