الاشباہ والنظائر : تعارف ، منہج بحث اور مصنف
محمد ساجدرضا مصباحی خادم درس وافتا دارالعلوم غریب نواز داہو گنج کشی نگر
’’الاشباہ والنظائر‘‘ قواعدِفقہ کی انتہائی معتبر ومستند ، معروف ومشہور
اور بلند یاپہ کتاب ہے ، جو ایک زمانے سے برصغیر اور عالم ِاسلام کی اکثر
درس گاہوں میں تخصص یا منتہی درجات میں شامل نصاب ہے ، جامعۃ المصطفیٰ حیدر
آباد کے شعبۂ تر بیت افتا کے نصاب میں بھی افادیت کے پیش نظر اس کتاب کو
شامل نصاب کیا گیا ہے ،آج کے ابتدائی سبق میں ہم سب سے پہلے الاشباہ
والنظائر کے مصنف علامہ ابن نجیم زین العابدین بن ابراہیم المصری کی عبقری
شخصیت ،ان کے علمی ودینی کار مے اور الاشباہ والنظائر کی تالیف کے پس منظر
پر روشنی ڈالیں گے،پھر الاشباہ والنظائر کے منہج بحث ، اس کےمشمولات اور اس
کتاب کے مقام ومرتبے پر بھی گفتگو کریں گے۔
مصنف الاشباہ والنظائر علامہ ابن نجیم حنفی :
علامہ ابن نجیم حنفی کی ولادت باسعادت علم وادب اور قدیم تہذیب وتمدن کی
سرزمین قاہرہ مصر میں سن ۹۲۶ھ میں ہو ئی ، آپ نے اپنے مولد ومسکن قاہرہ
میں وہاں کے اجلہ ٔعلما سے اکتساب فیض کیا اور اپنے عہد کے زبردست فقیہ ،
بلند پایہ اصولی اور باکمال عالم ومحقق کی حیثیت سے مشہور ہوئے ،آپ نے اُس
عہد کے جن عبقری علما سے کسب ِ فیض کیا ان میں شیخ امین الدین ابن عبد
العال الحنفی [ متوفی ۹۶۸ھ]شیخ قاسم بن قطلوبغا ، شیخ ابوالفیض السلمی ،
شیخ شرف الدین البلقینی کے اسما خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
علامہ ابن نجیم حنفی نے ایک زمانے تک درس وتدریس کے فرائض بھی انجام دیے ،
آپ کی درس گاہِ علم وفن سے بڑے جلیل القدر علما، محققین اور مصنفین پیدا
ہوئے ، آپ کے تلامذہ میں آپ کے برادر صغیر الشیخ العلامۃ سراج الدین عمر
بن ابراہیم [ متوفی ۱۰۰۵]، صاحب نہر الفائق شرح کنز الدقائق علامہ شمس
الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ احمد الخطیب بن محمد بن ابراہیم
الخطیب الغزی التمر تاشی صاحب تنویر الابصار وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں
۔
علامہ ابن نجیم کی تصانیف :
علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ بڑے زبر دست مصنف تھے ، مختلف فنون میں
آپ نے متعدد کتابیں تصنیف فر مائیں ، یہاں چند تصانیف کا ذکر کیا جاتاہے:
/البحر الرائق شرح کنز الدقائق
4التحفۃ المرضیۃ فی الآراضی المصریۃ
5تعلیق الانوار علی اصول المنار للنسفی
6حاشیۃ علی جامع الفصولین فی الفقہ الحنفی
7الرسائل الزینیۃ فی المسائل الحنفیۃ
8لب الاصول مختصر تحریر الاصول لابن الہمام
9الفتاوی الزینیۃ فی فقہ الحنفیۃ
:الفوائد الزینیۃ فی الضوابط والاستثاءات
;فتح الغفار بشرح المنار المعروف بمشکاۃ الانوار فی اصول المنار
< الاشباہ والنظائر
’’الاشباہ والنظائر‘‘علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ سب سے آخری تصنیف
ہے ۔جس میں آپ نے فقہ کے قواعد کلیہ ،فروق اور اشباہ ونظائر [ یعنی ملتے
جلتے مسائل ] سے بحث کی ہے ۔یوں تو اس کتاب کا نام الاشباہ والنظائر
ہے،لیکن اس صرف اشباہ ونظائر ہی بیان نہیں کیے گئے ہیں ، بلکہ اس میں فروق
