کتاب کا نام غیر فوجی کالم مصنف ۔ برگیڈیئر (ر) صولت
رضا
صفحات۔ 224 قیمت ۔ 400روپے
اشاعتی ادارہ ۔ پورب اکادمی ۔اسلام آباد
تبصرہ نگار ۔ محمد اسلم لودھی ( شاہ زیب)
صولت رضا صاحب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے برگیڈیئر رینک میں31 جولائی
2003ء ریٹائر کو ہوئے ہیں ،وہ سمجھ داری اور ٹھنڈے دماغ سے بات کرنے والے
پروقار انسان ہیں ۔عہدے کا غرور انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا ۔یہ بات میں اس
لیے کہہ سکتا ہوں کہ آج سے اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے کہ کرنل (ر) سردار
عبدالرؤف مگسی جو 40بلوچ رجمنٹ کے گرینڈ فادر کہلاتے ہیں۔ 1965ء اور 1971ء
کی جنگ میں بے شمار کارہائے نمایاں انجام دینے کے علاوہ وہ پاک فوج کے ایک
عظیم اور پرعزم نوجوان آفیسر (کیپٹن علی مگسی شہید ) کے والد بھی ہیں ۔ان
کے ساتھ مجھے آئی ایس پی آر راولپنڈی کے دفترجانے کا اتفاق ہوا ۔وہاں ہماری
ملاقات برگیڈئر صولت رضا صاحب سے ہوئی ۔ وہ انتہائی جلدی میں دکھائی دے رہے
تھے ۔یقینا انہی آرمی چیف کی جانب سے کوئی اسائنمنٹ ملی ہوگی لیکن وہ ہمیں
اتنے خلوص اور محبت سے ملے کہ دل خوش ہوگیا ۔ان کی کتاب پر تبصرہ کرنے سے
پہلے یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں کبھی فوج کا حصہ تو نہیں رہا لیکن میرے جسم
کی ہر رگ میں پاک فوج سے محبت موجزن ہے ۔بطور خاص میں پاک فوج کے ان شہیدوں
پر لکھنے میں مجھے بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے ، جو وطن عزیز کی خاطر اپنی
جانیں قربان کرتے ہیں ۔یہی اعزاز مجھے برگیڈیئر صولت رضا صاحب کے دفتر لے
گیا ۔کرنل (ر) مگسی نے میرا تعارف کروا تے ہوئے کہا۔" یہ محمد اسلم لودھی
صاحب ہیں جو پاک فوج کے شہیدوں کے ساتھ ساتھ آجکل میرے بیٹے کیپٹن علی مگسی
شہید پر کتاب لکھ رہے ہیں۔کرنل (ر) مگسی کی زبان سے یہ الفاظ سن کر صولت
رضاصاحب مسکرائے اور فرمایا جو کام ہمیں کرنا چاہیئے تھا وہ لودھی صاحب
کررہے ہیں اس لیے وہ ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں ۔جو بات برگیڈیئر(ر)صولت
رضا نے 18سال پہلے کہی تھی وہ آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے ۔جب بھی میں ان
کا نام کہیں پڑھتا ہوں تو ان کے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے۔بیشک ایسے
اچھے لوگ اپنے ادارے کے بہترین سفیر ہوتے ہیں ۔
بہرکیف برگیڈیئر صولت رضا پاک فوج کے شعبہ پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل
رہ چکے ہیں ان کی نئی پہچان ایک بہترین کالم نگا ر کی حیثیت سے ابھر کر
سامنے آئی ہے ۔ان کے کالم زیادہ تر روزنامہ خبریں کے ادارتی صفحات کی زینت
بنتے رہے جو واقعی پڑھنے کے لائق ہیں ۔جس طرح روئیداد خان کی کتابیں
پاکستانی تاریخ کا اہم حصہ قرار پاتی ہیں ،اسی طرح صولت رضا کا شمار بھی
