ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی، ماہیے کے ماہر

ڈاکٹر قمر رئیس،بہرائچی کا تعارف ان کے خود کا رقم کیا ہوا پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں:
’’ میرا نام قمر رئیس ہے، میرا شعری نام بھی ہے، میری مرز بوم شہر بہرائچ ہے، میں اسی شہر کے محلہ شیخیا پورامیں یکم فروری ۱۹۵۶؁ءمیں عالم وجود میں آیا، میرے والد محترم کا نام رئیس احمد تھا جو اپنی جان جان افریں کو جنوری ۱۹۵۶؁ میں سپرد کر چکے ہیں جو شہر کء ایک معزز و مستندو معتبر سینئر وکیل پنڈت ترلوکی ناتھ کول کے سینئر محرر تھے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کی رحلت کے نو روز بعد ہی اس جہان آب گل میں آیا۔ میرے والد کے انتقال کے بعدمیرے ددھیال والوں کا رویہ میری ماں کی طرف سے اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہمیں اپنے گھر کے لیے ایک بار سمجھتے تھے، میری والدہ نے حالات سے تنگ آکر سسرال کو خیر باد کہتے ہوئے مجھے لے کر اپنے مائکے چلی آئیں۔ اب میری پرورش اور کفالت کی ذمہ داریاں میرے نانا اور میرے ماموؤں پر آپڑی۔ ان لوگوں نے میری اور میری والدہ کی نگہداشت کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا اور حتی المقدور میری اور والدہ کی دیکھ بھال کی۔ان لوگوں نے شروع میں میری مروجہ تعلیم سے بہرہ ور کیا،اس کے بعد مجھے ایم․اے․تک تعلیم دلوائی، بعد میں ہومیو پیتھ ڈاکٹر بھی بنوا دیا ، اب یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔

مجھے اوائل عمری ہی سے شاعری کا شوق تھا۔جب میں بہرائچ ہی کے گونمنٹ انٹر کالج کے درجہ آٹھ کا متعلم تھا، اس وقت میں نے ایک غزل کہی اور اپنے محترم کرم فرما استاد سید صغیر احمد صاحب کوجو اس وقت کالج میں اردو ٹیچر تھے وہ غزل دکھلائی۔استاد محترم نے غزل بغور پڑھی اور جہاں ضرورت محسوس کی اصلاح کر دی اور میری خوب ہمت افزائی کی اور اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی تلقین کی۔

ان کے بخشے ہوئے جذبے کی تحت میرا شعری سفر رواں دواں ہے۔ سن ۱۹۷۵؁میں اپناکلام ہندوستان میں چھپنے والے اخبارات، رسائل و جریدوں میں بھیجنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ یہی نہیں میری تخلیقات بیرون ملک سے شائع ہونے والے رسالوں میں بھی برابر شائع ہو رہی ہیں۔

محلہ ناظر پورہ میں دواخانہ قائم کیے ہوئے ابھی چندروز ہوئے تھے کہ ڈاکٹر عبرتؔبہرائچی صاحب کے یہاں ایک طرحی نشست ہوئی جس میں میں نے بھی اپنی طرحی غزل پڑھی۔نشست میں شہر کے معروف و مشہور استاذحضرت وصفیؔبہرائچی صاحب کے علاوہ جناب منظرؔ بہرائچی،جناب سازؔکانپوری،اطہرؔ رحمانی صاحبان سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ایک دن منظر ؔ بہرائچی صاحب میرے پاس آئے، وقت فرصت موصوف نے میری کئی غزلیں سنیں اور مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنا تمام تر کلام حضرت اظہارؔ وارثی یا حضرت عبرتؔ بہرائچی کو دکھا لیا کروں اور میں نے ان کی بات پر عمل کیا، غزلوں کی بحریں،شعر کوبحر میں کرنے کا طریقہ وغیرہ مجھے منظرؔ بہرائچی صاحب نے ہی بتایا اور انہیں کے کہنے پر حضرت اظہارؔ وارثی اور حضرت عبرت ؔ بہرائچی دونوں ہی حضرات کو اپنا استاذ تسلیم کر لیا۔ اب تک میرے چار شعری مجموعے گہر،چراغ فکر، شہپر اور رس(ہندی رسم الخط)منظرے عام پر آکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر قمر رئیس صاحب کی تصنیف ’آبشارِ جنوں‘ 2013؁ میں شائع ہوئی جس میں ان کی دیگر تصانیف کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
۱․ گہر، ۲․ چراغ فکر، ۳․ شیہر، ۴․ رس، ۵․آبشار رحمت، ۶․ کاروان گل، ۷․ حرف حرف گہر، ۸․ آبشار جنوں، ۹․شام کے قریب۔

