رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺاس تاریک دنیا کو اپنے نورِ فیض
سے منور کرنے کے لیے اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے اور آپ نے اپنے
کردار و عمل سے گھٹا ٹوپ اندھیریوں کو روشنی سے بدل دیا،گو آج آپ کی
تعلیمات پر جان بوجھ کر الزام تراشیاں کی جاتی ہوں، جب کہ دینِ اسلام دینِ
فطرت ہے اور اس کی تعلیمات فطرت کے عین موافق و مطابق ہیں۔ اسلام نہ تو
اپنے پیروکاروں پر اس قدر سختی کرتا ہے کہ ہر چیز کو حرام قرار دے کر انھیں
دنیا سے کنارہ کش کردے، اور نہ ہی ایسی آزادی کا عَلم بردار کہ اپنے متبعین
کو تمام تر قیود سے آزاد کر بے مہار کھلا چھوڑ دے ۔
اس وقت ہمارا موضوع ہے ’سیرۃ النبی ﷺاور مذہبی رواداری‘ اور یہ ناقابلِ
انکار حقیقت ہے کہ اسلام اور رسولِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دیگر
تعلیماتِ حسنہ کے ساتھ مذہبی رواداری کا بھی عظیم پیغام دیا اور کُل
انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھرپور تاکید کی۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد
ہے :(مفہوم)اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد (باپ) اور ایک عورت(ماں) سے پیدا
کیا ہے ۔ (الحجرات) یعنی اس کائنات میں بسنے والے تمام انسان آپس میں بھائی
بھائی ہیں، خواہ عرب میں رہنے والا ہو یا عجم میں، شہر میں رہنے و الا ہو
یا دیہات میں، بنگلے میں رہنے والا ہو یا جھونپڑی میں۔خواہ کسی نسل وخاندان
سے تعلق رکھنے والا اور کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو، گورا ہو یا کالاہو،
ہیں سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور وہ بھی کیسے‘ ماں جائے اور باپ جائے
بھائی، جن میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
رحمۃ ﷺ نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل مذہبی رواداری کا پیغام دیا، وہ
بھی ایسے وقت اور ایسی زمین پر‘ جہاں ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا
پیاسا ہوا کرتا تھا اور ذرا ذرا سی بات پر چھڑنے والی جنگیں چالیس چالیس
سالوں تک چلا کرتی تھیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس سب کے باوجود اسلام کے
متعلق نت نئی غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں اور اسلام دشمن پروپیگنڈے واویلا
کرتے ہیں کہ اسلام نفرت ودشمنی کی تبلیغ کرنے والا مذہب ہے،بلکہ انھوں نے
اپنے اس پروپیگنڈے کی ترویج واشاعت کے لیے قرآن مجید کی بعض آیات کے مفہوم
کو توڑ مروڑ کر پیش اور حقیقت سے ناواقف لوگوں کے لیے تلبیس کا سامان کیا
ہے ۔ مستزاد یہ کہ ذرائع ابلاغ نے بھی اس پروپیگنڈے کے تلاطم خیز سمندر کو
وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ، اور اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی اعتراف ہے
کہ خود مسلمانوں کی معتد بہ تعداد اس سلسلے میں بعض غلط فہمیوں اور غلو
آمیز تصورات کا شکار ہو گئی، اس لیے ضروری ٹھہرا ہے کہ ان تلبیسات کے پردے
کوچاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
امتیاز کے باوجود حسنِ سلوک
یہ درست ہے کہ اسلام کی تاکید ہے کہ مسلمان اپنے دینی مزاج وخصوصیات اور
اخلاقی صفات میں غیر مسلموں سے واضح طور پر ممتاز رہیں، ان کی نقالی سے
پرہیز کریں اور خاص طور پر ان کی مذہبی نشانیوں اور رسومات سے اجتناب کریں،
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ہر ذی روح کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کرتا
ہے اور انسان تو کجا، جانوروں تک سے سنگ دلانہ برتاؤ کو ناپسند کرتا ہے ،
اسی لیے رحمۃ للعالمین ﷺ نے انسانیت ہی نہیں بے زبان جانوروں تک سے حسنِ
سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے رسول اﷲ ﷺ سے دریافت
کیاکہ میں نے اپنے اونٹوں کے لیے ایک خاص حوض بنا رکھا ہے لیکن اس پر بسا
اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آجاتے ہیں، اگر میں انھیں بھی سیراب کردوں تو
کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہاں ہر پیاسے یا ذی روح
کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے پر ثواب ملتا ہے ۔(ابن ماجہ)اس باب میں رسولِ رحمت
ﷺ کی اصولی تعلیم یہ ہے کہ لا ضرر ولا ضرار یعنی نہ خود تکلیف اٹھاؤ اور نہ
ہی دوسروں کو تکلیف پہنچاؤ۔(ابن ماجہ) اس ارشاد میں اس قدر عموم ہے کہ اس
کے مطابق دوسروں کو تکلیف دینا جائز نہیں، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان۔ رحمۃ
