ڈاکٹر غلام شبیررانا
دکنی زبان کے امتیازی اوصاف کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اس نے بیرونی
زبانوں اور مقامی بولیوں جن میں عربی ،فارسی ،مراٹھی ،کوکنی،تلگواور کاندا
کے اثرات سے ہٹ کر اپنے لیے اظہار و ابلاغ کی الگ راہ نکالی ۔دکنی شعرا نے
سب سے پہلے مثنوی پر توجہ دی اس کے بعدوہ رباعی ،غزل اور قصیدہ لکھنے پر
مائل ہوئے ۔ میسور ،حیدر آباد اور بنگلور کے دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے
اس زبان کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیااور اِس زبان کو معیار اور وقار کی
رفعت سے آ شنا کیا۔ تاریخ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت ر وزِ روشن کی طرح
واضح ہوجاتی ہے کہ ولیؔ دکنی کے زمانے میں جنوبی ہند کے طول و عرض میں ادب
اور فنون لطیفہ پرفارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں تھے ۔ جس زمانے میں
شمالی ہند میں بُرج کی دُھوم مچی تھی اُس زمانے میں اہلِ دکن نے کھڑی بولی
کے ساتھ عہدِ وفا استوار کیا ۔دکن میں مقیم ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ
تخلیق کاروں کی اس نئی بولی کوہندی یا ہندوی کے نام سے پکار اجانے لگا۔اس
عہد کے جن ممتاز تخلیق کاروں کے اسلوب پر فارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات
نمایاں ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ،ملا وجہی ،غواصی
،احمدگجراتی،نصرتیؔ،ولیؔ اورسراجؔ شامل ہیں ۔تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کے
نتیجے میں سیاسی ،تہذیبی اورادبی میلانات نئے حقائق کو سامنے لا رہے تھے ۔
سترہویں صدی عیسوی کے صوفی شاعر قاضی محمودبہاری کی صوفیانہ شاعری کو ہندوی
یا ہندی شاعری پر محمول کیا جاتاہے ۔ صدیوں پہلے کے قدیم دکنی تخلیق کاروں
کی یہ سوچ اِس حقیقت کی غماز ہے کہ وہ زبان کو کسی ایک علاقے تک محدود
رکھنے کے قائل نہ تھے بل کہ نئے زماں اورمکاں کی جستجو کے آرزومند تھے
۔ولیؔ دکنی نے جب سترہویں صدی عیسوی میں دکن سے دہلی کا سفر کیا اُس زمانے
میں دہلی کے فارسی زبان سے متاثر شعرا برج اور اودھی کے گرویدہ تھے۔جب اُن
کے سامنے ولیؔ دکنی نے اپنی تخلیقات پیش کیں تو سب لوگ اس نئی زبان کی ہمہ
گیر اثر آفرینی کو دیکھ کر ششدررہ گئے ۔ یہا ں تک کہ ڈۃٰؒ شیخ ظہور الدین
حاتمؔ (1699-1783) ،میر تقی میرؔ (1723-1810) او ر سراج الدین علی خان آ
رزوؔ (1679-1756) نے بھی ولی ؔدکنی کی زبان اور اسلوب کو قدر کی نگاہ سے
دیکھا۔بر صغیر کے مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب (B:1618,D;1707 )نے
اپنی مہم جوئی اور فوجی یلغار کاآغاز شمالی ہند سے جنوبی ہند کی جانب پیش
قدمی سے کیا۔اورنگ زیب (عرصہ حکومت :1658-1707) نے شمال سے جنوب کی طرف دکن
میں طویل عرصہ تک عسکری مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔اس عرصے میں ادب اور
فنون لطیفہ کا معاملہ قطعی مختلف رہا۔ ان شعبوں میں پیش قدمی جنوب سے شمال
کی جانب رہی ۔جس زمانے میں اورنگ زیب کی کمان میں مغل مسلح افواج گولکنڈہ
کا قلعہ ا ور وہاں موجود پر شکو ہ عمارات کو کھنڈرات میں بدلنے میں مصروف
تھیں اس وقت جنوبی ہند سے ادب اور فنون لطیفہ کوزادِ راہ بناکر شمال ہند کی
جانب پیش قدمی کرنے والے قلم بہ کف حریت فکر و عمل کے مجاہدافکار تازہ کی
مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جستجو میں شما لی ہند کی جانب رواں دواں
تھے۔یہی وہ عہد آفریں لمحات تھے جب رجحان ساز تخلیق کاروں نے تازہ بستیاں
آباد کیں اور سفاک ظلمتوں کوکافور کرکے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام
کیا ۔تاریخ ادب کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ اسی دور میں اُردو شاعری
کا وہ قصر عالی شان تعمیر ہوا جس نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار
سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عادل شاہی دور میں دکنی زبان
کے فروغ کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’اورنگ زیب عالم گیر کی فتح دکن کے بعد شمال و جنوب کے درمیان جودیوارکھڑی
تھی وہ دُور ہو گئی تھی اور یہ دونوں علاقے گھر آنگن بن گئے تھے ۔فارسی کے
مشہورشاعر ناصر علی دکن گئے تو وہ بھی اُردو میں غزلیں کہنے لگے ۔میر جعفر
زٹلی کی شاعری کے زبان و بیان پر دکنی ادب کی روایات کااثر نمایا ں ہے
۔فائز،مبتلا ،آبرو،ناجی اور شاہ حاتم کے دیوان ،قدیم کی شاعری پر یہ اثرات
نمایا ں ہیں ۔‘‘ (1)
ادب اور فنون لطیفہ میں جذبہ ٔ انسانیت نوازی ،خلوص ،دردمندی اورایثارکے
ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی ۔شعر و ادب میں
تعمیر و ترقی کے غلغلے بلند ہوئے ۔ ہر سُوانسانیت کے وقار و سر بلندی ،بے
