نوجوانوں کی تربیت

اقوام کی تقدیر نوجوان نسل کی تربیت پر منحصر ہوا کرتی ہے۔ ترقی و تنزل کی سینکڑوں داستانیں شاہد ہیں کہ زمانے کی تمام اقتدار اسی قوم کے ہاتھ رہی جس کی جواں نسلیں اعلیٰ کردار اور ارفع اطوار کی حامل تھیں۔ پستیوں کے نشیب چیخ چیخ کر ان اقوام کا حال سناتے ہیں جن کی نوجوان نسلیں لہوولعب، کھیل کود اور منفی رجحان کے نذر ہوگئیں۔

بحیثیت مسلم و پاکستانی قوم ہماری حالت قابل رشک نہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار، اداروں کی حالت، نظام تعلیم و تربیت قابل رحم حالت میں ہے۔ اس پر ستم یہ کہ غیر مسلم قوتیں اسی نکتہ پر کام کررہی ہیں کہ نوجواں مسلم کی سوچ و فکر کے زاویے کبھی درست سمت اختیار نہ کر پائیں۔ میڈیا کا طوفانِ باطل حق کے متوالوں کو اپنی گندی جولانیوں کا شیدا بنانا چاہتا ہے۔ تھنک ٹینک برسوں کی حکمت عملی بناکر مسلم نوجوان کو دیمک زدہ بنانے کی درپے ہیں۔ تحقیق کے میدانوں سے شاہین بچوں کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ خطرناک حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔ اسی بناء پر ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لیے نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن کو اس طرح پیش کیا کہ آج ہمارے طالبعلم اپنی آفاقی تہذیب کو چھوڑ کر اسی تہذیب کے پیکر بن چکے ہیں۔ اور اپنے مذہب، اپنی اقدار و روایات پر شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ مسلم طلبہ کو علم سے دور کرنے کے لیے اغیار لوگوں نے کتاب سے دور کردیا۔ وہ نوجوان جس نے ملت کی تقدیر بدلنا تھی اس کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیے جو اپنے ہی ملک و مفاد پر ضرب لگا رہا ہے۔ اپنی منزل سے بے خبر ناچ گانے، بیہودہ محافل (فنکشنز)، مخلوط تعلیم کی آڑ میں بے حیائی و فحاشی میں مگن ہوکر ملت کے ستارے کو روشنی سے محروم کررہا ہے۔

توحید کے حسن، سنت نبوی کے رنگ، قرآن کے انقلاب سے محروم طلباءامت کے زوال کی خوں رنگ حالت کی عکاسی کررہے ہیں۔ اس کی فکر پر جمود، سوچ پر قنوطیت وجود پر عیش وعشرت، نگہ پرستی کا راج ہے۔
گلا گھونٹ دیا تیرا اہل مکتب نے
کہاں سے آئے گی صدا لا الٰہ الا اللہ

صفہ سے دیا جانے والا درس انقلاب، بدر و حنین کی فضاؤں سے ملنے والا پیغام، سب کچھ بھول گیا اور علم کے نام پر عشق مجازی کے افسانے اس کی منزل کو دور کرگئے۔

سائنس کی وہ ترقی جس کی بنیاد جابر بن حیان، ابو یعقوب الکندی، اور ابن الہیثم جیسے مسلم سائنسدانوں نے رکھی تھی، امت مسلمہ کی پہنچ سے دور ہماری حالت زار پر ماتم کررہی ہے۔ اور منتظر ہے کہ اس قوم کا کوئی فرد، گروہ یا طلباء پھر سے اسے ترقی بخشیں اور اپنی قوت و صلاحیت سے سائنسی میدان میں آگے بڑھ جانے پر صرف کریں، مگر ہنوز ہمارا یہ طالب علم طابع نفس اورشیطان کی راہوں پرناچ رہا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کامرانی کی نئی راہوں کی نشاندہی کی تو ہماری ابتری اور گہری ہوگئی۔ غیر مسلم طلباءنے اسے تحقیقی سرگرمیوں میں استعمال کرکے ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کردیں مگر آہ ہماری بھٹکی ہوئی اس نسل نے اسے اپنی اخلاقی و روحانی گراوٹ کا ذریعہ بنالیا۔ برائی و بے حیائی کے رنگ اور گہرے ہوتے چلے گئے۔

لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام کو ایسا مربوط طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جس سے ہماری طلبہ کی فکر و ذہنی نشونما ہو اور بھٹکی ہوئی روح پھر سوئے حرم چل پڑے۔ اسے یہ فکر دی جائے کہ
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

اور اس نسل کو جو جنسی تسکین کو اوڑھنا بچھونا بنا چکی ہے اور مخلوط تعلیم نے اس کے اذہان کو جنسیت زدہ کر دیا ہے۔ اسے عفت و حیا، عصمت و پاکیزگی کا پیکر بنایا جائے تاکہ پستی کا سفر ختم ہوسکے۔ ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے کہ یہ بنجر زمیں بھی زرخیر ہوسکے۔
نہیں ہے نو امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

