خزاں کے بعد!

شاعر سید مظہر مسعود صاحب نے اپنی شاعری کی پہلی کتاب’’ خزاں کے بعد‘‘ راقم کو تبصرے کے لیے دی۔ یہ معلوم کر کے حریت ہوئی کہ سید مظہر پچھلے پندرہ بیس سالوں سے شاعری فرما رہے ہیں مگر ایک مدت بعد اپنے چاہنے والوں کواپنی منفرد شاعری سے مستفیض ہونے کا موقعہ دیا۔ سید مظہرسے ہمارا تعارف ان کے اقادمی ادبیات میں مشاعروں کی نظامت کے دوران ہوا۔ سید مظہر حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹیر ی ہیں۔ ساتھ ساتھ جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے شعبہ علم و ادب قلم کاروان کے ششماہی مشاعروں کے منتظم بھی ہیں۔راقم قلم کاروان کی سیکرٹیری کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ اس وجہ سے تعلوقات مذید مستحکم ہوئے۔قلم کاروان ہر ہفتہ علمی ادبی نشست منعقد کرتاہے۔ سید مظہر اس نشست کے مستقل شریک کار ہیں۔

شاعر، دانشور، ادیب مقتدرہ قومی ادارہ کے سابق سربراہ جنابِ افتخار عارف کہتے ہیں حلقہ ارب ذوق اسلام آباد کے حوالے سید مظہر سے شناسائی پندرہ بیس سالوں پر محیط ہے۔ ان کا شعری سفر بہت خوشگوار اور ہموار رہا ہے۔ کئی نشستوں میں بحیثیت شاعر متعدد بار ان کو سنا۔ مگر اب جو ان کا کلام یک جا ہو کر پیش ہوا، تو دل سے دعا نکلتی ہے۔ ہماری داد و تحسین کے بجا طور پر مستحق بھی ہیں۔’’ خزاں کے بعد‘‘ ایک ایسا مجموعہ ہے جو عوام و خواص میں دادو تحسین کا مستحق سمجھا جائے گا۔ شاعر خطہ پھٹوار جنابِ نسیم سحر فرماتے ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد سے کئی برس وابستگی کی وجہ سے سید مظہر اپنی شاعری کو کتابی شکل نہیں دے سکے ۔ اب سید مظہر نے اپنی شعری کی پہلی کتاب ’’ خزاں کے بعد‘‘ شائع کی ہے۔ نظم کی دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ ، میری طرح صنف ِغزل سید مظہر کی بھی محبوبہ ہے۔ بھارت مہااشٹرا کے شاعر جنابِ احمد ساز نے اس نئے شاعر کو شاعر ی کی دنیا میں ایک منفرد اضافے سے تعبیر کرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔بھارت بمبئی کے شاعرجنابِ جاوید اختر نے کہا کہ سید مظہر کے دل دماغ میں شاعری فطری طور پر موجود ہے۔ شاعری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذاشاعری میں ان کی کامیابی یقینی ہے۔

جنابِ خاور اعجاز اسلام آباد جو مانے جانے شاعر ہیں۔ فرماتے ہیں کہ سید مظہر کی شاعری میں ہرے موسم،ہری تعبیر، اور ہرے سورج کے اشارے ہمارے تہذہبی ورثے کے نہایت نمایاں استعارے ہیں، جنھیں سید مظہر نے بڑی مہارت سے برتا ہے۔جنابِ منیر فیاض اسلام آبا دنے بھی سید مظہرکے اولین شعری مجموعہ کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ان کی پیشر غزلیں رومانوی روایت اوروالہانہ محبت کا پتہ دیتی ہیں۔سید مظہر خود فرماتے ہیں کہ میں نے خیال کی کیاری میں حرف کے پھول کھلا دیے ہیں ۔فضا مہکا دی ہے ۔میں اپنی کاوش قاری کے فیصلہ پر چھوڑتا ہوں وہی بہترین منصف ہے۔

صاحبو!بات یہ ہے کہ بہار اور خزاں کا جوڑ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ہر سال بہار کے بعد خزاں آتی ہے۔ انسانوں پر بھی بہار اور خزاں کے دور گزرتے ہیں۔ نظر تو یہ ہی آتا ہے کہ انسان خزاں کی ہمیشہ شکایت ہی کرتا رہا ہے۔ مگر ایک شاعر’’ہری چند اختر‘‘ کہتے ہیں:۔
مرے چمن کی خزاں مطمئن رہے کہ یہاں
خدا کے فضل سے اندیشہ بہار نہیں۔