لوث محبت اوربے باک صداقت کے چرچے عام تھے۔دکن سے شمالی ہند کی جانب ولی ؔ
نے جس ادبی سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوق سلیم سے متمتع باشندوں
کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ بن گیا ۔اپنے دامن میں
یقین،عزم،محبت ،وفا، اتفاق، دوستی،یگانگت،خلوص،مروّت اورعجزو انکسار کے گل
ہائے رنگ رنگ لیے ولی ؔ جب پہلی مرتبہ 1700 میں دہلی پہنچا تواس کے خیالات
سے قریہ ٔ جاں مہک اُٹھا۔ دکن سے دہلی کی جانب ولی ؔ کے اس یادگار سفر کے
بعد سر زمین دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے اورمعتبر ربط کو
پروان چڑھانے میں مدد ملی۔دکنی زبان کے شعر و ادب میں سراپا نگاری،حیات و
کائنات ،قلب و روح ،ارضیت و مادیت ،انسانیت و روحانیت اور جذبات و احساسات
کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی ادب کا ثمر ہے ۔دکنی
زبان کے ادب میں عشق کو زندگی کے تمام معاملات میں محوری حیثیت حاصل
ہے۔دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے عشق کو عملی زندگی کی ایک اٹل اور نا گزیر
صداقت کے رُوپ میں دیکھا اور خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں جذبۂ
عشق پر انحصار کیا ۔اُن کا خیال تھا کہ رنگ ،خوشبواورحسن و خوبی کے تمام
استعارے عشق ہی کی عطا ہیں ۔دہلی آنے کے بعد ولی ؔ نے یہاں کے معمر ادیب
شاہ سعداﷲ گلشن سے ملاقات کی ۔شاہ سعداﷲ گلشن نے ولیؔ کو فارسی زبان کی
کلاسیکی شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے اسلوب
میں جگہ دینے کا مشورہ دیا ۔قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولی ؔ نے اس
مشورے پر عمل کیا ۔ولی ؔ کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے
دہلی کے سفر کے بعد برہان پور ،احمدآباد،گجرات اور کئی اہم تاریخی مقامات
کی سیاحت بھی کی ۔سیرو سیاحت کایہ شوق ولی ؔ کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ۔
اپنے اس شوق کے بارے میں ولی ؔ نے کہا تھا :
ع : ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
اس شوق نے ولی ؔ کو نئے ماحول سے آ شنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولی
ؔ کی شخصیت میں وسعت نظر ،و سیع القلبی،خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر
تعلقات اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مزید نمو ملی ۔دورانِ سفر متعدد
مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ متعدد مسافر نواز احباب سے پڑا ۔اس کے
اثرات ولی ؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ولی ؔ کے لیے یہ سفر وسیلہ ٔ ظفر ثابت
ہوا ۔کئی تراکیب ،محاورات ،ضرب الامثال ،تشبیہات ،استعارات اور علامات
کاتعلق سفر کے تجربات سے ہے ۔ان میں سفر ،ہجرت،وصل ،غربت ،جدائی ،یادیں
،فراق،کرب ،راحت،رخصت،گلگشتِ چمن ،موجِ دریا ،سیر صحرا،موج رفتار اور منزل
شامل ہیں ۔ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس
سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔دہلی
شہر سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کی جو کیفیت ولی ؔ کی شاعری میں موجود
ہے وہ اسی سفر کاکرشمہ ہے ۔ اکثر محققین کاخیال ہے کہ ولیؔ کے دِل میں دہلی
کی محبت رچ بس گئی تھی ۔
’’سیدہ جعفر نے ولی ؔ (عرصہ ٔ حیات :1667- 1707)کے اس شعر کو ہندوستان کے
اس تاریخی شہر سے ولیؔ کی محبت کا بر ملا اعتراف قرار دیتے ہوئے دہلی کے
مطلق العنان بادشاہ محمد شاہ (عہد حکومت :1719-1748)کو ایک شعر میں یہ
پیغام دیا ۔
دِل ولی ؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں (2)
محمد حسین آزادؔ نے آب حیات میں ولیؔ دکنی کے بارے میں لکھاہے :
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے
اور بِکتا ہے یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیاہے ۔اس میں علاوہ ردیف
وارغزلوں کے رباعیاں،قطعے،دو تین مخمس ،قصیدے،ایک مثنوی ،مختصر معرکۂ کربلا
کے حال میں،ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے ۔واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔اس فخر
کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے ،بادشاہ یا کسی امیر کی تعریف بھی
نہیں۔شایدخواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے ۔لیکن کبھی کبھی
خواجہ حافظ کی طرح بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کوشان و شکوہ دیتے تھے
چنانچہ ولی ؔکی تصنیفات میں سے ایک غزل میں کہتے ہیں :
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چِھین
جاکہو کوئی محمد شا ہ سوں (3)
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں ۔مغل بادشاہ
