میر تقی میرؔ :نہ کہیں مزار ہوتا

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
تاریخ ،ثقافت اور تہذیب کے دوام کو پوری دنیا میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام و ملل کے وجود پر تو ابلقِ ایا م کے سموں کی گرد پڑ سکتی ہے اور ان کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہتا مگر تہذیب کا معاملہ الگ ہے ۔تہذیب کی بقا در اصل انسانیت کی بقا سے منسلک ہے اگر تہذیب و ثقافت کے نشانات معدوم ہو جائیں تو اس خطے کے عوام کی تاریخ اور ارتقا کے بارے میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے اور یہ جہاں ایک صنم کدے کی صورت ہے ۔آج اقتضائے وقت کے مطابق جہد للبقا کی خاطر ہر قسم کے چیلنج کا پوری قوت سے جواب دینا از بس ضروری ہے یہی تہذیب و تمدن کا تقاضا بھی ہے اور زندہ اقوام کا شیوہ بھی یہی ہے ۔جو تہذیب و تمدن عصری آگہی کو پروان نہ چڑھا سکے اور جہد للبقا کی دوڑ میں اپنے وجود کا اثبات نہ کر سکے اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں باقی نہیں رہتی ۔تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے ۔یہ تاریخ ہی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر عہد میں نسل نو کو تہذیب و ثقافت کا گنجِ گراں مایہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔تہذیب کا تحفظ اور اس کی شناخت انتہائی محنت ،دیانت ،لگن اور احساس ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے ۔اسی طرح اسے آنے والی نسلوں تک پہنچاناجہاں ذہنی بالیدگی کا مظہر ہے وہاں اس سے مستقبل کے متعد دنئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم کے تاریخی اثاثے اور تہذیبی میراث کے تحفظ اور اس کوآنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں غفلت کی مہلک روش اپنانے سے ایسے گمبھیر نتائج سامنے آتے ہیں جن کے باعث پورا منظر نامہ ہی گہنا جاتا ہے اور اس کے بعد پتھر کے زمانے کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔کروچے نے کہا تھا :
’’تاریخ دو چیزوں کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہے ۔ثبوت اور تنقید ،ماضی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔یہ نشانیاں محض بے حس ٹکڑے نہیں ہوتے ۔ان میں ماضی کے افکار اور ماضی کی فکر چھپی
ہوئی ہوتی ہے ۔یہ ماضی کے ذہن و شعور کی عکاسی کرتے ہیں ۔ہم ان نشانیوں کو اس لیے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ یہ مستقبل کے مورخ کے لیے ثبوت کے طور پرفراہم ہوں ۔‘‘(1)
تہذیبی میراث کے زیاں کا ایک واقعہ اردو ادب میں بھی پیش آیاجب خدائے سخن میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان ناپید ہو گیا ۔میر تقی میرؔ جو 1723 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے ۔اپنے باپ کے انتقال کے بعد 1734میں دہلی پہنچے۔دہلی میں میر تقی میرؔ کا قیام جس علاقے میں تھا اسے کوچہ چہل امیراں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو بعد میں کوچہ چیلاں کہلانے لگا ۔اس کے بعد یہ عظیم شاعر لکھنو کے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں دہلی کو خیرباد کہہ کر لکھنو پہنچا۔اردو شاعری کا یہ آفتاب لکھنو میں بروز جمعہ 21ستمبر 1810 ء کو عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔ بعض روایات کے مطابق میر تقی میرؔ کے جسد خاکی کو اکھاڑہ بھیم لکھنو کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا ۔ا س کے بعد اس کی قبر کا نشاں بھی قضا نے مٹا دیا۔ عالمی شہرت کے حامل محقق اور نقاد پروفیسرڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مشہور برطانوی مستشرق پروفیسر رالف رسل ( 1918-2008 :Ralph Russell )اور جرمن مستشرق ڈاکٹر این میر ی شمل(1922-2003 : Annemarie Schimmel کے حوالے سے 1980ء میں جامعہ علامہ اقبال ،اسلام آباد میں ایک توسیعی لیکچر میں اپنے شاگردوں کو بتایا:
