|
|
ملک بھر میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور ساتھ ہی
عوام کے وفاقی حکومت سے مہنگائی کم کرنے کے مطالبات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
اب حال ہی میں ملک بھر میں جاری مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے وفاقی حکومت
نے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس حوالے سے سب سے پہلا کام وزیر اعظم
عمران خان نے ’’ٹائیگر فورس‘‘ کو سونپا ہے۔ ٹائیگر فورس اب اشیائے ضرورت کی
قیمتوں کو جانچے گی۔ عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام کے ذریعے
کہا کہ ہفتے کے روز وہ کنونشن سینٹرمیں اپنی ٹائیگر فورس سے ملیں گے، ساتھ
ہی انہوں نے کہا کہ تب تک ہمارے رضاکار اپنے قرب و جوار میں باقاعدگی سے
دال، آٹا، چینی اور گھی کی قیمتیں معلوم کریں اور انہیں ٹائیگر فورس کے
آن لائن پورٹل پر ڈالیں۔ وہ پھر ہفتے کو منعقدہ نشست میں اس مسئلے پر بات
کریں گے۔ |
|
وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد حکومت پر اپوزیشن رہنماؤں
کی تنقید کا سلسلہ ایک شروع ہوچکا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری
رحمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزراء کو
اپوزیشن کے خلاف لگایا ہوا ہے اور وزراء کا کام ٹائیگر فورس کے حوالے کیا
جا رہا ہے، وزراء استعفے دے کر گھر چلے جائیں، ان کا کام ٹائیگر فورس کرے
گی۔ شیری رحمان کا مزید کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس کو مہنگائی پر نظر رکھنے کی
ہدایت وفاقی کابینہ کے خلاف چارج شیٹ ہے، مہنگائی کم کرنا ٹائیگر فورس کا
نہیں حکومت اور کابینہ کا کام ہے ۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے سوال کیا کہ
ٹائیگر فورس کو کس قانون کے تحت مہنگائی کنٹرول کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے؟
شیری رحمان کے مطابق نااہل حکومت کی وجہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی
ہے۔ اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ٹائیگر فورس کو سونپی گئی
ذمہ داریوں کو ’’بلے سے ہی گوشت کی رکھوالی‘‘ قرار دیا ہے ۔ |
|
|
|
کیا ٹائیگر فورس یہ ذمہ
داری نبھا پائے گی؟ |
حکومت کی جانب سے اس اعلان کے سامنے آنے کے بعد سب سے
پہلے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ کیا ٹائیگر فورس اس ذمہ داری کو نبھا بھی
سکتی ہے یا نہیں ؟ پہلے تو کراچی کے کئی علاقوں کی بات کرلیں جہاں اس فورس
کا اب تک تو نام و نشان ہی نہیں ہے ۔ ایسے علاقوں کے بازاروں کے دال چینی
کے نرخ پھر پورٹل پر کون ڈالے گا اور ان علاقوں کے مکینوں کی مدد کون کرے
گا ؟ ان علاقوں کے مسائل وزیر اعظم تک کیسے پہنچیں گے؟ |
|
|
|
یہ بات تو سب کو یاد ہی ہوگی کہ پاکستانی وزیر اعظم
عمران خان نے مارچ کے مہینے میں ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا تھا اور
نوجوانوں سے کہا تھا کہ وہ اپریل تک اس فورس میں شمولیت کیلئے اپنی
رجسٹریشن کروالیں ۔رپورٹس کے مطابق ابتدائی دو دن میں نوے ہزار نوجوانوں نے
اس فورس کیلئے رجسٹریشن کروالی تھی۔ |
|
جب اس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو اس کی ذمہ
داریوں کا تعین بھی کرلیا گیا تھا، اس فورس کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ
یہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ساتھ مل کر کورونا
وائرس کی وجہ سے کئے جانے والے کئی ماہ طویل لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے
گھروں تک راشن اور خوراک فراہم کریں گے اور انتظامیہ کو جہاں بھی ان کی
ضرورت ہوگی، وہاں یہ فورس اپنی خدمات فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ ٹائیگر
فورس کے رضاکار یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح تک قومی اور صوبائی
محکمہ قدرتی آفات کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں شامل رہیں گے، لوگوں
کو ایس او پیز پر عمل کروائیں گے ۔ ساتھ ہی یہ رضا کار مستحق افراد کی
نشاندہی کریں گے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے بارے میں انتظامیہ کو
آگاہ کریں گے جس پر پولیس کارروائی کرے گی ۔ |
|
ملک کے کئی مقامات پر رمضان کے دوران اس فورس کی ذمہ
داری لگائی گئی تھی کہ وہ بازاروں میں جاکر دیکھیں کہ دکاندار لوگوں سے
زیادہ پیسے تو نہیں لے رہے، ڈی سی او لاہور نے ایک موقع پر بتایا تھا کہ
انہوں نے ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کے کہنے پر کارروائیاں بھی کیں ۔ تاہم
کچھ ٹائیگر فورس رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ان کے ساتھ تعاون نہیں
کرتی، کیونکہ جب کسی کے خلاف شکایت کی جاتی ہے تو انتظامیہ اس پر توجہ نہیں
دیتی ۔ |
|
|
|
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ ان کے پاس کوئی سرکاری
طور پر اختیارات تو ہوتے نہیں ہیں اس لئے لوگ ان کی بات نہیں سنتے اور نا
ہی انہیں ٹھیک معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ اب ایک مسئلہ جو سب سے بڑا ہے وہ
یہ کہ اس فورس کو رجسٹر تو کرلیا گیا لیکن اس کی باقاعدہ طور پر کوئی
ٹریننگ نہیں کی گئی ہے ۔ اسلئے اتنے ماہ کے دوران ٹائیگر فورس کی جانب سے
کوئی خاص اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں اور اب جو کام انہیں سونپا گیا ہے تو
اس میں بھی شاید ہی وہ کامیاب ہوپائیں ۔ |
|
عوام کی بات کریں تو عوام اپنے علاقوں سے الیکشن میں
لوگوں کو ووٹ دے کر منتخب کرواتے ہیں تاکہ وہ لوگ اسمبلیوں تک جاکر ان کے
مسائل پر بات کریں ، مہنگائی کا خاتمہ کریں اور ان کیلئے آسانی کریں ۔ یہ
کام عوام کے منتخب کردہ نمائندوں (وزرا) کو کرنا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے
لوگوں کے مسائل کو دیکھیں، وہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف اقدامات کرنے
کیلئے خود ہی چھاپے ماریں لیکن یہ کام اب ان سے نہیں بلکہ رضا کارانہ طور
پر وجود میں لائی جانے والی ٹائیگر فورس سے لیا جا رہا ہے ، جس کو بدلے میں
کوئی تنخواہ بھی نہیں ملے گی اور نا ہی وزرا کی طرح انہیں دیگر مراعات حاصل
ہوں گی۔ اگر واقعی یہ کام بھی ہمارے ہی نوجوانوں نے کرنا ہے تو وزرا کی
اتنی بڑی فوج اور کابینہ کا کیا فائدہ؟ جو صرف زبانی کلامی باتیں بناتی ہے
اور عملی اقدامات نہیں کرتی، حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں بھی اب تک
زبانی بیانات سے کام چلارہی ہے دوسری طرف عوام نے بھی حکومت کی کارکردگی پر
عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ |