وہ اپنے نام کی طرح ہی ، ترقی ،کامیابی اور شائد خوش
نصیبی پانے والا بھی تھا اور یہ سب کچھ اس نے چھوٹی سی عمر میں ہی حاصل
کرلیا لیکن اسکے لئے اٰس نے کئی جوانوں کی عمروں جتنی جدوجہد ،لگن ، محنت
اور ہمت لگا دی۔
آج ہم بات کریں گے اس دھرتی کے ایک ننھے لیکن بہادر ہیرو "اقبال مسیح" کی،
جی ہاں وہی اقبال مسیح جس کے نام سے شائد اس ملک پاکستان میں بہت ہی کم لوگ
واقف ہوں لیکن اِٰس گمنام ہیرو سے دنیا بخوبی واقف ہے اسکی جدوجہدانہ زندگی
پر کئی ممالک میں کتابیں لکھی گئیں، بہت سے ممالک میں اسکے نام اور کام سے
فلاحی ادارے قائم ہیں،کئی یورپی ممالک میں اسکے مجسمے اٰسکی ہمت و بہادری
کی داستان ہر آنے جانے والے کو سناتے ہیں،اقوام متحدہ اور امریکہ ہر سال
اسکے نام سے ایوارڈز جاری کرتا ہے،
"پتی پتی بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نا جانے گل ہی نا جانے باغ تو سارا جانے ہے”
اقبال مسیح 1983 میں مریدکے کے ایک نواحی گاوں رکھ باولی میں ایک انتہائی
غریب مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا،اسکی ماں ایک مقامی قالین ساز فیکٹری میں
کام کرتی تھی اور اِسکی آمدن پر ہی اس گھرانے کی گزر بسر تھی،اقبال کی
والدہ نے اٰسکے بڑے بھائی کی شادی پر چند سو روپے کا قرضہ مقامی فیکٹری
مالک سے لیا تھا جو وہ اپنی بیماری کی وجہ سے واپس نہ کر سکی اور بادل
نخواستہ اٰسکی والدہ کو فیکٹری مالک کے بے پناہ اصراراور بار بار کی بے
عزتی پر اقبال کو صرف 4 سال کی عمر میں اٰس فیکٹری میں بھیجنا پڑا،اب اقبال
جبری مشقت پر اٰس فیکٹری میں قید ہوگیا وہاں اٰسے ہفتے کے سات دن چودہ
گھنٹے روزانہ مسلسل کام کرنا پڑتا اس دوران صرف ایک وقت کا کھانا میسر
ہوتا۔چھ سال تک اقبال اٰس جبری مشقت کی چکی میں پستہ رہا لیکن وہ چند سو
روپے کا قرضہ جوں کا توں ہی موجود تھا،چھوٹی سی عمر میں ہی اقبال نے زندگی
کا انتہائی بدصورت رخ دیکھا اور کئی سالوں تک اس کی بھیانک ناکیوں کو جھیلا
اور یوں وہ ذہنی طور پر اپنی عمر سے بہت بڑا ہوگیا۔10 سال کی عمر میں اقبال
نے اس جہنم سے فرار کا منصوبہ بنایا اور وہ ایک دن وہاں سے بھاگ نکلا لیکن
فیکٹری مالک اثر روسوخ والا تھا اس نے پولیس سے ملکر جلد ہی اقبال کو
گرفتار کروادیا کئی دن تھانے میں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد دوبارہ اٰسی
فیکٹری میں "قید بامشقت" میں ڈال دیا گیا۔
اٰس زمانہ میں ملک پاکستان میں جبری مشقت عام تھی اور انتظامیہ گونگے شیطان
کی طرح لاعلمی کا ڈرامہ کرکے ان فیکٹری اور بھٹہ مالکان سے مال بٹور کر
اپنی جیبیں بھر تی رہتی تھی اور ایک معذور سے قانون کی موجودگی کے باوجود
جبری مشقت کے خلاف کوئی موثر اقدام دیکھنے کو نہیں مل رہے تھے۔
اقبال نے یہ عزم کرلیا تھا کہ اس بار نہ صرف وہ خود آزاد ہوگا بلکہ اپنے
حیسے ہزاروں معصوم بچوں کو بھی جبری مشقت کے ظلم سے آزادی دلوائے گا ۔یوں
وہ ایک سال بعد ہی دوبارہ فرار ہوگیا اور خوش قسمتی سے چائلڈ لیبر کے خلاف
کام کرنی ایک این جی او چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس پہنچنے میں کامیاب
ہوگیا۔انکی مدد سے اقبال نے تقریباً 3000 سے زائد ننھے جبری مزدورں کو انکی
