عہدِ قطب شاہی میں کتب نویسی کی شان ِ کج کلاہی

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
دکن کی قدیم تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ علاء الدین خلجی کی مہم جوئی سے لے کر آصف جاہ ( اوّل ) کی یلغار تک دکن میں پر جو کوہِ ستم ٹوٹا چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اکثر حملہ آور شمالی ہندہی سے وارد ہوئے ۔دکن پر اِن حملوں کے لیے کثیر تعداد میں فوج معل اپنے اہلِ خانہ یہاں پہنچی۔مہم جوئی کی کامیابی کے بعد حملہ آور فوج نے یہاں قیام کرنے کا فیصلہ کیااور اسی ماحول میں رچ بس گئے۔ کھڑ ی بولی جو شیخاواٹی ،برج، ہریانہ اور میوات میں بولی جاتی تھی وہ اس سے واقف تھے۔ اظہار و ابلاغ کے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کی خاطرانھوں نے کھڑ ی بولی کو اپنا لیا ۔ دکن میں مقیم افغانستان،ایران اور ترکی سے تعلق رکھنے و الے خاندانوں نے عربی اور فارسی زبان سے معتبر ربط بر قرار رکھا۔اس طرح دکن میں لسانی صورت حال نے ایک ہمہ گیر نوعیت ااختیار کر لی جس میں دنیا کی کئی ممالک کی تہذیب و ثقافت اور زبانوں کے رنگ و آ ہنگ سمٹ آئے تھے۔ دکن میں بہمنی سلطنت کے بر سر اقتدار آنے کے بعدایران ،ترکی اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے خاندان دکن میں قیام پذیر ہوگئے ۔ قطب شاہی دور (1518-1687)میں اس خطے کے ادیبوں نے تخلیق ِادب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہااور دکن کے ادیبوں نے بہت سی نئی کتب لکھ کر دکنی ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ اس خطے سے شاہی سر پرستی میں قطب شاہی دور میں ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجا م دی گئیں وہ تاریخ کے اوراق میں نمایاں اندازمیں لکھی گئی ہیں۔
نمبر شمار
# بادشاہوں کے نام
)عرصہ ٔ اقتدار : از
تا
1
#سلطان قلی قطب شاہ
1512 ء
1543ء
2
جمشیدقطب شاہ
1543ء
1550ء
3
#سبحان قلی قطب شاہ
1550ء

4
ابراہیم قطب شاہ
1550ء
1580ء
5
!محمد قلی قطب شاہ
1580ء
1612ء
6
محمد قطب شاہ
1612 ء
1626ء
7
عبداﷲ قطب شاہ
1627ء
1672ء
8
"ابوالحسن قطب شاہ
1672ء
1687ء

{ محمد قلی قطب شاہ نے مقامی رسوم و رواج ،تہواروں اور اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔اس کی شاعری میں عشق و محبت کا جذبہ ٔ بے اختیار قاری کو تخلیق کار کے ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے ۔ محبت کے جذبات کی یہ بے خودی ،سرمستی ،جذبِ دروں اوروجدانی کیفیت قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔قلی قطب شاہ نے علم و ادب کی سرپرستی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔اس نے اپنے عہد کے مقبول مصنف شیخ احمد شریف گجراتی کو اپنے پاس بُلایا ۔ محمد قلی قطب شاہ کے خاص مہمان کی حیثیت سے اپنے حیدر آباد کے قیام کے دوران شیخ احمد شریف گجراتی نے اپنے عہد کی مشہور و مقبول رومانوی داستان ’’قصہ یوسف زلیخا ‘‘ (عرصہ ٔتخلیق : 1580-1585)کو مثنوی کے اشعار کے قالب میں ڈھالا جسے قارئین ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ دبستان گول کنڈہ کی اس پہلی طویل رومانوی مثنوی کے عرصۂ تخلیق 1580-1585))کے دوران میں قلی قطب شاہ نے اس دور کے انتہائی مقبول، ذہین اور با کمال تخلیق کار شیخ احمد شریف گجراتی کی خوب قدر افزائی کی۔ شیخ احمد شریف گجراتی دکنی زبان کا ایک زیرک،فعال ،مستعد اور قادر الکلام شاعر تھا اس کی مثنوی ’ لیلیٰ مجنوں ‘ بھی بہت مقبول ہوئی ۔ابن نشاطی بھی اس رجحان ساز تخلیق کار کے کمال فن کا معترف تھا ۔ مرثیہ، رباعی،مثنوی اور غزل میں احمد شریف گجراتی نے متعدد ایسے الفاظ استعما ل کیے ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں مثلا ً اُپجے بہ معنی پیدا ہوئے وغیرہ ۔دکنی زبان کے قدیم شاعر شیخ احمد شریف گجراتی کے منفرد اسلوب کو سمجھنے کے لیے اس کے چندمصرعے /اشعار درج ذیل ہیں :
ع: سر پر تو سانجھ پڑ گئی اور پاؤں تھک گئے
بنا احمد ؔ سو کیا اُن کو سرائے
بہو دھاتوں خدا اُن کو سرائے
احمد ؔ دکن کے خوباں ہو تیاں ہیں پُر ملاحت
تو توں دکھن کو اپنا گجرات کر کے سمجھیا
سو منگتا تھا جو شہ کے ناؤ ں سیتی
کتاباں رس کروں بہ چاؤں سیتی
میر ی خاک میں تھے جو اُپجے نہال
وفا کے لگے پھول پھل ڈال ڈال
دکنی زبان کے تخلیق کار

ملا وجہی بھی اسی عہد کا پُرعزم تخلیق کار تھا اس نے قلی قطب شاہ کی داستان ِ محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا اورایک طویل مثنوی ’’قطب مشتری ‘‘ پیش کی ۔دکنی نثر میں ملا وجہی کی کتاب ’’سب رس ‘‘ کو دکنی ادب کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔قدیم دکنی زبان کو ہندوستانی زبان کی ایک کو نپل خیال کیا جاتا ہے جس نے سر زمین د کن میں نمو پائی ۔دکن میں مقیم مسلمان باشندوں نے اس زبان کو پروان چڑھانے میں گہری دلچسپی لی ۔اردو زبان کے ماننددکنی زبان نے تحریر کے لیے فارسی نستعلیق رسم الخط کا انتخاب کیا ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے قدیم دکنی شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے ریختہ کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنا کر ایسا رنگ و آ ہنگ عطا کیا کہ ادب میں تخلیقی فعالیت کومقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لسانیات کے ان ہمہ گیر تجربات نے پورے شمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں بھی شعر و سخن سے وابستہ مثبت شعور و آ گہی سے متتمع تخلیق کاروں کی محفلوں میں ولی دکنی کی تخلیقی کامرانیوں کی بازگشت سنائی دینے لگی۔جب ولیؔ دکنی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچ گئی تو اس کے اسلوب کی تقلید پر توجہ دی گئی ۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے باہم امتزاج اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے تغیر و تبدل کا وسیع سلسلہ پیہم جاری رہا اور اس عہد میں بر صغیر کی ہر زبان میں دکنی زبان کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی بنا پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی تمام ادبی زبانیں ان لسانی تجربات سے مستفید ہوئیں اور دکنی زبان سے خوشہ چینی کرتی رہیں ۔ہندوستانی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب زبانوں کے علم و ادب کا قصر عالی شان دکنی زبان سے مستعار لیے گئے ذخیرۂ الفاظ کی اساس پر استوارہے ۔فکری اور فنی اعتبار سے ہندوستانی زبانیں دکنی زبان کی باج گزار ہیں اور دکن کے مشاہیرِ علم و ادب کے بار ِ احسان سے بر صغیر کے باشندوں کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔بر صغیر کی زبانوں بالخصوص دکنی زبان پر ممتاز مستشرق گریرسن (George Abraham Grierson) نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُسے پوری دنیا میں سرا ہا گیا ۔ دکنی زبان کی لسانی اہمیت کے بارے میں گریرسن (1851-1941)نے لکھا ہے :


"The Musalman armies carried vernacular Hindostani to the
southbefore it had been standardised,and it then contained many idioms which are now excluded from literary prose.Some of these have survived in Deccan.")2(

آریائی زبانوں سے میل جول اوراشتراک سے جنوبی ہند میں دکنی زبان نے نمو پائی۔دکنی زبان کاامتیازی وصف یہ ہے کہ اس زبان میں فارسی الفاظ کی فراوانی نہیں ہے ۔ مغربی ہندی زبان کی شاخوں کے بر عکس اسم یا ضمیر کے بعد اور فعل ماضی سے پہلے حرف (نے ) کا استعمال نہیں ہوتا۔دکنی زبان میں ’’مجھ کو ‘‘ کے بجائے ’’میرے کو ‘‘ مستعمل ہے ۔دکنی زبان کے مولد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں تلگو نے پانچ سو برس تک رنگ جمایا اس عرصے میں مقامی زبانوں میں لسانی تجربات ،تغیرات اور ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور دکنی زبان نے بھی اس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اس کا اندازہ دکنی زبان میں رونما ہونے والے نحوی تغیر و تبدل سے لگایا جا سکتا ہے۔لسانی عمل کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادی ،غیر ارادی ،مرضی یا غیر مرضی سے وقوع پذیر ہونے والے تغیرات اس خطے میں صدیوں سے مسلط جبر کی فضا سے انحراف کی ایک صور ت بن رہے تھے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھنے والے محققین اور مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکن میں بہمنی دور میں حکمرانوں کی سر پرستی کے نتیجے میں دکنی زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ۔عوام کی دلچسپی اور حکمرانوں کی حوصلہ افزائی نے یہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دکنی زبان نئے آفاق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔دکنی زبان پر عربی اور فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں لیکن اس کے باوجود دکنی زبان کی شکل و صورت ہندوستانی زبان سے قدرے مختلف ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ دکنی زبان پر حیدر آباد ،بنگلور ،اورنگ آباد ،کرنول،نیلور اور بنگلور میں مقیم مراٹھی ،تلگو اورکاندا جیسی مقامی بولیاں بولنے والے باشندوں کے گہرے اثرات ہیں۔اس قسم کی علاقائی زبانیں مہاراشٹر ،تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کرناٹکااورتامل ناڈو میں طویل عرصے سے مستعمل ہیں۔ اُردو زبان کی قدیم ترین شکلوں میں گوجری ،ہندوی اور دکھنی قابل ذکر ہیں ۔ ان زبانوں کے مشرقی پنجابی اور ہر یانی کے ساتھ کھڑی بولی کی نسبت زیادہ گہرا تعلق ہے ۔دکن ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تخلیق کاروں نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے فقید المثال سفر کا آغاز کیا تھا ۔ ادبیات ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین ادب کا خیال ہے کہ جدید دور کی معیاری ارد وکے سوتے بھی سر زمینِ دکن ہی سے پھوٹے تھے ۔ دکن میں ایک نئی زبان کے ارتقا کے حوالے سے اماریش دتا (Amaresh Datta)نے انسا ئیکلو پیڈیا ہندوستانی لسانیات میں لکھا ہے:
,,The fusion of the spoken language of the North (imposed upon the south by its Muslim conquerers )and the southern languages resulted gradually in
the evolution of a somewhat peculiar form which can be known as Dakkani Urdu.The Bahmani Kingdom,the first independent Muslim State in the South( 1347- 1526) despite its long rule did not contribute much to Dakkani literature as such ,but its adoption of thi new languageas its court,s language in preference to Persian ,helped the process of the gradual growth and development as the dominanat linguistic force of the areaand contained to draw strength and sustenance from cultures of both the North and the South.(3)

فارسی بولنے والے مسلمان فاتحین اور ان کے لشکر میں شامل فوجی اپنی زبان دکن لے کر پہنچے ۔ جنوبی ہند میں جس زبان کو دکھنی کہا جاتا تھا شمالی ہند میں اس نئی زبان کے لیے کوئی موزوں نام تجویز نہیں ہوا تھا۔انسانی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ابنائے جنس کے ساتھ باہمی معاونت اور تقابل کے نتیجے میں دکن میں نمو پانے والی یہ نئی زبان شمالی ہند میں شمالی ہند میں ریختہ ،اُردو ،اُردوئے معلّیٰ کے نام سے مقبول ہوئی۔ تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم کوپرورشِ لو ح و قلم کا وسیلہ بنایا ۔اس طرح تخلیقی فعا لیت میں بھی نثر کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہو ا اور دکن میں نظم کی تخلیق نثر کے بعد ہوئی ۔ماہرین لسانیات کا گمان یہ ہے کہ عروض کی پابندی اور قافیہ بندی کی نسبت دوسری زبان سے ترجمہ کرنا قدرے آسان ہے اس لیے دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم ہی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔یہ خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز شہبازؔ تھے جنھیں دکنی کا پہلا شاعر قرار دیا جاتا ہے ۔ اس عہد کے مقبول ،فعال اور مستعد تخلیق کاروں کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں اِس زبان کو بالعمو م دکنی اور ہندی ہی کہاجاتا تھا ۔ ولی ؔ اورنگ آبادی نے دکھنی زبان کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا ۔ دکنی زبان کی تاریخ کے ابتدائی دور کے کچھ اور نمائندہ تخلیق کاروں کے نام اور نمونہ کلام پیش کیا جاتا ہے:
یہ ریختہ ولیؔ کا جا کر اُسے سُنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند
(ولی ؔ اورنگ آبادی )

یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ شروع میں دکن میں مستعمل زبان کا نام دکھنی رکھا گیا تھا جو بعد میں شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے موسوم ہوئی ۔اس میں ولیؔ کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے جس نے اپنے سفر دہلی کے بعد لفظ ریختہ کو مروج و مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
دکھن میں جو ں دکھنی مٹھی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اِس دھات کا
(وجہیؔ : قطب مشتری )
اسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کُوں کھول
(ابن نشاطیؔ : پھول بن )
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِلپذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر
(رستمیؔ : خاور نامہ )
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی
(نصرتیؔ : گلشنِ عشق )
ولے بعض یاروں کاایما ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
(آگاہؔ)
ہے دکھنی میں مجکوں مہارت یتی
کہ النصر منکم کہے نصرتی
( آگاہؔ)
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ سر زمینِ دکن کے مکینوں کے علاوہ شمالی ہند کے تخلیق کاروں نے بھی لفظ ’ ریختہ ‘ کا بلا تامل استعمال کیا مثلاً:
قائم ؔمیں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکھنی تھی
(قائمؔ)
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اس کو فرمایا
(اثر ؔ )
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
( میر تقی میر ؔ )

گول کنڈہ میں قطب شاہی خاندان نے سال 1508میں ایک آزاد اور خود مختار سلطنت قائم کی۔ اس ریاست کے آٹھ مطلق العنان بادشاہوں کی علم وا دب کی سرپر ستی کے نتیجے میں ان کی اقلیم میں تخلیق کاروں نے اپنے ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے قارئین کی خداداد قدرتی، ادبی ،اخلاقی اورعلمی اوصاف کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ مورخین کی تحقیق کے مطابق قطب شاہی عہدکو درج ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔ ابتدائی دور : ( 1508-1580 )
۲۔عروج کا زمانہ : ( 1676 1580- )
۳۔دور انتشار : ( 1676-1687 )

