ایک رات کا ہیرو

27 دسمبر 2007 کی رات جو خوف اور موت کا ننگا ناچ کراچی کی سڑکوں پر ہوا جس طرح انسانیت کی تذلیل کی گئی اسکی ہولناکی مدتوں بھلائی نہیں جاسکے گی اسی رات ایک ایسا ہیرو بھی تھا جو اپنی جان کی پرواہ ...


اس روز اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا مزدوری پر جانے کا مگر اسکو پیسے ملنے کی امید نے چارپائی سے اٹھنے پر مجبور کردیا اس کے باقی ساتھی کام پر جا چکے تھے کل ۸ لوگ اس ایک کمرے میں رہتے تھے۔۔۔
پچھلے ۱۹ دنوں سے وہ مستری نصیر کے ساتھ انڈسٹیریل ایریا میں ایک پلاٹ پر کام کر رہا تھا لیکن گذشتہ ۱۵ دنوں سے دیہاڑی نہیں مل رہی تھی مستری بھی پریشان تھا مگروہ امید کے ساتھ دل لگا کر کام کر رہے تھے کہ ٹھیکیدار دیہاڑی دے ہی دے گا۔
گذشتہ روز ٹھیکیدار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ساری ادائیگی کر دے گا کیونکہ پلاٹ کی دیواریں تقریبا مکمل ہو چکی تھیں مستری نصیر کے اندازے کے مطابق تو آج کام ختم ہو جانا تھآا۔۔۔۔

یہی کچھ سوچتا ہوا رحمتاللہ اٹھ کھڑا ہوا منہ پر پانی ڈالا اور جلدی جلدی مستری کے گھر کی طرف چل پڑا مستری نصیر اسکا ہی انتظار کر رہا تھا موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔۔۔۔
راستے میں رک کر دونوں نے پٹھان کے ہو ٹل پر چائےکے ساتھ ۲ سوکھے ہوئے کیک پیس کا ناشتہ کیا اور پلاٹ پر جا پہینچے اور کام شروع کر دیا
دونوں نے دوپہر تک آدھا کام مکمل کرلیا
مگر ٹھیکیدار کا کوئی اتا پتا نہیں تھا
تھوڑی دیر میں چوکیدار نے کہا کہ وہ نماز اور کھانا کھانے کیلئیےجا رہا ہے تم لوگ بھی کھانا کھا آو۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بھی اٹھے اور کھانا کھانے ڈھابے پر جا پہینچے مستری نصیر نے رحمتاللہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس پیسے ہیں رحمتاللہ نے جیب سے ۱۰۰ روپئےکا ایک میلا سا نوٹ نکال کر مستری کے ہاتھ پر رکھ دیا
چلو پھر دال فرائی منگواتے ہیں اللہ نے چاھا تو آج پیسے مل ہی جائیں گے۔۔۔۔
ہاں استاد آج تو پیسوں کی بہت ضرورت ہے
گھر بھیجنے ہیں آج یہاں سے دیہاڑی مل جائے تو مسلئہ حل ہو جائے گا
مستری نصیر اور رحمتاللہ کا ساتھ ۵ سالوں کا تھا مستری رحمتاللہ کی محنت اور ذمہ داری سے کام کرنے کی وجہ سے ہر کام پر ساتھ رکھتا تھا ۵ سالوں میں دونوں نے بہت سی پریشانیاں بھی جھیلیں تھیں اور ایک دوسرے کے کام بھی آتے رہے تھے رحمتاللہ کا تعلق مردان سے تھا جبکہ مستری نصیر جنوبی پنجاب سے تھا
مستری ادھیڑ عمر کا تھا جبکہ رحمتاللہ کی عمر محض ۲۱ سال تھی اور وہ ۱۵برس کا نوجوان تھا جب آنکھوں میں خواب سجائے اپنےباپ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنےکراچی آیا تھا اسکا باپ مستری نصیر کا استاد تھا
باپ نے اسک داخلہ سائٹ کراچی میں واقع ایک ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ میں کروادیا تھا بدقسمتی سے ایک ٹریفک حادثے میں رحمتاللہ کا باپ مارا گیا
باپ کے مرنے کے بعد اسکے گھر کی ذمہ داریوں نےرحمتاللہ کو تعلیم سے دور کردیا قلم کی جگہ بیلچے نے لے لی

کھانے کے بعد چائے پیتے ہوئے مستری کے ذہن میں اپنی بیٹی کی شادی کے حوالے سے حساب کتاب چل رہا تھا
اور دوسری طرف رحمتاللہ کے دماغ میں ماں کی باتیں گونج رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
ماں چاہتی تھی کہ اب جب رحمتاللہ واپس آئے تو اسکی شادی کردے مگر رحمتاللہ اپنے بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاھتا تھا جو ابھی بارہویں جماعت کا طالبعلم تھا
ساتھ ساتھ ایک پرائویٹ ادارے سے کمپیوٹر سائینس میں ڈپلومہ بھی کر رہا تھا دونوں بہنیں ابھی پرائمری اسکول میں پڑھ رہی تھیں اسکو اپنی بہنوں کا خیال آیا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھی انکی معصوم باتیں یاد آنے لگیں رحمت کی پلکیں بھیگنے لگیں۔۔۔
چل رحمت اب چلتے ہیں مستری نصیر کی آواز سے وہ اپنی سوچوںکی دنیا سے باہر نکلا اور فورا اٹھ کھڑا ہوا مستری نصیر کو اسکی یہ عادت بہت پسند تھی کہ وہ استاد کی ایک آواز پر فورا کھرا ہو جاتا تھا
کام کرتے ہوئے رحمتاللہ اپنی سوچوں کو پیچھے چھوڑ چکا تھا
شام تک دونوں نے اپنا کام مکمل کرلیا
اب مستری نے وقت دیکھا تو شام کے چھ بج چکے تھے مستری نے ٹھیکدار کو فون کرنے کے لئے اپنا پرانا سا موبائل فون نکالا جس پر ربر بینڈ لپٹا ہوا تھا
کال ملائی دوسری کوشش میں ٹھیکےدار نے فون اٹھایا
ہاں نصیرے کام ختم ہوگیا ناں بس میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں
چلو شکر ہے رحمتاللہ کے منہ سے بےاختیار نکلا
یہ دسمبر کی ایک قدرے خنک شام تھی اندھیرا ہو چلا تھا
مغرب کی نماز پڑھ کر دونوں چوکیدار کی پلنگ پر بیٹھ گئے
مستری نصیر سگریٹ کے کش لگانے لگا چوکیدار نے اتنی دیر میں قہویٰ بنا لیا تینوں چسکیاں لینے لگے
گھنٹہ گذر گیا ٹھیکیدار کا کچھ پتہ نا تھا اب مستری بےچین ہونے لگا اس نے دوباہ کال ملائی مگر سگنلز نہیں آرہے تھے
وہ کوشش کرتا رہا مگر بےسود
نصیر چاچا کیا ہوا رحمتاللہ نے پوچھا پتہ نہیں سگنلز غائب ہیں
اب کیا کرئیں واپس چلیں کیا؟
مستری نے غصے سے کہا نہیں آج پیسے لے کر جائیں گے
اسی دوران دروازے پر گاڑی رکنے کی آواز آئی
تینوں چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے
گیٹ پر ٹھیکےدار موجود تھا
یار نصیرے پتہ نہیں کیا ہوا ہے بہت ٹریفک جام ہے موبائل بھی کام نہیں کر رہا ہے میں حبیب بینک سے یہاں تک ایک گھنٹے میں بہت مشکل سے آیا ہوں
لوگ کہہ رہے تھے کوئی بڑا رولا ہے
اللہ رحم کرے آجاو اندر حساب کرلئیں
پھر حالات معلعوم کر کے نکلیں گے
رحمتاللہ نے ملنے والے پیسے اللہ کا شکر اداکر کے اپنی شلوار کے نیفے میں اڑس لیے
اچانک فائرنگ کی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں ایسا لگ رہا تھا جنگ شروع ہو گئی ہو چاروں افرد محتاط انداز میں گیٹ کی طرف بڑھے کہ باہر کا جائزہ لئیں کہ
کسی کے کودنے کی اواز سے وہ چونک پڑے چوکیدار نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا وہ ۳ نوجوان تھے گھبرائے ہوئے تم کون ہو اور یہاں کیوں چھلانگ لگائی
ہم برابر والی گارمینٹس فیکٹری میں کام کرتے ہیں کچھ لوگ فیکٹری میں گھس آئے ہیں۔۔۔۔۔
انھوں نے گولیاں چلائیں اور لوٹ مار شروع کردی ہم اپنی جان بچا کر چھت پر چلے گئے اور وہاں اس پلاٹ میں کود گئے
ہوا کیا کیوں ایس کر رہے ہیں ٹھیکےدار نے نوجوانوں سے پوچھا
پنڈی میں بےنظیربھٹو کو قتل کردیا ہے
ارے تو اس میں فیکٹری والوں اور اسمیں کام کرنے والوں کا کیا قصور ہے؟؟؟؟
اب یہ سات لوگ محتاط طریقے سے گیٹ کی طرف بڑھے تا کہ باہر کا جائزہ لئیں
گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور شور و غوغا بڑھتا جارہا تھا
ٹھیکےدار نے گیٹ کی جھریوں سے جھانک کر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے ہجوم دروازے کے ساتھ ہی کھڑا تھا کسی نے پتھر مار کر اسکی گاڑی کا شیشہ توڑ ڈالا پھر کسی نے جلتی ہویَ مشعل دکھا کر اسکی گاڑی کو نذر آتش کردیا
ابھی وہ سوچ ہی رہا تحا کہ کیاکرے کے دروازے پر لاتیں ڈنڈے برسنے لگے گالیوں اور مغلظات کے ساتھ پتھربھی پھینکے جانے لگے
ٹھیکے دار نے چوکیدار سے سرگوشی میں کہا خان باہر سارے پٹھان ہیں ہم چھپ رہے ہیں تم انکو مطمئن کرو کہ اند ر کوئی وہ لوگ اندھیرے میں گم ہو گئے ………. نہیں
چوکیدار نے ان لوگوں کے چھپ جانے کے بعد زور زور سے پشتو میں پوچھنے لگا باہر کون ہے
جواب بھی پشتو میں دیا گیا دروازہ کھولو
چوکیدار نے دروازہ کھولا اور ہجوم اندر گھس آیا اندر کوئی ہے پشتو میں سوال ہوا نہیں مزدور تھے شام میں چلے گئے ادہر ہم ہے بس تو باہر گاڑی کس کا تھا
ام کو کیا معلوم کس کا تھا ادہر کوئی نہیں آیا۔۔۔