ڈاکٹر قمر رئیس سے میں کبھی نہیں ملاحالانکہ یہ میری بد قسمتی تھی۔جب میں ’دبستانِ بہرائچ‘ پر کا م کر رہا تھا تب ان کی تفصیلات ڈاک سے موصول ہوئی تھیں۔تبھی سے میری ان کی فون سے ہی بات چیت ہوتی تھی۔ڈاکٹر قمر رئیس صاحب بہرائچ میں فروغ اردو کے سلسلہ میں کوئی پروگرام کر رہے تھے جس میں انہوں نے ڈاکٹر شمیم صدیقی کو اور مجھے مدعو کیا تھالیکن کسی وجہ سے ہم لوگ نہیں جا سکے تھے۔کچھ ہی دنوں کے بعدیعنی ۱۹؍فروری ۲۰۱۶؁ء کو ان کا انتقال ہو گیا اور ہم ان سے کبھی مل نہ سکے جس کا افسوس ہے۔ اﷲ ان کی مغفرت فرمائے،آمین۔

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی کابہرائچ کے اگلی صفحہ کے شاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے بہرائچ کے ادبی افق پر ایک منفرد اور مستحکم شناخت قائم کر چکے تھے۔انہیں صنف غزل پر ابور حاصل تھا۔اسی لیے وہ غزل اور ربائیوں تک ہی محدود نہیں رہے اور انھوں نے بہرائچ کے ادبی حلقہ میں ہلچل مچا دی جب انہیں نے’ابشار جنوں‘ (2013)شائع کی جسمیں ۳۰۶ ماہیے نظم کر دیے۔ماہیا نگاری نے ڈاکٹرقمر رئیس کاادبی مقام اور بھی بلند کر دیا اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ بلا شبحہ وہ خود تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔اشعار کی فنی باریکیوں پر ان کی کڑی نظر رہتی تھی اسی لیے ان کے اشعار خوب سے خوب تر ہوتے تھے۔وقت کے لحاظ سے انہوں نے اشعار بھی کہے:
تبدیلیاں تمام ہوئیں اس لیے قمرؔ
اشعار میرے وقت کے سانچے میں ڈھل گئے
œ
لیکن ان کا قابل تعریف کام ہے ’ماہیا نگاری‘ جو ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے۔

’’’ماہیا‘،سر زمین پنجاب کی معروف پنجابی صنف ہے اور سیکڑوں سال سے رائج ہے۔یہ صنف سینہ در سینہ چلتی ہے اور آج بھی پنجاب کے چھوٹے بڑے دیہاتوں میں خاص و عام لوگوں میں بہت پسند کی جاتی ہے۔پنجاب کے ہر جوان کو یا یوں کہا جائے ہر کسی کو دو چار ماہئے ضرور یاد ہوں گے جن کو وہ گنگناتے یا ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں۔

پنجابی کی یہ ہر دل عزیز صنف اردو میں بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ اس صنف کے شہرت عام پانے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ صنف پنجاب کے کلچر سے ہم آہنگ ہے اور اس میں پنجاب کے دیہات کی خوبصورت زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے یہ صنف فقط تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ان تین مصرعوں میں ایک جہان معنی آباد ہوتا ہے، اگر چہ ہائیکو میں بھی صرف تین مصرعے ہوتے ہیں اور کچھ اردو شاعروں نے ہائیکو کو اردو میں بھی رواج دینے کی کوشش کی ہے، مگر ہائیکو جاپانی صنف نظم ہے اور اپنی بناوٹ کے اعتبار سے دلوں پر تاثر نہیں چھوڑتی جو ماہیا چھوڑتا ہے۔

