جہاد، طالبان کا غیر قانونی،غیر
اخلاقی اور شریعت کے منافی کاروبار ہے۔طالبان جہاد کی آڑ میں ایک شرمناک
کھیل ،کھیل رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ایک اسلامی ملک اور
مسلمانوں کے خلاف جہاد کا خیال ہی خلاف شریعہ، احمقانہ ،قابل اعتراض و
ناقابل عمل ہے۔
دہشت گرد تنظیم کا انتظام و انصرام بھی ایک کاروبار کی طرح ہی منظم کیا
جاتاہے اور چلایا جاتاہے۔ جس میں پیسے اور افرادی قوت کی اہمیت کلیدی ہوتی
ہے۔ یہ سارا پیسے کا کھیل ہے اور اس میں روپے پیسے کی حثیت لائف لائن کی سی
ہے۔
طالبان کے اس کاروبار کے اغراض و مقاصد، عام کاروبار کے اغراض و مقاصد کے
برعکس غیر قانونی غیر اخلاقی اور اسلامی شریعہ کے منافی ہیں اور ان میں
پاکستانی مسلمانوں کی قتل و غارت گری،حکومت وقت سے سرکشی و بغاوت،جنگ و
جدال، دہشت گردی، پاکستان کو کمزور کرنے کی دشمن کی سازشوں کا ساتھ
دینا،بنک ڈکیتیاں و ڈاکے ڈالنا، اجرتی قتال، راہزنی اور لوٹ مار جیسے غیر
قانونی،غیر اخلاقی اور خلاف شریعہ کام شامل ہیں۔ لہٰذا روئے زمین پر کوئی
ذی شعور حکومت اس طرح کے غیر قانونی،غیر اخلاقی اور خلاف شریعہ کاروبار کی
اجازت نہیں دے سکتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان ملک بھر میں خود کش بمباروں و دہشت گردوں، معاونت اور
سہولیات فراہم کرنے والوں، ہمدردوں اور ساتھیوں کے ایک انتہائی مضبوط و
منظم اور خطرناک نیٹ ورک چلاتی ہے۔ اس نیٹ ورک کو طالبان کی اتحادی و ہم
خیال دوسری جہادی تنظیموں بشمول القائدہ اور ان کے کارکنان کی عملی اعانت
او ر مدد و حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس تمام نیٹ ورک کو چلانے اور افرادی
قوت کی بھرتی وغیرہ کیلئے روپے و پیسے کی ضرورت ہوتی ہے جو طالبان لاتعداد
غیر قانونی و غیر اخلاقی اور خلاف شریعہ ذرائع سے اکٹھا و حاصل کرتے ہیں۔
بیت اللہ محسود اس طالبانی نیٹ ورک کو چلانے پر تقریبا ۴۵ ملین ڈالر سالانہ
خرچ کیا کرتے تھے جس سے وہ ہتھیار و آلات اور گاڑیاں خریدتے اور زخمی دہشت
گردوں کے علاج معالجہ اور ہلاک شدگان کے ورثا کو رقم ادا کرتے اور دہشت
گردوں کو تنخواہین ادا کرتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناجائز
ذرایع سے اکٹھا کیا ہوا روپیہ پیسہ باہر کے ملکوں مین کاروبار کیلیئے بھی
لگائے رکھا۔ دوسرے طالبان لیڈرز جو روپیہ پیسہ خرچ کرتے ہین وہ اس کے رقم
کے علاوہ ہے۔
طالبان کے مالی وسائل کے لا تعداد ذرائع ہیں جن میں خاص طور پر ان سے
ہمدردی رکھنے والے مقامی اور غیر ملکی افراد کے چندے وعطیات، زکواۃ ، نیٹو
کے ٹرکوں کا اغوا اور لوٹ مار، معروف کاروباری،غیر ملکی اور حکومتی افراد
کا اغوا برائے تاوان اور بیرون ملک مقیم یا پاکستان میں کاروبار کرنے والے
جہاد پسند عناصر کی جانب سے دی جانے والی امدادی رقوم اور القائدہ سے ملنے
والی رقوم شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اتحادی فوج کی افغانستان جانے والی
گاڑیوں کا اغوا اور ان سے بین الاقوامی سامان اور ہتھیاروں کی چوری، عسکریت
پسندوں کے مالی وسائل کا ایک اور اہم ذریعہ ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان صوبہ سرحد اور بلوچستان میں درآمد اور برآمدہونے
والی منشیات سے بھی اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ وزیر اور محسود قبائل کے دہشت
گرد نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے پشتون نژاد باشندے درحقیقت ملک بھر میں
اسلحے کے کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ درہ آدم خیل اور اورکزئی ایجنسی
میں تیار ہونے والے سستے اسلحے و غیر ملکی اسلحہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس
کاروبار کا سارا منافع طالبان کو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں طالبان پاکستان کے
دشمنون سے مدد لینے کو عار نہیں سمجھتے اور اس کا اعتراف خود حکیم اللہ
محسود نے کیا تھا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلٰی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تحریک
طالبان پاکستان کی بیس فیصد آمدنی کا ذریعہ اغوا اور بینک ڈکیتیوں سمیت
جرائم ہیں جبکہ وہ پچاس فیصد آمدنی عطیات اور بھتہ خوری اور بقیہ تیس فیصد
منشیات کی تجارت سے حاصل کرتی ہے۔ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا
تخمینہ ۲۰۰ ملین ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے جو کہ طالبان کی آمدنی کی ریڑہ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان افیون، ذمرد و دیگر قیمتی