ایسے جہاں دیدہ اور مورخین میں ہوتا ہے جنہوں نے جنرل محمد ضیاء الحق سے لے
کر جنر ل پرویز مشرف تک بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اپنے فرائض منصبی
انجام دیئے ۔اس دوران انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا وہ اپنے کالموں
میں لکھ دیا۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں پاکستانی تاریخ کا ایک اہم
باب (راز ) قرار دیا جا سکتا ہے ۔وہ اس کتاب سے پہلے "کاکولیات"کے نام سے
بھی کتاب لکھ چکے ہیں جو یقینا کاکول جانے کا خواب دیکھنے والوں اور فارغ
التحصیل ہونے والوں کے لیے ایک مستند کتاب ہو گی ۔انکی دو مزید کتابیں
زیرطبع ہیں جن کے نام آئی ایس پی آر کے مطابق اور نملیات ہیں ۔
صولت رضا اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں میرے نزدیک کالم ایک خط ہے جو
لکھنے والا اپنے قارئین کے نام تحریر کرتا ہے اس خط میں من بیتی کو جگ بیتی
کے روپ میں اجاگر کیا جاتاہے ۔میرے خیال میں لکھنے کا عمل خواہ کسی بھی روپ
میں ہو، سماج میں سوچ و بچار کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔غیر ضروری کالم
بھی سوچ وبچار کے زمرے میں آتے ہیں ، مجھے کالم نگار ہونے کا دعوی نہیں
البتہ ہاتھ میں قلم انگشت شہادت کے زیرنگیں رہتاہے ۔غیر فوجی کالم کے بینرے
تلے اولین کالم افواج پاکستان کے ترجمان جریدے "ہلال" میں شائع ہوچکے ہیں
۔آگے چلتے ہوئے صولت رضا لکھتے ہیں 31 جولائی 2003ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد
5اگست 2003ء کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز NUMLاسلام آباد کے بانی
چیئرمین شعبہ ماس کیمونی کیشنز کی حیثیت سے منسلک ہوگیا ۔اس کتاب میں شامل
کالم 2003ء سے 2008ء تک کے واقعات اور روزمرہ کا تذکرہ شامل ہے ۔کالم تو
کافی تعداد میں تھے لیکن یہ چنیدہ کالم ہیں ۔یوں تو آپ 1973ء سے افواج
پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہوں لیکن 1981ء کے آغاز میں میجر کی
حیثیت سے لاہور میں میری تعیناتی ہوگئی ۔اس دوراناستاذ مکرم وارث میرصاحب
سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔
سب سے پہلے ہم یہاں صدیق سالک کی یاد میں ۔ کالم کا تذکرہ کریں گے ۔ صولت
رضا لکھتے ہیں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی باعزت ریٹائرمنٹ کے بریگیڈیئر
صدیق سالک نے ڈائریکٹر آئی ایس پی آرکا عہدہ سنبھالاتو پورے دفتر میں خوف و
ہراس کی لہر دوڑ گئی ۔یہ کیفیت غیرمتوقع نہیں تھی ،سٹاف کو معلوم تھا کہ
مزاج یار بچپن ہی سے "عاشقانہ " ہے۔ان دنوں میں آئی ایس پی آر لاہور میں
تعینات تھا۔میرے ایک رفیق نے راولپنڈی سے کانپتی ہوئی آواز میں اطلاع دی کہ
بریگیڈئر سالک نے آئی ایس پی آر کی کمان سنبھال لی ہے اور آج بہت سخت
احکامات صادر کیے ہیں ۔میں نے کہا ابھی یہ احکامات لاہور نہیں پہنچے ۔میرا
جواب سن کر موصوف بولے آپ اتنے خوش نہ ہوں عنقریب ریجنل دفاترکی شامت بھی