ایک دو لوگوں نے اندر آکر دیکھنے کی کوشش کی مگر انکو یہی سمجھ آیا کہ خالی پلاٹ ہے اور ایک جگھی ہے جہاں چوکیدار رہتا تھا انھوں نے وقت ضایع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور واپس چلے گئے
اب ساتوں لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کرنا چاہیے
رحمتاللہ نے کہا چاچا میں باہر جا کر دیکھتا ہوں
ہاں یہ ٹھیک ہے جب تک ہم ہیں تمھارا انتظار کرتے ہیں
رحمت اللہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گیٹ کی طرف چل پڑا مستری نصیر نے آواز دے کر کہا بیٹا خیال رکھنا
چاچا فکر نا کرو اللہ مالک ہے
تھوڑا سا گیٹ کھول کر باہر جھانکا ارد گرد کوئی نہیں تھا وہ باہر نکل آیا
ہر طرف آگ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی
وہ بنا گھبرائے جائزہ لینے لگا کہ اچانک اس کی نظر چند لوگوں پر پڑی وہ ایک برقعہ پوش کو اٹھائے ایک فیکٹری کے ادھ کھلے گیٹ سے باہر آتے دکھائی دئیے پہلے تو رحمتاللہ یہ سمجھا کہ یہ جان بچانے والے ہیں لیکن اس نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ دیکھا کہ چند عورتیں اور لڑکیاں چیخ چیخ کر روتی ہوئی باہر آئیں اور انکے پیچھے کلاشنکوف تانے ہوئے لوگ انکو دھکا دیتے ہوئے گالیاں بکتے ہوئے نمودار ہوئے
اب رحمتاللہ سارا معاملہ بھانپ گیا اسکا غیور خون کھول اٹھا مگر اس نے حکمت سے کام کرکے انکو بچانے کا فیصلہ کیا
وہ مناسب فاصلے سے انکا پیچھا کرنے لگا چلتے چلتے اس نے ایک جلتا ہوا ڈنڈا
اٹھا لیا
اس موٹے ڈنڈے کے سرے پر کپڑا لپیٹ کر آگ لگائی گئی تھی
اس نے دیکھا کہ وہ ۱۱ لوگ تھے اور لڑکیوں کی تعداد ۸ تھی
ایک لڑکی بیہوشی کے عالم میں تھی جس کو ایک بدمعاش نے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا ان لوگوں کے پاس اسلحہ بھی تھا
اور رحمتاللہ بنا ہتھیار
اس نے فیصلہ کیا کہ اسے سب سے پہلے ایک کلاشنکوف حاصل کرنی ہے جب ہی وہ ان مظلوم خواتین کو ان ظالموں سے بچا سکتا ہے

وہ بھاگتا ہوا ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگا
کسی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بدمعاش ٹھٹکے اور بندوقوں کا رخ اسکی طرف موڑلیا مگر ایک پٹھان لڑکے کو دیکھ کر رک گئے ایک بدمعاش نے پوچھا کون ہو
اس نے اپنا نام سلیم خان بتایا اور کہا پیچھے فیکٹری میں بہت پیسہ ہے وہ تجوری میں ہے میں ادھر کام کرتا ہوں جانتا ہوں کدھر ہے ہم آپس میں باںٹ لئیں گے پیسہ
تم لوگ ساتھ چلو اب ان میں مزاکرات شروع ہوگئے
کہ کیا کرنا چاہیے نوٹوں کا سن کر انکی رال بھی ٹپک رہی تھی اور ہاتھ آئی مظلوم لڑکیوں کو بھی چھوڑنا نہیں چاہ رہے تھے
انھوں نے طے کیا ۲ آدمی اس لڑکے کے ساتھ جائیں گے
اور باقی اس سامنے والی بلدنگ میں انکا انتظار کریں گے
جلدی سے کام کر کے واپس آجاو
رحمتاللہ ۲ بدمعاشوں کو ہمراہ لئے چل پڑا وہ بہت پرسکون تھا
چلتے چلتے رحمت نے ایک غنڈے سے پوچھا یہ لڑکیاں کہاں سے ہاتھ لگیں اور کہاں لیکر جاو گے
بدمعاش نے کہا ایک گارمینٹ فیکٹری سے اٹھائی ہیں اور ڈیرے پر لے کر جا رہے ہیں
وہ ایک فیکٹری میں داخل ہوئے وہ دونوں بدمعاش رحمت اللہ کے ساتھ چلتے ہوئے عمارت کی سیڑھیوں تک پہنچے
رحمتاللہ آہستہ آہستہ ان سے آگے نکلا اور پھر سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر دونوں کو زوردار دھکا دیا دونوں بدمعاش اپنا توازن کھو بیٹھے اور گر پڑے کلاشنکوف انکے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور دونوں لڑکھتے ہوئے نیچے کی طرف چلے گئے رحمتاللہ نے پھرتی سے ایک کلاشنکوف اٹھا لی اور دوسری کلاشنکوف اٹھانے کے لئے تیزی سے نیچے کی طرف آیا اس دوران ایک بدمعاش کو سنبھلنے کا مو قعہ مل گیا وہ بھی کلاشنکوف کی طرف لپکا مگر دیر ہوچکی تھی رحمتاللہ نے کلاشنکوف کا بٹ زوردارطریقے سے اسکے مںہ پر دے مارا اور وہ ایک زوردار آواز نکال کر گر پڑا۔۔۔۔۔