، الغاز اور حِیل وغیرہ کے اصول وقواعد بھی مذکور ہیں ۔
الاشباہ والنظائر کا سبب تالیف :
علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے الاشباہ والنظائر کے مقدمے میں سب
تالیف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
’’ہمارے مشائخ نے فقہِ حنفی میں کئی مختصر اور بسیط متون و شروح اور فتاویٰ
کی کتابیں تالیف کی ہیں ، لیکن میرے علم کے مطابق تاج الدین السبکی الشافعی
کی کتاب کی طرح فنون فقہ پر مشتمل کوئی کتاب موجود نہ تھی ، اس لیے جب
’’کنزالدقائق‘‘ کی شرح’’بحرالرائق‘‘ لکھتے وقت بیع فاسد کے موضوع پر پہنچا
تو میں نےقواعد وضوابط اور استثناءات کے موضوع ایک مختصر کتاب لکھی ، اور
اس کو ’’الفوائد الزینیہ فی فقہ الحنفیہ ‘‘ کانام دیا ، جس میں ضوابط کی
تعداد پانچ سو تھی،پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اسی طرزپر ایک
تفصیلی کتاب لکھ دوں اور اس مختصر کتاب کو اسی کا نوع ثانی بنادوں ، بس یہی
الاشباہ والنظائر کی تالیف کا سبب بنا ۔‘‘
الاشباہ والنظائر کازمانۂ تالیف :
علامہ ابن نجیم حنفی نے الاشباہ والنطائر کے زمانۂ تالیف کے بارے میں
الاشباہ کے اخیر میں خود وضاحت فر مائی ہے :
’’وکان الفَراغ منہ فی السابع والعشرین من جُمادی الاخری سنۃ تسعٍ و ستین
وتسع مأۃ وکانت مدۃ تالیفہ ستۃ اشھر‘‘
یعنی مولف نے اس کتاب کی تالیف سے ۲۷؍ جمادی الآخرہ ۹۶۹ھ کو فراغت حاصل کی
،اور چھ مہینے کی مختصر مدت میں اس کتاب کی تالیف مکمل ہوئی ۔
الاشباہ والنظائر کی بے پناہ مقبولیت :
علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بحرا لرائق شرح کنز الدقائق
ہی کی طرح آپ کی اس تالیف کو بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہو ئی ، الاشبا ہ
والنظائر کے مقدمے میں اپنی اس کتاب کی مقبولیت کی دعا ان الفاظ میں فر
مائی تھی: ارجومن کرم اللہ الفتاح ان ھذالکتاب اذاتم بحول اللہ وقوتہ،یصیر
نزھۃ للناظرین،ومرجعا للمدرسین،ومطلبا للمحققین ومعتمَدا للقُضاۃ والمفتیین
، یقینا یہ دعا بابت اجابت سے ٹکرائی ہو گی ، یہی وجہ ہے کہ آج مدرسین
اپنی تدریس میں ،محققین اپنی تحقیق میں، قضاۃ اپنے فیصلوں میں ، مفتی اپنے
فتاویٰ میں اس کتاب سے خوشہ چینی کرتے نظر آتے ہیں اور زمانۂ تصنیف سے اب
تک اس کتاب مقبولیت اور مرجعیت حاصل رہی ہے ۔
الاشباہ والنظائرکے مشمولات:
علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس گراں قدر تالیف کو سات حصوں
میں تقسیم کیا ہے ،یعنی یہ کتاب سات فنون پر مشتمل ہے ۔
فن اول بنیادی قواعد کے بیان میں ہے ،ان قواعد کو دوقسموں میں تقسیم کر کے
بیان کیا گیا ہے ، پہلی قسم میں مُندرجۂ ذیل چھ قواعد بیان کیے گئے ہیں :
!لاثواب الا بالنیۃ [عمل کے ثواب کا مدار نیت پر ہے ]
4الامور بمقاصدھا [امور اپنے مقاصد کے لحاظ سے ملحوظ ہو تے ہیں ]
5الیقین لایزول بالشک [ یقین شک سے زائل نہیں ہو تا ]
6المشقۃ تجلب التیسر [مشقت سہولت کا باعث ہو تا ہے]
7الضرر یزال [ ضرر کو ختم کیا جائے ]
8العادۃ محکمۃ [ رسم ورواج کے مطابق حکم دیا جاتا ہے]
علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ ان چھ قواعد کو فقہ