للعالمین کے طرزِ عمل سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے ، جیسا کہ حضرت ربیع بن
مسعودؓسے روایت ہے کہ ایک سفرمیں ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ اپنی کسی
حاجت سے باہر تشریف لے گئے ، ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے
دوبچے بھی تھے ، ہم نے ان بچوں کوپکڑ لیا تو وہ فرطِ غم سے ان کے گرد
منڈلانے لگا۔اتنے میں حضرت نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے اور یہ سب بہ تاکید
ارشاد فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا‘
اس کے بچوں کو لوٹادو۔(ابوداؤد)
رواداری ہو دین بے زاری نہیں
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو رسول اور جو مذہب جانوروں تک کے حقوق
کے سلسلے میں اس قدر رحیم و شفیق ہو، وہ انسانوں کے ساتھ کس درجے رحیم و
شفیق ہوگا!ہاں یہ دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ’اسلام میں رواداری کا مطلب،
دین بے زاری ہرگز نہیں‘۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :(مفہوم) ہم نے اُسے راستہ
دکھا دیا، اب خواہ شکر گزار ہو، خواہ نا شکرا۔(الدہر) اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے
’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے یہودی اور دیگر لوگوں سے جو معاہدہ کیا، وہ عالم
کا پہلا ایسا منشور قرار پایا‘ جس میں انسانیت کے حقوق کا سب سے زیادہ پاس
و لحاظ رکھا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت مذہبی رواداری پر مبنی جو حقوق غیر
مسلموں کو حاصل ہوئے ، من جملہ ان کے دو یہ تھے :(۱) ایک یہ کہ مختلف مذاہب
سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مذہبی و سیاسی سطح پر وہی حقوق حاصل ہوں گے ،
جو مسلمانوں کو حاصل ہیں(۲) دوسرے یہ کہ دونوں فریق مل کر دشمنوں سے اس
امتِ متحدہ کی حفاظت کریں گے اور دونوں مل کر دفاعی اخراجات کی ذمّے داریاں
اٹھائیں گے ، اور اس اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو داخلی طور پر بھی کامل
خود مختاری دی گئی، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :(مفہوم)عیسائیوں کو چاہیے کہ
وہ انجیل کے مطابق فیصلہ کریں۔(المائدہ)
یہی وجہ تھی کہ مدینہ منورہ میں ساری حکومت رسول اﷲ ﷺ کے دستِ مبارک میں
آجانے کے باوجود‘آپ نے یہودیوں پر اسلام لانے کے لیے کوئی جبر نہیں کیا اور
فتحِ مکہ کے موقعے پر بھی ایسی فراخ دلی کا مظاہرفرمایاجس کی مثال معلوم
دنیا میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
رواداری و دل آزاری
اسلام نے ہمیشہ مذہبی رواداری کا سبق دیا اور مذہبی دل آزاری سے منع
فرمایاہے ، جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے :(مفہوم) ان کو برا بھلا نہ کہو ،جنھیں
یہ لوگ اﷲ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں۔(الانعام )ہاں اس کے ساتھ یہ
خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں جہاں مذہبی دل آزاری سے منع کیا گیا
ہے ، وہیں برہان و دلائل سے حکمت کے ساتھ تنقید کرنا اور اختلاف کرنا،
آزادیِ اظہار کے حق کے زمرے میں رکھا گیا اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی
ہے کہ اہلِ کتاب یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں سے جب گفتگو کی جائے تو تحمل
اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے اور احسن انداز اپنایا جائے :(مفہوم) اہلِ
کتاب سے مجادلہ نہ کرو مگر احسن طریقے سے ۔(العنکبوت )یعنی اسلام نہ تو کسی
کی دل آزاری کی اجازت دیتا ہے اور نہ ایسی مذہبی روداری کی کہ فریقِ مخالف
کی ہر صحیح و غلط بات کو بلا چوں و چِرا مان لیا جاے اور صلحِ کُل کا ایسا
دعویٰ کیا جائے کہ اسلام کی اصل شناخت ہی باقی نہ رہے ۔
رواداری کا بنیادی اصول
رواداری کے تعلق سے اﷲ تعالیٰ نے یہ اساسی اصول مقرر فرمایا ہے :(مفہوم)
دین میں کوئی جبر نہیں۔ (البقرہ)یہ اصول انسان کی آزادیِ فکر و عقیدے کا سب
سے اہم اعلامیہ (چارٹر)ہے ، اس میں دو ٹوک الفاظ میں یہ بات ارشاد فرما دی
گئی کہ کسی بھی انسان کے لیے یہ جائزہی نہیں کہ وہ جس بات کو‘ خواہ دین
سمجھ کر ہو، صحیح سمجھ رہا ہے ، جبراً دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرے ،بلکہ
ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس نظریے کو چاہے
اختیار کرے ۔ اس کا محاسبہ کرنے والی اصل ذات اﷲ تعالیٰ کی ہے نیز اس بنا
