پولیو: خیبرپختونخوا کا خاموش دشمن‘ یونیسف کے فنڈنگ کو صحیح استعمال کرنے کی ضرورت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
جب دنیا پولیو کو شکست دینے کے قریب ہے، خیبرپختونخوا میں آج بھی معصوم بچے اس لاعلاج بیماری کا شکار ہو رہے ہیں، جو ان کے مستقبل کو تاریک کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ویکسین بھی موجود ہے اور حکومت مہمات بھی چلاتی ہے، تو پھر پولیو ختم کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ رپورٹ آپ کو خیبرپختونخوا کی اس تلخ حقیقت سے آگاہ کرے گی!
2025 میں پاکستان میں اب تک پولیو کے 14 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سے 8 کیسز صرف خیبرپختونخوا سے ہیں۔ بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک، تورغر، لکی مروت، اور شمالی وزیرستان جیسے اضلاع اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان علاقوں میں پولیو وائرس سیوریج کے پانی میں بھی پایا گیا ہے، جو تشویشناک ہے۔پولیو ٹیمیں، جو بچوں کو زندگی بچانے والے قطرے پلانے جاتی ہیں، شدید خطرات کا سامنا کرتی ہیں۔ پچھلے 18 مہینوں میں ان پر 20 سے زیادہ حملے ہوئے ہیں، اور صرف 2025 میں پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور 2 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ باجوڑ اور شمالی وزیرستان جیسے علاقے تو ایسے ہیں جہاں ویکسینیشن ٹیمیں جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتی ہیں۔
حملوں کے باوجود، پولیو ٹیمیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فروری 2025 میں 19,070 بچے ویکسین نہیں لے سکے تھے، تاہم اپریل میں یہ تعداد کم ہو کر 17,963 ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود، ہزاروں بچے ابھی بھی پولیو کے قطروں سے محروم ہیں، جس سے وائرس کو پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف (UNICEF)، یورپی یونین (EU)، اور حکومت پاکستان کے اشتراک سے خیبرپختونخوا میں KP-EIP پروگرام (2021-2026) چلایا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد تعلیم کو فروغ دینا ہے اور اس میں تقریباً 2.1 ملین بچوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت سکولوں میں نئے کلاس رومز بن رہے ہیں، اساتذہ کو تربیت دی جا رہی ہے، اور بچوں کو تعلیمی مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ یونیسف نے پاکستان کو 7 موبائل کلینکس بھی فراہم کیے ہیں، جو دور دراز اور مشکل علاقوں میں صحت اور ویکسینیشن کی خدمات فراہم کر رہے ہیں جن میں خیبرپختونخوا بھی شامل ہے۔
یونیسف نے Gavi کے تحت صحت اور ویکسینیشن کی بہتری کے لیے تقریباً 20 ملین امریکی ڈالر کی فنڈنگ بھی حاصل کی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے لیے چائلڈ پروٹیکشن یونٹس (CPUs) بھی قائم کیے گئے ہیں، جہاں بچوں کو نفسیاتی مدد اور قانونی مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ سوات میں برطانیہ کی FCDO کی فنڈنگ سے ایک خاص CPU قائم کیا گیا ہے جس کی تکنیکی مدد یونیسف خود کر رہا ہے، اور اس سے تقریباً 1,800 بچوں کو مدد ملی ہے۔
یونیسف نے 2024 کے لیے پاکستان میں بچوں کی ہنگامی مدد کے لیے تقریباً 140.9 ملین امریکی ڈالر کے فنڈ کی اپیل کی تھی، جس میں خیبرپختونخوا کے بچوں کے لیے بھی خصوصی فنڈز شامل تھے۔ یہ فنڈ صحت، خوراک، تعلیم، تحفظ اور صفائی ستھرائی جیسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ تاہم، یونیسف نے خیبرپختونخوا کے لیے الگ سے کوئی مخصوص رقم نہیں بتائی ہے، کیونکہ فنڈنگ عام طور پر پورے پاکستان کے منصوبوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
یونیسف اور دوسرے عالمی ادارے خیبرپختونخوا میں تعلیم، صحت، اور بچوں کے تحفظ کے لیے نمایاں فنڈنگ فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ فنڈنگ تب ہی موثر ثابت ہو سکتی ہے جب اسے شفافیت، بہترین انتظام اور ضلعی سطح پر ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ اگر اس فنڈنگ کو صحیح طریقے سے خرچ کیا جائے، تو صوبے میں بچوں کی صحت، تعلیم اور تحفظ کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔یونیسف کی فنڈنگ بہت اہم ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ اسے صحیح جگہ اور صحیح مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ فنڈز تو موجود ہیں، بس نیت، کڑی نگرانی اور شفافیت کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل بہتر ہو سکے۔
|