الیکشن کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا
اعلان کیا۔ یہ انتخابات 28اکتوبر،3نومبراور 7نومبر کو تمام 243سیٹوں پر
ہونے ہیں۔ جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب ہورہی ہیں، سیاسی گہما گہمی
عروج پر ہے۔ اس سیاسی گہما گہمی میں، اس انتخابات میں حصہ لے رہی پارٹیوں
نے اپنی پارٹی اور امیداواروں کے حق میں، پرچار کرنے کے لیے کچھ ایسے شدت
پسند نیتاؤں کو نامزد کیا ہے جو بہار کی ترقی، وہاں کے لوگوں کو اپنے شہر
میں روزگار مہیا نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شہروں میں مجبور ہوکر جانے کی
پریشانیاں، تعلیمی اداروں میں تعلیم کی گرتی صورت حال، ہر سال آنے والے
سیلاب کا قہر، بے روزگاری اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل پر وہ بحث نہیں
کرتے کہ اگر ان کی پارٹی حکومت بنانے کا موقع دیا جاتا ہے؛ تو وہ ان مسائل
کے حل کے لیے کیا کریں گے؟ یہ بڑا تعجب خیز معاملہ ہے کہ اپنی پارٹی اور
امیدوار کا پرچار کرنے والے نیتا، بہار کے انتخابات میں کشمیر کی بات کرتے
نظر آرہے ہیں۔
اب دیکھیے مرکزی وزارت داخلہ میں وزیر مملکت نتیانند رائے ویشالی میں ایک
انتخابی ریلی میں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے بہار کی فکر اس حد تک لگی کہ
انھوں نے یہاں تک فرما دیا کہ اگر بہار میں "این ڈی اے" الائنس کی سرکار
نہیں بنتی ہے اور اس کی جگہ آر جے ڈی کی سرکار بنتی ہے؛ تو کشمیر میں سرگرم
دہشت گرد کشمیر کو چھوڑ کر، بہار میں پناہ لیں گے۔ مطلب یہ ہوا کہ ترقی کی
بات نہیں کرنی ہے، بل کہ رائے دہندگان کو کشمیر میں سرگرم دہشت گرد سے ڈرا
کر، ان کا ووٹ حاصل کیا جائے۔
یہ بات کم سے کم ایک عقلمند آدمی کو تو سمجھ میں نہیں آئے گی؛ کیوں کہ
ہماری مرکزی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ نوٹ بندی سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ
جائے گی۔ پھر ہماری مرکزی حکومت نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ کشمیر سے دفعہ
370 کو ختم کرنے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ اس طرح کے دعووں کے باوجود
کیا اب تک کشمیر میں دہشت گرد سرگرم ہیں؟ اگر دہشت گرد سرگرم ہیں؛ تو پھر
حکومت کے دعووں کا کیا ہوا؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ کشمیر میں دہشت گرد
سرگرم ہیں؛ تو ان کو بہار سے کیا لینا دینا ہے۔ پورے ہندوستان کو چھوڑ کر،
وہ بہار میں ہی کیوں پناہ لیں گے؟ وزیر مملکت برائے امور داخلہ صاحب کو یہ
بھی بتانا چاہیےتھا کہ ابھی کچھ سالوں قبل آرجے ڈی، گانگریس اور جدیو کی
سرکار بہار میں تھی، تو اس وقت کتنے کشمیری دہشت گردوں نے بہار میں پناہ لی
تھی اور مرکزی حکومت یا پھر بہار حکومت کی کمان سنبھال رہے مسٹر نتیش کمار
نے ان کو روکنے کے لیے کیا کیا تھا؟
کچھ اسی طرح کا ایک اور بیان 21/ اکتوبر کو ایک نیتا جی نے بہار میں دیا۔
یہ بیان اس سیاسی لیڈر کا ہے جو اپنے زہریلے بیانات اور فرقہ وارانہ ہم
آہنگی کو سبوتاز کرنے کی وجہ "یوگی" سے "ایم پی" اور پھر "ایم پی" سے بنے
یوپی کے وزیر اعلی یعنی یوگی ادتیا ناتھ جی۔انھوں نے بہار میں بھوجپور کی
تراری ودھان سبھا حلقہ میں ایک انتخابی ریلی میں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے
کہا ہے کہ اب کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کردیا گیا ہے۔ اب بھوجپور کے نوجوان
کشمیر میں زمین خرید سکتے۔ مطلب یہ ہوا کہ مرکزی سرکار نے جو کشمیر سے دفعہ
370 کو ہٹایا ہے، اس کی وجہ سے بھوجپور یا بہار کے نوجوان کشمیر میں زمین
خرید سکتے ہیں؛ اس لیے اس کے بدلے بہار کے لوگ این ڈی اے کو ووٹ کرکے حکومت
کا پھر سے موقع دیں۔
یوگی جی کی یہ بات کسی بھی سمجھدار آدمی کو مضحکہ خیر لگے گی کہ اس دفعہ کو
ختم کرتے وقت، مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ یہ کشمیریوں کے حق میں ہے۔ اس کے
ان گنت فائدے کشمیریوں کے حق گنائے گئے تھے۔ اب یوگی جی کے بقول ایک سوا
سال بعد، اچانک اس دفعہ کو ہٹانے کا فائدہ ان بھوجپوری نوجوانوں کو مل رہا
ہے۔ اب ان یوگی جی کو کون بتائے کہ یہ نوجوان روزگار کے لیے پریشان ہے۔ ان
کی اکثریت دو وقت کی روٹی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ان کو اپنے وطن میں گھر
بنانے کے لیے زمین نہیں ہے۔ جن کو موروثی زمین ہے، وہ روپے پیسے کی مجبوری
کی وجہ سے اس پر گھربنانے سے قاصر ہیں۔ کچھ لوگ بڑی کوشش کے بعد، صرف
جھونپڑی ہی بنا پاتے ہیں۔ ایسی موجودہ صورت حال میں یوگی جی کا یہ کہنا کہ
اب بھوجپور کے نوجوان کشمیر میں زمین خریدیں گے، میرے خیال میں ان نوجوانوں
کی خاص طور پر اور اہالیان بہار کی عام طور پر توہین ہے۔
ہندوستان میں جو لوگ سیاست کے راستے اقتدار کے اعلی مناصب تک پہنچے ہیں، ان
میں بہت سے ایسے سیاست داں آپ کو آسانی سے مل جائیں گے، جو عوام کے جذبات
سے کھیل کر، انتخابات جیت جاتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کے لیے تو یہ خوش کن
مواقع ہوتے ہیں؛ لیکن عوام کے حوالے سے یہ بہت خطرناک فیصلہ ہوتا ہے، گرچہ
وہ سیاست داں عوام کے ہی ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ پھر انتخابات جیتنے کے بعد
بھی وہ عوام کے لیے کام کرنے کے بجائے، وہ ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کے
درپے رہتے ہیں۔ وہ کسی بھی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جس میں
عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی مقبولیت بڑھانے کی ایک فی صد بھی گنجائش ہو۔
ان نیتاؤں کے حلقہائے انتخابات میں جاکر آپ معائنہ کریں؛ تو کہیں بھی کوئی
خاص ترقیاتی کام آپ کو نہیں ملیں گے؛ کیوں کہ وہ ترقیاتی کام کے بجائے عوام
کے جذبات کو ہی مشتعل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس طرح کے لیڈران کبھی اپنے
مخالف سیاستدانوں کے خلاف زبان درازی کرکے عوام کو الو بناتے ہیں؛ تو کبھی
ڈر اور خوف کی سیاست کرکے، اپنے آپ کو ایک مقبول اور پسندیدہ لیڈر ثابت
کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جب کہ حقیقت میں وہ لفاظی کے علاوہ کسی کے کام کے
نہیں ہوتے۔
در اصل اس طرح کے لیڈران کبھی اپنے زہریلے بیانات کے سبب، کبھی اپنے
خاندانی سیاسی اثر ورسوخ کے سبب اور کبھی اپنے مال و زر کی وجہہ سے کسی
سیاسی پارٹی سے انتخابات میں قسمت آزمائی کے لیے ٹکٹ حاصل کرلیتے ہیں اور
عوام کو مشتعل کرکے، انتخابات جیتنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں
پہلے کی بات ہے کہ جب سچین پائلٹ نے راجستھان میں اپنا ڈرامہ شروع کیاتھا
اور گہلوت حکومت گرنے والی تھی؛ تو ایک بڑے گانگریسی لیڈر نے مسٹر پائلٹ پر
طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ ابھی جہاں ہیں، وہ اپنی محنت سے یہاں تک
نہیں پہنچے ہیں؛ بل کہ وہ کسی واسطے سے بہ آسانی پارٹی ٹکٹ حاصل کرکے یہاں
تک پہنچے ہیں۔ اس لیڈر نے پوری دیانتداری سے کام لیتے ہوئے اپنے بیٹے کی
مثال بھی دی کہ آج اگر ان کا بیٹا ایم پی ہے؛ تو وہ ان کی طرح بنیادی طورپر
کام کرکے یہاں تک نہیں پہنچا ہے؛ بل کہ وہ ان کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر یہ لیڈران اپنے گاؤں، قصبہ، شہر وغیرہ میں، زمینی
سطح پر کام کرکے اور لوگوں کی پریشانیوں کا اپنی آنکھوں مشاہدہ کرکے یہاں
تک پہنچے ہوتے؛ تو یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ لفاظی اور اشتعال
انگیزی کے بجائے، ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتے۔ وہ کچھ ایسا کام کرنے کی
کوشش کرتے جس سے لوگوں کی پریشانیاں دور ہوتیں۔ مگر ہم ایسا ہوتے ہوئے نہیں
دیکھ رہے ہیں۔
بہار کے عوام وزیر مملکت برائے امور داخلہ اور یوپی کے یوگی وزیر اعلی
صاحبان کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کشمیر کی بات ابھی چھوڑ دیجیے۔ کشمیر میں
آپ نے اور مرکزی حکومت نے کیا کیا، وہ جگ ظاہر ہے۔ اس سے کس کو کیا فائدہ
پہنچے گا، وہ بھی لوگ جانتے ہیں۔ ابھی آپ بہار کی بات کیجیے اور لوگوں کو
یہ بتائے کہ "این ڈے اے" سرکار اور نتیش کمار جی نے اپنے پچھلے پندرہ سالہ
دور میں بہاریوں کے لیے کیا کیا ہے؟ آئندہ اگر آپ کی سرکار بنتی ہے؛ تو آپ
کیا کریں گے۔ مزید بہار کے لوگوں کو یہ بھی بتا دیجیے کہ اگر "کرونا" جیسا
وبائی مرض پھیلتا ہے؛ تو بہار میں آنے والی سرکار بہاریوں کے لیے کیا کرے
گی؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ابھی "کرونا" کی مہاماری میں، دوسرے
شہروں میں کام کرنے والے بہاریوں کو بہت ہی پریشانی کا سامنا رہا ہے۔ ***
|