اسلامی کی بنیاد کا درجہ حاصل ہے ، فقہ اسلامی کے دوسرے تمام قواعد کلیہ ،
اصول وضوابط اور فروعی احکام بلا واسطہ یا بالواسطہ انہی چھ قواعد سے متعلق
ہیں ۔
فن اول کی دوسری قسم کے مسائل کے تحت علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹؍
قواعد بیان کیے ہیں ، علامہ کاماننا ہے کہ یہ قواعد قسم اول کے قواعد کی بہ
نسبت کم جامع ہیں ، لیکن ان سے بھی بے شمار جزئی مسائل نکلتے ہیں ،آج کے
اس ابتدائی سبق میں ان تمام مسائل پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں ہے ،لہذا یہاں
ہم صرف ۵؍ اہم قواعد کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ، باقی قواعد پر
تفصیلی روشنی آئندہ اپنے مقام پر ڈالی جائے گی۔
/الاجتھاد لاینقض بالاجتھاد [ کوئی اجتہاد دوسرے اجتہاد کے ذریعہ منسوخ
نہیں ہوتا ۔]
4اذاجتمع الحلال والحرام غلب الحرامُ [جب کبھی حلا وحرام جمع ہو جائیں
توحرام حلال پر غالب رہے گا]
5الحددو تدرء بالشبہات [حدود شبہات کی بنیاد پر ساقط ہو جاتے ہیں ]
6ماحرم اخدہ حرم اعطاؤہ [جس چیز کا لینا حرام ہے اس کا دینا بھی حرام ہے]
7اعمال الکلام اولیٰ من اھمالہ [کلام کو بامعنیٰ بنانا اس کو مہمل بنانےسے
اولیٰ ہے ]
فن ثانی:
فن ثانی میں علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ کے قواعد وضوابط
اور ان کے استثناءات ومتعلقات کے حوالے سے گفتگو کی ہے ، اس فن میں شامل
ابحاث درس وتدریس اور افتا و قضا کا کام کر نے والے علماے کرام کے لیے
انتہائی مفید ہیں ،اس لیے کہ اگر صرف اصول وضوابط پڑھ لیے جائیں اور ان کے
استثناءات پر اطلاع نہ ہو تو مفتی اور قاضی سے بڑی خطر ناک غلطیاں ہو سکتی
ہیں ۔
فن ثالث :
علامہ ابن نجیم حنفی مصری رحمۃ اللہ علیہ نے الاشباہ والنظائر کے فن ثالث
کو جمع وفروق کے مسائل کو بیان کر نے کے لیے خاص کیا ہے ، اور ان مسائل کو
انہوں نے تین قسموں پر تقسیم کیا ہے
جمع: اس کے تحت ان مسائل کو بیان کیا جاتا ہے جو کثرت سے پیش آتے رہتے ہیں
، ایک مفتی کا ان سے مطلع رہنا انتہائی ضروری ہے اور ان سے ناواقف رہنا
نہایت عیب کی بات سمجھی جاتی ہے ، مثلا بھولنے والے ، مکرَہ ، نشے والے،
اندھے، سونے والے اور مجنون وغیرہ کے احکام ۔
فرق: اس میں ان مختلف مسائل کو بیان کیا جاتا ہے جو بظاہر یکساں نظر آتے
ہیں، لیکن ان کے درمیان باریک فرق ہو تا ہے ،مثلا وضو ، وغسل ، حیض ونفاس،
امام ومقتدی ، بیوی اور باندی و غیرہ کے باریک مسائل ۔
فن رابع :
اس فن میں الغاز یعنی فقہی معمے بیان کیے گئے ہیں ، یہ مسائل بڑے دل چسپ
اور ذہن ودماغ کو تروتازہ کر نے والے ہیں ، اگر انہیں دل چسپی سے پڑھا جائے
تو قاری ایک عجیب لطف محسوس کرتا ہے ۔
فن خامس:
علامہ ابن نجیم حنفی مصری رحمۃ اللہ علیہ نے حِیل یعنی حیلوں کو بیان کیا
ہے ، یعنی کسی امر دینی میں مبتلا شخص کے لیے چھٹکا را حاصل کر نے کی جو
صورتیں ہو سکتی ہیں ، انہیں اس فن میں بڑے باکمال طریقے سے بیان کیا گیا ہے
۔
فن سادس:
اس فن میں فروق کا بیان ہے ، جنھیں کرابیسی کی کتاب ’’ الفروق ‘‘سے جمع کیا
گیا ہے ۔
فن سابع :
یہ فن حکایات ومراسلات پر مشتمل ہے ، یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرات
صاحبین نیز مشائخ متقدمین ومتاخرین سے جو تحریر بحثیں ، مراسلات اور نادر
مسائل منقول ہیں انہیں اس فن میں بیان کیا گیا ہے۔
الاشباہ والنظائر کا منہج بحث :
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الاشباہ والنظائر کا
آغاز ایک مختصر مقدمے سے کیا ہے ، جس میں انہوں نے علم فقہ کے مقام ومرتبے
کو واضح کرتے ہوئے فقہاے احناف کی عظمت وفضیلت پر روشنی ڈالی ہے ،پھر انہوں
نے اپنی کتاب کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے، ہر حصے کی ابتدا حمد وثنا اور
درود وسلام سے ہوتی ہے،اور اختتام واللہ اعلم بالصوابیاواللہ تعالیٰ اعلم
بالصواب جیسے الفاظ سے ہو تا ہے۔
مصنف ہر فن میں کچھ قواعد کلیہ کا ذکر کرکے اس کے ذیلی قاعدے پیش کرتے ہیں
، پھر فقہی مسائل اور فروع کو بطور مثال پیش فر ماتے ہیں ، مثلا قاعدہ
کلیہ:[ الیقین لایزول بالشک ] کے تحت مصنف نے درج ذیل ذیلی قواعد ذکر کیے
ہیں :
*الاصل بقاء ماکان علی ماکان اصل یہ ہے کہ جو چیز جیسے تھی وہ ویسے ہی باقی
رہے گی ۔
4الاصل براءۃ الذمۃ اصل بات یہ ہے کہ جو کام جس کے ذمے لگایا گیا اس کو
پورا کیا جائے ۔
5من شک ھل فعل شیئاام لافالاصل انہ لم یفعل جس کو شک ہو کہ اس نے کوئی کام
کیا یا نہیں تو اصل یہ ہے کہ اس نے
یہ کام نہیں کیا ۔
6الاصل العدم امور عارضہ میں اصل ان کی عدم موجود گی ہے۔
7الاصل اضافۃ الحادث الیٰ اقرب اوقاتہ اصل یہ ہے کہ کسی نئے واقعہ کو قریب
ترین وقت کی جانب منسوب کیا
جائے گا۔
8الاصل فی الاشیاء الاباحۃ اشیا میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں ۔
9الاصل فی الابضاع التحریم عورت کے معاملہ میں اصل حرمت ہے۔
کتاب اللہ سے استدلال :
علامہ ابن نجیم حنفی مصری رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بحث یہ بھی ہے کہ وہ
قاعدۂ کلیہ کے ذکر کرنےکے بعد قرآن وسنت اور اجماع سے اس کی تائید وتوثیق
بھی کرتے ہیں ، مثلا قاعدہ : ’’المشقۃ تجلب التیسیر‘‘بیان کرنے کے بعد فر
ماتے ہیں کہ اس قاعدے کی اصل ارشاد خدواندی :یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید
بکم العسرہے،اس کے علاوہ ’’وماجعل علیکم فی الدین من حرج‘‘ سے بھی استدلال
فر ماتے ہیں ۔
سنت رسول اللہ سے استدلال :
الاشباہ والنطائر میں مذکور قاعدہ: ’’الیقین لایزول بالشک ‘‘ پر سنت رسول
اللہ سے استدلال فر مائے ہو ئے لکھتے ہیں :
’’اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعا نقل
کیا ہے ، یعنی اذاوجداحدکم فی بطنہ شیئافاشکل علیہ اَخَرَجَ منہ شئی ام لا،
فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتااویجد ریحا، یوں ہی قاعدہ: الضراریزال کی
اصل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس قاعدہ کی اصل سر کاردوعالم کا ارشاد:
لاضرر ولاضرار ہے۔
اسی طرح مصنف علیہ الرحمہ نے متعدد قواعد کے حوالے سے اجماع اور تعامل
صحابہ سے بھی استدلال فر مایاہے ۔
احادیث کی تخریج اور جرح وتعدیل:
علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ نے الاشباہ والنطائر میں جو احادیث نقل
فرماتے ہیں ان کی ضعف وقوت کی طرف بھی شارہ فرمایا کرتے ہیں اور ان کی
