جو دم غافل

اسلام سے قبل اگر ادیان ِ سماویہ میں کسی نہ کسی شکل میں رہبانیت موجود تھی خاص کر عیسائیت میں رہبانیت ہرگز لادینیت نہیں سمجھی جاتی تھی۔تاہم معاشرہ میں رہتے ہوئے معاشرتی اقدار اور سماجی رویوں سے دوری اختیار کرنا بھی کسی طور انسان ہونے کی دلیل خیال نہیں کی جا سکتی تھی۔یعنی آپ کے ارد گرد انبوہِ مسائل ہو اور آپ سب کو چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں،غاروں،جنگلوں اور ویرانوں کا رخ اختیار کر لیں یہ کہتے ہوئے کہ میں اﷲ کو پانا چاہتا ہوں۔عیسائیت کے علاوہ گوتم بدھ نے بھی نروان کے حصول کے لئے اسی طریقہ کو اپنایا اور کپل وستو کی راجدھانی اور اپنے بیوی بچے کو چھوڑ کر شہر سے دور ایک برگد کے نیچے دنیا ومافیھا سے بے خبر ہو کربیٹھ گیا۔تاہم ایک دن انہیں لوگوں میں زندگی بسر کرنا پڑی جنہیں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کیا تھا۔ہمارے اپنے مذہب میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی اﷲ کی تلاش میں جنگلوں کا رخ اختیار کر لیتا ہے تو کوئی لباس ومکان سے تہی دامن ہو کر،کوئی زندگی بھر بال اور ناخن نہ ترشواکر،اور کوئی عمر بھر کا بن باس لے کر چاہتا ہے کہ اسے اﷲ مل جائے یا اﷲ کا دیدار نصیب ہو جائے۔جبکہ بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں چالیس برس خدا کی تلاش میں رہا جب میں نے اسے پا لیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے میری تلاش میں تھا۔یعنی وہ تو شہ رگ کے قریب ہو کر تمہارے دلوں میں بستا ہے۔اﷲ نے دین اسلام کی خوبصورتی اسی میں رکھی ہے کہ اس نے رہبانیت کو ختم کر کے معاشرتی زندگی کا مکمل درس دیا اور حقوق العباد پر زور دے کر لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔اسی لئے تو صوفیا اکرام فرماتے ہیں کہ اﷲ کو حاصل کرنے کا مختصر ترین راستہ لوگوں کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔گویا آپ ذاتِ باری تعالی سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو معاشرتی بے زاری کی ضرورت نہیں ہے۔فرمایا ’’اپنے گھر میں بیٹھ کر اﷲ کو یاد کرو تمہیں مل جائے گا‘‘

اﷲ تو اس قدر انسان کے قریب ہے کہ فرمایا کہ ’’نحن اقرب من حبل الورید‘‘بس اس کے نیت صالح کی ضرورت ہے۔اﷲ آپ سے دور نہیں بلکہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔اور آپ سے ملنے ک ابھی منتظر رہتا ہے مگر یہ انسان ہی ہے جو تھوڑی سے عزت،شہرت،وقار،دولت اور طاقت مل گئی تو انسان اور اﷲ دونوں کو بھلا بیٹھتا ہے۔تو پھر خود ہی سوچیں کہ جس دل میں ایسے تکبرات ہوں گے وہ اﷲ کامسکن کیسے ہو سکتا ہے۔وہ جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ذرااس کی بندوں سے محبت کا اندازہ تو لگاؤں کہ تم چل کر اس کی طرف جوتے ہو مگر وہ دوڑ کر آپ کی طرف آتا ہے۔تم جب اس کی ذات کے ہو جاتے ہو تو پھر وہ تمہارے کان،ہاتھ ،پاؤں زبان اور آنکھ بن جاتا ہے،اس لئے ہمارے دین کا فلسفہ ہی ملانا ہے۔آسانیاں تقسیم کرنا اور خوش خبریاں دینے کا نام اسلام ہے۔
الذی یسراً بشروا الا تنفروا(دین میں آسانی ہے لوگوں کو خوش خبری سناؤ بھگاؤ نہیں۔

لہذا رب کائنات سے ملنے کا واحد حل یہ ہے کہ جیسے ذات اقدس بندوں سے پیار کرتی ہے ویسے ہی بندے کو چاہئے کہ وہ خالصتا اسی ذات کو ہو جائے،اٹھتے ،بیٹھتے،چلتے پھرت،لیٹے ہر دم اسی کا ورد کرے اور اسی کے نام کی مالا جپے۔اس لئے کہ وہ رحمت کے نزول میں کسی قسم کا حساب نہیں رکھتا تو پھر ہم کیوں اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے تسبیحات کی مالا لے بیٹھتے ہیں۔
شاہ جی لوگ حسابیں ڈبے
چاہت وچ حساب نئیں ہوندی

ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باری تعالیٰ ہمیں بے حساب عطا فرمارہی ہے تو پھر بندے کا بھی فرض ہونا چاہئے کہ وہ بھی اس کی یاد میں حساب نہ رکھے۔ہر سانس میں،ہردم میں،ہرپل میں ایسا عشق ہونا چاہئے جیسے اقبال عشق مصطفیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے در کی گدائی نصیب ہو جائے ،ان کا عشق مل جائے تو پھر کسی اور کا سوچنا بھی شرک ہونا چاہئے۔
ہرکہ رمز مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است

ایسے ہی خیالات کا اظہار حضرت سلطان باہو ؑ کرتے ہیں کہ جو دم خدا کی یاد سے غافل ہوا وہی دم کافر کہلایا۔اگر اس کی یاد سے لمحہ بھر بھی غفلت ہو گئی تو سمجھ لو کہ زندگی میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔
جو دم غافل سو دم کافر
سانوں مرشد ایہو سکھایا

یعنی اگر اﷲ کی یاد،اس کی محبت،اطاعت اور ذات ِ باری تعالی کے محبوب کے لئے مرنا جینا نہیں تو پھر کفر ہی کفر ہے۔جب اﷲ بارہا اپنی کتاب میں اپنی ذات کی یاد میں محو رہنے کا ذکرفرمارہا ہے تو پھر ہم کیوں دنیاوی آسائش و آرام کے پیچھے پیچھے بھاگ کر مقصدِ حیات کو پامال کر رہے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ دلوں کو سکون و راحت مل جائے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب۔۔۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی نا شکری سے بچا جاسکے تو اس آئت کی عملی تفسیر بن جاؤ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا‘‘۔ضروری نہیں کہ اس کے لئے آپ گلے میں مالائیں ڈال کر،سبز چوغے زیب تن کر کے،ہاتھوں میں آہنی کڑے پہن کر نگر نگر کے مسافر بن جاؤ،ایسا بالکل بھی نہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے نہیں بلکہ خدا کی یاد کو دل میں بسانے سے دلوں کو راحت وسکون نصیب ہوتا ہے۔اﷲ فرماتا ہے کہ
’’جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں‘‘اور’’اپنے پروردگار کو دل میں عاجزی اور خوف سے پست آواز میں صبح وشام یاد کرتے رہو اور دیکھنا غافل نہ ہونا‘‘لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوتا ہے جب بندے صبح ومسا اسی کے نام کی مالا جپتے رہیں۔کیوں کہ جو د م غافل ہوگا وہی کافر ہوگا۔
 

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 76029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.