پر اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم بھی نہیں کیا جاسکتا۔اﷲ تعالی کا ارشاد
ہے :(مفہوم)اس لیے اے نبی آپ اس دین کی طرف دعوت دیجیے اور ثابت قدم رہیے
،جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان لوگو ں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے
اور کہہ دیجیے کہ اﷲ نے جو کتاب اتار ی ہے اس پر میں ایمان لایا اور مجھے
حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں ۔اﷲ ہی ہمار ااور تمھار
ارب ہے ، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ،ہمارے
اور تمھارے درمیان کو ئی جھگڑا نہیں ہے ،اﷲ ہم سب کو جمع کرے گااور اسی کی
طرف سب کو جانا ہے ۔(الشوریٰ)ایک مقام پر ارشادِ ہے :تمھیں کسی قوم کی
دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کا رویہ اختیار نہ کرو، انصاف
کرو۔ (المائدہ )دوسرے مقام پر فرمایا:(مفہوم)اگر اﷲ تعالیٰ آپس میں لوگوں
کا ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرتارہتا توغیر مسلموں کے عبادت خانے ،گرجے
، مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں‘ جن میں اﷲ
کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے ۔(الحج)اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ خود اپنے
بندوں میں مذہبی رواداری کے جذبات کو موجزن رکھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
ایسے متعدد مسلم حکم راں گذرے ہیں‘ جنھوں نے نہ صرف غیر مسلم عبادت گاہوں
کی سرپرستی،ان کی تعمیر میں مدد کی بلکہ خود سے اس کی تعمیر بھی کرائی،جس
کی مثالیں عہد اموی سے لے کر باد شاہ اورنگ زیب عالم گیرؒ تک ملتی ہیں۔
مختصر یہ کہ اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد باطل
خیالات کو درست قرار دے دیا جاے بلکہ اسلام کی رو سے مذہبی رواداری کے معنی
یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں‘ ان کو ہم
برداشت کریں ، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں‘ جو
ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور اُنھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل
سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔اس قسم کے تحمل اور اس
طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے
بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے
ضروری ہے، لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو
خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں اور خود ایک دستور العمل
کے پیرو ہوتے ہوئے ، دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ
آپ سب حضرات برحق ہیں تو اس منافقانہ اظہارِ رائے کو کسی طرح رواداری سے
تعبیر نہیں کیا جا سکتا،مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں
آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے ۔(تفہیمات،بتصرف)
اعتدال ناگذیر
خلاصہ یہ کہ رواداری نہایت قابلِ تعریف صفت ہے مگر جس طرح ہر چیز اعتدال کے
ساتھ ہی مفید ہوتی ہے ، یہی معاملہ رواداری کا بھی ہے ، اس لیے اس کے یہ
معنی ہرگز نہیں کہ کسی حال میں بھی اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔غور
کیجیے اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ رحمن ورحیم اور ستار و غفار
ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ قہاربلکہ شدید العقاب بھی ہے ، جب تک وہ اپنی ستاری
اور غفاری کا معاملہ کرتا ہے توکفر اور شرک کو بھی برداشت کرتا جاتا ہے
لیکن جب اس کی قہاری کا مظاہرہ ہوتا ہے تو بستیاں اور قوم کی قوم صفحۂ ہستی
سے مٹ جاتی ہیں۔انبیاے سابقین کی قوموں کی بداعمالی کے نتیجے میں ان کے
ساتھ جو کچھ ہوا سب دنیا کے سامنے ہے ۔ مختلف حالتوں اور موقعوں کے لیے
مختلف صورتیں ہوتی ہیں اور کبھی انسانیت کی درستگی و اصلاح کے لیے مدبرانہ
سختی بھی ناگذیر ہوتی ہے ، اسی لیے رسول اﷲ ﷺکے ہاں نرم اخلاق بھی ہیں اور
موقع و محل کی مناسبت سے سخت گیری بھی،جس کے نوعیت یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی ذات
کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیتے اور اﷲ کی حدوں کو توڑنے والوں کو معاف
نہیں فرماتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندویؒنے بہ جا لکھا ہے کہ اس دنیا میں
سرگرم شجاعانہ قوتوں اور نرم اخلاق ان دونوں قوتوں کی ضرورت ہے اور دونوں
کی جامع اور معتدل مثالیں صرف ہمارے پیغمبرِ اسلام میں مل سکتی ہیں۔ (خطبات
مدراس)
|