’’اردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے 1782میں ذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث جب دہلی سے لکھنو منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتو یہاں ان کا قیام لکھنو کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی ۔اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو کے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا ۔میر تقی میرؔ نے ایک گونہ بے خودی کے حصول کی خاطر مے نوشی اختیار کی ۔دن رات کی بے خودی کے حصول کی تمنا ،ہجوم غم اور نا آسودہ خواہشات نے میر تقی میر پر جنونی کیفیت طاری کر دی ۔کثرت مے نوشی ،آلام روزگار کی مسموم فضا ،سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں اور ہجوم غم نے بالآخر ان کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔میر تقی میرؔ کی وفات کے بعد ان کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔
حقیقتوں کا خیال و خواب ہو جانا کس قدر روح فرسا اور اعصاب شکن المیہ ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے ‘‘
نامور ماہر تعلیم ،دانش ور محقق اور ادیب رانا عبدالحمید خان جو 1926میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے وہ سال 1927 ء کے آ غاز میں کالج کے طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ دہلی ،لکھنو اور آگرہ کے مطالعاتی دورے پر گئے ۔اس دورے میں حاجی احمد بخش نے پرنسپل کی کار کے ڈرائیور کی حیثیت سے شرکت کی ۔میں نے 1980میں حاجی احمد بخش سے ایک انٹرویو کیا جس کا ملخص گورنمنٹ کالج جھنگ کے مجلہ ’’کارواں ‘‘میں شائع ہو ا ۔اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے حاجی احمد بخش نے بتایا:
’’ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج جھنگ کے بیس طالب علم اور تین اساتذہ تھے ۔ان میں پروفیسر رانا عبدالحمید خان ( پرنسپل )، پروفیسر لال چند لالہ اور پروفیسر سردار پریم سنگھ بھی شامل تھے ۔رانا عبدالحمید کو میر تقی میر ؔکی شاعری سے عشق تھا ۔دہلی ،آگرہ اجمیر اور علی گڑھ کے بعد جب ہم لکھنو پہنچے تو میر تقی میرؔ کی قبر کی تلاش شروع ہوئی مگر اس کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔مقامی باشندوں کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قدیم زمانے میں جس علاقے کو بھیم کا اکھاڑہ کہاجاتا تھا اب اس کے آثار کہیں نہیں ملتے ۔‘‘
حاجی محمد یوسف ( نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے چچا زاد بھائی )کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے تھا ۔وہ ذاتی طور پر کئی مرتبہ لکھنو گئے۔وہ اردو کی کلاسیکی شاعری اور میر تقی میرؔ کے اسلوب کے شیدائی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ میرؔ کی لحد کے سرہانے بیٹھ کر آہستہ بول کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کریں اور اس لا فانی تخلیق کار کے حضور آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کریں مگر انھیں بھی میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں ۔پہلی عالمی جنگ کے دوران میاں عبدالواحد لکھنو چھاونی میں تھے ان کے علاوہ محمد خان پوسٹ ما سٹر بھی اسی علاقے میں تعینات تھے وہ بھی میر تقی میر کی لحد کا کوئی اتا پتا معلوم نہ کر سکے ۔سردار باقر علی خان جو انڈین سول سروس میں اعلیٰ افسر تھے بعد میں ملتان کے کمشنر رہے انھوں نے کچھ عرصہ لکھنو میں گزارا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے عرصہ قیام لکھنو میں وہ میر تقی میر ؔکی آخری آرام گاہ کا صحیح تعین کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ان کی اولاد اب جھنگ میں مقیم ہے ۔مجھے 1970 ء میں ان سے ملنے کا موقع ملا جو چراغ سحری تھے ۔ان کی یادداشتوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جس علاقے میں بھیم کا اکھاڑہ بتایا جاتا ہے اس کا محل وقوع لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قرب و جوار میں شمال کی سمت میں تھا ۔اس علاقے میں خشک میوے فروخت ہوتے تھے بالخصوص یہ مارکیٹ مونگ پھلی کی فروخت کے لیے مشہور تھی ۔گمان ہے کہ دریائے گومتی کے کنارے جو کچی آبادیا ں اس زمانے میں وجود میں آگئی تھیں یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے ۔ جھنگ میں میر تقی میرؔ کی یاد میں قائم ہونے والی ’’بزم میرؔ ‘‘جو 1900میں اس عظیم شاعر کے فکر و فن پر تحقیقی کام میں مصروف تھی ۔اس میں متعدد دانش ور شامل رہے ۔ان میں سے چند نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے قابل قدر کام کیا ۔ سید عبدالباقی( عثمانیہ)،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،پروفیسر عبدالستار چاولہ ،ڈاکٹر سید نذیراحمد ،رانا سلطان محمود ،رانا عبدالحمید خان ، نامور ماہر تعلیم غلام علی خان چینؔ ،میر تحمل حسین ،میاں اﷲ داد ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ، محمد شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،یوسف شاہ قریشی (بار ایٹ لا)،رام ریاض ، پروفیسر محمد حیات خان سیال ،پروفیسر خلیل اﷲ خان ،مہر بشارت خان ،دیوان احمد الیاس نصیب ، امیر اختر بھٹی ،عاشق حسین فائق ،بیدل پانی پتی ،مرزا معین تابش اور سید جعفر طاہر سب نے مختلف اوقات میں میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے آثار معدوم ہو جانے کو ایک بہت بڑے تہذیبی زیاں سے تعبیر کیا ۔یہ بات تو سب نے تسلیم کی کہ لکھنؤ میں جس جگہ پر میر تقی میرؔ کو دفن کیا گیا تھا اب وہاں پر ریلوے لائن اور جنکشن موجود ہے جو نہ صرف بے مہری ٔعالم کی دلیل ہے بل کہ اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حساس شاعر جس نے اپنے سرہانے آہستہ بولنے کی استدعا کی اب وہ منوں مٹی کے نیچے پڑا بھاری بھرکم ریل گاڑیوں اور انجنوں کی چھک چھک کے شور میں دب چکا ہے ۔وہ بے مثال تخلیق کار جسے غالبؔ ،ذوقؔ اور متعد د شعرا نے اپنا پیش رو تسلیم کیا اور اس کے اسلوب کو ابد آشنا اور لائق تقلید قرار دیا اب اس کی قبر کا نشاں تک موجود نہیں ۔وہ یگانۂ روزگار شاعر جس نے 13585اشعار پر مشتمل اپنے چھے دیوان لکھ کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا اور اردو ادب کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا آج اس کا جسد خاکی لکھنو ریلوے سٹیشن اور ریلوے جنکشن کے شور محشر میں نو آبادیاتی دور میں برطانوی استبداد کے فسطائی جبر کے خلاف انصاف طلب ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر ؔ کو اپنے بارے میں معلوم تھا زمانے کے حالات کس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ابلق ایام کے سموں کی گرد میں تمام واقعات اوجھل ہوجاتے ہیں اور حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔اس دنیا میں دارا اور سکندر جیسے نامیوں کے نام و نشاں نہ رہے تو ایک شاعر کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہونا تخیل کی شادبی کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔وفات کے صرف چھے عشروں کے بعد ایک عظیم شاعر کی قبر کا نشان تک معدوم ہو جانالمحۂ فکریہ ہے ۔
میرے تغیر حال پہ مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میرؔ
یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے تاجور بن بیٹھے تو وہ تمام علامات اور نشانیاں جو اہل ہندوستان کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص قابل احترام تھیں انھیں چن چن کر ان طالع آزما، مہم جو اور انسانیت سے عاری فاتحین نے نیست و نابود کر دیا ۔لکھنو شہر کے سٹیشن کے قریب چھٹی والا پل کے قریب ریلوے لائن کے درمیان ایک قبر کے آثار موجود تھے ۔آج سے کوئی اسی سال قبل اس مرقد کو مقامی باشندے شاہ افجشن کا مزا رخیال کرتے تھے ۔اسی مزار کے بارے میں ادبی حلقوں کی رائے یہ رہی کہ ہو نہ ہو یہی تو میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان بننے کے گمان کی ایک صور ت ہو سکتی ہے ۔ حیف صد حیف کہ اب اس مر قد کا بھی کوئی سراغ کہیں نہیں ملتا۔ اس طرح دل کی تسلی کی ایک موہوم صورت بھی نا پید ہو گئی ۔حال آں کہ میر تقی میرؔ کی قبر تو 1857کے بعد برطانوی افواج کی بزدلانہ ، ظالمانہ اور جارحانہ خونیں واقعات کے فوری بعد مکمل طور پر منہد م کر دی گئی تھی ۔سرابوں میں بھٹکنے والوں کے لیے اب مزید کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ لکھنؤ میں ہونے والے اس المیے کے بارے میں بہ قول طارق غازی بس یہی کہا جا سکتاہے :
جہاں سے ریل کی پٹڑی گزر رہی ہے میاں
وہاں سنا ہے کبھو میر ؔ کا مزار ساتھا
میر تقی میرؔ کی تمام زندگی مفلسی ،کس مپرسی ،پریشاں حالی اور درماندگی میں بسر ہوئی ۔ایک بیٹے ،بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میر تقی میرؔ کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ۔اس ہجوم یاس میں اس کے دل پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے باعث اس کی زندگی کی تما م رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔میر تقی میرؔ کے مرقد کا نشاں نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے ااور بقا صرف رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے ۔میر تقی میرؔ کی شاعری اور اس کے الفاظ ہی اب اس کی یاد دلاتے رہیں گے ۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ممتاز محقق طارق غازی نے اپنے ایک حالیہ مضمون ’’رفعت سروش : 1926-2008)‘‘ میں لکھا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں سال 2002 ء میں احمد آباد میں اردو کے قدیم شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی( 1667-1707) کی قبر پر سے ایک شاہراہ گزاری گئی جس کے نیچے قبردب کر معدوم ہو گئی ہے۔