جہنموں سے آزادی دلائی ،اسکے بعد اقبال نے پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت
کے خلاف پہلی تحریک "بائونڈڈ چائلڈ لیبریشن" کا باقاعدہ آغاز کیا۔اب اقبال
ایک لیبر لیڈر بن گیاتھا ایک 11سالہ صرف چار فٹ لمبا لیکن انتہائی بلند ہمت
اور بہادر لیڈر جس نے سنٹرل پنجاب کے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں اور بھٹوں
سے ہزاروں بے بس و لاچار بچوں کو آزاد کروایا جو حالات کی ستم ظریفیوں کی
وجہ سے جبری مشقت پر مجبور تھے۔اقبال کی اس تحریک کی وجہ سے ملک پاکستان
میں چائلڈ لیبر کے خلاف باقاعدی قانون بنا اور اس لعنت پر پابندی لگی۔
اس دوران دنیائے عالم کو اقبال کی اس ہمت و جرات اور جوانمردی کی کہانی کی
خبر ہوئی اور دنیا گویا اٰس گیارہ سالہ بلند ہمت ہیرو کی دیوانی ہوگئی اور
انھوں نے اٰسے اپنے عزت والے اعزازات سے نوازنہ شروع کیا۔
1994 میں امریکہ میں Reebok Youth in Action کے تحت چائلڈ ہیرو کے ایوارڈ
سے نوازا گیا جس میں مختلف ورکنگ بچوں کیلئے 15000 ڈالر سالانہ کا تعلیمی
اسکالرشپ پروگرام بھی شامل تھا،
برانڈیز یونیورسٹی نے اقبال کے اسکول سے یونیورسٹی تک کے تمام اخرجات
برداشت کرنے کا اعلان کیا،
سوئیڈن،امریکہ،اٹلی اور اسپین میں اقبال کو مقامی اسکولز کے بچوں کو اپنی
ہمت بھری داستان سے متعلق لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا گیا،اسی دوران ایک
امریکن اسکول کے بچوں نے اپنی پاکٹ منی سے اقبال سے متعلق ایک فنڈ قائم کیا
جسکے تحت آج بھی پاکستان میں تقریباً 20 سے زائد اسکول چلائے جارہے ہیں،اسی
دوران اقبال نے دو سالوں میں چار سال کی تعلیم مکمل کی۔
دنیا کے بیشمار ممالک اسکی ہمت کے گٰن گارہے تھے اور اٰسے ایک ہیرو کے طور
پر مان رہے تھے،دنیا بھر کے ممالک کی تعریفیں،اعزازات اور ستائش سمیٹ کر یہ
نوعمر ہیرو 1995 میں اپنے ملک پاکستان اپنے گاوں واپس آگیا،16 اپریل کی شام
جب وہ اپنے گاوں "رکھ باوُلی"میں سائیکل چلا رہاتھا کہ "نامعلوم افراد" کی
فائرنگ نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا،آج تک اٰسکے قاتلوں کا پتہ نہیں چل
سکا،اس ننھے ہیرو کے قتل کی خبر کو "واشنگٹن پوسٹ" جیسے اخبار نے صفحہ اول
پر شائع کیا۔
اقبال کی اندوہناک موت کے بعد اسکی باہمت زندگی کوخراجِ تحسین پیش کرتے
ہوئے کینیڈا کے بچوں نے ایک " فری دی چلڈرن" نامی تنظیم اور "اقبال مسیح
فاونڈیشن " کا آغاز کیا جنکے تحت جبری مشقت کرنے والے بیشمار بچوں کی اعلیٰ
تعلیم کے تمام اخراجات کا انتظام کیا جاتا ہے،
کینیڈا میں آج بھی "اقبال رائٹس فنڈ" ایشو ہوتا ہے،
2009 سے امریکن کانگریس نے سالانہ اقبال مسیح ایوارڈ کا آغاز کیا جو دنیا
بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد میں سے ایک بہترین منتخب
فرد کو ہر سال دیا حاتا ہے،
اقبال کے نام اور کام پر اٹلی،اسپین اور کئی ممالک میں متعدد کتابیں لکھی
گئیں اور کئی ڈاکومنٹریز بنائی گئیں۔
اگر کچھ نہ ملا تو اس ننھے بہادر ہیرو کو اٰسکے اپنے ملک پاکستان سے نہ
ملا،ہم احسان فراموش تو تھے ہی لیکن اب ہیرو کش قوم بھی بنتے جارہے ہیں۔
ہم پاکستانی نہ جانے کتنے ہی اقبال مٹی میں رول دیتے ہیں
|