محمد شاہ کاسال جلوس 1131ہجری(1719عیسوی )ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119ہجری
(1708عیسوی )میں زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب
سدھار چکا تھا ۔قاضی عبدالودود نے اپنی تحقیقی کتاب’’ محمد حسین آزادبحیثیت
محقق ‘‘میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ شعر ولی ؔ دکنی کا نہیں بل کہ
یہ شعر مضمون ؔ کا ہے ۔اصل شعر اس طرح ہے :
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (4)
دکن کی قدیم اردو اور دہلی شہر اور اس کے مضافات میں بولی جانے والی زبان
میں جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے وہ ان زبانوں کے مشترکہ فکری سرمائے کی
مظہر ہے ۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شمالی ہند کی زبان نے جنوبی ہند کے
تخلیقی تجربات سے استفادہ کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا ۔ولی ؔ کی آمد سے
قبل دکن کی زبان کو شمالی ہند میں تخلیقی استنادحاصل نہ تھا۔ولیؔ کی آ مد
کے بعد شمالی ہند میں با لعموم اور دہلی میں بالخصوص دکن میں بولی جانے
والی زبان اور اس کے ادب کو لائق تحسین سمجھا جانے لگا۔ دہلی میں مقیم ادب
دوست حلقوں اور تخلیق کاروں نے ولی ؔ دکنی کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا
۔اس عہد کے جن ممتاز ادیبوں نے ولیؔ کے کلام کو بہ نظر ِ تحسین دیکھا ان
میں عبدالقادر بیدلؔ،مولوی خان فطرت،نواب امید خان مغز، نواب امیر خان عمدۃ
الملک انجامؔ اور قزلباش خان اُمیدؔ شامل ہیں۔حاتمؔ، مضمون ؔ ،فغاں ؔ،آبرو
ؔاور فائزؔ جیسے شعرا نے بھی ولی ؔ کی شاعری کی تعریف کی ۔
حاتم ؔ یہ فن شعر میں کچھ تُو بھی کم نہیں
لیکن ولی ؔ ولی ہے جہانِ سخن کے بیچ
خُوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
آبروؔ شعر ہے تیرا اعجاز
پر ولی ؔ کا سخن کرامت ہے
حیدر آباد دکن سے اُردو کی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا(1768-1824)نے جنم
لیا جس کا دیوان ’’گلزارِ ماہ لقا‘‘ اس کی وفات کے بعد سال 1798 میں منظر
عام پر آیا۔ مہ لقا بائی چندا فن موسیقی میں کامل دسترس رکھتی تھی اور اُس
عہد کے کہنہ مشق شاعرشیر محمد ایمان ؔ کی شاگرد تھی۔اس طوائف کو حیدر آباد
دکن کی ایک موثر قوت کی حیثیت حاصل تھی۔خاص طور پر دوسرے نظام حیدر آباددکن
کے نظام علی خان ( عہد حکومت :1762-1803 ) اور تیسرے نظام سکندر جاہ ( عہد
حکومت : 1803-1829) کی طرف سے ملنے والی غیر معمولی مراعات نے اِسے بے حد
مغروربنا دیا۔ما ہ لقا بائی چند اقصر شاہی کی طوائف تھی اور موضع ’ اڈیکیٹ
‘ اس کی جاگیر میں تھا ۔ ماہ لقا بائی چنداکی شاعری دکنی لہجے کی نمائندہ
ہے اس میں فارسی کی آمیزش نہیں ہے ۔ اس کی خرچی کی دولت ،ثروت اور مقام کا
اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس صرف پہرہ کے لیے پانچ سو
سپاہی ملازم تھے۔ اپنے عہد کی یہ شمع محفل جس کے مسحور کن رقص ،رومانی
شاعری اور کانوں میں رس گھولنے والے گیتوں کی محفل میں بڑے بڑے امرا ،وزرا
،عمائدین اور منصب دار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے ،حیدر آباد کے نواح
میں واقع ’کوہ ِ مولا‘ کے جس کنج تنہائی میں آسودہ ٔ خاک ہے وہاں دِن کے
وقت بھی شب ِ تاریک کی ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کا راج ہے ۔ماہ لقا بائی
چندا کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
کب تک رہوں حجاب میں محروم وصل سے
جی میں ہے کیجیے پیار سے بوس و کنار خوب
ساقی دے مجھ کو جام مے ارغوان پِھر
افسردہ دِل میں آئے جو شعلہ سی جان پِھر
وفا کے ہاتھ سے اپنے کمال عاجز ہیں
جفا تو اُس کی تھی معلوم پیش تر ہم کو
چشم ِ کافر بھی ہے اور غمزۂ خونخوار بھی ہے
قتل کو پاس سپاہی کے یہ تلوار بھی ہے
دکن میں تانیثیت کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ لطف النسا امتیاز (
پیدائش : 1761 ء )جو شاہ عطا اﷲ سے عقیدت رکھتی تھی وہ بھی اپنے عہد کی
مقبول شاعرہ تھی ۔اس کا دیوان ماہ لقا چندا سے ایک سال پہلے 1797میں منظر
عام پر آیا۔ ممتاز محقق نصیرالدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’ دکھنی ( قدیم
اُردو ) کے چندتحقیقی مضامین ‘‘ میں اس جانب متوجہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے
کہ تاریخی حقائق کے پیش نظر ماہِ لقا چندا کے بجائے لطف النسا امتیازؔکو
اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھنا چاہیے ۔ (5) اجل کے بے رحم ہاتھوں نے
لطف النسا امتیاز کو عین عالم شباب میں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اوراردو