قطب شاہی خاندان کے پہلے بادشاہ سلطان قلی نے قصرِ شاہی میں ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ تخلیق کاروں کے مِل بیٹھنے کے لیے ’ آش خانہ ‘ کے نام سے ایک پُر آسائش اور بے حد حسین محل تعمیر کرایا۔ اِس خاندان کے آخری چار بادشاہ خود شاعر تھے ۔قطب شاہی دور میں جو ادیب شاعری اور نثر کی مختلف اصناف میں پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ان کے نام درج ذیل ہیں :
شاعری : محمد قلی،ظل اﷲ ،عبداﷲ ،تانا شاہ،فیروزؔ ، محمود ؔ،وجہیؔ،غواصیؔ،احمد ،راضیؔ ،جنیدیؔ،ابن نشاطیؔ،طبعیؔ،امینؔ،خواصؔ،غلام علی،سیوکؔ،فائزؔ،لطیف،افضلؔ،نوریؔ ،راجوؔ۔
نثر : مولانا عبداﷲ ، ملاوجہی

قلی قطب شاہ (1565-1612)
قطب شاہی خاندان کا پانچواں بادشاہ قلی قطب شاہ سال 1580میں تخت نشین ہوا جو دکنی اُردو کا پہلا شاعر ہے جس کا تخلص قطبؔ شاہ اور معانیؔ تھا ۔اس کی تمام شاعری کو کلیات کی صورت اس کے بھتیجے محمد قطب شاہ نے ذاتی دلچسپی اورتوجہ سے مرتب کر کے شائع کیا ۔اس کی کتابِ زیست کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی میں اس نے ایک مہ جبیں حسینہ بھاگ متی سے پیمانِ وفا باندھا اور اس کی محبت میں شعر گوئی شروع کی ۔جب تخت نشین ہوا تو بھاگ متی کو حیدر محل کا نام دے کر شریکِ حیات بنا لیا اور اِسی مہ جبیں حسینہ کے نام پر حیدر آباد شہر بسایا ۔جذبہ ٔ محبت سے سرشار اس فطرتی شاعر نے رباعیات،ترجیح بند ، غزل،قصیدہ،مثنوی،مرثیہ اور نظم میں ایک لاکھ شعر کہے جن میں گل و بلبل اور شاہد و ساقی کا پرانا موضوع غالب ہے ۔ رفعتِ تخیل ، جدت ،تنوع اوراسلوب میں تشبیہات اور استعارات کی کمی کھٹکتی ہے۔ اس کے اشعار بر صغیر کی مقامی تہذیب و ثقافت کے مظہر ہیں۔اس کے کلام میں فطرت نگاری کاجادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔مثال کے طور پر’ باغ محمد شاہی کی تعریف میں قصیدہ ‘ اس کے منفر د اسلوب کامظہر ہے :
محمد ﷺ نانوں تھے بستا محمد ﷺ کااے بن سارا

سو طوباں سوں سہاتا ہے جنت نمنے چمن سارا
دسے فانوس کے درمیانے تھے جوں جوت دیوے کا سوتیوں دِستا دوالاں میں تھے میویاں کا ب
سڑک سے باغ کوں دیکھت کھلے منج باغ کے غنچے
سو اس غنچے کے باسا ں تھی لگیا جگ مگمگن سارا
چمن کے پھول کھلتے دیکھ سکیاں کا مُکھ یاد آیا
سہاتا تھا محمد ﷺ پھل نمن ان کا نیں سارا
ہے عشق ہر اک دھات ہر اک دل میں پیارا
منج عشق پیارے کا اہے جیو کا ادھارا
بن سیر تمن ساری کلیاں سُوکھ رہی ہیں
ٹک آ کے کرو گشت چمن جی اوٹھے سارا
رخ ایک ہے پر ایک کدھن لال چمن ہے
لکھ جوت ہے ہر ٹھو ر ولے ایک رتن ہے
کس ٹھار میں رستا نہیں ہر ٹھار ہے بھر پور
دیکھن کو سکتکاں اوسے بس ایک نین ہے
منج عشق گری آگ کا اِک چنگی ہے سورج
اس آگ کے شعلے کا دھواں سات گگن ہے
(قلی قطبؔ شاہ )
قلی قطب شاہ کے اسلوب میں فطرت نگاری کو اہم مقام حاصل ہے ،اس کی شاعری میں ’ بسنت ‘ کے موضوع پر کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی شاہد ہیں اس کی مثال پیش کی جار ہی ہے :
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تُمیں ہیں چاند میں ہو ں جوں ستارا
’’ مرگ ‘‘ موسم برسات کی ابتدا پر بھی کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی عمدہ مثال ہیں ۔اس کی مثال درج ذیل ہے :
مرگ مہینے کو ں ملا ے ملکاں مل گگناں میں
سمد موتیاں کے جو برسائے سو بھرے انگنا میں
قلی قطب شاہ کی مثنوی ’ سالگرہ ‘ ا س کے ذاتی تجربات،قلبی جذبات اور احساسات کی حسین لفظی مرقع نگاری کی آئینہ دار ہے :
نبی ﷺ کی دعا تھے برس گانٹھ پایا
خوشیاں کی خبر کے دمامے بجایا
پیا ہوں میں حضرت کے ہت آبِ کوثر
تو شاہاں اُوپر مجھ کلس کو بنایا

قلی قطب شاہ کے شعری کلیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی ۔اس کے دیوان میں شامل کل تین سو بارہ(312) غزلوں کی ردیف وار ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔اس کے دو ہزار دو سو چوّن (2254) اشعارزبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا منھ بولتا ثبوت ہیں ۔
محمد قطب شاہ ظل اﷲ (عرصہ اقتدار :1611-1625)

اس کی تعلیم و تربیت کا خاص خیا ل رکھا گیا اور ایران کے ممتاز عالم علامہ میر مومن موسوی کو بہ طور اتالیق مقر ر کیا گیا تھا ۔اس کی شادی سال 1607 میں اپنے چچا قلی قطب شاہ کی بیٹی حیات بخش بیگم سے ہوئی ۔وہ قلی قطب شاہ کے بعد تخت نشین ہوا ۔اس کے دربار میں ادیبوں اور شاعروں کوقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی تخلیقات کو اہم ادبی اثاثہ سمجھا جاتا تھا ۔پہلی قطب شاہی تاریخ اسی کے دور میں لکھی گئی ۔دکنی زبان میں محفوظ ماضی کی یہ ادبی میراث نہ صرف دکنی زبان کے ارتقا کے مختلف مدارج سامنے لاتی ہے بل کہ اس کے مطالعہ سے ادبی فعالیتوں اور تخلیق ادب کے اعتبار سے عہدِ رفتہ کے بارے میں احساس اور شعور کو نئے اور متنوع امکا نات کے بارے میں کامل آ گہی سے متمتع کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ محمد قطب شاہ ظل اﷲ کا بہت کم کلام دستیاب ہے محمد قطب شاہ ظل اﷲ کانمونہ کلام درجِ ذیل ہے :
ہوا آتی ہے لے کے بھی ٹھنڈ کالا
پیا بِن سنتا نا مدن بالی بالا
رہن نا سکے من پیا باج دیکھے
ہووے تن کوں سکہ جب ملے پیو بالا
سجن مُکہ شمے باج اوجالا نہ بہاوے
بھلایا ہے منج جیو کوں او اجالا


جو رات آ وے چندنی کے منج کوں ستاوے
کہ چند نا منجے نین نین سوز لالا
(محمد قطب شاہ ظل اﷲ )
محمدقطب شاہ ظل اﷲ نے اپنے خسر (قلی قطب شاہ ) کی شخصیت اور اسلوب کو جس طر ح خراج تحسین پیش کیا ہے وہ اس کے ذوقِ سلیم کا مظہر ہے ۔
سو کچھ شاعری بِیچ شہ دھر کمال
بچن کہہ کے موتیاں نمن صدف ڈھال
دتا شعر کہہ بیت میں ٹیک بات
کہے نین لکھیں
عبداﷲ قطب شاہ (1614-1672)