رحمت اللہ نے دوسری کلاشنکوف کندھے پر لٹکائی اور نیچے اترا نیچے دوسرا بدمعاش ذخمی حالت میں کراہ رہا تھا رحمتاللہ نے ایک بٹ اس کے سر پر مارا اور تیزی سے نیچے اترا
اس نے اللہ سے دعا کی یا اللہ ان ظالموں کا انجام میرے ہاتھوں سے ہو
وہلمبے قدم اٹھاتا ہوا اس جانب چل پڑا جہاں دوسرے بدمعاش اسکا بےچینی سے انتظار کر رہے تھے
وہاں پہینچ کر اس نے جائزہ لیا وہ جائزہ ایک ماہر کا جائزہ لگ رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے اس کا واسطہ ایسے حالات سے کبھی نہیں پڑا تھا

وہ بلڈنگ میں داخل ہو گیا مگر رینگتا ہوا وہ ہلکی سے ہلکی آہٹ پر دہیان رکھے ہوئے تھا اسکو پتہ تھا وہ اکیلا اور دشمن ۹ تھے مگر اسکو ان عورتوں اور لڑکیوں کی عزت و آبرو اور جان بچانی تھی
اس نے کلاشنکوف کا رخ آسمان کی طرف کیا اور ۲ فائر کئیے
فورا ہی۳ آدمی اس طرف آتے دکھائی دئیے جو آپس میں زور زور سے بولتے ہوئے آرہے تھے وہ قطئی بے خوف تھے لگتا تھا انکو پتہ تھا کوئی بھی مظلوموں کی مدد کو نہیں آئے گا انکواپنا گھناونا کھیل کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے۔
ایک قتل کو جواز بنا کر لاکھوں مظلوموں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے کو نکلنے والے گروہ داراصل درندے تھے
رحمتاللہ نے انکو نشانے پر لیا ہوا تھا پھر رحمتاللہ نے ٹریگر دبا دیا تینوں پل بھر میں جہنم واصل ہوئے
فائرنگ کی آوازیں سن کر باقی بدمعاش بھی اپنی موت کی طرف دوڑے آئے
اور رحمتاللہ جس نے ۹ برس کی عمر میں اپنے دادا سے کلاشنکوف چلانا سیکھی تھی ایک ایک کر کے سارے بدمعاشوں کو موت بانٹنے لگا
وہ کٹی پتنگ کی طرح گرتے رہے
اب رحمت اٹھا اور تیزی سے لاشوں کی طرف بڑھا اس نے تعداد گنی ۸ بدمعاشوں کی لاشوں کا ڈھیر اسکے قدموں میں پڑا تھا
اب بھی ایک بدمعاش ذندہ باقی تھا جو اپنے انجام سے بے خبریقینا ان خواتین کو یرغمال بنائے اپنے ساتھیوں کا انتظار کر رہاہوگا۔۔۔۔۔۔
وقت ضائیع کئیے بنا رحمت اللہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھا
تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اس نے اس مقام کو ڈھونڈ لیا جہاں وہ موجود تھا یہ ایک ہال نما کمرہ تھا جہاں بہت سا سامان بھی موجود تھا یہ اس فیکٹری کا وئیر ہاوس تھا ایک بلب جل رہا تھا تمام خواتین ایک طرف بیٹھی رو رہی تھیں----
اور وہ مردود انکو گالیاں دے کر خاموش رہنے کا کہہ رہا تھا اس نے انکو دھمکی دی کے اب اگر آواز نکالی تو وہ گولی مار دے گا
اچانک سناٹا ہو گیا ہلکی سسکیوں کی آوازیں اب ماحول کو اور ہولناک بنا رہی تھیں۔
رحمتاللہ نے اپنی چپلیں اتار دیں اور بےاواز قدموں سے آگے بڑھا
اس نے بدمعاش کو اپنے نشانے پر لیا اور فائر کردیا گولی اسکے چہرے پر لگی اور وہ نیچے گر پڑا
رحمت اللہ دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا جب اندر موجود خواتین نے ایک پٹھان لڑکے کو کلاشنکوف سمیت آتے دیکھا تو وہ خوف ذدہ ہو کر چیخنے لگیں
رحمتاللہ نے زور سے کہا باجی پریشان نہیں ہونا میں آپ کی مدد کے لئیے آیا ہوں میں نے ان سب کو مار دیا ہے بس اب ہم کویہاں سے نکلنا ہے
میں ایک مسلمان ہوں آپ سب میری بہنیں ہو آپ کی حفاظت میں اپنی جان دے کر کروں گا۔۔۔۔
اب وہ سامنے آچکا تھا اسکا معصوم چہرہ دیکھ کر خواتین آگے بڑھیں اور اسکی طرف ممنوعیت سے دیکھنے لگیں ان میں سے ایک نے کہا ایک لڑکی بیہوش ہے
رحمتاللہ کو یاد آگیا کہ ایک لرکی کو ایک بدمعاش نے کندھے پر اٹھایاہوا تھا
باجی کو ہوش میں لانا ہو گا آپ لوگ کوشش کرو نا
وہ سب اس لڑکی کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگیں
اس دوران رحمتاللہ بہت چوکنا تھا
بالآخر اس لڑکی کو ہوش آگیا ہوش میں آتے ہی وہ رونے لگی رحمتاللہ پاس آیا اور معصومیت سے بولا باجی رہنا ختم کرو اور ہمت کرو یہاں سے نکل کر محفوظ جگہ جانا ہوگا
ورنہ ظالم ہم کو ڈھنونڈ لیں گے
میرے ساتھی بھی ایک جگہ چھپے ہوئے ہیں انکی مدد بھی کرنی ہے آپ سب کو ہمت کرنی ہوگی اور میرے ساتھ چلنا ہوگا