پس نوشت
ادبی مجلہ’’ نیرنگ ِ خیال ‘‘ راول پنڈی جلد95،شمارہ ،9 ، ستمبر 2020،صفحہ 15میں اس مضمون کی اشاعت(2)کے بعد میرے ایک عزیز نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ افادیت سے لبریز متعدد تاریخی واقعات کے امین اس مضمون کو بیرون ِ ملک کے ادبی قارئین تک پہنچانا چاہیے ۔اس مقصد کے لیے اُس نے مضمون کو سکین کیا اور انٹرنیٹ پر مختلف ادبی حلقوں اورعلی گڑھ اردو کلب کو ارسال کیا ۔ اُردو زبان و ادب کے ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین نے اس مضمون میں گہری دلچسپی لی اور اِس پر اپنی وقیع رائے سے نوازا ۔ مورخین ،محققین اور ادیبوں کی طرف سے اِس موضوع پر ملنے والی برقی ڈاک ( E.Mail)تاریخ کا ایک ایسا معتبر حوالہ ہے جو مستقبل میں میر تقی میرؔ کے ہر سوانح نگار اور ادبی محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہو گا۔ میں سمجھ گیا کہ تاریخ کے پیہم رواں عمل میں سکون عنقا ہے اِسے حال کی کوئی پروا نہیں بل کہ ماضی ہی پر اس کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔اس سے پہلے کہ سیل ِ زمان کے مہیب تھپیڑے حال کے واقعات کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جائیں اور ہم ماضی کا حصہ بن جائیں مستقبل کے محقق کے لییتمام دستیاب حقائق یک جا کر نا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ درج ِ ذیل ای میلز کا مطالعہ مضمون میں قارئین کی دلچسپی کا حقیقی منظر سامنے لاتاہے :
لاہور کی ادبی ویب سائیٹ ’’ صرف اُردو ‘‘ کے مدیر مدثر بھٹی نے لکھا :
’’ محترم ڈاکٹر صاحب ! میرا نام مدثر بھٹی ہے اور میں لاہور سے ایک اُردو ویب سائٹ کاایڈیٹر ہوں آپ کا مضمون’’ میر تقی میر ؔ : نہ کہیں مزار ہوتا‘‘ مِلا ہے پڑھ کر خوشی ہوئی ہے اگر آپ اپنے مضمون کی کمپوز شدہ فائل ارسال فرما سکیں تو آپ کا مضمون محققین اور طلبا کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘‘
میں نے یہ مطبوعہ مضمون اِن پیج ( In page) فائل کی صورت میں ویب سائٹ ’’ صِرف اُردو ‘‘کے مدیر مدثر بھٹی کو ارسا ل کر دیا جو اون لائن ہو چکاہے ۔اِس کے بعد علی گڑھ اُردو کلب کے فورم سے کینیڈا میں مقیم مایہ نازمحقق طارق غازی ،اویس جعفری صاحب ، امریکہ ( شکاگو) میں مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والے مورخ، ادیب ،محقق اور نقاد سید حشمت سہیل اور لکھنومیں مقیم ممتاز ادیبہ محترمہ فرزانہ اعجاز (3)،محترمہ عثمانہ اختر جمال صاحبہ اور خالد بن عمر صاحب ، کی ای ۔میل سامنے آ ئیں ۔ عظیم ہستیاں جب ایسی عالمانہ گفتگو کو شعار بنا ئیں گی تو تاریخ اُن کے کردار و افکار کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گی اور اُن کی باتیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس مضمون کے بارے میں یہ اہم ای۔ میلز اس لیے من و عن پیش کی جاتی ہیں کہ اِن کے مطالعہ کے بعد قارئین کو تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل کے بارے آگہی نصیب ہو گی۔
کینیڈا میں مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والے نابغۂ روزگار محقق ، دانش ور اور ماہر علم بشریات طارق غازی نے علی گڑھ اُردو کلب کے قارئین سے مخاطب ہو کر اس مضمون کے بارے میں لکھا :
’’ میر تقی میرؔ پر ہمارے عصر کے ممتاز محقق اور ادبی مورخ ڈاکٹر غلام شبیر رانا کے مضمون اور اِس پر عزیز بہن فرزانہ اعجازکی شرح حال و احوال پڑھ کر ایک پُرانا شعر یاد آ گیا،بارہ سال پہلے کہیں میرؔ کا ذکر سا تھا تو اُس گفتگو کے بعد ایک شعر ہو گیا تھا۔فی الحال وہ شعر حاضر ہے ،بعد میں کبھی پُوری غزل بھی پیش کر دوں گا:
جہاں سے ریل کی پٹڑی گزر رہی ہے میاں
وہاں سُنا ہے کبھو میر ؔ کا مزار سا تھا ‘‘ (4)
محترم سید حشمت سہیل(5) نے سوموار پانچ اپریل 2020ء کو اپنی ای۔میل میں علی گڑھ اُردو کلب کے قارئین کو لکھا :