عبداﷲ قطب شاہ کا عہد حکومت ( 1626-1672) اپنے باپ سلطان محمد قطب شاہ کی وفات کے بعد شروع ہوا ۔اس کے دربار میں غواصیؔ ،قطبیؔ،ابن نشاطیؔ ،طبعیؔ،کشتریہ ؔ ،جنیدی ؔاورامینؔ جیسے اس زمانے کے ممتاز شعرا موجود تھے۔اسے شاعر ہفت زبان کہا جاتا تھا۔ نمونہ کلام:
لکھ فیض سوں پھر آیا دن دین محمد ﷺ کا
آفاق صفا پایا دن دِین محمد ﷺ کا
اے پری پیکر ترا مُکہ آفتاب
دیکھتا ہوں تو رہے نا منج میں تاب
یاد ایسا تا د دکھاتا ہے ہنوز
دیکھ تری زلف کا دو پیچ و تاب
(عبداﷲ قطب شاہ عبداﷲ ؔ )
سلطان ابو الحسن قطب شاہ( عہد حکومت:1672-1686)
سلطان ابو الحسن قطب شاہ( تانا شاہ ) گول کنڈہ کا آخری بادشاہ تھا ۔مغل بادشاہ اورنگ زیب نے اسے شکست دی اور اس کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس کے لیے حکم حبس دوام صادر کر دیا ۔ عسکری مہمات اور قید و بند کی صعوبتوں کے باعث یہ بادشاہ تخلیقِ ادب پر توجہ مرکوز نہ رکھ سکا اور اس کا کلام بھی محفوظ نہ رہا اورتاریخ کے طوماروں میں دب کرابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو گیا ۔ بڑے نامیوں کے نشان مٹانا تاریخ کا عبرت ناک باب ہے ۔سال 1699میں اس محروم اقتدار شاہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اورعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا ۔اس کا یہ شعر سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد اس کے ذاتی حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے :
کس در کہوں کان جاؤں میں مجھ دِل پہ کٹھن بچھڑات ہے
یک بات ہوں گے سجن یہاں جیو بارہ باٹ ہے
(تانا ؔشاہ )
ملا اسداﷲ وجہی(وفات:1659)
سترہویں صدی عیسوی کے اوائل میں دکنی نظم اور نثر کے اس با کمال تخلیق کار نے ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں بہت اہم ہے ۔ اس نے چار بادشاہوں کا دور دیکھا جن میں ابرہیم قطب شاہ ،محمد قلی قطب شاہ ، محمدقطب شاہ اور سلطان عبداﷲ شامل ہیں ۔اس کی تصانیف ’قطب مشتری (1609) ‘ اور ’ سب رس (1634) ‘ دکنی ادب کے ارفع معیار کا نمونہ ہیں۔ قطب مشتری میں وجہی نے قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی داستان محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔وجہی کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے :
تو ں اول توں آخر تو ں قادر ا ہے
تو مالک تون باطن توں ظاہرا ہے
طاقت نہیں دُوری کی اب تون بیگی آ مِل رے پیا
تج بن منج ے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کیتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تج نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دِل رے پیا
چھپی رات اجالا ہوا دیس کا
لگیا جگ کرن سیو پریس کا
شفق صبح کا نیں ہے آ سمان میں
کہ لالے کھلے ستبساستان میں
جو آیا جھلکتا سورج داٹ کر
اندھار ا جو تھا سو گیا نھاٹ کر
سورج یوں ہے رنگ آسمانی منے
کہ کھلیا کمل پھول پانی منے
غواصی ؔ
غواصی ؔ اپنے زمانے کا مقبول شاعر تھااورعبداﷲ قطب شاہ کے عہد میں ملک الشعرا تھا اور اپنی شاعری میں اس شاعر نے غواصی ؔ اور غواص ؔ کے دو تخلص استعما ل کیے ۔ اس کی مثنویوں ’مینا ستونتی ‘، ’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، ‘ اور ’طوطی نامہ ‘ کو دکنی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ مثنویاں فارسی زبان سے ماخوذ ہیں اور انھیں دکنی زبان میں منتقل کیا گیا ہے ۔ اس کی طویل مثنوی ’ طوطی نامہ ‘ چار ہزار پر مشتمل ہے جو دراصل سنسکرت کے مشہور حلقہ قصص ’’ شکا سب تتی ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غواصیؔ کی یہ تخلیق ضیا الدین بخشی کے ’ طوطی نامہ‘ کا دکنی منظوم ترجمہ ہے ۔ دو ہزار اشعار پر مشتمل غواصیؔ کی مثنوی ’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، الف لیلیٰ کا قصہ ہے ۔ غواصیؔ کی شاعری کا کلیات بھی موجود ہے اس میں غزلیں اور مر ثیے شامل ہیں ۔ سلطان محمد قطب شاہ کے عہد حکومت میں غواصی ؔ کی شاعری کی دھوم تھی ۔ غواصی ؔ نے مثنوی ،قصیدہ ،غزل ،نظم، رباعی ،ترکیب بند اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی ۔اس کے بعد عبداﷲ قطب شاہ کے دور میں اسے شاہی دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ وجہی ؔ کی مثنوی ’قطب مشتری ‘ شائع ہوئی تو اس کا موثر جواب دینے کی خاطر غواصیؔ نے ’سیف الملوک و بدیع الجمال ‘ تخلیق کی ۔ دونوں شاعروں کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں وجہی ؔنے مفصل واقعات بیان کیے ہیں وہاں غواصی ؔ نے اختصار سے کام لیا ہے ۔ مثنوی کے اس رجحان ساز شاعر کی شہرت پورے دکن میں پھیل گئی ۔اس عہد کے مقبول شاعر مقیمی ؔ نے غواصی کے اسلوب سے متاثر ہو کر ’’چندر بدن و مہیار ‘‘ تخلیق کی ۔غواصی ؔ کا درج ذیل نمونہ کلام ’حمد ‘ اور ’ طوطی نامہ ‘ سے لیا گیا ہے :
الٰہی جگت کا آلہی سو توں
کرن ہار جم بادشاہی سو توں
تیر ے حکم تل نوکر آسمان کے
رعیت ملک تیری فرمان کے
(حمد)
رتن خاص دریائے لولاک کا
جھلک لا مکان نورِ افلاک کا
محمد ﷺ نبی سید المرسلین
سدا روشن اوس تے دنیا ہو دین
(طوطی نامہ )

شیخ مظہر الدین ابن نشاطی
شیخ مظہر الدین ابن نشاطی کے والد کا نام شیخ فخر الدین تھا ۔اس کے سوانح حیات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔ عبداﷲ قطب شاہ کے زمانے میں ابن نشاطی کو شاہی دربار میں اہم مقام حاصل تھا اور وہ قطب شاہی سلطنت کا آخری شاعر تھا ۔اس نے نثر میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا جب کہ نظم میں اس کی ایک ہزار سات سو چوالیس (1744) اشعار پر مشتمل مثنوی ’پھول بن ‘ دکنی ادب میں بہت مقبول ہوئی ۔ابن نشاطی نے یہ مثنوی تین ماہ کے مختصرعرصے میں مکمل کر کے زبان وبیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیا۔پھول بن فارسی شاعر احمد حسن دبیر کی تخلیق ہے جو اس نے بساتین الانس کے نام سے لکھی تھی ۔ابن نشاطی نے اسی کو دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے ۔
اول میں حمد رب العالمین کا
دل وجان سوں کہوں جان آفرین کا
خداوندا تجھے ہے جم خدائی
ہمیشہ تُج کوں ساجی کبریائی
محمد ﷺ پیشوا ہے سروران کا
رہے سر خیل سب پیغمبران کا
(ابن نشاطیؔ )

