آج کے جدید دور میں اسپورٹس کے شعبہ کی اہمیت باقی تمام
شعبوں کے مدمقابل آگئی اور شعبے کو باقاعدہ ایک پروفیشنل فیلڈ گردانہ جارہا
ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے اج کے 100 امیر افراد میں کھلاڑیوں کا بھی حصہ
ہے اب ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کے ایک بچہ 12 تک کی
عمر ییں بہت سے کھیل کھیل چکا ہوتا ہے والدین کے ہزار منع کرنے پر بھی وہ
نہیں رکتے اور نہ ہی اس روکا جا سکتا ہے اگر والدین اس کو گھر میں بند
کردیں تب وہ گھر میں اپنی کسی نہ کسی چیز اپنی کھیل کی پیاس بجھائے گا اگر
اس کو زنجیر سے بھی جکڑا جائے تب بھی وہ زنجیر کے کھیلے گا اگر بچہ کسی بھی
کیھل کا شوق رکھتا ہے تو اس پر توجہ دینا چاہئے اور اس کو پروفیشنل طریقے
اپنانے میں مدد فراہم کرنی چاہئے-
اگر آپ کا بچہ کسی کھیل میں دلچسپی لیتا ہے اس کا ساتھ دیں چار سال کی عمر
میں بچے کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے بچہ کس کھیل میں دل لگا
رھا ہے اگر آپ بچپن سے ہی اس کو مدد فراہم کریں گے تو 12 سال کی عمر میں
بچہ اس کھیل میں کم از کم 6 سال کا تجربہ رکھتا ہو گا
اگر بابر اعظم کے والدین کے اس سے کہتے کے تم کرکٹر نہیں ڈاکٹر یا انجینئر
بننا ہے تو نہ ہی ڈاکٹر اوپاتا
ہی انجینئر بن پاتا
اسلئے کہا جاتا ہے کے
"شوق کا کوئی مول نہیں"
اپنے بچوں پر توجہ دیں اور ان کے شوق کا خیال رکھیں یہ شوق کسی بھی چیز کا
ہو سکتا ہے کوئی بھی کام خوشی شوق اور جنون سے سرانجام دیا جائے تو کامیابی
ضرور حاصل ہوتی ہے
|