تھوڑی دیر میں تمام لڑکیاں رحمتاللہ کے ساتھ وہاں سے نکل پڑیں
رحمتاللہ نے چلتے ہوئے پوچھا آپ میں سے کوئی ہے جو ایک کلاشنکوف پکڑ لے
ایک لڑکی نے کہا بھائی مجھے دے دو گن رحمت نے اسکا شکریہ ادا کیا اور کلاشنکوف اسکے حوالے کردی
جب بدمعاشوں کی لاشوں کے قریب پہینچا تو رحمت نے انکی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا تلاشی میں ۲ عدد ماوزر اسکے ہاتھ لگے اسکے علاوہ ایک بدمعاش کی پیٹھ پر بندھے بیگ سے مال مسروقعہ برامد ہوا جس میں پیسے موبائل فونز اور طلائی زیورات جس میں چین انگھوٹیاں شامل تھیں رحمتاللہ نے بیگ اپنی پیٹھ پر باندھ لیا
اب رحمتاللہ آگے آگے چلتے ہوئے فیکٹری کے گیٹ کے قریب آگیا
اس نے لڑکیوں کو کہا وہ سب ننگے پیر ہو جائیں اپنی چپلیں سینڈلیں ہاتھ میں پکڑ لئیں
لڑکیوں نے اس کی بات پر فورا عمل کیا ۔۔۔۔۔
اس نے کہا آپ سب خامشی سے بیٹھیں میرا انتظار کرئیں میں باہر جا کر حالات دیکھ کر ابھی آتا ہوں
سب لڑکیوں نے اسکے باہر جاتے ہی دعائیں کرنا شروع کر دئَیں
رحمتاللہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ دور دور تک صرف گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی
چند فیکٹیریاں بھی آگ کے شعلوں کی نظر ہو چکی تھیں
اس کو گاڑیوں کی آوزیں محسوس ہوئیں وہ ایک آڑ میں چھپ گیا چند لمحوں میں ۲ گاڑیاں اسکے سامنے سے گذریں جس میں نقاب پوش اسلحہ بردار موجود تھے وہ عین اسکے سامنے رکے چارو ں طرف جائزہ لیا اور چل دئیے اب سناٹے کا راج تھا وہ پلٹا اور اس نے لڑکیوں سے کہا آپ ہمت کرئیں اور نکلیں اگر کوئی گاڑی اس طرف آئی تو جو میں کہوں گا وہ کرنا سب نے اثبات میں سر ہلا دیا لڑکیاں بری طرح ڈری ہوئی تھیں
اب وہ سڑک کے درمیان تھے کہ انھوں نے گاڑی کی آواز سنی رحمت نے زور سے کہا دوڑو اور دوڑتے ہوئے سڑک کے دوسری طرف پہنچ کر رحمت پلٹا اور سڑک کے وسط میں پہینچ گیا لڑکیاں دوسری طرف جا کر بیٹھ چکی تھیں اور اندھیرے کا حصہ بن چکی تھیں لیکن جب سامنے سے گاڑی آتی تو بہت مکن تھا اسکی تیز روشنی انکی موجودگی ظاہر کر دیتی
خوش قسمتی سے جو گاڑی وہاں پہینچی وہ ایک کھٹارہ سی ھائی لکس تھی جس کی ہیڈلائٹس بھی بہت مدہم تھی رحمتاللہ کو دیکھ کر انھوں نے گاڑی روک لی
گاڑی میں ۲ پٹھان موجود تھے جو کے رحمتاللہ کو شکل سے ہی بدمعاش نہیں لگے مگر وہ کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاھتا تھا اس نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو جواب میں پشتو میں کہا گیا کہ وہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے پھنس گئے تھے اب گھر جا رہے ہیں
رحمت نے انکو جانے کا اشارہ دیا۔۔۔
گاڑی کے وہاں سے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ پلاٹ کی طرف جانے لگے رحمتاللہ نے لڑکیوں کو مختصرا پلاٹ اور وہاں پناہ لئے ہوئے لوگوں کے بارے میں بتا دیا ۔۔۔
گیٹ پر پہینچ کر رحمت نے کہا کہ وہ پہلے اندر کے حالات کا جائزہ لے گا
وہ گیٹ پر چڑھ کر دوسری طرف کود گیا اندر جا کر اس نے جائزہ لیا اور آوازلگائی تو چوکیدار اور مستری نصیر کی آوازوں نے اسکا حوصلہ بلند کردیا اس نے دروازہ کھول تمام لڑکیوں کو اندر بلالیا
اتنی دیر میں چوکیدار قریب آچکا تھا مختصرا احوال بیان کرنے کے بعد سب ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے
مستری نصیر رحمتاللہ کا ہاتھ چومے جا رہا تھا آنسو اسکی آنکھوں سے بہے جا رہے رحمت تو اتنا بہادر ہے میرے بچے مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا
رحمت اللہ نے کہا چاچا ہمیں صبح ہونے سے پہلے یہاں سے نکل کر محفوظ علاقے کی طرف جانا ہوگا
رحمتاللہ نے لڑکیوں سے کہا آپ لوگ ہاتھ منہ دھو لیں
باچہ خان چوکیدار قہویٰ بنانے چلا گیا