" Thank you Dr.Ghulam Shabbir Rana .Very good essay on Mir Taqi Mir,s grave ,though in Lucknow near Rifah-e-Aam club there is a grave near City station by the railway line .I have seen that grave .It is called Mir Taqi Mir,s grave
سوموار پانچ اکتوبر2020ء کی شام لکھنو سے محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ نے علی گڑھ اُردو کلب میں میر تقی میرؔ کی آخر ی آرام گاہ کے بارے میں میرے اِس مضمون کے بارے میں اپنے تاثرات رومن اُردو میں پیش کیے جو اُردو رسم الخط میں درج کیے جا رہے ہیں ۔
’’ تسلیم ! آپ کا مضمون پڑھا ،آج کل ہم ’گولا گنج ‘میں رہتے ہیں جو ’ سٹی سٹیشن ‘ کے قریب ہے ، ’ فرنگی محل ‘ ( ہمارے میکہ ) سے اب ہمارے موجودہ گھر کے راستے میں وہ ’ مونگ پھلی منڈی ‘ پڑتی ہے ،جو ریلوے لائن کے ایک پُل کے پاس ہے ،ہم کو خُوب یاد ہے کہ بچپن میں ہم لوگ جب اپنے اَبو کے ساتھ اِس راستے سے آتے تھے تو اَبو ضرور بتاتے تھے کہ اِسی کچے میدان میں میر تقی میرؔکی قبر ہے ،دراصل گولا گنج کا علاقہ ’ مقبرہ ملکہ عالیہ ‘ تھا جو قبرستان تھا۔انگریزوں نے جیت کے بعد ذلیل کرنے کو قبرستان کھو د ڈالا اور سڑک نکال دی ۔اِسی سلسلے میں ریلوے لائن بھی بنائی جس میں میر ؔ کی قبر کھوئی گئی ۔ہم آج بھی جب اِس راستے سے گزرتے ہیں تو حضرت شاہ مینا صاحب ،حکیم باقر مہدی اور میر ؔ کا فاتحہ پڑھتے رہتے ہیں ۔مونگ پھلی منڈی کا علاقہ بد حالی کی حالت میں ہے ۔لکھنو کے ایک مخیر صاحب جناب مقبول لاری صاحب نے ’ میر ؔ اکیڈمی ‘ بنائی تھی تو اِس راستے میں’ یادگار ِ میر ؔ ‘ قائم کی تھی ۔تیراہے پر ایک پارک میں کتبہ لگا تھااور ایک کتاب پر ایک قلم اور دوات پتھر سے بنوائی تھی ۔یہ وہی ’اکھاڑے کا علاقہ ‘ ہے ۔افسوس کہ لکھنو والے اپنی یادگاروں کی حفاظت نہ کر سکے ۔
’ آوازِ دوست ‘ میں مصنف (6) نے مولانا حسرت موہانی کی قبر بھی لاپتا بتائی ہے ۔ ( 7)ہم آپ کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ حسرت موہانی کا وصال ہمارے میکے ’ فرنگی محل ‘ میں ہوا تھا۔اُن کی تدفین بھی ہمارے خاندانی قبرستان ،’’ باغ مولانا انوار صاحب ‘‘رکاب گنج میں ہی ہوئی تھی ۔ہم لوگ قبر پر کتبہ نہیں لگاتے ہیں مگر مختار مسعود صاحب کی اِس غلط فہمی کو دُور کرنے کو مولانا کی قبر پر کتبہ لگااور AMU(8)کے سابق سٹوڈنٹس یومِ وفات کو فاتحہ خوانی بھی کرتے ہیں ۔‘‘
واشنگٹن سٹیٹ سیاٹل (Seattle ,USA) میں مقیم ادبی مجلہ ’’ الاقربا ‘‘ اسلام آباد ،کے معاون مدیر ، معاصر عالمی ادب کے نباض ،تخلیق ِ ادب کی حسین یادوں کے امین اور دیدہ ورِ فصل بہار محترم اویس جعفری نے ہمیشہ ایام گزشتہ کی کتاب سے وقت کی گرد کی دبیز تہہ کو ہٹاتے ہوئے اقتضائے وقت کے مطابق کاہکشاں زارِ خلوص و مروّت اور بے لوث محبت و یگانگت کے نجوم کی ضو فشانی اور اپنی گل افشانی ٔ گفتارسے ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔معاصر ادیبوں کی شخصیت،حالات ِ زندگی اور اسلوب کے بارے میں اُن کی تحریر کا ایک ایک لفظ اُن کی لامحدود علم دوستی ،ادب پروری ،خلوص و دردمندی ،فہم و فراست ،تدبر و بصیر ت،عزم صمیم ،رفعت ِ کردار اور نفاست ِگفتار کا مظہر ہوتاہے۔7۔اکتوبر 2020ء کی صبح علی گڑھ اُردو کلب میں ایک ای ۔میل میں اُنھوں نے اپنے خاص انداز میں میرے اسلوب کے بارے میں لکھا:
’’ آپ اُردو لکھتے ہیں،تحقیقی مضامین سپرد ِ قلم فرماتے ہیں یا قتلِ عام کرتے ہیں؟میں آپ کے مضامین گزشتہ دس بارہ سال سے پڑھ رہاہوں، اور میں نے آپ کے ہر مضمون کی زبان ،معیاراوراندازِ تحریر کے اعتبار سے اپنی جگہ ایک نادر نمونہ پایاہے ۔علی گڑھ اُردو کلب کے اہلِ قلم کی فہرست میں آپ کی شمولیت انتہائی خوش آ ئند اور قابلِ قدر ہے ۔‘‘
امریکہ میں مقیم لکھنو سے تعلق رکھنے والی معاصر ادب کی وسیع المطالعہ محقق اورتانیثیت کی علم بردار ممتاز شاعرہ عثمانہ اختر جمال ( مصنفہ : رعنائیاں درد کی )نے میرتقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں مجلہ نیرنگ خیال،راول پنڈی کے ستمبر 2020ء کے شمارے میں شائع ہونے والے میرے مضمون پر اپنی بے لاگ رائے دیتے ہوئے لکھا :
’’ محترمی جناب پروفیسر غلام شبیر رانا صاحب السلام علیکم ۔’’ میر تقی میر ؔ نہ کہیں مزار ہوتا‘‘جتنا دلچسپ عنوان اُتنا ہی لاجواب مضمون ۔ایک تو اپنے میر تقی میر ؔ اِس پر لکھنو کا ذکر جتنی تعریف کریں کم ہے ۔یہ مضمون ہی نہیں ہے ایک ایسی ریسرچ یا تحقیق ہے جو گم شدہ میر ؔ کی قبر کی تلاش شروع کروا دیتی ہے یا دے گی،کاش ہم لکھنو میں ہوتے۔آپ کا مضمون لکھنو کی ایسی تاریخ ہے ایسے ایسے محلوں اور جگہوں کے نام ہیں جو میں نے کبھی نہیں سنے تھے ۔ہاں اِن کے بدلے ہوئے ناموں سے واقف ہوں جن کو میں نے دیکھا ہے ۔آپ نے اِن جگہوں کو بہت عمدہ طریقے سے اکسپلین(9) کیا ہے ۔آپ کی اِس قابلیت سے ہم بہت متاثر ہیں جس نے ہم لکھنو والوں کی نالج میں زبر دست اضافہ کیا بہت بہت شکریہ ۔ریل کی پٹڑی کے پاس میر ؔکی ایک نقلی قبر یا وہ اصلی قبر تھی دیکھی تھی ایک صاحب جو سٹی سٹیشن لکھنو کے پاس رہتے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہاں پہلے میر ؔ کی قبر تھی۔سناہے کہ وہ اُن کی قبر کا کتبہ اور قلم دوات بھی سب کو دکھاتے تھے ۔لکھنو والے بیسویں صدی میں اِتنا ہی ڈھونڈ پائے ۔اکیسویں صدی میں کیا ڈھونڈا پتا نہیں ،ایک میر تقی میر ؔ روڈ بھی تھی ۔اس کو مین ٹین ( 10) بھی کرنا ہے یہ ہم لکھنو والے بھول گئے ۔اِس کا نشان تو باقی ہوگامگر میر تقی میر ؔ روڈ ہے لوگ بھول چکے ہوں گے ۔آپ کا مضمون معلومات کا ایسا خزانہ لایا ہے کہ پڑھنے والے آپ کو ،میر ؔ کو اور لکھنو کو ہمیشہ یاد ر کھیں گے ۔بہت بہت شکریہ اِتنے بہترین مضمون کے لیے ۔‘‘
اس ای ۔میل کے ذریعے محترمہعثمانہ اختر جمال نے تاریخ کے ہمہ گیر ،جامع اور مسلسل عمل کو پیشِ نظر ر کھنے پر زور دیاہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں رونماہونے والے واقعات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد اُنھوں نے ماضی کی نشانیوں کا حوالہ بھی دیاہے ۔انھوں نے افرادِ معاشرہ کی خامیوں ،کوتاہیوں اور مہلک غلطیوں پر گرفت کی ہے ۔
7۔اکتوبر 2020ء کی سہ پہر خالد بن عمر کی ای۔میل فورم پر دیکھی ۔ انھوں نے لکھاہے:
’’ میرؔ کی قبر کے بارے میں مراسلات نظر آ رہے ہیں ۔میں بھی کچھ عرض کرتا چلوں ،میر ؔ کے بارے میں ابن انشا نے کہا تھا:
اﷲ کرے میر ؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
پرانے لکھنو میں وزیر گنج کی جانب سے سٹی سٹیشن کی طرف ایک سڑک سلطان المدارس کو جاتی ہے ۔وہیں پر بھیم کا اکھاڑہ کا قبرستان ہوا کرتا تھاجہاں 21ستمبر 1810ء کو خدائے سخن میر تقی میر ؔ کی تدفین ہوئی تھی۔ یہ قبر 1970ء تک واضح طور پر نظر آ تی تھی اور گاہے شعرا و ادبا وہاں حاضر ہواکرتے تھے۔1980ء کے بعد شہر میں بے ہنگم طریقے سے عمارتوں اور زمینوں پر قبضہ اور پلانٹنگ ( 11)اور توسیعی منصوبوں پر عمل کیا جانے لگا۔اسی رو میں شاید سٹی اسٹیشن کی توسیع اِ س پورے قبرستان کو ہضم کر گئی یا پھر زمین کے حریصوں نے اِس پر قبضہ کر لیااور نتیجتاًمیر ؔ صاحب کی قبر روپوش ہو گئی اور آج وہاں ایک عمارت اور مسجد کھڑی ہے ۔کچھ دُور سڑک پر ایک کتبہ بتاتاہے کہ یہ میر تقی میر ؔ مارگ ہے ،اور وہ کتبہ بھی ہندی میں ہے ۔
میرؔ کے مرقد کا نشان نا پید ہو جانا در اصل تقدیر کے نا گہانی مضمرات کی جانب توجہ دلاتاہے۔اِس عالم ِ آب و گِل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے اور بقا صرف ربِ ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے میں کچھ تصاویر بھی منسلک کر رہاہوں تا کہ آپ لوگ دیکھیں کہ قبر اَب سے چالیس سال قبل موجود تھی۔‘‘
تاریخ کو داستان ِ امیر حمزہ کے مانند دلچسپ سمجھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ۔تاریخ میں خوشیاں کم کم ملتی ہیں جب کہ رنج و الام کی فراوانی ہوتی ہے۔ محترمہ فرزانہ اعجاز نے اپنی ایک اور ای۔میل محررہ 7۔ اکتوبر2020ء کو اِس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہو نے لگاہے ۔لکھنو شہر کی قدیم تاریخ سے قلبی وابستگی اور دِلِ بینا رکھنے والی اِس وسیع المطالعہ ادیبہ نے تاریخی شعور کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ لکھنو جو ایک تاریخی شہر تھا ،ناجائز قبضہ داروں کے ہاتھوں برباد ہو گیا،ساتھ ہی نام نہاد وقف بورڈ کے چِیل کوّے بھی ایک ایک اینٹ ،ایک ایک بُرجی کو کھا گئے۔اِن کی سار ی نوابی یادگاروں کو برباد کرنے میں ہے۔یہ جو آپ نے ریلوے لائن کے پاس کا حصہ دکھایا ہے 1978ء تک صاف ستھر ا تھا۔میرؔ صاحب کی مزار کیا یہ کچھ بھی بیچ سکتے ہیں ،بہت دُکھ ہوتاہے طارق غازی بھائی صاحب ،سلمان غازی بھائی صاحب آپ تو خو د آ کر ساری بربادی دیکھ چکے ہیں ۔کوئی کچھ بولے تو کاٹنے کودوڑتے ہیں ۔باہر کے ملکوں میں لوگ اپنی تاریخی وراثت کی کیسی حفاظت کرتے ہیں ،اور یہاں ہم ؟ ‘‘