ماہیا کا پہلا اور تیسرامصرع جو ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتا ہے ۔ تینوں مصروں کے ارکان کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ماہیا ہمیشہ ایک ہی بحر میں کہا جاتا ہے۔

اردو میں پہلے پہلے اختر شیرانی اور چراغ حسن حسرتؔ نے ماہیے کہے، پھر کچھ دیگر اردو شاعروں نے اس طرف توجہ دی جن میں علی محمد فرشی، احمد حسین مجاحد، ضمیر اظہر،امین خیال،حیدر قریشی،فرحت نواز،ذوالفقار احسن، سجاد مرزا، سعید شباب، پروین کمار اشک،افتخار شفیع اور نثار ترابی کے ماہیوں کو بہت پسند کیا گیا۔ ‘‘ (اصناف نظم و نثر از ڈاکٹر محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد خاں ورک)

مذکورہ بالا شعرا حضرات کے علاوہ بہرائچ شہر کے کامیاب معالج کے ساتھ ہی ساتھ کامیاب شاعر ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی نے مذکورہ صنف کو دیکھا، سیکھا اوراپنایااور ’آبشار جنوں‘ کی تخلیق کی جس میں 306ماہیے رقم کر دیے ان ماہیوں میں،نفاست،صداقت،حرارت اور تازگی ہے۔ڈاکٹر قمر رئیس نے مختلف موضوعات کو ماہیوں پر تبع آزمائی کی ہے۔انہوں نے اپنے ماہیوں میں معاشرے میں پھیلی برائیوں کی طرف نشاندہی کی ہے،امن کے ساتھ رہنے کی تلقین کی ہے،انسان کو انسان کے ساتھ محبت سے پیش آنے کی وکالت ،تنہائی میں جب کسی کی یادآئے تو دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کا بیان کیا ہے۔کچھ ماہیے ملاحظہ فرمائیں:
حمدیہ ماہیے
مالک تو داتا تو
سارے آلم کا
ہے پالن ہارا تو
%کہنے کو تو ہے تنہا
فضل سے تیرے ہی
خوشحال ہے یہ دنیا
%پڑھتا ہوں ترا کلمہ
خوف نہیں مجھ کو
تو میرا کرم فرما

نعتیہ ماہیے
ذیشان ولی ہیں وہ
نام محمدؐ ہے
اﷲ کے نبی ہیں وہ
'انسان میں جو صمت ہے
جان لو اے لوگو!
آقاؐ کی بدولت ہے
%اﷲ کو منا لیں گے
شافع محشر ہیں
وہ سب کو بچا لیں گے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

| ایسا نہیں ہے کہ داغ ؔ دہلوی کے زمانے میں ہی اردو کی دھوم تھی،اردو کی دھوم آج بھی ہے۔ڈاکٹر قمر رئیس کے زمانے میں بھی اردو کی دھوم ہے اسی لیے انھوں نے کئی ماہیے اردو سے متعلق رقم کیے ہیں ؂
اردو ماہیے
معیار بڑھائیں گے
اردو کے خاطر ہم
تحریک چلائیں گے
'ہر لفظ میں خوشبو ہے
بول کر تم دیکھو
اردو میں جادو ہے
#اردو ہے بہت آسان
اتنی شگفتہ ہے
ہر کوئی کرے سمان

معاشرے میں بہت سی برائیاں رائج ہو گئی ہیں،سگریٹ نوشی ہے ،گٹکھا خوری وغیرہ ان سب سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی قمر رئیس صاحب لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؂

مشکل میں ہے جینا
گٹکھا سستا ہے
آٹا چاول مہنگا
%لگتا تو ہے اچھا یہ
چھوڑدو تم اس کو
اک زہر ہے میٹھا یہ
%ہر سمت یہ چھائی ہے
دور رہو اس سے
ٹی․بی․کی دوائی ہے