آنیوالی ہے۔میں نے جواب دیا بھائی ہمارا کیا ہے پہلے ایک گگلی باؤلر کا
سامنا کرتے رہے اب فاسٹ باولر آگیا ہے توسر پر ہلمٹ پہن لیتے ہیں اور باہر
جاتی ہوتیز گیند سے فاصلہ رکھیں گے ۔اگلے روز ساڑھے آٹھ بجے صبح بریگیڈئر
سالک کے پی اے کی فون پر آواز سنائی دی ۔سالک صاحب آپ سے بات کرینگے
۔پرائیویٹ سیکرٹری نے لائن تھرو کی تو سالک صاحب فون پر تھے ۔ میں نعرہ
لگاتے ہوئے کہا السلام علیکم سر۔ بہت بہت مبارک ہو ۔ دوسری جانب سے آواز
آئی وعلیکم سلام ، شکریہ ۔میجر صولت رضا آپ نے ہلمٹ خرید لیاہے کیا ؟۔ ایک
لمحے کے لیے سناٹے میں آگیا ۔جی سر۔ یس سر۔ ساڑھے سات بجے سے پہن کر بیٹھا
ہوں ۔ میرا جواب سن کر ادیب صدیق سالک ، ڈائریکٹر آئی ایس پی آر پر حاوی
ہوگیا ۔فون پر ہلکا سا قہقہہ سنائی دیا تو میرے اوسان بحال ہوئے۔ میں نے
خوشامدانہ لہجے میں ایک اور فقرہ آگے بڑھایا ۔سر آپ کی کمان میں آغاز ہی سے
مخبری کا نظام بہت اعلی دکھائی دیتا ہے ۔سالک صاحب بولے فی الحال پہلے سے
تعینات سٹاف سے استفادہ کررہا ہوں لہذا آپ زیادہ محتاط رہیں ۔
اس خوبصورت کتاب کا دوسرا کالم "وارث میر صاحب کی یاد میں " ہے ۔پروفیسر
وارث میر ہماری کلاس کو لینگوئج اینڈ لٹریچر (زبان اور ادب )پڑھاتے تھے ان
کے لیکچر دلچسپ، معلوماتی اور موضوع سے ہم آہنگ ہوتے ۔بھرپور تیاری کے بعد
کلاس میں داخل ہوتے اور چھا جاتے ۔ہمارے زمانہ طالب علمی میں پنجاب
یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹلز کی تعداد کم تھی ، لہذا کرائے کے چند گھروں میں
عارضی انتظامات کیے گئے تھے ۔اس عارضی ہوسٹل کے وارڈن بھی وارث میر صاحب ہی
تھے ۔ماڈل ٹاؤن سے براستہ "بے آباد "گارڈن ٹاؤن سے پنجاب یونیورسٹی جاتے
سائیکل سوار وارث میر کی نظر میں ہم تین چار طالب علم آتے تو وہ سائیکل سے
اترکر پیدل سفر شروع کردیتے ۔شارٹ کٹ کے لیے ہم یونیورسٹی کے سرسبز کھیتوں
میں داخل ہوجاتے۔اس زمانے میں لوہے کے جنگلے نہیں تھے ۔وارث میرصاحب کی
ہمراہی میں اوپن کلاس شروع ہوجاتی ۔عموما صبح کے اخبار کی شہ سرخی سے گفتگو
کا آغاز کسی عالمی طاقت کے انجام پر ختم ہوتا ۔سقوط ڈھاکہ نے ہر باشعور
پاکستانی کی طرح وارث میرصاحب کو بھی ہلاکر رکھ دیا تھا ۔اس سانحہ کے بعد
جمہوری تماشے اور مارشل لا کے حبس میں پرورش پانے والی مافوق الفطرت سیاسی
مخلوق نے انہیں زک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ان کے دل پر جو
گزرتی وہ بلا خوف و خطر رقم کرتے رہے۔
ایک اور کالم جس کا تذکرہ میں یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔اس کا عنوان"
14اگست سے 17اگست تک " ہے ۔ پاکستان کے نامور صحافی محمد صلاح الدین ایک
مرتبہ جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کے تشریف لائے ۔میں آئی ایس پی آر کی جانب
سے ان کے ہمراہ تھا ۔قریبا ایک گھنٹہ ملاقات کے بعد دونوں کمرے سے باہر