معاشرے کی داخلی کمزوریوں اور بے حسی پر گرفت کا یہ انداز حریت ِ فکر کا مظہر ہے ۔محترمہ فرزانہ اعجاز نے واضح کیا ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون کی جستجو بے سُود ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ معاشرتی زندگی کی بر ق رفتاریوں نے اقدا ر و روایات کی کایا پلٹ دی ہے ۔بے ہنگم انداز میں بدلتے ہوئے حالات نے معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کو عجیب رنگ دیا ہے ۔انسان محو حیرت ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا رخ اختیار کریں گے ۔معاشرتی زندگی کا یہی تغیر و تبدل تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات پر بھی اثر انداز ہوا ہے ۔مادی دور کی لعنتوں نے زرو مال کی ہوس کو بڑھا دیاہے۔کاروان ہستی کا قافلہ جسے منزلوں کی جستجو میں جادہ پیما رہنا تھا وہ سرابوں کے عذابوں میں اُلجھ گیاہے ۔ محترمہ فرزانہ اعجاز نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ ماضی کے واقعات کے مطالعہ سے شعورِ ذات کی متاعِ بے بہاکے حصول پر توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ زاغ و زغن ،کرگس اوربُوم و شِپر جب غول در غول منڈلانے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی آفت ِ نا گہانی سر پر ہے ۔
اپنی ایک اور ای۔میل ( 6۔اکتوبر 2020ء )میں محترمہ فرزانہ اعجاز نے بھارتی ریاست اُتر پردیش کے دار الحکومت لکھنو شہر سے وابستہ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا:
تسلیم ! ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے ۔آپ نے ہمارا حوالہ دیا ،اچھا لگا۔کبھی کبھی ہمارے اَبو کو جب فرصت ہوتی تو وہ شام کو ہم سب کو ساتھ لے کر ٹہلنے نکلتے تھے،تمام راستے اہم مقامات کی تاریخی اہمیت بتاتے تھے،فرنگی محل ،وکٹوریہ سٹریٹ ،شاہ مینا صاحب کا مزار،بڑاامام باڑا،ٹیلے والی مسجد،گومتی پر بنا پکا پُل ،شاہ دواسی صاحب کا مزار،شاہ عبدالرحمٰن کا مزار،سلطان المدارس،باغ مولانا انوار صاحب ،وہاں مدفون ہمارے بزرگوں کے مزارات ،بانیٔ درس ِ نظامی بحر العلوم ملا نظام الدین صاحب کی مزار (12) ،جہاں آج نھی کچھ سٹوڈنٹس اپنی کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ ملاصاحب کے مزار کے پاس جلنے والے چراغ سے آئل لے کر سٹوڈنٹس اپنے چراغوں میں مِلاکر جو کچھ پڑھتے ہیں ازبر ہو جاتاہے ( اﷲ بہتر جانتاہے )۔اِسی باغ میں مولانا حسرت موہانی بھی آرام فرما ہیں ۔ہم کو اُن کی بہت واضح شبیہ یاد ہے، fm (13)میں موہان والا گھر میں ایک گھر ہے جس میں مولانا کا قیام رہا۔اُن کے بھانجے علی حسن صاحب بھی رہتے تھے جو بعد میں ڈھاکہ چلے گئے تھے ،اب کراچی میں ہیں ۔مولانا کی ایک بھانجی کی شادی fmمیں ہوئی تھی سعید الحق صاحب سے جن کی کئی اولادیں اب U.S.Aمیں ہیں ۔بزرگوں کے بارے میں اُن کی اہمیت اور اور بزرگی کی باتیں بتاتے تھے ۔fmکے پاس ہی محلہ ٹکسال کے ایک گھر میں شیخ امام بخش ناسخ لکھنوی کی قبر ہے ۔لکھنو کی اکثر تاریخی عمارتوں ،جگہوں کی اہمیت ،ابو اکثر بتایا کرتے تھے ۔یاد آ گیا حضور نبی محترم ﷺ کے بال مبارک کی زیارت ،حضرت علی ؑ،امام حسین ؑ،امام حسنؑ،کے موئے مبارک کی زیارت ،10محرم کو وقت شہادتِ امام حسین ،کربلا کی مٹی کے کچھ موتیوں کے سرخ ہو جانے کی زیارت ۔‘‘
تاریخ کے مانند تحقیق بھی ایک پیہم رواں عمل کا نام ہے ۔اس میں ماضی کے کئی واقعات کے بارے میں نئے حقائق سامنے آنے پر تغیر و تبدل کاسلسلہ جاری رہتاہے ۔میر تقی میرؔ جیسی نابغہ ٔ روزگار ہستیاں جریدہ ٔ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیتی ہیں اور تاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرتی ہے ۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میر تقی میر ؔ کے مزار جیسے ماضی کے واقعات کا انداز زندگی کے بے آواز ساز کی طرف متوجہ کرتاہے ۔سارے عالم پہ چھا جانے کا دعویٰ کرنے والے تخلیق کار کی قبر کا نشان تک مِٹ جاناعبرت کا تازیانہ ہے ۔اس کے باوجود یہ المیہ فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا کرتاہے اور اِس سے غرقاب ِ غم ،مضمحل اور نڈھال ہونے کے بجائے قضا و قدر اور فطرت کے اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ ماضی کو فرامو ش کرنا ہلاکت خیزیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اس طرح اذہان کی تطہیر و تنویر کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ بڑے بڑے نامیوں کے نشان جب مٹ جاتے ہیں تو کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کا یقین ہو جاتاہے ۔ کہاجاتاہے کہ تاریخ کا محض ایک ہی سبق ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں ۔ا ِس عالمِ آب و گِل کے آئینہ خانے میں سجی تصاویر کو دیکھ کر اِن کے اصلی اور جعلی ہونے کا فیصلہ کرنا مستقبل کے محققین کی ذمہ داری ہے ۔