احمدجنیدیؔ : یہ عبداﷲ قطب شاہ کے عہد کا شاعر تھا اور برہان پور میں مقیم تھا ۔اس کی مثنوی’ ماہ پیکر ‘ دکنی ادب میں شامل ہے ۔ذیل میں دکنی زبان کے اس قدیم شاعر کا نمونہ کلام پیش کیا جاتا ہے :
کہ احمد جنیدی پہ کر یو ں کرم
دھوے نا نو لب پر محمد ﷺ جرم
رکھیا ماہ پیکر سو اس نیک نام
الٰہی توں کر اس نظم کو ں تمام ( احمد جنیدیؔ )
طبعیؔ : اس شاعر نے سلطان عبداﷲ قطب شاہ کے آخری زمانے میں مقبولیت حاصل کی ۔سلطان ابوالحسن تانا شاہ کے درباری شاعر کی حیثیت سے طبعیؔ کو بلند مقام حاصل تھا۔اس کی مثنوی ’بہرام و گل اندام ‘میں ایران کے بادشاہ بہرام گو ر کا منظوم قصہ پیش کیا گیا ہے ۔
تیرے ہات میں شاہ جم جام اچھو
ہمیشہ بغل میں دلا رام اچھو
الٰہی یو طبعیؔ ترا داس ہے
دے ایمان اس کو تیرا آ س ہے
محمد ﷺ نبی تو ں خدا کا رسول
یو پیغمبران باغ تھے تو ں سو پھول
خواص
توں سبحا ن ہے پاک پروردگار
سدا ایک ہے توں اے بر قرار
بر صغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد اور اس خطے میں ان کے قیام سے ان کی زبان کے کئی محاورات دکنی میں شامل ہو گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورات اپنی جاذبیت کھو بیٹھے اورانھیں ترک کر دیا گیا ۔فاتحین کی زبان کا ملاپ زیادہ تر تامل ،مر ہٹی اور تلنگی سے ہوا ۔اس لسانی ملاپ کے نتیجے میں دکنی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور زبان کی ساخت میں تغیر و تبدل کا آغاز ہو گیا۔اس عہد کی لسانی کیفیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لسانی تغیرات اور ارتعاشات پر نظر ڈالی جائے جو اس دور میں زبان میں موجود تھے۔

دکنی زبان کے تخلیق کاروں کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے اسلوب اور ہئیت کے جمالیاتی تقاضوں کو بالعموم پیشِ نظر رکھا۔قطب شاہی د ور میں کتب کی تصنیف کاسلسلہ جاری رہا۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

نمبر شمار
تخلیق کار
کتب کے نام
تصنیف کا سال
1
ابن نشاطی
پھول بن
۱۰۶۶ ہجری
2
احمد
Yمصیبت اہل بیت ( مثنوی)،لیلیٰ مجنوں ( مثنوی )

3
افضل
محی الدین نامہ

4
اولیا
قصہ ابو شحمہ
۱۰۹۰ ہجری
5
بلاقی
معراج نامہ
۱۰۶۵ہجری
6
تانا ؔ شاہ
نظم

7
جنیدیؔ
' ماہ پیکر ( مثنوی)
۱۰۶۴ ہجری
8

Šواصؔ
قصّہ حسینی
۱۰۹۰ ہجری
9
سالک


10
سلطان محمد علی
کلیات
۱۰۲۵ ہجری
11
سلطان محمد


12
سلطان عبداﷲ

کلیات

13
سیوک
جنگ نامہ
۱۰۹۲ ہجری
14
شاہ راجو
5سہاگن،چکّی نامہ ،چرخا نامہ

15

طبعیؔ
) بہرام و گُل اندام
۱۰۸۱ ہجری
16

˜اجزؔ
/ لیلٰی مجنوں ( مثنوی)
۱۰۴۰ ہجری
17
غلا م علی
پدماوت
۱۰۹۱ ہجری
18

™واصی
±iسیف الملوک و بدیع الجمال ( مثنوی) ، چندا اور لورک( مثنوی) ،کلیات، iiطوطی نامہ ( مثنوی)
i i ۔۱۰۳۵ ہجری
ii۱۰۴۹ ہجری
19
فائزؔ
قصہ رضوان شاہ
۱۰۹۴ ہجری
20
فتاحیؔ
+مفید القیلن،شعب ایمان

21
فیروز
توصیف نامہ

22
قطبی
u شیخ یوسف کی تصنیف ’’ تحفۃ النصائح ‘‘ کا ترجمہ ’’ تحفہ ‘‘
۱۰۴۵ ہجری
23
کبیر
#قصّہ شمیم انصاری
۱۰۹۰ ہجری
24
لطیف
ظفر نامہ

25
محمود ؔ


26
محب
معجزہ فاطمہ ؓ
۱۰۸۸ ہجری
27
ملا خیالی


28
+میرا ں جی نما خدانما
نظم

29
نوری


30

¢جہی ؔ
#قطب مشتری (مثنوی)
۱۰۱۸ ہجری
کئی صدیوں تک قطب شاہی دور میں شاعری اور نثر میں تخلیق ادب کا سلسلہ جار ی رہا ۔ دکنی نثر میں سلطان ،عابد شاہ ،میرا ں جی خدا نما ،مولانا عبداﷲ اور میرا ں یعقو ب کی تخلیقات سے دکنی زبان کے ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ۔ نثر میں ’’ تاج الحقائق ‘‘ اور اُردو نثر کی پہلی داستان ’’ سب رس‘‘ مُلّا وجہی کی تصانیف ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے روح عصر کی اساس پر اپنی شاعری کا عظیم الشان قصر تعمیر کرنے کاقصدکیا جس میں اجتماعیت کے عنصر نے اپنے رنگ بکھیرے ۔دکنی زبان کے قدیم تخلیق کاروں کے اسلوب کی اِسی انفرادیت نے جریدہ ٔ عالم پر اُن کی بقا ثبت کر دی ۔ شعری تخلیقات میں ہئیت کے جمالیاتی عناصرکے اعجاز سے دکنی شعرا کے کلام میں خارجی اثرات اور داخلی کیفیات کے زیر ِاثر مرتب ہونے والے رنگ ،خوشبو اور حسن و جمال کے سب رنگ و آ ہنگ مضامیں کی ندرت اور تنوع کی بنا پر اوج کمال پر دکھائی دیتے ہیں ۔قطب شاہی دور کے تخلیق کاروں کے اسلوب کا مطالعہ کرتے ہوئے عرفیؔ کایہ شعر یاد آ گیا:
آ غشتہ ایم ہر سر ِ خارے بہ خونِ دِل
قانونِ باغبانی ٔ صحرا نوشتہ ایم ( عرفی ؔ)
تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں پہلے دہلی اور اُس کے مضافات سے روشنی کا جو سفر شروع ہوا وہ مختلف ادوار کی فوجی مہمات کے نتیجے میں دکن اور اُس کے مضافات تک جا پہنچا۔دولت آباد میں اس کے معجز نما اثر سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں۔بہمنی دور (1347-1527)میں صدیوں تک لوگ اس سر چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے رہے ۔اس کے بعد گلبرگہ اور بیدر میں اِس آفتاب علم و ادب کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ جار ی رہا۔ اس مضمون میں قطب شاہی دور میں دکنی ادیبوں کی تخلیقی فعالیت پر نظر ڈالی گئی ہے ۔ قطب شاہی دور میں دکن علم و ادب او ر تہذیب و ثقافت کا مرکز بن گیاتھا۔دکن کی علمی و ادبی ترقی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ملا وجہی ؔ نے کہا تھا:
دکھن سا نہیں ٹھار سنسا ر میں
پنچ فاضلاں کا ہے اس ٹھار میں
دکھن ہے نگینہ انگوٹھی ہے جگ
انگوٹھی کوں حُرمت نگینہ ہے لگ
دکھن ملک کوں دھن عجب ساج ہے
کہ سب ملک سر ہور دکھن تاج ہے
دکن ملک بھوتیج خاصا اَہے
تلنگانہ اس کا خلاصہ اَہے
ذیل میں قطب شاہی عہد کے شعرا کے اسلوب کا نمونہ پیش کیا جا رہاہے:
۱۔ ابن نشاطی : سلطان عبداﷲ شاہ کے دربار میں باوقار عہدے پر فائز تھا۔دکنی نثر اور شاعری میں اس نے نام پیدا کیا ۔ترجمہ نگاری میں ابن نشاطی کو مہارت حاصل تھی ،اس نے سترہ سو اشعار پر مشتمل مثنوی ’ پھول بن ‘ صرف تین ماہ میں فارسی قصہ ’ بساطیں ‘ سے ترجمہ کیا۔اس قادر الکلام شاعر نے صنائع بدائع کے استعما ل سے اپنے اسلوب کو زر نگار بنا دیاہے ۔
بساطیں جو حکایت فارسی ہے
محبّت دیکھے کی آرسی ہے