سید مظہر نے اپنی شاعری میں بہار اور خزاں کو ایسا جوڑا، کہ خزاں بھی بہار لکھنے لگتی ہے۔انسان نے شروع سے ہی نثر اور نظم کو اپنادھکڑا بیان کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ نثر میں تو انسان کو اپنے خیالات کا اظہارکرنے کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ مگر نظم میں قافیہ اور دریف کو ملانے کے لیے الفاظ کو کوزے میں بند کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ سید مظہر نے ان فن کو اپنی شعری میں بخوبی استعمال کیا ہے۔ یہ ان ہی کی فنکاری ہے۔ اپنے شعروں میں لفظ ’’دیے ‘‘اور ’’روشنی‘‘ کا کثرت سے استعمال کرے کے اندھیروں میں رہنے والوں کو صاف صاف روشنی دکھا ئی ہے۔ ادب کے سنجیدہ حلقے جن میں راقم بھی شامل ہے۔ شاعروں سے ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں عورت ، اس کے جسم کے ہر حصے کو نمائیاں کرنے میں اشعار کے انبار لگا دیتے ہیں۔ پھر شباب ، شراب اور کباب کے اردگرد ہی گھومتے اور جھومتے رہتے ہیں۔ کیا اتنی بڑی کائنات میں صرف عورت ہی اﷲ کا شاہکار ہے کہ شاعر حضرات ہر وقت مرزا غالب کی طرح کہیں:۔ جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

اس لیے صرف تصورجان کے ساتھ دنیا میں ہر طرف پھیلی اﷲ تعالیٰ کی اتھا ہ گہرایوں والی کائنات میں ڈوب کرسراغ ِزندگی کو تلاش کرنا بھی تو ایک چیز ہے! اﷲ تعالیٰ کی کائنات شاہکاروں سے بھری پڑی ہے صرف توازن کی ضرورت ہے۔ حساس شاعر فطرت کا ترجمان ہوتا ہے۔ فطرت کے شاہکاروں کو دیکھ کر اور اسے محسوس کر کے اپنے اپنے وقت کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی سوچ کو عوام تک منتقل کرتا ہے۔ ہم نے سید مظہر کے شعری مجموعہ’’خزاں کے بعد‘‘ کی سطر سطر کو گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس میں کہیں بھی عورت، شباب اور کباب کا ذکر نہیں ملا۔ بلکہ کتاب کے شروع میں رب کائنات کی تعریف کرتے ہوئے علم نافح کی دعامانگی گئی۔ فخر موجودات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعت شریف لکھ کر محبت کا اظہار کیا گیا۔کمال کی بات ہے کہ اس کے بعد جنت میں نوجوانوں کے سردار حضرت حسین ؓابن علی ؓ ؓ کی شان میں سلام پیش کر اہل بیت سے اظہار عقیدت بھی کیا گیا۔ اس کے بعد اپنی محبوبہ غزل کو جگہ دی۔ غزل کے معیار کو مذید بلند کیا۔ دو نظموں کو اس شعری مجموعہ میں شامل کر کے سید مظہر کی بالغ نظری کی مثال یہ ہے کہ مملکت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان،مثل مدینہ ریاست، اور اس کی شہ رگ کشمیر اور کشمیر میں جاری تکمیل پاکستان کی جنگ آزادی کے دکھ درد کو بیان کر کے ہر محب وطن پاکستانی کے دل جیت لیے۔ نظر آتا ہے جدید شاعری کی دنیا میں سید مظہر کی تخلیقی شاعری خوب رنگ جمائے گی۔ سید مظہر کا ایک شاہکار شعر:۔
دَیر والو ایک دن نکلو گے خود کشمیر سے
جنتیں کب مل سکی ہیں ظلم کی تدبیر سے

راقم دور جدید کے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے جو عصری مسائل کے حل کے لیے ڈالیوں ، گلیوں اور پکڈنڈیوں میں چلنے کے بجائے تنوں ،شاہراؤں اور میدانوں میں رہ کر مسائل حل کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔مطلب جزیات کی بجائے مین اسٹریم کی بات کرتا ہے۔ ملک ِپاکستان کی ساری خرابیوں کی جڑ ہماری اﷲ سے دوری ہے ۔ آہیے اپنے پیارے پاکستان میں حکومت الہیٰا، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفےٰ یا مدینے کی اسلامی ریاست نام کچھ بھی ہو اسے قائم کر رہیں۔ پھر ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان شاء اﷲ۔ اس لیے ہم نے کتاب’’ خزاں کے بعد‘‘ کے ایک ایک شعر کو منتخب کر کے تبصرہ کرنے کے بجائے پوری کتاب کو سامنے رکھ کر تبصرہ کیا ہے۔ سید مظہر کی شاعری کے مجموعہ’’ خزاں کے بعد‘‘ کتاب میں عام طریقے سے ہٹ کرمنفرد ترتیب اور تخلیقی کاوش دیکھ کر ہم نے بے ساختہ اﷲ کے حضور ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی کہ اے رب ِعرض و سماں ۔ شاعرجناب ِسید مظہر مسعود کی شاعری اورعلم میں بے بہا اضافہ فرما۔آمین۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094367 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More