زبان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النسا امتیاز ؔ کا دیوان اس کے شوہر اسد
علی خان تمنا کے انتقال کے بعد چھپا۔ لطف النسا امتیازکی مثنوی ’گلشن شعرا
‘ چھے ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ اسد علی تمنا خود بھی ادیب تھا اور
اس کا تذکرہ ’ گل عجائب ‘ اس عہد کے شعرا کے بارے میں ایک اہم بنیادی ماخذ
سمجھا جاتا ہے ۔دکن سے تعلق رکھنے والی لطف النسا امتیاز ؔکی شاعری میں
نسائی جذبات نمایاں ہیں ۔
سینہ تیری جفا سے معمور ہو رہا تھا
ہر زخم دِل میں ظالم ناسُور ہو رہا تھا
عمر کا شیشہ بہت نازک ہے یہ سنگِ اجل
جب کرے گا چُور ہی توہم عزیزاں پِھر کہاں
ساقیا محفل میں تیری کوئی دن مہمان ہیں
دیکھ لیں یہ گریہ ٔ مینا جام ِخنداں پھر کہا ں
تو عشقِ حقیقی سے مد ہوش ہے
شرابِ محبت سے بے ہوش ہے
جو لطف النسا سچا ہے تیرا نام
ترے شعر کا شہرہ تا روم و شام
ترا جو تخلص ہے اب امتیاز ؔ
ہے سب اہل ہنروں میں تُو شاہ باز
اب اہلِ کمالوں سے ہے التماس
ہے اصلاح کی دِل کو جو میرے پاس
تُو کر ختم یہ قصہ اب امتیازؔ
کر عاشقی کو اب عشق سے سرفراز
دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کی مقدور
بھر کوشش کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں ادب ،فنون لطیفہ
اور تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت لوگوں کے دِلوں میں ر
چ بس گئی تھی اور یہ ان کے جبلی انعکاس کی صورت میں منصہ ٔ شہود پر آ رہی
تھی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے قلبی،روحانی اورذہنی
سکون اور مقبولیت کی جستجومیں خونِ بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی
۔تخلیق فن کی یہ لگن افکارِ معیشت کے جھنجھٹ سے نجات اور پرورشِ لوح و قلم
کے ارفع معائر تک رسائی کی تمنا قابلِ ادراک صورتوں میں ان کے اسلوب میں
جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۔حالات و واقعات کی مرقع نگاری میں تخیل کی تونگری
اور اظہار و ابلاغ کے لیے منتخب اسالیب کے شعور میں پنہاں وفورِ شوق کی
ثروت ان کا امتیازی وصف ہے ۔انھوں نے اپنے دِل کی بات بیان کرنے کے لیے ہر
وہ التزام کیا جو اِس مقصد کے لیے نا گزیر تھا ۔
جہا ں تک دکنی نثر کا تعلق ہے اس کا آغاز خواجہ بندہ نواز گیسو درازکی
تصانیف ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ ‘‘ سے ہوا۔دکن میں تخلیق کاروں
نے سب سے پہلے نثر کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایااور اس کے بعد شاعری پر
توجہ دی۔دکن میں نثر اور نظم کی تخلیق کے سلسلے میں نصیر الدین ہاشمی نے
لکھا ہے :
’’ دنیا میں عربوں کے سامنے کوئی قوم خلقی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی
۔اسی طرح فارسی زبان میں شاعری سے بڑے بڑے کام لیے گئے اور شاعری کو
بادشاہوں کی خلوت، جلوت، رزم، بزم سے خاص تعلق رہا ۔شاعروں کی کافی طور سے
عزت افزائی کی گئی اورانھیں ملک الشعرا کا خطاب دیا جانے لگا۔مگر دکھنی
زبان میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں نظم کی ابتدا نثر کے بعد ہوئی ۔اس کی وجہ یہ
معلوم ہوتی ہے کہ تحریر کی ابتدا چونکہ ترجمہ سے ہوئی اور نظم کی بہ نسبت
نثر میں ترجمہ کرنا آسان اورسہل تھا اس لیے غالباًنظم کی ابتدا نہیں ہوئی
بل کہ نثر سے ابتدا کی گئی۔‘‘ ) 6 (
جہاں تک قدیم شاعری کے ارتقا کا تعلق ہے ،بر صغیر میں اس کے سوتے دکن سے ہی
سے پُھوٹے۔محمد تغلق(عرصہ حکومت :1325-1351) کے زمانے میں مشرقی پنجاب کے
باشندے فوجی مہم جوئی کے باعث بہت بڑی تعداد میں دکن پہنچے۔اس طرح لسانی
تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا ۔سب رس میں نثر کے جو
نمونے ملتے ہیں ،ان سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ طویل عرصہ قبل لسانی
انجذاب کی جن مساعی کا آغازہوا تھا وہ ثمر بار ہوئیں۔ ملاوجہی ( اسداﷲ)کی
نثر گہری معنویت کی حامل ہے جس کے مطالعہ سے لسانی ارتقا کا اندازہ لگایاجا
سکتاہے ۔
۱۔ ’’ رقیب بے نصیب ،بے روش بے ترتیب سُنے کا طالب تھا ۔ (7)
۲۔ عشق دیدار تی پکڑیا زور ،عشق کوں دیدار نی لذت ہے کجھ ہور (8)
۳۔عشق کدھیں صاحب کدھیں غلام ،ایک شخص کے دو دو نام ۔9) (
اسی بنا پر یہ گمان گزرتا ہے کہ دکن کی اردو اور پنجابی کا آپس میں گہرا
تعلق ہے ۔ڈاکٹر شوکت سبزواری نے دکن کی اردو اور پنجابی کی مماثلت کے بارے
میں لکھا ہے :
’’دکنی اور پنجابی میں جو لسانی مشابہتیں ہیں،صرف و نحو کے اصولوں میں جو
اُن کا اتحاد ہے اُسے جھٹلانا ممکن نہیں ۔ اتنی بات تو ماننی پڑے گی کہ دکن
کی اُردو پنجابی سے بہت قریب ہے ۔‘‘ (10)
لسانیات میں گہری دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قدیم دکنی ارد
ونے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر پنجابی زبان سے خوشہ چینی میں
