محترم ڈاکٹر تاشفین حیدر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبرپختونخواہ


امید تھی آپ بھی روایتی ڈی جی ثابت ہونگے . جانے والوں کو برا نہیں کہتے اس لئے کہ پیٹ پیچھے باتیں کرنے والے منافق ہوتے ہیں. جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ میں بہت ہیں. شائد آپ سے پہلے آنیوالوں کی ترجیحات الگ تھی . اور یقینا تھی اس بارے میں بات کرنا بھی غلط ہوگا. آپ نے آتے ہی جو اقدامات کئے ہیں وہ قابل تحسین ہے.نہ صرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی سطح پر بلکہ تمام اضلاع کی سطح پر بھی ‘ اور اسی لائحہ عمل کو مستقل جاری رکھنے کی ضرورت ہے.

پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے سامنے گندگی کے پانچ سال پرانے ڈھیر کو ختم کردیا بلکہ اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کوئی گند نہ پھینکے. یہ سب سے بڑی بات ہے ملازمین کیونکہ اسے جلاتے تھے ‘ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا ویلڈن, سکواش کورٹ کا سات سالہ پرانا مسئلہ جو کہ دیمک کے حوالے سے تھا ا س پر لکھا بھی اور بہت سارے افسران اپنے بچوںکو یہاں پر ٹریننگ کرواتے بھی رہے ‘ رات کو ان کیلئے سپیشل طور پر بجلی کی الگ لائن لگا دی گئی تھی کیونکہ یہ افسران کے بچے تھے لیکن آپ نے پہلی مرتبہ عام بچوں کا خیال کرتے ہوئے نہ صرف گرمی سے بچانے کیلئے انتظامات کئے بلکہ دیمک کا پرانا مسئلہ بھی حل کردیا ‘ اس پر بھی آپ خراج تحسین کے مستحق ہیں. سکواش کورٹ میںکھلاڑیوں کو گرمی کا مسئلہ تھا ‘ ائیر کنڈیشنڈ کچھ صاحبان اپنے کمروں میں لے گئے اور کچھ اکو بکو سرسیندکو ہوئے تھے اسے صحیح مقام پر لے جا کر آپ نے بہترین کام کیا. ویلڈن ‘ کھلاڑیوں کی طرف سے شکریہ

اچھی بات یہ ہے آپ نے کرکٹ اکیڈمی کا بھی آپ دورہ کیا اور اسے شروع کردیا ‘ بس اب یہاں پر اس بات کو یقینی بنا نا ہے کہ کھلاڑیوں کو گالی گلوچ نہ ہو ‘ اور نہ ہی کرکٹ بیگ کے نام پر دکانداری شروع کی جائے یا پھر پرائیویٹ کوچنگ کے نام پر وصولیاں شروع کی جائیں ‘ آپ اس معاملے میں خود آئیں ‘ کیونکہ کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں ‘ اسی طرح عمران خان کرکٹ سٹیڈیم پر بھی میچ کروائے ‘ نمائشی ‘ یہ بھی اصل اقدام ہے ‘ کرکٹ کی بحالی کی طرف`اور یقین ہے کہ اگر اسی طرح کام ہوتے رہے تو یقینا ڈائریکٹریٹ میں بہتری آئیگی .سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اس پر ایکشن بھی لیتے ہیں ‘ جس پر آپ خراج تحسین کے مستحق ہیں‘

سب سے پہلے آپ نے مینٹیننس کے نام پر جو دکانداری کا سلسلسہ شروع تھا اسے روکا اوریہ بہترین اقدام ہے قبل ازیں اخراجات ہوتے تھے اور پوچھنے والاکوئی نہیں تھا اب کمیٹیاں اس پر کام کرینگی اور کمیٹیاں بھی اس لئے اب بہترین کام کیا ہے . بہت سارے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں . لیکن آپ نے اسی طرح "ٹائٹ " رکھنا ہے.

بس آپ نے کرنا یہی ہے کہ ڈیلی ویج ملازمین کی فہرست پر نظر رکھنی ہے ‘ نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ نہ کوئی صحافی اپنا بندہ بھرتی کرائے ‘ نہ کوئی افسر اور نہ ہی کوئی اور. جو بندے کام کررہے ہیں اسی طرح ایک مستقل ملازم کے ہوتے ہوئے ان کے بھائی اور بہن کی بھرتیوں کا بھی نوٹس لیں ‘ نزدیکی ضلع میں یہ طریقہ واردات جاری ہے. اور اس میں کچھ سابقہ لوگوں کے بھی کاوشیں ہیں. رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت جو ایک سال سے زیر التوائ درخواستیں پڑی ہیں انہیں نمٹانے کی ہدایت کردیں ‘ جو کہ نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پڑی ہیں بلکہ دیگر تمام اضلاع میں جن پر ان لوگوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں

جو ملازم جس حیثیت میں ہے اس سے وہی کام لیا جائے ‘ اگر الیکٹریشن ہے تو اس الیکٹریشن ہی رکھا جائے اور اس کا ٹیسٹ لیا جائے نہ کہ بھرتی کسی اور ٹریڈ پر ہو اور پھر وہ خود ساختہ ترقی کرکے مختلف کیڈرمیں نکل جائے. اور دیکھا جائے کہ کس طرح لوگ پراجیکٹ سے ڈائریکٹ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ملازم ہوئے ہیں ‘ حالانکہ اس کیلئے منظوری وزیراعلی نے دینی ہے. یہاں پر کچھ افسران بھی ہیں جو کہ آپ کے سامنے الف سے اللہ بولتے ہیں ‘ لیکن ان کا اصل طریقہ واردات الف سے الگ ‘ ط سے طریقہ اورو سے واردات ہوتا ہے . کیمروں کی انسٹالیشن چیک کریں کب کیمرے لگائے گئے ‘ کتنی مرتبہ خراب ہوئے اور کتنے ڈی جیز آئے اور کتنے ڈی جیز کے آنے کیساتھ کتنی مرتبہ تبدیل ہوئے ‘ حقیقی طور پر اور کاغذوں میں ‘ یہ بہت بڑی واردات ہے.

اسی طرح پشاور سپورٹس کمپلیکس سے نکلنے والے جنگلے جو لالہ ایو ب ہاکی سٹیڈیم سے نکالے گئے تھے وہ مردان جاتے ہوئے کہاں پر نصب ہوئے اور کتنے نکالے گئے ‘ ہے تو پرانی لیکن اس میں بھی بہت ساری چیزوں کا آپ کو اندازہ ہو جائیگا. یہاں پر کوچز بھرتیوں میں بھی من پسند افراد کو لیا گیا ‘ اور ایسے طریقہ واردات کی گئی کہ دیکھنے اور سننے والے بھی حیران رہ جاتے ہیں ‘ جن کھیلوں میں کارکردگی تھی ان میں کوچز نہیں رکھے گئے بلکہ ان کھیلوں میں کوچز رکھے گئے جو صاحب لوگوں کیساتھ کاروبار ی مراسم رکھتے تھے . نام نہیں لونگا نہ ہی لینا چاہونگا ‘ اور کاروبار بھی اکو بکو سرسیندکو والا ‘ یعنی انسانی سمگلنگ کا کاروبار.

کچھ نام نہاد ایسوسی ایشن کے لوگ اور کوچ آپ کے افسران سے ملکر اپے کھلاڑیوں کے نام پر لاکھوں روپے ڈکار گئے ہیں اور اب اس پر خاموشی ہے ‘ نہ آپ کے افسران کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی متعلقہ ایسوسی ایشن اور کھلاڑی مفت میں رل رہے ہیں. بہت سارے کوچز ایسے ہیں جنہیں سابقہ دور میں رکھا گیا ‘ میرٹ سے بالاطاق رکھ کر . اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اور انہوں نے ٹرانسفر بھی نہیں دیکھی ‘ کیونکہ افسران کا ہاتھ ان کے سر پر تھا.بھرتی کہیں اور ہوئے اور اب کہیں اور کام کررہے ہیں .

اس طرح ایسے افسر بھی ہیں جو میرٹ اور اپنے کام کے حوالے سے بڑے دعوے کرتے ہیں ‘ تعلیمی لحاظ سے اتنے نالائق ہیں کہ ایک لائن بھی انگریزی زبان میں نہ لکھ سکیں بلکہ شائد اپنے نام کی سپیلنگ بھی نہیں لکھ سکتے ‘ ان کا طریقہ واردات ایسا ہے کہ وہ کچھ کوچز جو کوالیفائیڈ اور تعلیم یافتہ ہے اور ان کا اپنے شعبے میں بیک گرا?نڈ ہے وہ اپنے ساتھ ملا کر کھیلوں کی وزارت میں مختلف افسران سے مل کر یہ بتاتے ہیں کہ میں نے کوچز کیلئے مینوئل ٹریننگ کا طریقہ بنا لیا ہے حالانکہ نہ تو ان کی کھیلوں کے شعبے میں کوئی کارکردگی ہے اور نہ ہی تعلیمی لحاظ سے کچھ ہے ‘ بس انہیں پالش اور مالش کرنا اچھی طرح سے آتا ہے.اور اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو پھر نام میں آپ کو لکھ کر دونگا اور آپ انہیں الگ الگ کمرے میں بٹھا کر ان سے کوئی آدھ جملہ ‘ مضمون سمیت اپنے شعبے کے حوالے سے کچھ لکھیں تبھی پتہ لگ جائیگا .

اس لئے آپ ان مالشیوں اور پالشیوں سے بچ کر رہیں.

اور ہاں جو کام اچھا ہوگا اس کی ہم بھی انہی صفحات کے ذریعے تعریف کریں گے اور غلط کام کو غلط کہیں گے بھلے سے بہت سارے لوگوں کو برا بھی لگے. اور ہاں بس کردیں اب ریٹائرڈ لوگوں کی مزید اس ڈپارٹمنٹ میں جگہ نہیں ‘ نوجوانوں کو موقع دیں ‘ اس سے نہ صرف نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ ریٹائرڈ لوگوں کے کاموں پر تعریفیں سمیٹنے والوں کا چہرہ بھی سامنے آجائیگا.

شکریہ

آپ کے ڈیپارٹمنٹ کا ایک خیرخواہ

جسے آپ کے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ وائرس کہتے ہیں

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 719 Articles with 600200 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More