۲۔احمد ؔ : احمد قطب شاہی دور کا اس قدر بڑا شاعر تھاکہ ابن نشاطی نے بھی اسے استاد سخن تسلیم کیا ہے ۔اس کے حالات ِ زندگی معلوم نہیں ۔
تری آگ تھے جیو میرا جلے
تری آہ تھے موم ہو تن جلے

۳۔افضلؔ:اس صوفی شاعر کا پورا نام شاہ محمد افضل تھا ۔اس کی مثنوی ’’ محی الدین نامہ ‘‘اور سلطان عبداﷲ غازی کے قصیدہ میں مضمون آفرینی قابل توجہ ہے ۔
مہا دانی ، مہاگیانی ، مہاچاتر ،مہاجانی
بلند طالع ،بلند دانش،بلند ہمت ،بلنداختر

۴۔اولیاؔ: اس کا سلطان ابوالحسن تانا شاہ کے دربار سے قریبی تعلق تھا۔اس کی مثنوی ’’ قصہ ابو شحمہ ‘‘ کو اپنے عہد میں بہت پزیرائی ملی ۔
اتھا حسن میں جوں او آفتاب
کہ روشن ہوا اس تے یو ماہتاب

۵۔ بلاقیؔ: سیّد بلاقیؔ کا رجحا ن مذہب کی جانب تھا اس لیے شاہی دربار کی طرف کبھی توجہ نہ کی ۔ اُس کی تصنیف ’’ معراج نامہ ‘‘ میں تصوف کے مضامین بیان کیے گئے ہیں ۔معراج نامہ فارسی زبان سے دکنی میں ترجمہ کیا گیاہے ۔
کیا فارسی سوں دکھنی غزل
کہ ہر عام ہور خاص سمجھیں سگل

۶۔تانا شاہ: سلطان ابو الحسن قطب شاہ ( تانا شاہ ) گول کنڈہ کا آخری بادشاہ تھا بد امنی اور لڑائیوں کے باعث اس کی دور میں رعایا پریشان رہی ۔اس کی شاعری بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئی ۔اس کادیوان تو دستیاب نہیں مگر اس کا منتشر کلام اب یک جا کر دیا گیاہے ۔تانا شاہ کی شاعری قطب شاہی دور کے زوال کی مظہر ہے ۔وہ بڑا نظام ِخیال جسے دکنی شعرا نے اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کیا ،تانا شاہ کے اسلوب میں وہ خیال و خواب ہوگیا۔
اے سروِ گُل بدن تو ذرا ٹُک چمن میں آ
جیوں گُل شگفتہ ہو کر مری انجمن میں آ

۷۔ جنیدیؔ : عبداﷲ قطب شاہ کے عہد کے اس شاعر کا اصل نام احمدتھا۔اس کی مثنوی ’’ ماہ پیکر ‘‘ اپنے دور میں بہت پسند کی گئی ۔
اناراں کے جھاراں کلیاں بار تھے
کہ لالے میں یاقوت کے سار تھے

۸۔خداوند خدا نما : اس کا اصل نام سیّد میران تھا مگر اسے قلمی نام خداوند خدا نما سے شہر ت ملی۔سلطان عبداﷲ کی حکومت میں ملازمت کی اور شاہی کام کے سلسلے میں بیجا پور پہنچے ۔
ساحل سوں جو لگیا قسمت سوں آپیں ہو نہارا ہے
فہم عاجز ،عقل حیراں ،تردد کیا بچارا ہے

۹۔خواصؔ : اس کا پور انام خواص علی تھااور اِس درویش منش قناعت پسند صوفی شاعر کو قطب شاہی دربار تک اسے رسائی حاصل تھی ۔اس کی مثنوی ’’ قصہ حسینی ‘‘ میں واقعہ کر بلا کا بیان ہے ۔
توں سبحان ہے پاک پروردگار
سدا ایک ہے توں اے برقرار

۱۰۔ خیالیؔ : اپنے عہد کے مقبول شاعرملّاخیالی ؔکے حالات زندگی اور کلام دستیاب نہیں۔ابن نشاطی نے مُلّاخیال جیسے نابغۂ روزگار شاعر کے نہ ہونے کی ہونی پر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا:
اچھے تو دیکھتا مُلّا خیالی ؔ
یو میں بر بتا ہوں سو صاحب کمالی

۱۱۔سالکؔ : اسلوب کا تنوع ،جدت اور ناز ک خیالی سالکؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں ۔اس کی شاعری پڑھتے وقت قاری چشم تصورسے وہ ماحول اور معاشرہ دیکھ لیتاہے جس میں تخلیق کار نے زندگی بسر کی ۔
برہ چلیاں سوں تل تل ہٹ ٹٹ کتا کریں گی
اب ہٹ بہری، ہٹیلی کی توں پڑی ہے ہٹ نین

۱۲۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ معانی ؔ : سال۱۰۱۵ ہجری میں اس کا مکمل کلیات اس کے بھتیجے اور داماد محمدقطب شاہ نے ترتیب دیا۔اس فطری شاعر نے نظم، قصیدہ ،مثنوی ،رباعی ،غزل اور ترجیع بند میں اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ۔
اَب مست اچھے دایم ہمیں مست اچھنے کاہنگام ہے
ساقی صراحی نقل ہور پیالے سو ہمنا کام ہے

۱۳۔سلطانؔ: اپنے عہد کے اس قناعت پسند صوفی بزر گ کے حالات زندگی بھی نایا ب ہیں۔اس کے کلیات دستیاب ہیں۔
تُج حسن کاجد ہان تے تیں میں مہر ہوا
میرارے دِل سو تُج کوں یا تُج گہر ہوا

۱۴۔سیوکؔ: اپنے عہد کی مقبول مثنوی ’’ جنگ نامہ ‘‘ کے خالق شاعر سیوک ؔکے حالات زندگی آج کسی کو معلوم نہیں۔
یو سیوک تو ہجری کرے سال تھی
ہزار ایک نو دود کے اپرال تھی

۱۵۔شیخ عبداﷲ : تصوف کے مسائل پر بہت عمدہ شاعری کی ۔نظم اور نثر میں اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر مقبول ہوئے ۔نثر میں شیخ عبداﷲ کی کتاب ’’ احکام الصلوٰۃ ‘‘کے نام سے موجود ہے ۔
یو جنا ہوں حق شناساں تم پر سوال ناز کہ
آیا ہے روح کدھر سوں جاتاسو جال ناز کہ
۱۶۔شاہ راجو حسینی : یہ شاعر بیجاپور میں پیدا ہوا اس کے والد صفی اﷲ قناعت پسندصوفی تھے جن کا سلسلہ ٔ نسب حضرت سیّد محمد گیسو درا زسے ملتاہے۔سلطان عبداﷲ قطب شاہ کے عہد ِ حکومت میں طبعی ؔ نے حیدر آباد میں مستقل طور پر قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔معاشرتی زندگی کی عکاس اس کی نظمیں گہری معنویت کی حامل ہیں مثلاً ’’ چکی نامہ ‘‘میں اس نے اخلاقیات کا درس دیاہے :
بسم اﷲ بسم اﷲ ہر دم میں بولوں گی
ثنا ہور صفت کے موتیاں کو رولوں گی
چکّی کا پھرانا ارشاد کے قوت سوں
ہو ہو آوازاوس میں آتا ہے قدرت سوں
سُن ری سہاگن سُن ری سُن
یک یک بول چِت دَھر سُن
غیر از خدا سجدہ کس نا کر
کافر ہو کر دوزخ نہ پر