تخریج بھی پیش کرتے ہیں ،حدیث پاک ’’ لاضرر ولاضرار‘‘ کے بارے میں لکھتے
ہیں کہ امام مالک نے موطا شریف میں یہ حدیث پاک بیان کی ہے ، عمر بن یحییٰ
اپنے والدسے مرسلا بیان کرتے ہیں کہ حاکم نے مستدرک میں اس حدیث پاک کو
بیان کیا ہے ،بیہقی اور دار قطنی نے ابوسعید کی حدیث اور ابن ماجہ نے ابن
عباس کی حدیث کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
حوالہ جات کتب :
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے جن جن کتابوں سے استفادہ فر
مایا ہے ، آپ نے بلا تردد اور بلا جھجھک وہیں ان کا حوالہ بھی نقل کر دیا
ہے ،آپ کو الاشباہ میں بکثرت اس طرح کے جملے ملیں گے : کذافی فتح القدیر،
کذافی البنایۃ ، کذا فی الخانیۃ،کذا فی المحیط،کما فی البزازیۃ،کذا فی
الولوالجیۃ والخلاصۃ،نقل العینی فی شرح الھدایۃ،کما ذکر الزیلعی، ذکرہ قاضی
خان فی فتاواہ ۔
فقہی قواعد کے مستثنیات :
مصنف محترم علامہ ابن نجیم حنفی مصری کا طریقہ ہے کہ قواعد کے ذکر کے بعد
اس کے مستثنیات بھی ذکر کر دیتے ہیں ، مثلا قاعدہ: الفرض افضل من النفل کے
ذیل میں لکھتے ہیں کہ فرض نفل سے افضل ہے ، سواے چند مسائل کے :
پہلا مسئلہ: تنگ دست کو قرض سے بری قرار دینا یا قرض سے سبک دوش کردینا
افضل ہے اس کو ادئیگی میں مہلت دینے سے ۔
دوسرا مسئلہ:سلام میں پہل کر نا ایسی سنت ہے جو کہ سلام کا جواب دینے سے
افضل ہے جو کہ واجب ہے۔
تیسرا مسئلہ: وقت سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے اور یہ افضل ہے وقت کے بعد وضو
کر نے سے جو کہ فرض ہے ۔
الاشباہ والنطائر کی شرح ِحموی :
الاشباہ والنظائر کی یوں تو کئی شرحیں لکھی گئی ہیں ، لیکن ان سب میں
جامعیت اور شہرت کے لحاظ سے علامہ سید احمد بن محمد حنفی حموی کی شرح ’’
غمز عیون البصائر ‘‘ کو فوقیت حاصل ہے ،اس کی اہمیت کے پیش نظر اکثر ایڈیشن
میں اسے الاشباہ کے ساتھ حاشیہ میں شائع کیا گیا ہے ، الاشباہ والنظائر کے
مغلقات کو حل کر نے میں یہ عربی شرح معاون ہو سکتی ہے۔
آخری بات :
یہ مختصر گفتگو تھی الاشباہ والنظائر کے مشمولات ، منہج بحث اور اس کے مصنف
کی عطمت وفضیلت کے حوالے سے ، اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ،
لیکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
یہاں آئندہ اسباق کے حوالے سے اس بات کی وضاحت کر دیتا ہوں کہ الاشباہ
والنطائر کے اسباق میں درس نظامی کے عام منہج سے ہٹ کر ہم تخصص کے درجات
میں رائج عصری اسلوب کو اختیار کر تے ہوئے پورے سبق کی تلخیص بطور لیکچر
پیش کریں گے ،اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سبق کا مرکزی نقطہ اور اس کا خلاصہ
بآسانی آپ کے ذہن ودماغ میں نقش ہو جائے گا ،اس طرح مصنف کے طرز بیان کے
پیچ وخم میں الجھ کرآپ پریشان نہیں ہوں گے ، بلکہ آسان اسلوب میں اپنے
سبق کو سمجھنے اور ذہن نشیں کر نے پر قادر ہوں گے ۔ واللہ المستعان وعلیہ
التکلان ،وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمدوآلہ وصحبہ اجمعین ۔
محمد ساجدرضا مصباحی
خادم درس وافتا : دارالعلوم غریب نواز داہو گنج ضلع کشی نگر یوپی
۳؍ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ
|