ڈاکٹر یوسف صابر اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں’’اکیسویں صدی کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے ابراہیم اشکؔ نے ماہیا غزل کا بھی اردو ادب کی دنیا میں ایک تجربہ کیا تھا جسے بقول ابراہیم اشک اب تک صرف قمر سنبھلی نے اپنایا۔ماہیا غزل کے مطلع کے دونوں مصرعے دو ماہیے ہوتے ہیں بعد کے اشعار میں ایک مصرعہ ماہیے کے وزن پر اور دوسرا مصرعہ ماہیا ہوتا ہے۔ماہیا نگاری کا فن بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس فن میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ ماہیے تخلیق کرنے کے لیے صرف دو وزن ہی صحیح تسلیم کیے جاتے ہیں۔
پہلا وزن

دوسرا وزن
مفعول مفا عیلن
ٖؑؒ فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن

فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
ان اوزان کے علاوہ لاعلمی کے باعث شعراء نے دیگر اوزان میں بھی ماہیے تخلیق کیے مگر ادب میں نا قابل قبول رہے۔ماہیے ثلاثی اور ہائیکو یہ تینوں شعری اصناف تین مصرعوں والے ہیں۔ ماہیے کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ تین غیر مقفی سطروں والی جاپانی شاعری ہائیکو کہلاتی ہے۔ ہائیکو کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعہ سے بڑا ہوتا ہے اور ثلاثی کے تینوں مصرعہ برابر وزن کے ہوتے ہیں۔‘‘
ہائیکو شاعری کا نمونہ:

Butterfliles are cool
In the big, huge, green forest
They fly up so high!

Sharing with much fear
Darkness covering blue sky
Running to the light

ثلاثی شاعری کا نمونہ۔اس میں شرط یہ رہتی ہے کہ ہر ثلاثی کا عنوان بھی ہونا چاہئے:

شاعر


نتباہ

ارتقا
Eہر موج بحر میں کئی طوفاں ہیں مشتعل
پھر بھی رواں ہوں ساحل بے نام کی طرف
لفظوں کی کشتیوں میں سجائے متاعِ دِل

Mکہہ دو یہ ہوا سے کہ وہ یہ بات نہ بھولے
جم جائیں تو بن جاتے ہیں اک کوہ گراں بھی
ویرانوں سے اُڑتے ہوئے خاموش بگولے

یہ اوج، یہ فراز ہے آوارہ بادلوں!
کونپل نے سر اُٹھا کے بڑے فخر سے کہا
پاؤں زمیں میں گاڑ کے سوئے فلک چلو

’’ڈاکٹر قمرؔرئیس کے ماہیوں میں نفاست، صداقت، حرارت،متانت،مقصدیت،سنجیدگی،سوز،زندگی اور تازگی ہے۔ مختلف موضوعات ، خوبصورت لفظوں میں ڈھال کر ڈاکٹر قمر رئیس نے اپنے ماہیوں کو ست رنگی بنا دیا۔‘‘

آج کا مسلماں خواب خرگوش میں خرّاٹے لے رہا ہے،وہ اپنی ذمہ داریاں ہی بھول بیٹھا ہے۔مسلمانوں کا جو اکثریتی طبقہ ہے وہ حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہا ہے، وہ محنت مزدوری بھی ذمہ داری کے ساتھ نہیں کر رہا ہے،یہ طبقہ بھی جوا اور نشے کی لت میں پڑاہوا ہے،بچوں کی تعلیم کے لیے پیسے نہیں ہیں،دینی فرائض بھی ادا کرنے میں کاثر ہیں، لیکن اپنے سار ے شوق پورے کرتا ہے۔انہیں سب مسائل کو ڈاکٹر قمر رئیس نے اپنے ماہیوں میں رقم کیا ہے اور سوتے مسلمانوں کو جگانے کی جاگتی کوشش کی ہے۔
اُٹھ جاؤ مسلمانو
چھوڑ دو اب غفلت
خود کو ذرا پہچانو
)ماتھے پہ جو گھٹّا ہے
صرف نمازی کے
پیہم یہ چمکتا ہے
%انسان بھی رہتے ہیں
شکل میں انساں کی
شیطان بھی رہتے ہیں

ڈاکٹر قمر رئیس نے معاشرے میں پھیلی برائیوں کولوگوں کے سامنے رکھااور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔کوئی بھی صاحب علم نادانوں کو صرف نصیحت کر سکتا ہے،اور اگر زیادہ پیچھے پڑا توخود فضیحت میں پڑ جائیگا۔

 

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 66176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.