قہویٰ پینے کے بعد ٹھیکے دار نے کہا میری گاڑی ظالموں نے جلا دی اس میں ۲ لاکھ روپئے بھی تھے میں کہاں سے لاوںگا اتنے روپئے تھلے والوں کو ادائیگی کہاں سے کروںگا تو رحمت اللہ کو بلوائیوں سے ملنے والا بیگ یاد آگیا
اس نے لڑکیوں سے مخاطب ہوکر کہا آپ لوگ اپنا سامان پہچان سکتی ہو
ٹارچ کی روشنی میں اس نے ایک ایک کر کے موبائل فون نیچے رکھنا شروع کر دیا سارے موبائل آف تھے
لڑکیوں نے اپنا موبائل دیکھ کر اٹھانا شروع کیا وہ موبائل پا کر بہت خوش تھیں سب نے اپنے اپنے گھر والوں کو اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کیلیئے فون کرنا شروع کر دیا وہ زار و قطار رو رہی تھیں ماحول میں افسردگی چھا گئی
رحمتاللہ نے آواز ہلکی رکھنے کا کہا
پھر اس نے طلائی زیورات نیچے رکھ دئیے اور کہا جس کا ہے وہ لیتا جائے
پھر جو زیورات بچ گئے وہ اس نے بیگ میں رکھ دئیے
آپ لوگون کے پاس پیسے تھے آپ اپنی رقم بتا تی جائیں میں آپ کو دیتا جاونگا
کسی کے ۱۲۰۰ کسی نے کہا ۵۰۰ اور کسی کے پاس قابل ذکر پیسے تھے ہی نہیں وہ سب دینے کے بعد اس نے بیگ میں موجود رقم دیکھی تو وہ بہت ذیادہ تھی اس نے ٹھیکےدار عبدالرحمان سے مخاطب ہو کر کہا یہ بیگ آپ رکھ لو مجھے نہیں پتہ کتنی رقم ہے کم یا ذیادہ
میں ان کے وارثوں تک نہیں پہنچا سکتا آپ کے کام آجائے تو اللہ راضی ہوگا
ٹھیکےدار نے روتے ہوئے بیگ لے لیا
رحمتاللہ ایک ہیروبن چکا تھا
وہ اب بھی مضطرب تھا اسکو تمام لڑکیوں کو بحفاظت گھر پہنچانا تھا
۵لڑکیاں اورنگی ٹاون کے علاقے گلشن بہار ضیا کالونی سے تعلق رکھتی تھیں
۲سگی بہنیں لیاقت آباد سے تھیں ایک لڑکی موسیٰ کالونی اورفیکٹری سے جان بچا کر پلاٹ میں کودنے والے تینوں لڑکے بھی اورنگی ٹاون کے علاقے اسلام چوک کے رہاشی تھے
شہر کے حالات بدستور خراب تھے بالخصوص سائٹ ایریا ،حبیب بینک، بنارس کالونی، سھراب گوٹھ ،لانڈھی،قائدآباد اور اس کے اطراف کے علاقے، گلشن اقبال، سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے بلوائیوں کے مسلحہ حملوں سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ہزاروں گاڑیاں،کنٹینرز، بسیں، رکشے اور کاریں نظر آتش کر دئیے گئے تھے
املاک لوٹ لی گئی تھیں لوگ اب بھی سڑکوں پر پھنسے ہوئے تھے
فیکٹریاں جلا کر خاک کر دی گئیں تھیں دکانوں کو لوٹ مار کے بعد خاک کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
فیکٹیریوں میں کام کرنے والی سیکڑوں لڑکیاں اور خواتین اغوا کر لی گئی تھیں۔۔۔
یہ حال تھا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا
ایسا لگ رہا تھا کسی دشمن ملک کی فوج نے حملہ کردیا ہو

رحمتاللہ نے اپنا پلان بنا لیا تھا اس نے کہا آپ لوگ یہیں میرا انتظار کرئیں میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں
رحمت اٹھا پھر نصیر مستری اور ٹھیکہ دار سے مخاطب ہوا چاچا اگر مجھے کچھ ہو گیا اور میں فجر کی آذان تک واپس نھیں آیا تو پھر یہ سب بہنیں آپ کے حوالے
ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے فیکٹری سے کود کر جان بچانے والے تینوں لڑکے اٹھے اور رحمت سے کہا ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں
رحمت مسکرایا اور بولا نہیں بابا پینٹ بوشرٹ والوں کو ساتھ لے کر جانا خطرہ ہے
آپ لوگ ادھر میرا انتظار کرو
اللہ حافظ
سب کے منہ سے رحمت کی سلامتی کی دعائیں نکلنے لگی
آہستہ آہستہ رحمت اندھیرے میں گم ہو گیا
سڑک پر آتے ہی رحمتاللہ کی رفتار تیز ہوگئی اسکے پاس گولیوں سے بھرا ہوا ماوزر موجود تھا
وہ کسی گاڑی کی تلاش میں تھا جو جلنے سے بچ گئی ہو
وہ گھومتا رہا مگر کامیابی نہیں ملی اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ پولیس کہاں مر گئی ہے کیوں نظر نہیں آرہی اب بھی گاہے بگاہے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھیں مگر اب اس میں پہلے کے سی تیزی نہیں تھی۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ماحول میں سناٹا طاری ہوگیا شائد بلوائی اب اپنی وحشت کا جشن منا نے اپنی پناہگاہوں کی طرف چلے گئے