-------------------------------------
حواشی ،حوالہ جات و تعلیقات
(1)بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ ،فکشن ہاؤس،لاہور ،اشاعت اول ،1993،صفحہ 214۔
(2) ادبی مجلہ’’ نیرنگ ِ خیال ‘‘ راول پنڈی جلد95،شمارہ ،9 ، ستمبر 2020 ء ،صفحہ 15
(3)عالمی ادب بالخصوص تانیثیت پر گہری نظر رکھنے والی ممتاز بھارتی ادیبہ ۔تصانیف : حرف مکر ر نہیں ہو ں میں ( یاد رفتگاں ) سال اشاعت ،2012ء ،روشن چہرے ( مشاہیر ِ ادب کے انٹرویوز ) سال اشاعت2016ء ،کہکشاں ( معاصر اُردو شعرا کا منتخب کلام ) سال اشاعت 2012ء ۔محترمہ فرزانہ اعجاز کا خاندان سال 1700ء سے لکھنو میں مقیم ہے ۔ اس خاندان کا شجرہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے ملتاہے ۔ملا قطب الدین کی شہادت کے بعد مغل بادشاہ نے اس خاندان کے افراد ملا اسد بن قطب الدین شہید اور ملا سعید بن قطب الدین شہیدکو وکٹوریہ روڈ پر پولیس چوک کے قریب واقع سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والا فرنگی محل دیا جو اُس زمانے میں ’’ حویلی فرنگی ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔فرنگی محل نے تاریخ ،ادب اور علم کے فروغ میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں اُن کی بنا پر اسے مشرق کے کیمبرج کا درجہ حاصل تھا۔
3 (4) مضمون میں یہ شعر شامل ہے مگر شاعر کا نام معلوم نہ تھا ۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہ شعر عالمی شہرت کے حامل ادیب اور مورخ محترم طارق غازی کی تخلیق ہے ۔اب شاعر کا نام بھی درج کر دیا گیاہے ۔
(5) سید حشمت سہیل :انگریزی ادب ،اردو ادب کے وسیع المطالعہ محقق اور قانون دان۔تصانیف : یادوں کی کہکشاں ،کرن کرن تبسم ( ظریفانہ شاعری )
( 6) مختار مسعود ( 1926-2017) ستارہ ٔ امتیاز ۔پاکستانی ادیب اور مورخ ،تصانیف : آوازِ دوست ،سفر نصیب ،لوح ِ ایام ،حرفِ شوق
( 7)مختارمسعود نے آواز دوست میں مولانا حسر ت موہانی کے بارے میں لکھا ہے ’’ اُن کے بارے میں پوچھنا پڑتاہے کہ کب اور کہاں پیوند ِ خاک ہوئے ؟‘‘ آوازِ دوست ،ایڈیشن ،2012 ء ایم ۔آر پبلی کیشنز ،دہلی ،صفحہ ،136
( 8) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (Aligarh Muslim University ) بانی سر سید احمد خان ، قائم شدہ 1875
(9) Explain اردو ادب کے مبتدی طالب علموں کے لیے معنی لکھ دئیے ہیں ’’ وضاحت ‘‘
(10)Maintain۔ محفوظ اور بر قرار رکھنا
(11)Planting شجرکاری
(12) فرنگی محل : اس کا پہلے مالک مسٹر نیل فرنچ تھا۔اورنگ زیب نے اسے ملا اسد بن قطب الدین شہید اور ملا سعید بن قطب الدین شہیدکو دے دیا جنھوں نے اِسے علوم و فنون اور اِسلامی تہذیب و ثقافت کا ایسا عظیم الشان مرکز بنا دیاجو کیمبرج اور آکسفورڈ کے برابر تھا۔وکٹوریہ سٹریٹ :قدیم لکھنو کا مصروف بازارجو ملبوسات،طعام گاہوں ،مٹھائیوں کی دکانوں اور جواہرات کے لیے مشہور ہے ۔ لکھنو کے شاہ مینا ولی ٔ کامل تھے وہ 1479عیسوی میں فوت ہوئے ۔اُن کے کشف و کرمات کی وجہ سے یہ علاقہ مینا نگری بھی کہلاتا تھا۔مسجد اور بڑا امام باڑہ نواب آصف الدولہ نے 1784ء میں تعمیر کرایا ۔ٹیلے والی مسجد کی تعمیر اورنگ زیب کے زمانے میں ہوئی یہ مسجد مغلیہ فن ِتعمیر کا عمدہ نمونہ ہے ۔ آصف الدولہ کے زمانے میں اس جگہ دریائے گومتی پر پُل موجود تھامگر نو آبادیاتی دور میں اس قدیم اور شکستہ پُل کو گرا کر انگریزوں نے سال 1914ء میں دریائے گومتی پر نیاپُل تعمیر کیا جسے پکا پُل یالال پُل کے نام سے شہرت مِلی ۔ آیت اﷲ شاہ محمد عبدالحسن نے سلطان المدارس سال 1892ء میں قائم کیا جہاں شعیہ مکتبہ فکر کے طلبا کی دینی تعلیم کا انتظام کیا گیاہے ۔
(13) fm فرنگی محل

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.