کوئی عار محسوس نہیں کی ۔پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کرنے کے نتیجے میں
دکنی زبان کا دامن پنجابی زبان کے نئے الفاظ سے معمور ہو گیا ۔ماہرین
لسانیات کاخیال ہے کہ قدیم دکنی اردو نے اپنے ذخیرہ الفاط میں اضافے کی
خاطر پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کیا۔اس طرح تہذیبی و ثقافتی سطح پر
دُو رر س تبدیلیاں رُو نما ہوئیں ۔لسانی تغیر وتبدل کا یہ غیر مختتم سلسلہ
صدیوں پر محیط ہے ۔دکنی زبان میں شاعری کی تخلیق سے یہاں کے باشندوں کے
ذوقِ سلیم کو صیقل کرنے میں بہت مدد ملی ۔ ولی ؔدکنی کی دہلی آمد کے
بعددکنی شاعری کو وسیع آفاق تک رسائی مِل گئی اور یوں لسانی تجربات نے ایک
نیا رُخ اختیار کر لیا۔یہی وہ دور ہے جب دہلی کے تخلیق کاروں نے ایہام گوئی
کو شعار بنایا۔تخلیق فن کے لمحوں میں ایہام کا نمو پانا در اصل تخلیقی
اعتبار سے ایک غیر متعین نوعیت کے فیصلے کا غماز ہے ۔ فکر وخیال کی دنیامیں
ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے مافی الضمیر
کے اظہار کے لیے اس کے سامنے موضوعات اور مواد کی کمی نہیں ہوتی ۔ ترک و
انتخاب کے سخت مقام پر پہنچ کروہ عجیب شش وپنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔آئینہ
ٔ ایام میں اپنی ادا کو دیکھتا ہے تو کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و
تاب رازی کی کیفیت اُسے کسی بڑے فیصلے سے روکتی ہے ۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا
ہے مگر بے شمار حکایتیں نا گفتہ رہ جاتی ہیں ،کئی شکایتیں بیان نہیں کی جا
سکتیں اور صبر کی روایت میں کئی ضروری باتیں لب پر نہیں لا ئی جاتیں ۔
تخلیق کے لا شعوری محرکات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تذبذب اور گومگو
کی ایسی ہی کیفیات ایہام کی محرک بن جاتی ہیں ۔ ایک زیرک ،فعال اور مستعد
تخلیق کاراپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت صریر خامہ کو نوائے سروش
سے تعبیر کرتاہے ۔ان لمحات میں جذبات عجب گُل کِھلاتے ہیں جب تخلیق کار
زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے دو مختلف مطالب و
مفاہیم کو بہ یک جنبش ِ قلم اس تخلیقی مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کرتاہے کہ
تخلیقی تحریر کا ہر لفظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بن جائے۔گُل دستہ ٔ معانی
کو منفرد ڈھنگ اوردِل کش آ ہنگ سے مزین کرنا اورایک گُلِ تر کا مضمون سو
رنگ سے باندھنا تخلیق کا ر کا کمالٖن سمجھا جاتا تھا۔اس طرح ایک سخن چار
چار سمتوں کاحامل بن جاتا اور ایک جملہ اپنے دامن میں کئی مطالب رکھتا
تھا۔الفاط اور ان کے دامن میں نہاں متعدد معانی کی اس کرشمہ سازی کو ایہام
گو شعرا کی ایسی تخلیقی قلابازی سے تعبیر کیا گیا جس کے نتیجے میں تخلیق فن
کے لمحوں میں خلوص اور دردمندی کے متلاشی سرابوں میں سرگرداں رہنے لگے ۔یہی
وجہ ہے کہ بہت جلد ایہام گو شعرا نے اپنے اسلوب کوترک کر دیا۔ دکن میں
سراجؔ،داؤدؔ اورعزلتؔ کی شاعری میں ایہام موجود ہے جب کہ دہلی میں آبروؔ
،مضمونؔ اور یک رنگ ؔ نے ایہام گوئی کو شعار بنایا۔ مضمون ؔ کا شمار ایہام
کوئی کے بنیاد گزاروں میں ہوتاہے ۔ذیل میں ایہام گو شعرا کے چند اشعار پیش
کیے جاتے ہیں :
دِل غم سے کر کے لو ہو لوہو سے کر کے پانی
آنکھوں ستی بہایا تب آبرو ؔ کہا ہے
(آبروؔ)
ہوا ہے جگ میں مضمون ؔ اپنا شہرہ
طرح ایہام کی جب سے نکالی
(مضمونؔ )
جلنالگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ جوں شتاب عبث جی دیا تو کیا
(حاتم ؔ)
ہاتھ اپنا اُٹھا جو جور سے تُو
یہی گویا سلام ہے تیرا
(یک رنگ ؔ)
لبِ شیریں سے تلخ کاموں کو
بولنا تلخ کام ہے تیرا
(یک رنگ ؔ)
یہی مضمونِ خط ہے احسن اﷲ
کہ حُسن ِ خوباں عارضی ہے
(احسن اﷲ )
آج تو ناجی ؔ سجن سے کر تُو اپنا عرضِ حال
مرنے جینے کا نہ کر وسواس ،ہوتی ہے سو ہو (سید محمد شاکر ناجی ؔ)
نمکین حُسن دیکھ کر پی کا
رنگ گُل کا مجھے لگا پھیکا (سید محمد شاکر ناجی ؔ)
(ناجیؔ)
دہلی میں مقیم فارسی گو شعرا نے ولیؔ دکنی کے شعری اسلوب سے متاثر ہو کر
اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔اِس کا ثبوت یہ ہے کہ
اپنے عہد کے مقبول شعرا شاہ حاتم ( 1699-1781)اورسراج الدین علی خان آرزوؔ
(1689-1756)بھی اردو کی جانب مائل ہوئے ۔ لسانی ارتقا کا سلسلہ تاریخ اور
اس کے مسلسل عمل کی طرح سدا جاری رہتا ہے ۔ دنیا کے کسی خطے کے سیاسی
،سماجی اورمعاشرتی حالات جہاں ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں لسانیات
،ادب اور فنون لطیفہ بھی ان سے گہرے اثرات قبول کرتے ہیں ۔اس کا واضح ثبوت