نکلے تو میں بھی اے ڈی سی کے دفتر سے نکل کر ساتھ کھڑا ہوگیا ۔مجھے اچھی
طرح یاد ہے کہ محمد صلاح الدین فوری انتخابات کے لیے دلائل دے رہے تھے۔جواب
میں ایک دلآویز مسکراہٹ تھی ۔صلاح الدین کے چند جملے تلخ بھی تھے لیکن جنرل
ضیاء الحق کمال مہربانی سے وہ بھی بی گئے ۔میں اور صلاح الدین آرمی ہاؤس
جہلم روڈ راولپنڈی کے سادہ سے پورچ میں سرکاری گاڑی میں بیٹھ گئے تو
ڈرائیور نے بتایا کہ کار بند ہوگئی ہے ۔شاید دھکے کی ضرورت ہوگی ۔میں فورا
نیچے اترا ۔دو تین فوجی بھی لپکے لیکن ہم سب سے پہلے صدر پاکستان ، چیف
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور چیف آف آرمی سٹاف کا ہاتھ اپنے "نکتہ چیں" کی
کارپرتھا ۔گاڑی فورا سٹارٹ ہوگئی ۔راستے میں محمد صلاح الدین نے کہا کہ یہ
شخص (ضیاء الحق) اپنے رویے سے دوسروں کو "ختم"کردیتا ہے ۔ بے شک محمد ضیاء
الحق کی زندگی ایسے کی واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔یوں گیارہ برس گزر گئے جب
ان کا جسد خاکی شاہ فیصل مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیاگیا تو وطن عزیز
ایک بارپھر سیاسی ، سماجی اور داخلی بحران کاشکار تھا۔گیارہ برس ضائع ہوگئے
یا محمد ضیاء الحق اپنی طرز حکمرانی کے حوالے سے قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے ۔یہ
فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
جناب صولت رضا صاحب "سرکار کے عوامی جلسے" کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ
ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ
بلوچستان میں آپریشن شروع ہوگیا ۔مری اور مینگل قبائل کی اکثریت پہاڑوں پر
چلی گئی ، کچھ ترک وطن ہوگئے ۔اندرونی سلامتی کے نام پر فوجی دستے "شورش
زدہ علاقوں "میں مصروف عمل تھے کہ بھٹو صاحب نے کوئٹہ میں جلسہ عام کرنے کا
اعلان کردیا جو اسمبلی ہال کے قریب ترتیب دیاگیا تھا ۔آپریشن کے باعث
کشیدگی برقرار تھی ۔ مجھے اپنی رہائشگاہ کے قریب ایک آرمی یونٹ میں لاتعداد
جوان قطار بنائے باربر کے زیر مشق دکھائی دیئے ۔قریب ہی ایک صوبیدار صاحب
کھڑے تھے ان سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ کل بھٹو صاحب کے جلسے میں جانا
ہے۔بہرحال اعلی ترین سطح سے یہ خبر ملی کہ پانچ سو جوان سٹیج کے قریب سول
کپڑوں میں سیکورٹی زون بنائیں گے ۔آپریشن کی وجہ سے وزیراعظم کی حفاظت
ضروری تھی۔ لیکن یہ اخبار میں نہیں آنا چاہیے ۔عوام سیکورٹی زون سے باہر
تھے ۔بھٹو صاحب اپنے مخصوص سٹائل میں سٹیج پر نمودار ہوئے ۔ہر طرف تالیا ں
بج رہی تھیں۔ پانچ سو فوجی جوانوں کی تالیاں ان کے کمانڈر کنٹرول کررہے تھے
۔بھٹو صاحب کی تقریر شروع ہوئی انہوں بلوچستان کے باغی سرداروں پر کڑی
تنقید کی ۔میں انہیں سبق سکھاؤں گا ، کوہلو تک سڑک بنے گی ، ہسپتال تعمیر
ہوں گے ،کوئٹہ میں ایک اور یونیورسٹی بنائیں گے ، گیس آئے گی ، ہتھیار ڈال