۱۷۔طبعیؔ: سلطان عبداﷲ شاہ کے زمانے میں اسے شہرت ملی مگر بعد میں یہ گوشۂ گم نامی میں چلا گیا۔طبعیؔ نے سلطان ابوالحسن تانا شاہ کے درباری شاعر کی حیثیت سے پر سکون زندگی گزاری۔اس کی مثنوی ’’ قصہ بہرام و گل اندام ‘‘ایرانی بادشاہ بہرام گور کی داستان پر مبنی ہے ۔ طبعیؔ نے خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ سرابوں کے عذابوں سے بچیں اور سدا صراط مستقیم پر گامزن رہیں۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر ناصحانہ اور غیر جذباتی اندا زمیں خواتین کے لیے طبعی ؔ نے جو نظمیں لکھیں وہ بہت پسند کی گئیں:
الٰہی یو طبعی ؔ ترا داس ہے
دے ایمان اُس کوتیرا آس ہے

۱۸۔ظل اﷲ : شاعری میں اس نے اپنے چچا اور سسر سلطان محمد قلی قطب شاہ معانی ؔ سے اکتساب فیض کیا۔ اس نے مثنوی ،غزل اورقصیدہ میں طبع آزمائی کی مگر اس کا کلام دستیاب نہیں ۔بعض محققین نے اِس کی جسارت سارقانہ کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے اپنے سسرکاکلام اپنے نا م سے پیش کیا۔اپنے سسر کی متاع علم پر ہاتھ صاف کرنے والے کا کلا م اب اس سارق کے نام سے تسلیم نہیں کیاجاتا۔اس نے اپنے چچا اور سسر سلطان محمد قلی قطب شاہ معانیؔ کے اسلوب پر جو کچھ لکھا ہے وہ قابل توجہ ہے :
سو کچھ شاعری بیچ شہ دھر کمال
بچن کہہ کے موتیاں نمن صدف ڈھال

۱۹۔عاجزؔ : سلطان محمد قلی قطب شاہ کے دور میں عاجز ؔنے حیدر آباد میں سکونت رکھ لی ۔ اس شاعرکے حالات ِ زندگی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔شاہی دربار کے بجائے اس شاعر نے تصوف کے خیالات میں زندگی بسر کی ۔
کیا ابتد ا میں بنامِ خدا
ہر اِک اِسم اوپر کروں جیو فدا

۲۰۔عبداﷲ قطب شاہ: اس رنگین مزاج شاعر کو فارسی ادب ،دکنی ادب اورموسیقی سے گہری دلچسپی تھی ۔عیش و عشرت کے ماحول میں اس نے شاعری اور رومان سے دِل بہلایا۔اس نے ادیبوں ،شاعروں اور علما کی قدر کی اور مشہور لغت ’’ بر ہان قاطع‘‘ لکھوائی ۔ہر صنف شعر میں اس نے اپنے فن کی دھاک بٹھا دی ۔
تُو پیاری عشق بھی تیرا ہے پیارا
لگیا ہے بھوت تُج سوں دِ ل ہمارا

۲۱۔غلام علی: سلطان ابوالحسن تانا شاہ کے عہد میں غلام علی نے اپنی شاعری سے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔اس کی مثنوی ’’ پدماوت ‘‘ ( ۱۰۹۱ ہجری )کو قدرکی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اپنی شاعری میں تخلص کے بجائے اس نے ہمیشہ اپنا نام ہی استعمال کیا۔
غلا م علی جس سوں دِل لائے
بچھڑنے سوں بہتر جو جیو جائے

۲۲۔غواصیؔ : سلطان محمد قطب شاہ کے عہد حکومت میں غواصی کی شاعری بہت مقبول ہوئی ۔شاہی دربارمیں اُس کی قربت کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا کہ سلطان عبداﷲ نے اِسے شاہی سفیر بنا کر بیجا پور بھیجا۔ اس کہنہ مشق شاعر اور قادر الکلام شاعر نے ترجمہ نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اُس کی مثنوی ’’ چندا اور لورک ‘‘ فارسی ادب سے ترجمہ کی گئی ہے ۔
اے جو تُج تے حیات میری ہے
تُج ادھر پر برات میری ہے

۲۳۔فائزؔ: یہ سلطان ابوالحسن تانا شاہ کے عہد کا شاعر تھا۔اس کی مثنوی ’’ رضوان شاہ و روح افزا ‘‘ کو قارئین ادب نے بہت پسندکیا۔
اوّل نام ِ حق کا لے بولوں سخن
بندوں اس کی توحید ،کھولوں سخن

۲۴۔فتاحیؔ : مشہور مثنویوں ’’ مفید الیقین ‘‘ اور ’’ شعب ایمان‘‘ کے خالق محمد رفعتی فتاحی ؔ کے سوانح کے بارے میں تاریخ ِ ادب خاموش ہے ۔
کہوں حمد و ثنا اُس پاک ربّ کوں
جینے پیدا کیا خلقت عدم سوں
شرف دیا خلق میں سب بشر کوں
شفع کر مصطفیﷺ روزِ حشر کوں

۲۵۔فیروزؔ: قطب الدین فیروز ؔ کاشمار اپنے عہد کے استاد شعرا میں ہوتاتھا۔اس کا بچپن بیدر میں گزرا لیکن بعد میں وہ گول کنڈہ منتقل ہو گیا۔ابراہیم قطب شاہ نے اس کی بہت قدر افزائی کی۔
تو سلطان سلاطین رعیت محی
تو حاکم کہ جگ پر حکومت تجی

۲۶۔قطبیؔ: اس نے شیخ یوسف کی کتاب’’ تحفتہ النصائح ‘‘ کا دکن میں ترجمہ کیا جو ’’ جو ’’ تحفہ ‘‘ کے نام سے موجود ہے ۔قطبی کے حالات زندگی کسی کو معلوم نہیں ۔
بولوں صفت میں بے گِنت
اُس خالق ِ جِنّ و بشر

۲۷۔کبیرؔ: اس شاعر کے حالات ِزندگی معلوم نہیں ۔قطب شاہی دور میں اس کی شاعری کے چرچے تھے مگر گردشِ ایام نے سب حقائق کو خواب و خیال میں بدل دیا۔اس کی شاعری میں صوفیانہ خیالات موجود ہیں۔اس نے متانت اور دیانت سے کام لیتے ہوئے اصلاح پر توجہ دی اور انسانیت کے احترام پر زور دیا۔
صفت میں خدا کا کہوں اِبتدا
نہ اوس باج بھی کوئی دسرا خدا

۲۸۔کیشوؔ: دکن کے فلسفی رام داس شوامی کے شاگرد کیشو سوامی کیشوؔکو سلطان ابو الحسن تانا شاہ کے عہد میں دربار میں ایک باوار منصب پر فائز کیا گیا۔اس شاعر کو بر صغیر کی جن زبانوں پر خلاقانہ دستر س حاصل تھی اُن میں تلنگی،دکنی،مراہٹی ،کنٹری اور ہندی شامل ہیں۔ اس کی تصانیف ’’ اکاشی چرتر‘‘ اور ’’ الہنگ ‘‘ نے دکنی ادب میں مقبولیت حاصل کی ۔
کام کردو مدتسر چھوڑ کے یوسنسار ساگر ترناہے
کہیں پاؤں نکل جائے نہ یاں سنبھل کے چلناہے