توحید و رسالت کے دروس، اولیاء اللہ کی عشق و مستی کی داستانیں اس کے شعور کو اجاگر کریں اور وفا کے درس اس کو حسن حقیقی سے روشناس کردیں۔

ایسی تنظیم بنائی جائے، جس کا مقصد طلبہ کی ذہنی و فکری تربیت کرنا ہو اور انداز و دستور بھی قرآن و سنت کا آئینہ دار ہو۔جس کے دامن میں اس حرماں نصیب گروہ کا درد بھی ہو اور انکی حالت زار پر آہ وزاری اور اشک بھی ہوں اور ےہ بھی زیر نظر رہنا ضروری ہے۔
٭جو طلبہ کو سیاسی و ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔
٭جو ان کا خون اقتدار کے حصول کے لیے نہ بہائے۔
٭جو اسے فوقیت، لسانیت، علاقائیت کا درس نہ دے۔
٭جو اس کے ہاتھ سے قلم چھین کر اسلحہ نہ تھمائے۔
٭جو طلبہ کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا نہ بنائے
٭جو انہیں عشق مجازی میں کھوکر مجنوں بننے کا ماحول نہ دے بلکہ عشق صدیق و بلالی کی گرمی بخشے۔
٭جو اسے نصابی سرگرمیوں میں مصروف کرکے سائنس و ٹیکنالوجی کو عزت مسلم کی بحالی کے لیے درس دے۔
٭جو اسے غیر مسلم تہذیب و ثقافت کی ظاہری چمک سے نکال کر تہذیب محمدی کا عملی نمونہ بنائے۔
٭جس کو ایسی اعلیٰ صفت قیادت ملی ہو جس کی نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جال پرسوز ہو۔
٭جس کے پاس آفاقی لائحہ عمل ہو جو مسلم طلبہ کو موجودہ پستی سے نکال کر بلندی پر لے جاسکتا ہو۔
٭جو تنظیم صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے میدان عمل میں اتری ہو۔
٭جس کے دامن میں توحید باری، عشق رسول، محبت صحابہ و اہل بیت، صحبت اولیاءکی دولت کے موتی ہوں۔
٭جس کا دامن محبت کے خوش رنگ پھولوں سے بھرا ہو اور فرقہ واریت و تشدد کا کوئی کانٹا نہ ہو۔

اگر اس تناظر میں مسلمہ مذہبی و سیاسی تنظیموں کا جائزہ لیا جائے تو افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ سبھی کا دامن تنگ ہے۔ اسی لیے برسوں کی جدوجہد نسل جواں کی سوچوں کی دھارا نہ موڑ سکی۔ اور یہ پھول خزاؤں کی منحوس فضاؤں میں مرجھاتے چلے جارہے ہیں۔

مگر دیکھنا یہ ہے کہ اگر نوجوان تنگ نظر اور مغربی تہذیب کا دلداہ ہو تو یہ راستہ بہت کٹھن اور منزل دشوار نظر آتی ہے، مگر لیڈر کی فراست، پیغام کی آفاقیت اور قوم کا درد ہو تو وحشت و بربریت کے پیکر محبت کے امین بن جاتے ہیں۔ لسانیت، قومیت اور فرقہ واریت کے بتوں کے پجاری اسلامی مساوات کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے دل عشق مجازی سے نکل کر عشق الٰہی میں کھو جاتے ہیں۔ کتب سے رابطہ مضبوط ہو تو علم کے میدان کے شاہین ، ملک و قوم کے لیے مفید ، کالجوں، یونیورسٹیوں کے بہکے ہوئے ماحول میں شرافت و حیا کے چراغ بن جاتے ہیں۔

اگر اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی صداقت پر نظر ڈالیں تو دنیا کی حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ اس کی پوری تعلیمات میں زندگی کے ہر گوشے سے متعلق راہنمائی ملتی نظر آتی ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہمیں کھود کو بدل کر اسلام کے اصلی زانچے میں ڈھالنا ہوگا اس سے پہلے کہ
٭آپ کی فکری صلاحیتیں زنگ آلود ہوجائیں۔
٭غیر مسلم قوتیں آپ کو اپنا آلہ کار بنالیں۔
٭آپ سیاست و اقتدار کی بھینٹ چڑھادیے جائیں۔
٭آپ کا قلم و کتاب سے رشتہ کمزو ہوجائے۔
٭آپ کی نگاہوں سے منزل پوشیدہ ہوجائے۔
٭ملک و ملت کی امیدیں دم توڑ جائیں۔

تعلیم کے حصول، کردار کی پاکیزگی و عظمت، اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کے خاتمے، اخلاقی و روحانی عظمت کے حصول اوراسلامی ثقافت کے اصولوں کی ترویج کے لیے خود کو تیار کریں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کریں جس سے آپکی تربیت کی جھلک صاف واضح نظر آئے اور ان اداروں کے طلباء ملک و قوم کو امید کی نئی کرن دکھا سکیں ۔
Fayyaz Ahmed Farooq
About the Author: Fayyaz Ahmed Farooq Read More Articles by Fayyaz Ahmed Farooq: 15 Articles with 67855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.