یہ ہے کہ دکن سے آنے والے تخلیق کاروں کے اسلوب کو دہلی میں مقیم ادیبو ں
نے رشک کی نگاہ سے دیکھا اور شاہ حاتم کی تحریک پر اپنی زبان کو نیا رنگ
اور منفر د آہنگ عطا کرنے کی کوششیں تیز کر دیں ۔ ملا وجہی کی مقبول تصنیف
’’سب رس ‘‘ میں شامل اس قسم کے اشعار میں پند و نصائح کا دِل کو چُھو لینے
والا انداز اپنی مثال آپ ہے :
وہی ہے صافی کہ جس صافی تے صفا کوئی پاوے
وہی ہے کام کہ جس کام تے نفا کوئی پاوے
سب کسی کوں خدا مراد دیوے
اس کے محنت کی اس کوں داددیوے
زباں یک تھی دونوں کا دِل جُدا تھا
سمجتا حال اُن کا سو خدا تھا
اگر کوئی مرد ہے یا استری ہے
دنیا سب دغا بازی بھری ہے
جدھر تدھر بھی حسن ہے جو دِل کو بھاتا ہے
کدھر کدھر کی بلا عاشقاں پہ لاتا ہے
ابراہیم عادل شاہ (1556-1627)کے دور میں بیجاپور سمیت دکن میں شاہی سر
پرستی کے نتیجے میں تخلیقی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا۔اس عرصے میں
لسانی ارتقا کا سلسلہ پیہم جاری رہا ۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ بر
صغیر کی اکثر جدید مقامی زبانیں اپ بھرنش کی اولا دہیں ۔
قدیم زمانے میں سر زمیں دکن میں جن مختلف زبانوں کا ایک ملغوبہ سا تیار ہو
رہا تھااُن میں متعدد مقامی بولیوں کے علاوہ کھڑی بولی،برج بھاشا،اودھی
،سرائیکی ، پنجابی، راجستھانی، سنسکرت اورگوجری شامل ہیں۔دکن میں ایک سے
زیادہ زبانوں کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا جا رہا تھا ۔اس موضوع پر
اظہار خیال کرتے ہوئے رومیلا ٹھاپر نے لکھا ہے۔ :
,,A period of bilingualism has been suggested when more than one
language was used in the communicationbetween various communities
.Alternatively ,the non Indo -Aryan languages coul dhave been substratum
languages,elements from which were absorbed into Indo -Aryan.,,(11)
نہ صرف دکن میں فارسی کو سرکاری سر پرستی حاصل تھی بل کہ شمالی ہندوستان
میں بھی اس کی پزیرائی کی جاتی تھی ۔بر ج بھاشانے بھی ادبی زبان کی حیثیت
سے اپنے وجود کا اثبات کیااور یہ بھی دکن میں نشوو نما پانے لگی۔یہاں تک کہ
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دست راست عبدالر حیم خان خاناں نے برج بھاشا
کو اپنی شاعری میں اظہار کا وسیلہ بنایا۔
تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکن میں جس تہذیبی
،ثقافتی ،معاشرتی اور لسانی تبدیلی کا آغاز ہوا وہ پیہم تین سو برس جاری
رہا ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں دکن کی سر زمین میں جو زبان
پروان چڑھتی رہی وہ دکنی کے نام سے مشہور ہوئی۔مورخین کا خیال ہے کہ اردو
زبان کو جدید دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں دکنی نے کلیدی کردار
ادا کیا ۔دکنی کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے
اہم کردار ادا کیا ۔شمالی ہند سے آنے والی زبان نے دکن میں اظہار و ابلاغ
کے لیے ایک مشترکہ زبان کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کر لی ۔اس طرح دکنی کو اس
خطے میں مروّج تین اہم زبانوں تلنگی،کنٹری اور مر ہٹی پر ترجیح دی جانے لگی
۔ مسلمانوں نے جب دکن کو مسخر کر لیا تو صدیوں پرانا فرسودہ معاشرتی ڈھانچہ
مکمل طور پر بدل گیا۔مسلمان فاتحین نے ہر قسم کی عصبیتوں ،منافرتوں اور
امتیازات کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی مقدور بھر سعی کی ۔
قدیم دکنی زبان نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جس انداز اپنائے ان کا اندازہ
درج ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے :
۱۔ قدیم دکنی زبان میں املا کے یکساں متفقہ معائر عنقا ہیں۔دکنی میں درج
ذیل الفاظ دونوں صورتوں میں مروّج تھے:
جوسا ۔۔جثہ ، خطرا۔۔خطرہ ، زمیر ۔۔ ضمیر ، مشور ۔۔مشہور ،مرشید
۔۔مرشد،نفا۔۔نفع ،وضا ۔۔وضع ،ہوکم۔۔حکم
دکنی میں عربی الفا ظ کوسادہ کرنے کا رجحان تھا مثلاً طما( طمع )،نفا( نفع)
وغیرہ
۲۔ ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘کو بالعموم ’’ر، د ،ت ‘‘لکھنا معمول بن گیا تھا ۔بعض اوقات
چار نقطے لگا کر ’’ ڑ،ڈ،ٹ ‘‘ کو ظاہر کیا جاتا تھا۔
۳۔ قدیم دکنی میں ’’ک ‘‘ اور ’’ گ ‘‘کے فرق کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تھا
۴۔ یائے معرو ف (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’ زیر ِ ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر پڑھی جا
سکے جیسے امِیر ،فقِیر،عجِیب ،غرِیب ) اور یائے مجہول (جس ’ ی ‘ سے پہلے ’
زیر ‘ ہو اور وہ خوب ظاہر نہ پڑھی جا سکے جیسے سیر،شیر،دلیر) کا انداز
تحریر بھی یکساں تھا۔
۵۔ دکنی میں ’’ ہ ‘‘اور ’’ ھ ‘‘میں کوئی امتیاز نہ تھا۔دکنی میں اُرد وکے