اسی ادھیڑبن میں اسکی نظر ایک پولیس موبائل پر پڑی جو ایک فیکٹری کی دیوار کے ساتھ کھڑی تھی وہ تیز قدموں سے اسکی جانب بڑھا
مگر موبائل خالی تھی کوئی موجود نہیں تھا پھر فورا ہی اسکے سوالوں کا جواب اسے مل گیا جب اس نے ۲ پولیس والوں کی لاشیں دیکھ لیں دونوں کو گولیاں مار کرشہید کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔
اس نے گاڑی کی چابیاں تلاش کرنا شروع کر دئیں مگر اسکو کامیابی نہیں ملی تو اس نے گاڑی کو دھکا لگا کر پلاٹ پرلے جانے کا فیصلہ کیا
وہ کافی دور آچکا تھا اس کو اندازہ تھا کے یہ آسان نہیں ہوگا مگر رحمتاللہ کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا اس نے دھکا لگانا شروع کردیا
وہ چوکنا بھی تھا اسکو پتہ تھا یہ بہت خطرے والا کام تھا اگر پکڑا جاتا تو اسکو پولیس والوں کے قتل کے الزام سے کوئی بچا نہیں سکتا تھا
دھکہ لگا لگا کر رحمتاللہ بری طرح تھک گیا مگر اسکے پائے استقامت میں کمی نہیں آئی
بالآخر وہ پلاٹ کے قریب جا پہنچا آوازلگانے پر گیٹ کھلا اور چوکیدار اس کو اور پولیس وین کو دیکھ کر حیران رہ گیا
اب دوسرا مرحلہ وین کو بنا چابی اسٹارٹ کرنے کا تھا
ان ۳ لڑکوں میں سے ایک آگے بڑھا اور کہا میں یہ کام کر سکتا ہوں اس دوران فجر کی اذانیں ہونے لگیں سب نے نماز ادا کی اللہ سے خیر و عافیت کی دعائیں کی اگلے آدھے گھنٹے میں وہ سب اس پولیس وین میں سوار ہو کر وہاں سے نکل رہے تھے
سورج نکلنے کو تھا سیاہ رات ڈھل چکی تھی
ٹھیکےدار نے ڈرائیونگ کی ذمہ داری سنبھالی ساری لڑکیاں دعاوں میں مصروف ہو گئیں رحمتاللہ نے ٹھیکےدار سے مخاطب ہو کر کہا کے چاچا تیز چلانی ہے گاڑی چاہے کچھ بھی ہو جائے گاڑی بند نہیں ہونی چاہیے
اورنگی جانا ہے چاچا رحمتاللہ نے کہا تو ٹھیکےدار نے پولیس وین کو اڑانا شروع کردیا بنارس کالونی سے گذرتے ہوئے ہر طرف جلی ہوئی گاڑیاں نظر آتی رہیں منظر دیکھ کر دل دہلتے رہے ہر طرف ہو کا عالم تھا بلوائی اپنی پناہگاہوں میں جاچکے تھے

اللہ اللہ کر کے جب میٹرو سینما کے قریب پہنچ گئے تو سب کی جان میں جان آئی
بالآخروہ سب بحفاظت اورنگی ٹاون کے علاقے گلشن بہار پہینچ گئے تو لڑکیاں فرط مسرت سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اورنگی میں رہنے والی پانچوں لڑکیاں اسی علاقے میں رہتی تھیں ۔۔۔۔۔

رحمتاللہ نے لڑکیوں سے مخاطب ہو کر کہا باجی اس علاقے میں گاڑی روکنا ہے جہاں سے ہم پیدل چل کر آپ لوگوں کے گھر تک آسانی سے جا سکیں
ایک لڑکی نے گاڑی روکنے کا اشارہ دیا اور کہا یہاں سے قریب ہے ہمارا علاقہ وہ سب وین سے نیچے اتر آئے
رحمتاللہ نے کہا آپ لوگ روڈ پر چلیں ہم آتے ہیں
یہ شاہ فیصل چوک کا علاقہ تھا طے شدہ منصوبے کے تحت کچھ دورجا کر پولیس وین سے پیچھا چھڑانے کے لئیے مناسب جگہ دیکھ کر انھوں نے وین روک دی اور نیچے اتر آئے
اسلحہ بھی وین میں ڈال کر دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے آگے بڑھے
ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ موٹر سائیکلوں پر موجود چند نوجوان وہاں آپہنچے ایک پٹھان لڑکے کو دیکھ کر ان کے اندر کی خباثت پوری طرح جاگ چکی تھی
انھوں اسلحہ نکال لیا اور ایک لڑکا آگے بڑھا اور رحمتاللہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہاں بڑبک کون ہے تو اور تیری ہمت کیسے ہوئی اس علاقے میں آنے کی
اس سے پہلے کے وہ ہاتھ اٹھاتا ٹھیکےدار آگے بڑھا اور کہا کے بھائی میری بات سن لو اسکو میں لے کر آیا ہوں ہمارے ساتھ وہ لڑکیاں ہیں جس کی جان اس نوجوان نے بچائی تھی
لڑکیاں کہاں ہیں اس نے دیدے نکال کر پوچھا
ٹھیکے دار نے جواب دیا وہ گلشن بہار کی طرف جارہی ہیں جہاں ان کا گھر ہے
چل بے تو دفع ہو جا ایک لڑکے نے ٹھیکے دار نے کو دھکہ مارتے ہوئے کہا
