نہ جانے محکمہ تعلیم کتنے سیکشن
آفیسرز کے ماتحت ہے، ایک سیکشن آفیسر وہ ہیں جنہوں نے موسم گرما کی چھٹیوں
کا حکم نامہ جاری کیا ہے ، یہ موصوف یقینا مذکورہ محکمہ کے ہی افسر ہونگے۔
کوئی بااختیار ہستی وہ بھی ہے جو اساتذہ کو مردم شماری اور خانہ شماری جیسے
کاموں پر لگاتی ہے، یہ فرض بھی کسی سیکشن افسر کے حکم پر ہی ادا ہوتا ہوگا،
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ صاحب محکمہ داخلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک اور
صاحب بھی ہیں جن کے حکم کی تعمیل میں نہ صرف اساتذہ بلکہ ان کے تمام افسران
بھی گندم کی خرید کے موقع پر خریداری مراکز پر چھاپے مارنے اور باردانے کا
حساب کتاب میں لگے رہے۔یقینا یہ حکم زراعت و خوراک کے محکمہ کا ہوگا۔
اگر یہ تمام احکامات اساتذہ کو ہی ملتے ہیں تو اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے،
ایک تو یہ کہ یہ محکمہ افرادی قوت میں سب سے آگے ہے،بے اختیار لوگوں کا یہ
طبقہ اپنے مسائل کے حل کے لئے ہر وقت سیاستدانوں یاان کے ساتھیوں کے
درباروں پر موجود رہتاہے، ان لوگوں نے اپنی اہمیت خود ہی کم کی ہے، اسی لئے
حکومت کو جہاں کچھ تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت پڑتی ہے ، وہاں اساتذہ کو
طلب کرلیا جاتا ہے۔ دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ جب اساتذہ ہیں ہی فارغ ،
تو ان کو دوسرے کاموں میں مشغول کیوں نہ کیا جائے، آخر تنخواہ تو سرکاری
خزانے سے ہی جانی ہے، کیونکہ بہت سے سکولوں میں بچے برائے نام ہی ہیں، وہاں
اساتذہ کی کوئی مصروفیت نہیں ہوتی ، حکومت ان کی فراغت کو مشغولیت میں
بدلنے کے لئے ان کے ذمے مختلف کام ڈال دیتی ہے۔
سرکاری سکولوںمیں طلبا وطالبات کی تعداد پریشان کن حد تک کم ہورہی ہے ،
شہروں سے ذرا ہٹ کر اساتذہ نے اپنی بقا کا بندوبست کچھ اس انداز میں کیا ہے
کہ رجسٹروںمیں بچوں کے فرضی نام لکھ رکھے ہیں، اگر کوئی چھاپہ پڑ گیا تو
بتا دیا کہ آج اتنے بچے نہیں آئے، کئی چھٹی لے کر جاچکے ہیں، اس فراڈ کو
کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے سرکاری سکولوں کے بچوں کو 20روپے ماہانہ فیس
کے لئے پابند کردیا ہے، جس پر احتجاج بھی ہورہا ہے، یقینااس احتجاج کے
پیچھے اساتذہ کا بھی ہاتھ ہوگا، اب شاید انہیں جعلی بچوں کے بیس روپے بھی
بھرنے پڑیں گے۔یہ ”ظلم “ نہ بچے برداشت کرسکتے ہیں، نہ ان کے والدین اور نہ
ہی اساتذہ۔
بات چلی تھی گرمیوں کی چھٹیوں سے ، کسی اور طرف نکل گئی، اس سال یہ چھٹیاں
یکم جون سے پندرہ اگست تک کی گئی ہیں ، مگر ساتھ ہی ایک ’امکان ‘ بھی موجود
ہے ، جس کی بنا پر رمضان المبارک کی وجہ سے مزید پندرہ چھٹیاں ہوسکتی ہیں،
یہ امکان بھی یقین کی صورت ہی ہے ۔ یہ پندرہ روز پورے ہونے کے بعد عیدالفطر
کے امکانات روشن ہوجائیں گے، یوں ان پندرہ دنوںمیں مزید پانچ روز کا اضافہ
کردیاجائے گا، گویا کل چھٹیاں 96دن پر مشتمل ہونگی، اگر محکمہ تعلیم اور
اساتذہ کا بس چلے تو وہ سال بھر کی چھٹیا ں کرکے اپنا اپنا کاروبار چلائیں،
یہ لوگ سب کچھ کرتے ہیں ، سوائے پڑھنے اور پڑھانے کے۔
چھٹیوں کے احکامات جاری ہونے کے بعد محکمہ کے افسران کا سب سے بڑا مشن یہ
ہوتا ہے کہ وہ فوری چھاپہ مار ٹیمیں تیا رکریں، اس ظالم سماج کا سراغ ڈھونڈ
نکالیں، جو بچوں کو پڑھانے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، ان میں پرائیویٹ
تعلیمی ادارے قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں، جس کا مزہ انہیں یوں چکھایا
جاتاہے کہ ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی جاتی ہے ، اور پولیس کی مدد سے ان کا
سکول سیل کر دیا جاتا ہے، سکول مالکان چوروں کی طرح چھپ رہے ہوتے ہیں، اگر
یہ سکول مالکان بچوں سے فیسیں لینے کا جرم کرتے ہیں ، تو سرکاری اداروں سے
ان کا رزلٹ بھی سو گنا مختلف اور بہتر ہوتا ہے اورفیس سے ہی انہوں نے سکول
اور اپنا گھرچلاناہوتا ہے ۔ شاید محکمہ تعلیم کے افسران کو یہ حسد بھی
کھائے جارہا ہو کہ نجی تعلیمی اداروں کا نتیجہ کیوں اچھا آتاہے، سرکاری
تعلیمی ادارے خود کو اوپر لے جانے کی بجائے دوسروں کو اپنے برابر لانا
چاہتے ہیں۔ |