بر عکس ہکار آوازیں حذف کرنے کا رواج تھا جیسے سورکھ کو سورک ،ہاتھ کو ہت
،کچھ کو کچ،مجھ کو مج ،اور بھی کو بی لکھا جاتا تھا ۔
۶۔ شعری تخلیقات میں قوافی کے انتخاب کسی مسلمہ قاعدے یا عروضی ضابطے کو
اپنانے کے بجائے کسی مانوس قریبی آواز کو پیش نظر رکھ کر کام چلایا
جاتاتھا۔ اس قسم کے قوافی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
روح کا قافیہ شروع ،اخص الخاص کاقافیہ یاس ،حوس (حواس) کا قافیہ نفس ،اولیا
کا قافیہ روسیاہ ۔
لسانی تجزیے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے اپنے ارتقائی مراحل میں دکنی زبان
مختلف ادوار میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی تھیں:
۱۔ اسم سے فعل سازی کا عمل عام تھا جیسے چِتر (تصویر ) سے چِترانااور دِیپ
سے دِیپنا وغیرہ ۔
۲۔ الفاظ سے حر ف علت کو منہا کر دیاجاتا تھاجیسے سُرج (سُورج )،اُپر
(اُوپر )،سار (سوار )،بِچ (بِیچ )،سُنا (سونا )وغیرہ ۔دکنی میں یہ بھی
دیکھا گیا کہ جن لفظوں کا پہلا مصوتہ طویل ہوتا تھا اُسے حذف کر دیا جاتا
تھا مثلاً آدمی کو ادمی،آسمان کو اسمان،آنکھ کو انکھ لکھنا معمول تھا۔اس کے
علاوہ دکنی میں درمیان میں آنے والی ُ ہ‘ بھی غائب کر دی جاتی تھی جیسے
گھبراہٹ کے بجائے گھبراٹ ،تمتماہٹ کے بجائے تمتاٹ لکھاجاتا تھا۔دکنی میں’ ں
‘ کااستعمال عام تھا دکنی اہل ِ قلم نے کوں ( کو ) سوں (سے ) نوں (نے )
کثرت سے استعمال کیا ۔
۳۔ اُردو نے بہت سے ہند آریائی الفاط کو سہل بنا لیا لیکن دکنی میں ان کی
پرانی وضع برقرار رہی ۔دکنی میں مشدّد حروف کو مخف لکھنے کا رواج تھا جیسے
اول ( اوّل )،چھجا (چھجّا )،غُصا( غُصّہ )،ہتّی (ہاتھی )،سُتّا(سوتا)
وغیرہ۔
۴۔ قدیم دکنی میں تاریخ کے مختلف ادوار میں فاعل بناتے وقت ’’ ہار ‘‘ کے
اضافے کو نا گزیر سمجھا جاتا تھاجیسے کرن ہار ،سرجن ہار ،رہن ہار ،دیکھلان
ہار،انپڑن ہار ، چاکھن ہار وغیرہ۔مرکبات کی تشکیل کے لیے ’پَن ‘ کااستعمال
عام تھا جیسے میں پَن(انانیت )،ایک پَن (وحدت)،ذات پَن ،توں پن وغیرہ۔
۵۔ قدیم دکنی میں اگر فاعل جمع مونث ہوتا تو فعل بھی جمع مونث کی صورت میں
استعمال کیا جاتاتھا۔اس کی مثال درج ذیل ہے :
خوشی خرّمی میں او بلتیاں چلیاں
اکھرتیاں و پھرتیاں اوچھلتاں چلیاں
( حسن شوقی ؔ)
دکنی میں مونث اسما کی جمع ’ یں ‘ لگانے سے بنتی تھی مثلاً رات سے راتیں
،بیل سے بیلیں وغیرہ۔ شمالی اردو میں ایک سے زیادہ طریقے رہے مثلاً رات سے
راتوں وغیرہ۔
۶۔ علامت فاعل ’’ نے ‘‘ کا استعما ل قدیم دکنی میں بہت کم ملتا ہے ۔دکنی
میں علامت فاعل نہیں ہے ۔ضمیر غائب میں ’’ نے ‘‘ کا استعمال کہیں کہیں
موجود ہے ۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
ع : جہاندار نے میزبانی کریا
(حسن شوقی ؔ)
ع : جو بہرام نے سنواریا صلا (حسن شوقیؔ )
ع : مُکھ موڑ چلی ہے چنچل نے گمان کر (شاہیؔ )
۷۔ قدیم دکنی میں افعالِ معاون کی درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں:
ہے ۔اہے ۔اہیں۔
تھا ۔اتھا۔اتھے۔اتھار۔
تھا ۔تھیا۔تھیاں۔
اچھو۔اچھے۔ اچھیں۔
۸۔ دکنی اور اردو میں ضمائر کی مختلف شکلیں ان زبانوں کے ارتقا کو سمجھنے
میں مدد دیتی ہیں ۔ دکنی اوراُردو میں مندرجہ ذیل ضمائر مستعمل رہی ہیں :
منج (مجھ )، ہمن ( ہم ) ،تُوں ( تُو)،تم کا (تیرا) ،تُمن(تُم)،تُمنا
(تُم)،اُنن( اُن)، مَیں ،مُجہ ،مُجھے،میرا،ہَوں ،ہم،ہَمن،ہَمنا،تُوں ،تُجہ
،تُجے ،تیرا، تُمن،تمنا ُ،تہیں ،تُس ،تم ،اپے،،اپیں ،وو،وہ،اوس،اُلن،اُنوں
وغیرہ۔
۹۔ دکنی زبان کے ارتقائی مدارج پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم
،ضمیر،فعل کے آخر میں ’’ چ ‘‘ کا اضافہ کرنے سے ’’ ہی ‘‘ کے معنی پیدا ہو
جاتے ہیں۔تاکیدی حرف ’ہی ‘ کے بجائے ’چ‘ کا استعمال مر ہٹی کا اثر معلوم
ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر دینا چ (دینا ہی)،تونچ(تو ہی )،اُسیچ (اُسے ہی )،
کاچ (کا ہی ) وغیرہ۔
۱۰۔قدیم دکنی میں درج ذیل الفاظ کثرت سے استعما ل ہوتے تھے :
آنجھو ،انجھو (آنسو ) ۔ ابھال (بادل)،اچھر (حرف )،اچیل (چنچل تیز گھوڑا
)،بھوئیں (زمین)،بھوتیک(بہت سے )،پر گٹ (ظاہر )،پنکھ، پنکھی (پرندا)،پونگڑا
(لڑکا)،دھرتری (دھرتی)،دسن(دانت )،ڈونگر (پہاڑ )،رُکھ (درخت )رکت (خون
)،سرس (سر )،سور (سُورج)، کالوا(نالا)،ناد (آواز)،نس دِن (رات
دِن)نانو(نام)۔
دکنی زبان کے ارتقا کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد جو حقائق سامنے ا ٓتے ہیں
ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو زبان نے تاریخ کے ہر دور میں فکر و
خیا ل کی انجمن سجانے کی خاطر بر صغیر کی ہر زبان سے لسانی استفادہ کا
سلسلہ جاری رکھا ۔اپنے ذخیر ہ ٔ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے اردو زبان نے