دو معاف کردو ں گا۔بھٹو صاحب گرج رہے تھے ۔سٹیج کے پائیدان پر صابر بلوچ
ایم پی اے بیٹھے کارکنوں سے نعرے لگوا رہے تھے ۔قائد عوام ۔جیالے چیختے
زندہ باد ۔ان سے رہا نہ گیا وہ ہماری طرف بڑھے اور چیختے ہوئے کہا تم لوگ
نعروں کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔صوبیدار نے کہا صاحب ہمیں صرف نعرہ تکبیر
اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کا حکم ہے ۔اس دوران ایم پی اے کی نظر
مجھ پر پڑی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور زمین پر بیٹھ
گیا۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کتاب میں شامل ہر کالم اپنے وقت کی
بہترین تاریخ پیش کرتاہوا دکھائی دیتا ہے ۔ میں کس پر یہاں تبصرہ کروں اور
کس کو چھوڑوں یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ برگیڈیئر (ر)صولت رضا کا
شمار پبلک ریلیشنز کے حوالے بہترین کمانڈروں میں رہا ہے لیکن یہ کتاب ان کو
بہترین اور مستند لکھاری اور وقوعہ نگار کی شکل میں سامنے لاتی ہے ۔
اس کتاب میں جن موضوعات پر کالم موجود ہیں ان کا ذکر کچھ یوں ہے-:صدیق سالک
کی یاد میں ، دوراندیش ہاؤسنگ سکیم ، ہاؤسنگ کاغبارہ، کراچی کی حکومت ،
پہلی ناکام بغاوت، کرنل (ر) قلب عباس، وارث میرصاحب کی یاد میں ،ایک بھولی
بسری قدرتی آفت کی داستان، انٹیلی جنس والے آئے تھے ، اردو کی یاد آئی ہے،
رحلت ایک جنرل کی، 14اگست سے 17اگست تک ، سپریم کمانڈر غلام اسحاق خاں
،پچاس پونڈ وزنی کیک ، واک نہیں دھرنا،قربانی دی کھلاں ہائے ہائے ، موج
ظرافت ،سرکار کے عوامی جلسے، عدالتی بحران کا آسان حل ، کہانی دو چیف
صاحبان کی ، کراچی کا جن، لاچاردھڑ کے تین سر، ماہ ستمبر کو معاف کریں،
شیرآیا شیر آیا، گوعمران گو، ایمرجنسی سے انتخابات تک،ازُخود ریٹائرمنٹ،
میجر جنرل احتشام ضمیرکے آنسو، عدنان شاہد کی تلاش، ذرا افتخار جنجوعہ روڈ
تک ، تشویشناک مینڈیٹ ون، تشویشناک مینڈیٹ ٹو ، گڑھی خدا بخش جانے والے ،
جہانگیر بدر کا انتخاب ، مائی ڈیئر پرویز مشرف ،زرداری کھپے، پنجاب پر رحم
کریں ، اسفند یارولی کی واپسی ، صرف دو لیفٹیننٹ جنرل ، قائم مقام صدر،
دیکھو دیکھو کون آیا ، پرویز مشرف حمایت تحریک ، ایک اور تصویر، چوہے
،بلیاں اور پارلیمنٹ ، بینظیر شہید کے قاتل ، بسنت کے کوٹھے، کورکمانڈر
کراچی کی سیکورٹی ، فوجیوں کی یاد آئی ۔ وغیرہ۔
بہرکیف برگیڈیئر (ر)صولت رضا نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف خود کو منوایا ہے
بلکہ یہ ثابت کرنے کی کامیاب جستجو بھی کی ہے کہ وہ ایک بہترین اور مستند
رائٹربھی ہیں ، انہیں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن بھی آتاہے ۔مختصریہ
کہ ان کے سینے میں اور بھی راز محفوظ ہیں اگر صحت ٹھیک رہی تو ممکن ہے ایک
دو کتابیں مزید بھی شائع ہوسکتی ہیں جن میں حکمرانوں کے بے پناہ راز موجود
ہوں گے۔ اﷲ انہیں صحت کاملہ سے نوازے ۔آمین
|