سونو بھائی اسکوبٹھاو بائک پر ایک لڑکے نے رحمتاللہ کو کالر سے پکڑ کر بائک پر بٹھا دیا
ٹھیکے دار نے نے ایک کوشش اور کی مگر زوردار تھپڑ نے اسکو چکرا کر رکھ دیا
چاچا تم جاو میری فکر نا کرو اللہ مالک ہے رحمتاللہ نےٹھیکے دارسے مخاطب ہو کر کہا
اسی دوران دوسرا لڑکا جس کا نام سونو تھا بائک اسٹارٹ کر چکا تھا
رحمت کے پیچھے ایک لڑکا بیٹھ گیا اور وہ وہاں سے نامعلوم سمت روانہ ہوگئے
ٹھیکے دارآنسوں سے روتا ہوا اس طرف دوڑا جہاں لڑکیاں گئی تھیں
ابھی وہ کچھ فاصلہ طے کر سکا تھا کے اسکا سانس پھولنے لگا
آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے اور وہ رحمتاللہ کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا تھا
تھوڑا سستا کر وہ پھر دوڑا
اسی دوران ایک دودھ فروش آگیا اسکی موٹر سائیکل پر دودھ کی بالٹیاں لٹکی ہوئی تھیں قریب آکر وہ رک گیا
چاچا کیا بات ہے سب خیر تو ہے
ٹھیکےدار نے پھولی سانسوں سے اس سے لفٹ مانگی اور کہا تھوڑی دور میرے ساتھی پیدل جا رہے ہیں ان کے پاس پہنچا دو تمہاری بڑی مہربانی
اس نے کہا چاچا بیٹھ سکتے ہو تو بیٹھو
ٹھیکےدار مشکل سے موٹر سائیکل پر سوار ہوا
اسکی آنکھوں سے آنسو گرے جا رہے تھے رحمتاللہ کا معصوم چہرہ اسکی نظروں میں گھوم رہا تھا
دل میں وسوسے تھے
بالآخر جرمن اسکول کے قریب اس نے اپنے ساتھیوں کو جا لیا وہ سب رحمتاللہ کو ساتھ نا پا کر پریشان ہوئے خاص کر مستری نصیر کی پریشانی اسکے چہرے سے عیاں تھی
ساری داستان سن کر سب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں

یار اب کیا ہو گا مستری نے پریشانی کے عالم میں دریافت کیا
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے
اگلے دن تک سارے معاملات ٹھیک ہوگئے
سارا محلہ باری باری آکر مبارکباد دیتا رہا اغوا والی بات چھپائی گئی تاکہ لڑکیوں کو بدنامی کے داغ سے بچایا جاسکے۔
لیاقتآباد والی دونوں بہنوں کو انکے والدین لینے آگئے
تینوں نوجوان تو گذشتہ روز ہی اپنے گھر چلے گئے تھے
ٹھیکےدار اور مستری رحمتاللہ کے لئیے پریشان تھے محلہ والوں نے اپنی اپنی کوششیشں کئیں کہ اسکا اتہ پتہ چلے
مگر سب بےسود رہا
صاف ظاہر تھا رحمتاللہ بدنام زمانہ لسانی دہشت گرد تنظیم کے ہتھے چڑھ گیا تھا
۳۱ دسمبر

شہر کے حالات نارمل ہو چکے تھے لوگ ذخموں کو بھلا کر ذندگی کی نئی شروعات کر چکے تھے
ٹھیکےدار عبدالرحمن صبح ۱۰ بجے بال کٹوانے ہئیرڈریسر کی دکان پر پہینچا
اور صوفے پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا
وقت گذاری کے لئیے اس نے اخبار کا مطالعہ شروع کردیا
ایک چھوٹی سی خبر نے اس کے اوسان خطا کر دئیے لکھا تھا اورنگی ٹاون اجتماع گاہ کے قریب پہاڑی سے ایک ۲۵ سالہ پٹھان نوجوان کی لاش ملی ہے جس کوشدید تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ہے۔وہ تیزی سے اٹھا اور باہر نکل آیا جیب سے موبائل فون نکالا اور نمبر ملایا
دوسری طرف سے ہیلو کی آواز سنتے ہی عبدالرحمن بولا مستری کہاں ہو مین آرہا ہوں تم کو لینے اور مزید کچھ کہے سنے فون بند کیا اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور نکل پڑا
کچھ دیر بعد وہ اورنگی پولیس اسٹیشن میں بیٹھے تھے
سر وہ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر آئے ہیں آپ کے پاس ایک پٹھان لڑکے کی لاش ملی ہے آپ کو؟
ہاں ایدھی سرد خانے میں ہے اسکی ڈیڈ باڈی
سرد خانے پہنچ کر وہ دونوں لرزتے قدموں اور دعا کرتے ہوئے کہ وہ لاش کسی اور کی ہو
لاش رحمتاللہ کی ہی تھی جس کے جسم پر بےپناہ تشدد نمایاں تھا
ہاتھ پاوں میں ڈرل سے سوراخ کئیے گئے تھے اور اور جسم کوا سگریٹوں سے داغا گیا تھا
اسکا ایک ہاتھ نیفےپر تھا جہاں اسکی محنت کی کمائی ابھی بھی موجود تھی
اور چہرے پر ایک سکون سا تھا جیسے تھک کر سو گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63504 views "I write to discover what I know.".. View More