ہر زبان کے ادب سے خوشہ چینی کو شعار بنایا۔اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا
جا سکتاکہ گیسوئے اردو کا نکھار مقامی زبانوں سے بھرپور استفادہ کا ثمر
ہے۔اردو زبان میں جو صد رنگی جول گر ہے وہ صدیوں کے اُس لسانی عمل کا ثمر
ہے جس کے معجز نما اثر سے یہ زبان نہ صر ف اس خطے کی تما م زبانوں بل کہ
دنیا کی مشہور زبانوں کی خصوصیات کا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔
تاریخی حقائق سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہلی کے قدیم شعرا نے تخلیق فن
کے لمحوں میں بالعموم دکنی اسالیب کو پیش نظر رکھا۔قدیم دور کی اردو شاعری
کا عمیق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے شعرا نے دکنی زبان کے
متعدد الفاظ استعمال کیے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ دکنی زبان نے اپنی ہمہ
گیر اثر آفرینی سے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ دہلی میں
بولی جانے والی اردو میں دکنی کے بعض حروف اور ضمائر کی موجودگی اس حقیقت
کی شاہد ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا ربط تھا۔مثال کے طور پر ’’سیں ‘‘ ’’
منجے ‘‘ اور ’’سستی ‘‘ وغیرہ۔ دہلی کے شعر ا نے دکنی کے مندرجہ ذیل الفاظ
کا کثرت سے استعمال کیے:
انکھیاں ،ادھر،دستا،نپٹ،مُکھ،انا،بچن،کپت،لگ،پیا،من ہرن،پگ،سار،بھیتراور نت
وغیرہ۔
دہلی کے اردو شعرا کے کلام میں دکنی حروف لسانیات کے ارتقا کی تاریخ کی
تفہیم میں جس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں ،اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
میرے ملنے سیں پیارے کیوں عبث تُو جی کھپاتاہے
اِن ہی باتوں سے اے بے خبر اخلاص جاتا ہے
( نجم الدین شاہ مبار ک آبروؔ )
تیر ا بر جستہ قد ہے منتخب مصرع نظامی کا
کہ چشمِ مست اُوپر صیاد جوں دستا ہے جانی کا
( نجم الدین شاہ مبار ک آبروؔ )
بے رحم و بے وفا و تُنک رنج و تُند خُو
تُجھ کوں ہزارنام سجن دھر گئے ہیں ہم
(آبروؔ)
مرگ سی چُک سوں کھینچ ہرن کی کھال
پگ تلیں بیٹھی مرگ چھالا ڈال
(فائزؔ )
جو ں جھڑی ہر سُو ہے پِچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کی سار
(فائزؔ )
بہت سا جگ میں حاتمؔ ڈھونڈ آیا
پِھر ایسا دُوسر ا ہمدم نہ پایا
( شیخ ظہور الدین حاتمؔ)
مئے پرستوں پر قیامت آن ہے ساقی نہیں
بزم لے اُس کے نِپٹ ویران ہے ساقی نہیں
(حاتمؔ)
نہ بولے آپ سیں جب لگ نہ بولو
کُھلے نہ بِیچ جب تب لگ نہ کھولو
(حاتم ؔ)
جب تک رہے قفس میں یہی شغل نِت رہا
سر کو جُھکاجُھکا کر پر و بال دیکھنا
( اشرف علی فغاںؔ)
نِپٹ سخت ہے ماجرا درد کا
دِل سرد کا اور رُ خ زرد کا
(فغاںؔ )
دکنی زبان کو نر بدا یا جنوبی سر حد تک محدود کرنا درست نہیں۔نر بدا بھوپال
سے کچھ نیچے ہو شنگ آباد کے نزدیک سے جو سر حد گزرتی ہے اس کے جنوب میں
مدھیہ پردیش کا وسیع علاقہ ہے وہاں موجود اصطلاح کے لحاظ سے ہندی زبان
مستعمل ہے ۔ ان حقائق سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اورنگ زیب کے عہد حکومت
میں شمالی ہند کے وسیع علاقے میں دکنی زبان بولی اور بولی جاتی تھی ۔ شمالی
ہند میں دکنی زبان کے بہت سے محاورات کا استعمال بڑھنے لگا جو اس زان کی
مقبولیت کی دلیل ہے ۔
مآخذ
(1) جمیل جالبی ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو (اٹھارہویں صدی ) جلد دوم ،حصہ اول
، دہلی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،1984،ص۲۵۔
(2) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدر آباد ،سال اشاعت 2012، ص۲۔
(3) محمد حسین آزاد ؔ: آب حیات ، لاہور،مطبع نول کشور ،1907،ص۸۷۔
(4) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ ،تحقیقات ِ اُردو
،نقش ثانی ،1984،ص۲۔
(5) نصیر الدین ہاشمی : دکھنی(قدیم اردو )کے چند تحقیقی مضامین، دلی
،آزادکتاب گھر کلاں محل ،بار اول ،1963،ص۱۷۶۔
(6) نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ، لاہور،مکتبہ معین الادب ،چوتھی بار
، 1952 ، ص۱۹۔
(7) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس،مصنف ملا وجہی ، کراچی ،انجمن ترقی
اردو پاکستان ،1952،طبع دوم ،ص۷۰۔
(8) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس، مصنف ملا وجہی ،ص۸۰
(9) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب ) :سب رس ، مصنف ملا وجہی ،ص۹۳
(10) شوکت سبزواری ڈاکٹر : لسانی مسائل ، کراچی ،مکتبہ اسلوب ،اشاعت اول
،1962، ص۷۸۔
11. Heory Frowde (Publisher): The Imperial Gazetteer Of India, Vol,I,
Oxford,London 1909,Page 362
12.Keith Brown: Concise Encyclopedia Of Languages Of The
World,London,2009,Page,498
|