پتھروں ،لکڑی اور تمباکو کے غیر قانونی کاروبار اور اشیاء کی سمگلنگ میں
بھی ملوث ہیں۔ طالبان کافی عرصہ سے صوبہ سرحد اور فاٹا کے کچھ حصہ میں لکڑی
کی تجارت کو کنٹرول کر رہے ہیں اور جانوروں کی سمگلنگ سے بھی اپنا حصہ وصول
کرتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی دن خالی نہیں جاتا ہو گا جب طالبان یا ان کے ساتھی بہت سے
افراد کو اغوا نہ کرتے ہوں گے۔ کراچی اور پشاور اس حوالے سے ابھی تک
انتہائی خطرناک اور بدنام شہر ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان صوبہ سرحد اور
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اپنے زیر اثر علاقوں میں خود
کاروائیاں کرتی ہے جبکہ دیگر مقامات پر وہ دیگر جہادی تنظیموں اور ساتھیوں
کی مدد سے سرگرم عمل ہے۔ ایک وقت ، طالبان نے صوبہ سرحد کے سکھوں سے ۵۰
ملین روپیہ سالانہ جزیہ طلب کیا تھا اور عدم ادائیگی کی صورت میں سکھوں کے
لیڈر سردار سیاوانگ سنگھ کو قیدی بنا لیا گیا اور سکھوں کے بہت سے گھروں پر
طالبان نے قبضہ کر لیا ۔
خیبر ایجنسی کے ایک قبائلی تاجر نے بتایا کہ طالبان ،افغانستان جانے والے
ان ٹرکوں پر حملہ کر کے سامان کو تہس نہس کر دیتے ہیں اور بچا کھچا سامان
خیبر ایجنسی کی حدود میں واقع پاک افغان شاہراہ طورخم پر پھینک دیتے ہیں۔
لوٹی گئی اشیاء پاکستان اور افغانستان کے بازاروں میں سر عام فروخت ہو رہی
ہیں۔
اسلام آباد کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام کے ایک قریبی رشتہ دار کو
پشاور سے اغوا ہونے کے بعد 50 لاکھ روپے ،تاوان کے عوض رہا کرایا گیا۔ یہی
کوہاٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ بھی ہوا۔ افغانستان مین پاکستان کے
سفیر طارق عزیز الدین کو بھی طالبان نے ہی اغوا کیا تھا۔
2008 سے 2009 کے دوران کراچی پولیس نے طالبان کی جانب سے بینک ڈکیتیوں اور
اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سراغ لگایا۔ اکتوبر 2008 میں،
اغواکاروں نے فلم پروڈیوسر ستیش آنند کو اغوا کر کے چھ ماہ تک سوات کی
تحصیل مٹہ کے نزدیک ایک علاقے میں رکھا۔ ان دنوں یہ علاقہ مولانا فضل اللہ
کی زیر قیادت ایک طالبان گروپ کے قبضے میں تھا۔
چوہدری اسلم ،سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کراچی نے بتایا کہ کراچی آجکل
لاقانونیت کی گرفت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر واقعات میں فاٹا کے مختلف
علاقوں میں تاوان کی ادائیگی کا سراغ لگایا گیا ہے جس کے ڈانڈے طالبان سے
ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ رقم تحریک طالبان پاکستان کو اپنی عسکریت
پسندانہ سرگرمیوں کو چلانے اور تنظیمی انتظام کرنے کے قابل بناتی ہے۔
حکیم اللہ محسود اور اسامہ بن لادن، دونوں نے ملا عمر کو بیعت دی ہوئی ہے
مگرملا عمر TTP کے سکولوں, مساجد اور عام نہتے پاکستانیوں کو خود کش بم
حملوں کے ذریعے ہلاک و اغوا کئے جانے اور خلاف شریعہ لوٹ مار کو اس بیعت
اور اپنے جاری شدہ code of conductکی خلاف ورزی تصور کر رہے ہین۔ اور تحریک
طالبان پاکستان ، القائدہ کے اشاروں پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سعی کر
رہے ہیں۔ القائدہ شیخ عطیہ اللہ کے بیان کی خلاف ورزی مین مصروف ہے جس میں
انہوں نے مساجد، سکولوں اور معصوم شہریوں پر حملوں سے منع کیا تھا۔ لگتا ہے
یہ سب بے مہار ہیں اور اپنے بیعت کی بھی پرواہ نہیں کر رہے۔
اک عجب تماشہ ہے کہ طالبان غیر قانونی،غیر اخلاقی اور اسلامی شریعت کے
منافی، لو ٹ مار سے ، دولت و طاقت حاصل کرکے ملک مین اسلامی نظام نافذ کرنے
کے درپے ہیں اور اکثریت پر ، جو کہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے پہ یقین
رکھتی ہےاپنا تنگ نظری والا اسلام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے
کہ طالبان حرام اور حلال کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہین۔ ان کے سارے فلسفہ
کی بنیاد ہی غلط طریقوں و خیالات و اقدار پر رکھی گئی ہے ، اس عمارت کا
انجام کیا ہو گا جس کی بنیاد ہی غلط اور ناپائیدار ہو؟
بھائیوں اور بہنوں اگر ہمیں طالبان دہشت گردوں اور ان کے تنگ نظری والے
فلسفہ کو شکست دینا ہے اور اس طالبانی عفریت سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل
کرناہے تو ہم سب کو مل کر طالبان کے روپے پیسے کے حصول کے تمام چشموں و
سوتوں کو ہمیشہ کے لئے بند کر نا ہو گا۔ تاکہ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی
بانسری۔ |