۲۹۔لطیفؔ: اس پُر گونے عبداﷲ قطب شاہ کے زمانے میں بہت مقبولیت حاصل کی ۔اس نے مثنوی ’’ ظفر نامہ ‘‘ جو پانچ ہزار پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے صرف ایک برس میں مکمل کی ۔
کروں ابتدا بسم اﷲ تے
مدد منگ تے بسم اﷲ تے

۳۰۔محبؔ : اس کا تعلق ایک صوفی خاندان سے تھااسی لیے اس کے کلام میں روحانیت کا غلبہ ہے ۔ اس نے ابوالحسن تانا شاہ کی تعریف میں ایک مثنوی لکھی ۔اس نے فارسی زبان کی ایک مثنوی کا دکنی میں ترجمہ کیا ۔اِس عالم ِ آب و گِل میں زندگی کی بے ثباتی اور کا رِ جہاں کے ہیچ ہونے کے بارے میں محب ؔنے روحانیت اور دِلِ بیناکی طلب پر توجہ دینے پر اصرارکیا۔
الٰہی تُو صاحب کا دھنی
تُجے ساجتی کبریا دمنی

۳۱۔محمودؔ :سیّد محمود کو استاد سخن مانا جاتاتھا،اس کی تصانیف تاریخ کے طوماروں میں دب چکی ہیں اور نایاب ہیں۔
اہے صد حیف جو نیں سیّد محمود
کِتے پانی کوں پانی دُودھ کُوں دُودھ

۳۲۔میاں نوری : میاں شجاع الدین نوری ؔ کے حالات زندگی معلوم نہیں ۔یہ شاعر ابوالحسن تانا شاہ کے وزیر سیّد مظفر کے بچوں کی تدریس پر مامور تھا۔ بروٹس قماش کینہ پرور ،حاسد،محسن کشاور پیمان شکن سفہا اس کے در پئے پندا ر ہو گئے جس کے نتیجے میں اُسے گو ل کنڈہ سے نکال دیاگیا۔
مت ہو سر گرداں سر بچن سو بسو
بہراز سر سر گشتہ مت پھر کو بکو

۳۳۔وجہی : شاعری اور نثر میں اسداﷲ وجہی ؔ کا بلند مقام تھا۔اس نے ابراہیم قطب شاہ ،سلطان محمد قلی قطب شاہ ،محمد قطب شاہ اور سلطان عبداﷲ کے زمانے میں دکنی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ملا وجہی ؔنے شاعری اور نثر میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اس کی تصانیف ’’ سب رس ‘‘ ،’’ قطب مشتری ‘‘ اور ’’ تاج الحقائق ‘‘کو دکنی ادب میں اہم مقام حاصل ہے ۔ایک قادر الکلام اور مشاق شاعر کی حیثیت سے ملا وجہی کا مقام بہت بلند تھا۔ اُس کی زود گوئی کا اندازہ اس بات سے لگیا جا سکتاہے کہ اُس نے مثنوی ’’ قطب مشتری ‘‘ صر ف بارہ دِن میں مکمل کی ۔سراپا نگاری میں وجہی ؔ کو کمال حاصل تھا:
پُھلاں ہور خوباں یوں یک ذات ہے
کہ یک رنگ یک رُوپ یک دھات ہے

قطب شاہی دور میں دکن میں ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں جو قابل قدر کام ہوا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔گو ل کنڈے کے حاکم سلطان محمد قلی قطب شاہ نے اپنے تاج شاہی کو سر زمین ِ دکن کی ایسی عطا قرار دیا جس پر وہ سدا ناز کرتاتھا:
دِسیں ناریل کے پھل یوں زمّرو مر تباناں جوں
ہو ر اُس کے تاج کوں کہتا ہے پیالہ کر دکھن سارا

سلطان قلی قطب شاہ نے سال 1512ء میں گو ل کنڈے کو دار السلطنت کادرجہ دے کر بہمنی حکومت قائم کی۔ قطب شاہی دور میں دکن کو پورے بر صغیر میں اہم علمی و ادبی مرکزکی حیثیت حاصل ہو گئی۔یہی وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں سے کئی معرکہ آرا تصانیف منصۂ شہود پر آئیں ۔ خواجہ بندہ نواز گیسو درازکی دکنی زبان میں نثرکی اوّلین تصنیف’’ معراج العاشقین ‘‘اسی عہد کی یادگارہے ۔ اُن کی تصنیف ’’ ہدایت نامہ ‘‘ بھی اصلاحی مقاصد کے تحت لکھی گئی ۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے ایک عقیدت مند اور شاگردنے اپنے اُستاد کے وعظ ونصیحت کو اپنے تاثرات کے ساتھ انھیں ’’ ہفت اسرار ‘‘ کے نام سے جمع کیا۔ اسی دور میں عبدالہ حسینی کی تراجم پر مبنی کتاب ’’ نشاط العشق ‘‘ سامنے آئی۔ ’’ شیخ عین الدین گنج العلم( 1306-1393) جو محمد تغلق کے زمانے میں دہلی سے دولت آباد منتقل ہو گئے انھوں نے اپنی تصانیف سے دکنی ادب کو ثروت مند بنایا ۔قطب شاہی حکومت کی سر پرستی میں جن ادیبوں نے تصنیف و ترجمہ کے ذریعے دکنی زبان و ادب کو فروغ دیااُن میں شاہ میراں جی شمس العشاق،عین الدین گنج العلم،شاہ برہان الدین جانم اور ملاوجہی کے نام شامل ہیں۔قطب شاہی دور میں دکن کی تہذیب و ثقافت اور ادب و فنو ن لطیفہ کو اوج کمال تک پہنچانے میں بادشاہوں نے گہری دلچسپی لی ۔دکن میں فن تعمیر کو اس قدر ترقی دی گئی کہ یہ خوابوں کی سر زمین بن گئی ۔اس زمانے کی یادگاروں میں مساجد ، باغات ،شفا خانے ،تاریخی عمارات ،قلعے ،سرائیں اور مقبرے شامل ہیں ۔سال 1578ء میں تعمیر ہونے والا گول کنڈہ قلعہ فن تعمیر کا شاہ کار ہے ۔ اس کے بعد سال 1597ء میں حیدر آباد میں نو لاکھ رروپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی مسجدجس میں آٹھ سو نمازیوں کی گنجائش ہے بادشاہوں کے ذوق سلیم کی مظہر ہے ۔ اس کے علاوہ ساجد ہ خانم مسجد، حیات بخشی بیگم مسجد ، ٹولی مسجد ، میاں مشک مسجد،مکہ مسجد، عطاپور مسجد ،مسجد رحیم خان، کلثوم بیگم مسجد ،خیرات آباد مسجد اور دار الشفامسجد بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ۔دکن کابڑا شفا خانہ ’’ دار الشفا ‘‘جسے محمد قلی قطب شاہ نے 1595ء میں تعمیر کرایا خدمت خلق کی عمدہ مثال ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ بات لائق تحسین ہے کہ قطب شاہی دور میں دکنی زبان کے ادیبوں نے اپنے عہد کے حالات کے بارے میں اپنے مشاہدات ،تجربات ،جذبات و احساسات اور تاثرات کو اپنے فکر و فن کی اسا س بنا کر اپنی تخلیقات کو ابد آ شنا بنا دیا۔تخلیق فن کے ساتھ دکنی ادیبوں کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت نے اُن کے اسلوب کو روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُترجانے والی اثر آفرینی سے متمتع کیا۔اس کے اعجاز سے زندگی کی تاب و تواں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.